قادری رانا
رکن
- شمولیت
- جون 20، 2014
- پیغامات
- 676
- ری ایکشن اسکور
- 55
- پوائنٹ
- 93
طالب نور صاحب کے شبہات کاازلہ
اہلحدیث حضرات کے ایک مولوی جناب ابو عبداللہ شعیب کا ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں انہوں نے تقویۃ الایمان کی ایک عبارت کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ذیل کے مضمون میں ان کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے اللہ سے دعا ہے کہ قرآن و سنت کا فہم عطا فرمائے۔
مولوی اسماعیل صاحب لکھتے ہیں
’’ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۰)
اس پر علمائے اہلسنت نے اعتراض کیا کہ اس عبارت میں انبیا و اولیا کو چمار سے بھی ذلیل کہا گیا ہے یعنی چمار اتنا ذلیل نہیں جس قدر اللہ کے نزدیک انبیا و اولیا ذلیل ہیں۔(عبارات اکابر کا تنقیدی جائزہ ،الحق و مبین،ظفر السلام ،تعارف علمائے دیوبند)
ا۔اس اعتراض کے جواب میںیہ کہا گیا کہ یہ عبارت عمومی ہے اور بریلویوں کویہ بات مسلم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات۔
الجواب۔یہ جناب کی غلط فہمی ہے کہ یہ عبارت عمومی ہے اسماعیل دہلوی صاحب کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔تقویتہ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علماء وہابیہ دیوبندئیہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
*دہلوی صاحب کہتے ہے کہ ’’اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵ )
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ کہتے ہیں کہ
’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘
(تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)
معاذ اللہ عزوجل ۔لہذا اس سے واضح ہو گیا کہ دہلوی صاحب نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا۔
(۔۔۔تقویتہ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم۔۔۔)
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویتہ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1)ایک چھوٹی مخلوق (2)اور دوسری بڑی مخلوق۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیالیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمینکو لیا۔
*شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ’’انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے‘‘ ( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۳۲)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتیہیں ۔
*پھر کہتے ہیں کہ’’جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۵۹)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویتہ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔بڑی اور چھوٹی ۔بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری۔۔۔
(تقوییہ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*دیوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
’’ تو اس سبب سے صاحب تقویتہ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جوچاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔لہذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے۔
(ثنا اللہ امرتسری اور چھوٹی بڑی مخلوق)
علماء اہلحدیث وہابیہ کے ثناء اﷲ امرتسری سے کسی نے پوچھا کہ’’ کیا اس ہرمخلوق کے لفظ میں انبیاء کرام و اصحاب عظام و اولیاء ذی شان داخل ہیں یا نہیں؟اگر داخل ہیں تو اس سے اہانت انبیاء السلام و صالحین کرام ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ تو ثناء اﷲ اہلحدیث نے جواب دیتے ہوئے لکھاکہ’’یعنی چمار بادشاہ کے سامنے بہت کم حییثت رکھتے ہیں تاہم انسان ہونے کی حیثیت سے بادشاہ کے برابر ہے لیکن انسان چھوٹے اور بڑے خدا کے ساتھ ہم کفوی کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ لم یکن کفو ااحد،اس کلام
ہدایت التیام، سے حضرات انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی توہین یا منقصت منظور نہیں بلکہ شان خدا ارفع بتانی مقصود ہے۔۔(فتاوی ثنائیہ جلد اول صفحہ۲۹۲)
(نذیر حسین دہلوی اور چھوٹی بڑی مخلوق)
علمائے وہابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب لکھتے ہیں
شریعت سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کالانعام کے عقیدے کی اصلاح ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اولیا اللہ جناب باری تعالی کے مختار کل ہیں ،جویاہیں کرسکتے ہیں،کسی کو ذلیل کریں،کسی کو عزت بخشیں،۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے ہیں ،ان کے نام کا وظیفہ کرتے مثلا یا شیخ جیلانی شیئااللہ ،یا علی ،یا حسین(فتاوی نذیریہ ج ۱ ص۶۹)
