محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
جزاک اللہ خیرا
پی ڈی ایف فارمیٹ میں پیش خدمت ہے۔ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس کا لنک مزید جہاں پر بہتر ہو شئیر کر دے، والسلام۔’’تقویۃ الایمان کی ایک عبارت اور حقیقی گستاخ‘‘ کے عنوان سے میرا یہی مضمون کچھ مفید حک و اضافہ کے بعد ماہنامہ ضربِ حق سرگودھا (دسمبر٢٠١١ء) میں شائع ہو گیا ہے۔والحمدللہ
جزاک اللہ خیرا طالب نور بھائی۔ اللہ آپ کو مزید دین کی خدمت کی توفیق دے۔ آپ کے مضامین بہت خوب ہوا کرتے ہیں۔ لیکن کیا بات ہے کہ کافی عرصے سے کوئی نیا مضمون نہیں آیا؟ تھوڑا سہی مستقل مزاجی سے لکھتے رہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دیں۔ آمین۔
پی ڈی ایف فارمیٹ میں پیش خدمت ہے۔ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس کا لنک مزید جہاں پر بہتر ہو شئیر کر دے، والسلام۔
دیوبند تو آپ ہی کے بھائی ہیں۔ان کے حوالے دینے سے کام نہیں چلے گاتقویۃالایمان کی ایک عبارت پر طالب نور اور حافظ ساجد کے شبہات کا جائزہ
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علٰی سید الانبیاء والمرسلین امابعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ۔جس دن ظالموں کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں گے اور ان کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے بُرا گھر (پارہ24مومن 52)
اما بعد ! ضد و عناد کی بجائے حق کے سامنے سر جھکانے ہی میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے ۔آج اگر حیلے بہانوں ،شور شرابا یا قلمی جادو دیکھا کر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک بھی دی تو کل بروز قیامت یہ سب بہانے کچھ کام نہ آئیں گے ۔اس لئے معترضعین حضرات کو کچھ سوچنا چاہیے اور ضد و عناد اور مسلک پرستی کی حدووں سے باہر نکل کر اپنی آخرت کا کچھ خیال و فکر کرنی چاہیے۔
ہندوستان میں وہابیت کا بیچ بونے والے اسماعیل دہلوی صاحب نے ایک ’’کتاب تقویتہ الایمان ‘‘تحریر فرمائی ۔دیوبندی مولانا سید احمد رضا بجنوری نے اس کتاب کے بارے میں لکھا کہ
’’افسوس ہے کہ اس کتاب(اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویتہ الایمان )کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبانوے فی صد حنفی المسلک ہیں ،دو گروہ میں بٹ گے ہیں ،ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسیخطے میں بھی ،ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔
(انوار الباری ج ۱۱ ص ۱۰۷ بحوالہ مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان۵۰)
اور خود اسماعیل دہلوی صاحب نے جب یہ کتاب لکھی تو کہا کہ ’’ میں نے یہ کتاب لکھی ہے اورمیں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے مثلا ان امور کو جو شرک خفی تھے شرک جلی لکھ دیا گیا ہے ،ان وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی اشاعت سے شورش ضرور ہو گی۔۔۔ گو اس سے شورش ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائیں گے‘‘
(ارواح ثلاثہ صفحہ ۸۴۔اشرفعلی تھانوی )۔
ا بوالکلام آزاد کا بیان ہے کہ ’’مولانا محمد اسماعیل شہید ،مولانا منور الدین کے ہم درس تھے ۔شاہ عبد العزیز کے انتقال کے بعد جب انہوں نے تقویتہ الایمان اور جلاء العنین لکھی اور ان کے اس مسلک کا ملک بھر میں چرچا ہوا، تو تمام علماء میں ہلچل پڑ گئی۔ان کے رد میں سب سے زیادہ سر گرمی مولانا منور الدین نے دکھائی۔متعدد کتابیں لکھیں اور ۱۲۴۸ھ والامشہور مباحثہ جامع مسجد کیا ۔ تمام علمائے ہند سے فتویٰ مرتب کرایا۔پھر حرمین سے فتویٰ منگایا۔۔۔۔جامع مسجد کا شہرہ آفاق مناظرہ ترتیب دیا جس میں ایک طرف مولانا اسماعیل اور مولانا عبد الحی تھے اور دوسری طرف مولانا منور الدین اورتمام علمائے دہلی ‘‘
(آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی از عبد الرزاق ملیح آبادی ص36)۔
بحرحال شاہ اسماعیل دہلوی صاحب کی اس کتاب کی وجہ سے ہندوستان میں جب فرقہ پرستی کا آغاز ہوا تو اس وقت کے قدیم علماء اہل سنت و جماعت نے اسماعیل دہلوی کا رد کیا ،ان کے خلاف کتابیں لکھیں ،فتوے جاری کیے۔اور جس وقت یہ سلسلہ چل رہا تھا اُس وقت اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ( تاریخ پیدائش 1272 ٗٗھ ،1856عیسوی)) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہاسماعیل دہلوی صاحب ’’ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ‘ ‘ کی پیدائش سے تقریباََ 26سال پہلے 1246ھ میں پٹھانوں کے ہاتھوں بالاکوٹ میں قتل ہوئے مٹی میں مل چکے تھے۔
لہذاہندوستان میں فتنہ و فساد کی جڑ شاہ اسماعیل دہلوی صاحب بنے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل ہی سنی اور وہابی تقسیم ہو چکی تھی ،اب سوچئے کہ جن علماء نے اسماعیل دہلوی کا رد کیا وہ بریلوی تھے؟ان کوامام احمد رضارحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے بریلوی کس طرح کہا جا سکتا ہے جبکہ اس وقت تو خود امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تک نہیں ہوئی تھی۔لہذا معلوم ہوا کہ بریلوی علماء سے قبل ہی قدیم علماء اہل سنت و جماعت رحمۃ اللہ علہیم اجمعین وہابی مذہب ،شاہ اسماعیل دہلوی کے سخت مخالف تھے اور ان مجاہدین اسلام نے شاہ اسماعیل دہلوی کے جدید مذہب کو ہرگز قبول نہیں کیا ۔
لہذا اسماعیل دہلوی یاوہابی مذہب سے اختلافات کا آغاز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں ہوا بلکہ ان کی ولادت با سعادت سے بھی سالوں قبل کا ہے ۔اور بقول شاہ اسماعیل دہلوی صاحب کے تقویتہ الایمان کی اشاعت سے شورش ہوئی اور جن لڑائی جھگڑوں نے جنم لیا وہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور دور دور تک ختم ہونے کے آثار نظر بھی نہیں آتے ۔
بہرحال میں اپنے موضوع کی طرف چلتا ہوں،تقویتہ الایمان میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے بارے کثیر مقامات پر تشدد سے کام لیا گیا اور سخت و تیز الفاظ کا استعمال کیا گیا جن کے بارے میں شریعت اسلامیہ ہمیں قطعاََ اجازت نہیں دیتی ۔
شاہ اسماعیل دہلوی صاحب خود کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے ۔(ارواح ثلاثہ صفحہ ۸۴،اکمل البیان)دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی کے مطابق ’تقویتہ الایمان ‘‘کے بعض مسائل میں بظاہر تشدد ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ ۲۲۶) اشرفعلی تھانوی دیوبندی کے مطابق ’’تقویتہ الایمان میں بعض الفاظ جو سخت واقع ہیں‘‘(امداد الفتاویٰ جلد ۴ص۱۱۵)شاہ اسماعیل دہلوی کے انہی سخت و تیز الفاظ میں ایک یہ عبارت بھی موجود ہے کہ ’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘ (تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)انہی سخت و تیز الفاظ میں ایک یہ عبارت بھی موجود ہے کہ ’’ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
علماء اہل سنت و جماعت نے قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ثا بت کیا کہ تقویتہ الایمان کی ایسی سخت و تیز عبارات انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام او ر اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم و توقیر ،شان و عظمت کے سخت خلاف ہیں ،اور ایسی عبارات میں ان مقدس و مقرب ہستیوں کی سخت بے ادبیاں و گستاخیاں ہیں ۔دہلوی صاحب کی ایسی سخت و تیز عبارات کا رد علماء اہل سنت و جماعت کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
(معترضعین کی تاویلات فاسدہ اور عبارت معترضہ کے بار ے میں مختلف بہانے)
بہرحال اس ساری تمہید کے بعد اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔جس میں ہم طالب نور اور ساجد صاحب کے شبہات کا جواب دے گیں۔
