ڈاکٹر حسین بن علی نے اپنی کتاب(آیات التقوٰی فی القرآن الکریم)میں قرآن مین وارد مختلف معانی پر بحث کی ہے ان میں سے چند ایک کا خلاصہ پیش خدمت ہے
تقوٰی لغۃ:لغۃ تقوٰی وقایۃ سے ماخوذ ہے یعنی جس سے انسان بچائ اختیار کرتا ہے ۔
تقوٰی اصطلاحآ:تقوٰی کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ تو اپنے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے درمیان پردہ اور آڑ قائم کرلے۔
امیر المومنین سیدنا علی بن عبی طالب توعٰی کی تعریف کرتے ہے فرماتے ہیں کی تقوٰی اللہ تعالٰی سے ڈر ،قرآن مجید کے ساتھ عمل،تھوڑے کپر قناعت اور آئندہ دن کیلئے استعدادع پیدا کرنے کا نام ہے،
ڈاکٹر ناصر الحق اپنے مقالہ بعنوان (التقوٰی طریق اللہ فی الحیاۃ الانسانیۃ)میں تقوٰی کے بارے میں یوں رقمطراز جہیں کہ تقوٰی انسان کیلئے زندگی کا زاد راہ ہے اور یہ ایسے مکارم اخلاق اور فضائل حسنہ کی آخری حد ہے جس سے ہر انسان کا متصف ہونا لازمی ہے کیوں کہ انہیں کی وجہ سے تمام صفات محمودہ پروان چڑھتی ہیںاور یہ ایسی فضیلت ہے جس کے سبب اللہ نے انسان اور اسکے خالق کے درمیاں گہرا ربط قائم کرنے کا ارادہ کیا ہےاسی لیئے یہ کلمہ اور اسکے مشتقات قرآن مجید میں موجود اخلاقی اور
اجتماعی آیات میں پائے جاتے ہیں
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر ایسی شیز سے بچے جس سے اس کا رب ناراض ہواور اس کے یا س کئے غیر کے لئے اس میں ضڑر اور نقصان ہوگویا کہ تقوٰی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے درمیان تقوٰی کی ایسی ڈھال بنا لیں کہ ہر اطاعت کی جگہ پرآپ اللہ کے سامنے ہوںB اور ہر معصیت کی جگہ سے مفقود
متقین کی صفت علی بن ابی طالب یوں بیان کرتےت ہیں کہ متقی لوگ اللہ کی رضا مندگی کیلئے محنت اور کوشش کرتے یئں اور اللہ کی ناراضگی سے اجتناب ۔کیونکہ اس میں ان کے لیئےبلکہ ساری انسانیت کیلئےمصلحت پنہاں ہوتی ہے۔
(آیات التقوٰی فی القرآن الکریم 1تا 3)
تقوٰی لغۃ:لغۃ تقوٰی وقایۃ سے ماخوذ ہے یعنی جس سے انسان بچائ اختیار کرتا ہے ۔
تقوٰی اصطلاحآ:تقوٰی کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ تو اپنے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے درمیان پردہ اور آڑ قائم کرلے۔
امیر المومنین سیدنا علی بن عبی طالب توعٰی کی تعریف کرتے ہے فرماتے ہیں کی تقوٰی اللہ تعالٰی سے ڈر ،قرآن مجید کے ساتھ عمل،تھوڑے کپر قناعت اور آئندہ دن کیلئے استعدادع پیدا کرنے کا نام ہے،
ڈاکٹر ناصر الحق اپنے مقالہ بعنوان (التقوٰی طریق اللہ فی الحیاۃ الانسانیۃ)میں تقوٰی کے بارے میں یوں رقمطراز جہیں کہ تقوٰی انسان کیلئے زندگی کا زاد راہ ہے اور یہ ایسے مکارم اخلاق اور فضائل حسنہ کی آخری حد ہے جس سے ہر انسان کا متصف ہونا لازمی ہے کیوں کہ انہیں کی وجہ سے تمام صفات محمودہ پروان چڑھتی ہیںاور یہ ایسی فضیلت ہے جس کے سبب اللہ نے انسان اور اسکے خالق کے درمیاں گہرا ربط قائم کرنے کا ارادہ کیا ہےاسی لیئے یہ کلمہ اور اسکے مشتقات قرآن مجید میں موجود اخلاقی اور
اجتماعی آیات میں پائے جاتے ہیں
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر ایسی شیز سے بچے جس سے اس کا رب ناراض ہواور اس کے یا س کئے غیر کے لئے اس میں ضڑر اور نقصان ہوگویا کہ تقوٰی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے درمیان تقوٰی کی ایسی ڈھال بنا لیں کہ ہر اطاعت کی جگہ پرآپ اللہ کے سامنے ہوںB اور ہر معصیت کی جگہ سے مفقود
متقین کی صفت علی بن ابی طالب یوں بیان کرتےت ہیں کہ متقی لوگ اللہ کی رضا مندگی کیلئے محنت اور کوشش کرتے یئں اور اللہ کی ناراضگی سے اجتناب ۔کیونکہ اس میں ان کے لیئےبلکہ ساری انسانیت کیلئےمصلحت پنہاں ہوتی ہے۔
(آیات التقوٰی فی القرآن الکریم 1تا 3)