بہرحال ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ دہلوی کی عبارت میں انبیا و اولیا کی تخصیص ہے اور تالب نور صاحب کہتے ہیں
یہ بات مسلم ہے کہ اگر انبیا کا نام لے کت ذلت کو ان طرف منسوب کیا جائے تو یہ گستاخی ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ دہلوی کی عبارت گستاخانہ ہے۔
اس کے بعد طالب نور صاحب نے جو آیت اور عبارتیں پیش کی ہیں ان سب کا سادہ سا مجموعی جواب یہ ہے کہ ان عبارات میں عموم ہے اور خود نور صاحب نے یہ تسلیم کیا کہ عموم میں انبیا کو استثنا حاصل ہے۔بہرحال ان کا تفصیلی جواب حاضر ہے۔
۱۔بے شک تم اور جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن ہو (انبیا،۹۸) اس آیت کو اکثر مفسرین نے بتوں سے خاص کیا ہے ملاحظہ ہو فتح القدیر۔
۲۔لوگ اللہ کے سواجن کو پوجتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں (الملفوظ)یہاں معبودیت کو جھوٹا کہا گیا ہے ہم حضرت عیسی کو سچا نبی مانتے ہیں معبود نہیں۔
۳۔اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیراورقد می ھذ اعلٰی رقبۃ کل ولی اﷲ‘‘
یہاں پر جناب نے تفضیلہ والی جہالت کا مظاہرہ کیا ۔ان کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ
تو شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔(تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴)لہذا یہاں انبیا کاذکر نہیں۔
نوٹ۔اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لئے احمد رضا سلطانپوری کی کتاب تقویۃ الایمان پر وہابیہ کے شکوک و شبہات کا ازالہislamieducation.com) (ملاحظہ کریں
۴۔فوائد الدوائد کی عبارت میں عموم ہے جبکہ اسماعیل کی عبارت میں انبیا کی تخصیص ہے۔
الزامی جوابات کا رد
۱۔پہلا اعتراض اعلی حضرت کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب نہیں کی۔بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے۔باقی پیر نصیر جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں۔اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے۔
۲۔اس کے بعد طالب نور صاحب اور حافظ صاحب نے صوفیا کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا۔(فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸)اگلی بات اسرار قادری کے پرانے ایڈیشن میں ذلت کا لفظ موجود نہیں۔
۴۔رہ گیا اوراق غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا۔اور یہ (فازلھماالشیطن)سے اقتباس ہے لہذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے۔
اہلحدیث حضرات کے ایک مولوی جناب ابو عبداللہ شعیب کا ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں انہوں نے تقویۃ الایمان کی ایک عبارت کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ذیل کے مضمون میں ان کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے اللہ سے دعا ہے کہ قرآن و سنت کا فہم عطا فرمائے۔
مولوی اسماعیل صاحب لکھتے ہیں
’’ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۰)
اس پر علمائے اہلسنت نے اعتراض کیا کہ اس عبارت میں انبیا و اولیا کو چمار سے بھی ذلیل کہا گیا ہے یعنی چمار اتنا ذلیل نہیں جس قدر اللہ کے نزدیک انبیا و اولیا ذلیل ہیں۔(عبارات اکابر کا تنقیدی جائزہ ،الحق و مبین،ظفر السلام ،تعارف علمائے دیوبند)
ا۔اس اعتراض کے جواب میںیہ کہا گیا کہ یہ عبارت عمومی ہے اور بریلویوں کویہ بات مسلم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات۔
الجواب۔یہ جناب کی غلط فہمی ہے کہ یہ عبارت عمومی ہے اسماعیل دہلوی صاحب کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔تقویتہ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علماء وہابیہ دیوبندئیہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
*دہلوی صاحب کہتے ہے کہ ’’اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵ )
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ کہتے ہیں کہ
’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘
(تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)
معاذ اللہ عزوجل ۔لہذا اس سے واضح ہو گیا کہ دہلوی صاحب نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا۔
(۔۔۔تقویتہ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم۔۔۔)
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویتہ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1)ایک چھوٹی مخلوق (2)اور دوسری بڑی مخلوق۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیالیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمینکو لیا۔
*شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ’’انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے‘‘ ( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۳۲)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتیہیں ۔
