• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کے متعلق چند روایات کا صحیح مفہوم ۔

شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے یہاں حاکم بن کے آئے ہم نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنی ایک بیٹی اور ایک بہن وارث چھوڑیں
حضرت معاذ نے آدھا بیٹی کیلئے اور آدھا بہن کے لئے حکم فرمایا ۔
اس کو ابوداود نے روایت کیا ہے اور اللہ کے رسول زندہ تھے

اہل بدعات مقلدین اس حدیث سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ ساحل نے حضرت معاذ سے کوئی دلیل نہیں پوچھی لہذا اللہ کے رسول کی موجودگی میں حضرت معاذ کی تقلیدہوئی ۔


°امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے ایک شخص کا مقدمہ میں دریافت کیا گیا کے ایک آدمی نے گلہ کسی کو اس شرط پر دیا تھا کہ وہ اس کو دوسرے شہر میں ادا کر رہے گا حضرت عمر نے اس کو ناپسند فرمایا _

مقلدین اس اثر سے دلیل پکڑتے ہیں کہ اس ضمن میں قرآن اور حدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہذا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی تقلید کی گئی ہے یہاں پر ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان سے کوئی یہ پوچھے کہ معاذ رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کیا یہ عالم و مفتی نہیں مانتے، اور اگر عالم و مفتی مانتے ہیں، تو عالم ومفتی سے سوال اور فتوی لینا کب سے تقلید ہو گیا!
حالانکہ یہ بات فقہ حنفیہ کی کتب میں بھی مذکور ہے کہ مفتی سے فتوی لے کر اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
تقلید: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 جلد 02 - مسلم الثبوت مع فواتح الرحموت - محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري (المتوفى: 1119هـ) - دار الكتب العلمية


سرفراز خان دیوبندی، یوں فرماتے ہیں:
فصل التقليد العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإيجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين ا ه (مسلم الثبوت صفحه 289)
فصل: تقلید غیر کے قول پر بغیر حُجت کے عمل کرنے کا نام ہے جیسا کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے (عامی اور مجتہد) کے قول کو لینا پس آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلیس نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیوں ان پر ایسا کرنے کو کو نص نے واجب قرار دیتی ہے مگر عُرف اِسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں کہ اِسی پر اکثر اُصولی ہیں۔
اس عبارت سے واضح ہوا کہ اصطلاحی طور پر تقلید کا یہ مطلب ہے کہ جس کا قول حجت نہیں اس کے قول پر عمل کرنا مثلاً عامی کا عامی کے قول اور مجتہد کا مجتہس کے قول کو لینا حجت نہیں ہے بخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں کیونکہ آپ کا فرمان تو حُجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرح (طرف) رجوع کرنا ف
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ الآية کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ اور يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ کی نصوص کے تحت عُدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ شرعاً ان کا قول حُجت ہے۔
لیکن عام ارباب اُصول کے عُرف میں مجتہد کے قول کو ماننے والا بھی مقلد کہلاتا ہے حالانکہ مجتہد کا قول اس کے لیے حُجت ہے یہ من غیر حجۃ کی مد اور زد میں نہیں ہے اور علماء اصول کی اکثریت اسی پر ہے لہٰذا مجتہد کی تقلید پر من غیر حجۃ کی تعریف کو فِٹ کرنا اور مجتہد کے قول کو غیر حجت قرار دینا ارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پر مبنی ہے کیونکہ عامی جب خود علم نہیں رکھتا تو علم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیر اس کا چارہ ہی کیا ہے؟
گر علم نہیں تو زور وزر ہے بے کار
مذہب جو نہیں تو آدمیّت بھی نہیں

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 35 – 36 الكلام المفيد في اثبات التقليد – محمد سرفراز خان – مکتبہ صفدریہ، گوجرانوالہ