۱۔اس عبارت کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ عبارت عمومی ہے اور بریلویوں کویہ بات مسلم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات۔حالانکہ اسماعیل دہلوی صاحب کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔تقویتہ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علماء وہابیہ دیوبندئیہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
*دہلوی صاحب کہتے ہے کہ ’’اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵ )
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ کہتے ہیں کہ
’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘
(تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)
معاذ اللہ عزوجل ۔لہذا اس سے واضح ہو گیا کہ دہلوی صاحب نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا۔
(۔۔۔تقویتہ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم۔۔۔)
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویتہ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1)ایک چھوٹی مخلوق (2)اور دوسری بڑی مخلوق۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیالیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمینکو لیا۔
*شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ’’انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے‘‘ ( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۳۲)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتے ہیں ۔
*پھر کہتے ہیں کہ’’جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۵۹)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویتہ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔بڑی اور چھوٹی ۔بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری۔۔۔
(تقوییہ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*دیوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
’’ تو اس سبب سے صاحب تقویتہ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جو چاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔لہذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے۔
(دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*اسی طرح دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی صاحب سے کسی سائل نے(اسماعیل دہلوی کی ) اسی مذکور عبارت کو لکھ کر سوال پوچھا کہ ’’ اس عبارت کے مضمون کا کیا مطلب ہے مولانا علیہ الرحمۃ نے کیا مراد لیا ہے۔‘‘
تو گنگوہی نے اس کامطلب سمجھاتے ہوئے لکھاکہ
’’ اس عبارت سے مراد حق تعالیٰ کی بے نہایت برائی ظاہر کرنا ہے کہ اسکی سب مخلوقات اگر چہ کسی درجہ کی ہو اُس سے کچھ مناسب نہیں رکھتی۔ کمہار لوٹا مٹی کا بنا دے اگر چہ خوبصورت پسندیدہ ہو اس کو احتیاط سے رکھے مگر توڑنے کا بھی اختیار ہے اور کوئی مساوات کسی وجہ سے لوٹے کو کمہار سے نہیں ہوتی۔ پس حق تعالیٰ کی ذات پاک جو خالق محض قدرت ہے اس کے ساتھ کیا نسبت و درجہ کسی خلق کاہو سکتا ہے چمار کو شہنشاہ دنیا سے اولاد آدم ہونے میں مناسبت و مساوات ہے اور شہنشاہ نہ خالق و رازق چمار کا ہے تو چمار کو تو شہنشاہ سے مساوات بعض وجودہ سے ہے بھی مگر حق تعالیٰ کیساتھ اس قدر بھی مناسبت کسی کو نہیں کہ کوئی عزت برابری کی نہیں ہو سکتی۔۔فخر عالم علیہ السلام باوجودیکہ تمام مخلوق سے برتر و معزز و بے نہایت عزیز ہیں کہ کوئی مثل ان کے نہ ہوا نہ ہو گا مگر حق تعالےٰ کی ذات پاک کے مقابلہ میں وہ بھی بندہ مخلوق ہیں ۔ تو یہ سب (جو عبارت لکھی ) حق ہے مگر کم فہم اپنی کجی فہم سے اعتراض بہودہ کر کے شانِ حق تعالیٰ کو گھٹاتے ہیں اور نام حب رسول ﷺ رکھتے ہیں۔