*پھر کہتے ہیں کہ’’جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۵۹)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویتہ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔بڑی اور چھوٹی ۔بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری۔۔۔
(تقوییہ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*دیوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
’’ تو اس سبب سے صاحب تقویتہ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جوچاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔لہذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے۔
(ثنا اللہ امرتسری اور چھوٹی بڑی مخلوق)
علماء اہلحدیث وہابیہ کے ثناء اﷲ امرتسری سے کسی نے پوچھا کہ’’ کیا اس ہرمخلوق کے لفظ میں انبیاء کرام و اصحاب عظام و اولیاء ذی شان داخل ہیں یا نہیں؟اگر داخل ہیں تو اس سے اہانت انبیاء السلام و صالحین کرام ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ تو ثناء اﷲ اہلحدیث نے جواب دیتے ہوئے لکھاکہ’’یعنی چمار بادشاہ کے سامنے بہت کم حییثت رکھتے ہیں تاہم انسان ہونے کی حیثیت سے بادشاہ کے برابر ہے لیکن انسان چھوٹے اور بڑے خدا کے ساتھ ہم کفوی کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ لم یکن کفو ااحد،اس کلام
ہدایت التیام، سے حضرات انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی توہین یا منقصت منظور نہیں بلکہ شان خدا ارفع بتانی مقصود ہے۔۔(فتاوی ثنائیہ جلد اول صفحہ۲۹۲)
(نذیر حسین دہلوی اور چھوٹی بڑی مخلوق)
علمائے وہابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب لکھتے ہیں
شریعت سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کالانعام کے عقیدے کی اصلاح ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اولیا اللہ جناب باری تعالی کے مختار کل ہیں ،جویاہیں کرسکتے ہیں،کسی کو ذلیل کریں،کسی کو عزت بخشیں،۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے ہیں ،ان کے نام کا وظیفہ کرتے مثلا یا شیخ جیلانی شیئااللہ ،یا علی ،یا حسین(فتاوی نذیریہ ج ۱ ص۶۹)
بہرحال ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ دہلوی کی عبارت میں انبیا و اولیا کی تخصیص ہے اور تالب نور صاحب کہتے ہیں
یہ بات مسلم ہے کہ اگر انبیا کا نام لے کت ذلت کو ان طرف منسوب کیا جائے تو یہ گستاخی ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ دہلوی کی عبارت گستاخانہ ہے۔
اس کے بعد طالب نور صاحب نے جو آیت اور عبارتیں پیش کی ہیں ان سب کا سادہ سا مجموعی جواب یہ ہے کہ ان عبارات میں عموم ہے اور خود نور صاحب نے یہ تسلیم کیا کہ عموم میں انبیا کو استثنا حاصل ہے۔بہرحال ان کا تفصیلی جواب حاضر ہے۔
۱۔بے شک تم اور جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن ہو (انبیا،۹۸) اس آیت کو اکثر مفسرین نے بتوں سے خاص کیا ہے ملاحظہ ہو فتح القدیر۔
۲۔لوگ اللہ کے سواجن کو پوجتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں (الملفوظ)یہاں معبودیت کو جھوٹا کہا گیا ہے ہم حضرت عیسی کو سچا نبی مانتے ہیں معبود نہیں۔
۳۔اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیراورقد می ھذ اعلٰی رقبۃ کل ولی اﷲ‘‘
یہاں پر جناب نے تفضیلہ والی جہالت کا مظاہرہ کیا ۔ان کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ
تو شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔(تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴)لہذا یہاں انبیا کاذکر نہیں۔
نوٹ۔اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لئے احمد رضا سلطانپوری کی کتاب تقویۃ الایمان پر وہابیہ کے شکوک و شبہات کا ازالہislamieducation.com) (ملاحظہ کریں
۴۔فوائد الدوائد کی عبارت میں عموم ہے جبکہ اسماعیل کی عبارت میں انبیا کی تخصیص ہے۔
الزامی جوابات کا رد
۱۔پہلا اعتراض اعلی حضرت کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب نہیں کی۔بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے۔باقی پیر نصیر جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں۔اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے۔
۲۔اس کے بعد طالب نور صاحب اور حافظ صاحب نے صوفیا کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا۔(فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸)اگلی بات اسرار قادری کے پرانے ایڈیشن میں ذلت کا لفظ موجود نہیں۔
۴۔رہ گیا اوراق غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا۔اور یہ (فازلھماالشیطن)سے اقتباس ہے لہذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے۔