مسلم الثبوت کی اس تعریف سے سرفراز خان صفدر صاحب حنفی نے بھی صراحت سے یہ بیان کیا ہے، جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں، اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا کے تحت نص نے واجب کیا ہے، لہٰذا وہ تقلید نہیں! لیکن اسے عرفاً تقید کہا جاتا ہے!
یعنی کہ یہ فقہی اصطلاحی تقلید نہیں!
باقی آگے جو سرفراز خان صاحب نے فرمایا ہے کہ:
'' لیکن عام ارباب اُصول کے عُرف میں مجتہد کے قول کو ماننے والا بھی مقلد کہلاتا ہے حالانکہ مجتہد کا قول اس کے لیے حُجت ہے یہ من غیر حجۃ کی مد اور زد میں نہیں ہے اور علماء اصول کی اکثریت اسی پر ہے''
اب خود اسے عرف میں کہہ رہے ہیں، تو جناب عرف میں تقلید کہا جانا محل نزاع نہیں! محل نزاع فقہی واصطلاحی تقلید ہے، اور وہ ''من غیر حجۃ'' کی مد اور زد'' میں ہے!
لہٰذا پھر یہ اعلان کیجیئے کہ آپ مجتہد کی فقہی واصطلاحی تقلید نہیں کرتے!
اور اپنے اس اعلان پر عمل پیرا بھی ہو جائیں!
اور پھر فرماتے ہیں کہ:
'' لہٰذا مجتہد کی تقلید پر من غیر حجۃ کی تعریف کو فِٹ کرنا اور مجتہد کے قول کو غیر حجت قرار دینا ارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پر مبنی ہے ''
اب اگر آپ مجتہد کا قول ''من غیر حجۃ'' میں نہیں، تو پھر آپ کس تقلید کا اثبات کرنے لگے ہیں؟
کیونکہ فقہی واصطلاحی تقلید تو ہے ہی ''من غیر حجۃ'' کی مد اور زد میں! جیسا کہ مسلم الثبوت سے بیان کردہ تعریف میں سرفراز خان صاحب خود بیان کرتے ہیں!
پھر فرماتے ہیں:
''کیونکہ عامی جب خود علم نہیں رکھتا تو علم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیر اس کا چارہ ہی کیا ہے؟''
اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:

{فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: 43]
جیسا کہ سرفراز خان صاحب نے خود کہا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ تقلید نہیں!

غلام رسول سعیدی مقلد بریلوی صاحب یوں فرماتے ہیں:
تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے یہ مراد ہے کہ کسی امام کے قول کو کتاب وسنت کے موافق پاکر اور دلائل شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کر لینا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 63 جلد01 شرح صحیح مسلم – غلام رسول سعیدی – فرید بک اسٹال، لاہور
غلام رسول سعیدی صاحب نے یہاں تقلید اور اتباع کے فرق کو بہت خوب بیان کردیا ہے!

اب مزید ان سے یہ پوچھا جائے، کہ اگر ان روایات سے تقلید کا اثبات ہوتا ہے، تو ان روایات سے معاذ رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تقلید کا اثبات ہو گا!
اور پھر آپ معاذ رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے!
آپ تو ان کی تقلید کے خود قائل و فاعل نہیں!
یعنی کہ آپ ان کی تقلید کو ان روایات سے ثابت مان کر ان کی تقلید کے انکاری ہوئے!
اور معاذ رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید کو چھوڑ کر آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں اختیا کر لی!
بلکہ آپ کے ہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید کا ممنوع ہونا محقق و مسلم ہے؛ دیکھیں؛


قال الإمام أجمع المحققون علی منع العوام من تقليد الصحابة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 439 جلد 02 - مسلم الثبوت مع فواتح الرحموت - محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري (المتوفى: 1119هـ) - دار الكتب العلمية
 
Last edited:
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
جزاک اللہ خیرا شیخ ۔
میں نے اس جواب کو کئی بار پڑھا اور اس کو اپنے دماغ میں بیٹھا لیا ۔
 
Top