( فتاوی رشیدیہ صفحہ۲۲۴)
تو گنگوہی صاحب کو بھی اقرار ہے کہ اسکی سب مخلوقات اگر چہ کسی درجہ کی ہو( خواہ انبیاء ہوں یا اولیاء ) اُس سے کچھ مناسب نہیں رکھتی۔۔۔۔فخر عالم علیہ السلام باوجودیکہ تمام مخلوق سے برتر و معزز و بے نہایت عزیز ہیں (اوردہلوی کے مطابق تو اسی مخلوق کا یہی درجہ تو بڑی مخلوق ہے کہ کوئی مثل ان کے نہ ہوا نہ ہو گا مگر حق تعالےٰ کی ذات پاک کے مقابلہ میں وہ بھی بندہ مخلوق ہیں ۔ تو یہ سب (یعنی اسماعیل دہلوی نے جو کہا کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے) حق ہے۔معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ۔
لہذا جہاں شاہ اسماعیل دہلوی نے’’بڑی چھوٹی مخلوق کی‘‘ خود تخصیص فرما دی وہیں ان کے ماننے والوں نے بھی یہی مراد لی ۔ لہذا عبارت کو عمومی قرار دینا غلط ہے۔
اب جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس میں ابنیا اور اولیا کی تخصیص ہے تو اب علمائے اہل حدیث و دیوبند کا فتوی ملاحظہ کریں۔
طالب نور صاحب لکھتے ہیں
مگر یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ اگر انبیا کا نام لے کر یا خاص ان کی طرف ذلت کو منسوب کیا جائے تو یہ ان کی شدید گستاخی ہے۔
(ضرب حق دسمبر۲۰۱۱ص۲۰)
مولوی امین کہتا ہے
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تقویۃالایمان کی عبارت میں حضور ﷺکا نام ہے تو یہ عبارت گستاخانہ ہے۔(فتوحات صفدر ج۱ص ۶۰۱)
لہذا علماء وہابیہ کے فتاوی کی رو سے یہ عبارت گستاخانہ ہے۔
۲۔اب رہ گئیں وہ عبارات جو طالب صاحب نے پیش کیں تو انکا جواب خود انہوں نے ہی دے دیا
یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے عمومی الفاظ کو خصوصی معنی دے کر تو ہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
۲۔پھر یہ کہا گیا کہ شاہ صاحب کا مقصد اللہ کی قدرتوں کو بیان کرنا اور مخلوق کی عاجزی اور ضعف کو بیان کرنا ہے۔
جوابا عرض ہے جناب اللہ کی قدرت کاملہ کو بیان کرنے میں اعتراض نہیں ۔اعتراض توحید کی آڑ میں محبوبان خدا کی تو ہین پر ہے۔اسی بات کا رونا مفتی سعید نے رویا ہے کہتاہے دیوبندی مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ’’ہمارے ملک میں دیوبندیت کو ان نواصب کے علاوہ جس مسلک یا عقیدے نے بہت نقصان پہنچایا ہے ،وہ وہابیت ہے ۔ اسی کا اثر ہے کہ اب بیعت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔اس مسلک کے علماء بھی اب اول تو بیعت نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو ذکر اور سلوک کے اسباق کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔اولیاء اللہ کا توسل،اہل اللہ کا ادب،شعائر اللہ کا احترام اور چھوٹے بڑے کی تمیز اٹھ جانے کا ایک سبب وہ وہابیت کا اثر ہے ،جو ہمارے مدارش میں گھس آئی ہے۔
اور توحید کے نام پر طلباء،حضرات اولیاء کرام رحمہم اللہ کو گستاخ آمیز جملوں کا نشانہ بنانے لگے ہیں ۔
(دیوبندیت کی تطہیر ضروری ہے صفحہ14۔)
لہذا اللہ قدرت کاملہ کا بیان الگ چیز ہے اور محبوبان خدا کی گستاخی الگ چیز۔
پھر یہ کتاب انبیا او اولیا کی اہانت سے پر ہے۔جگہ جگہ ان کی توہین کی گئی ہے۔کبھی ان کو بے خبر اور نادان اور کبھی حضورﷺ کے بارے میں کہ آپ دہشت کے مارے بد حواس ہوگئے ۔کہیں لکھا کہ آپ مر کر مٹی میں مل گئے ۔اور کہیں لکھا کہ آپ کی تعظیم فقت بڑے بھائی کی کسی کرنی چاہیئے۔اور لطف یہ کہ خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے کہ اس کا لہجہ سخت ہے(اکمل البیان،ارواح ثلاثہ،امداد الفتاوی)
۳۔پھر جو آیات اور تفاسیر پیش کی گئیں انکا جواب یہ کہ وہاں عبد کی تشریح کی گئی ہے اور وہاں یہ بات ہے کہ جب بھی کوئی اللہ کہ سامنے کھڑا ہوتا ہے تو انتہائی تذلل کے ساتھ۔اپنے آپ کو رب العزت کے حضورعاجز و کمزور سمجھنا الگ بات ہے اور ذلیل ہونا الگ بات۔ یہ عاجزی و انکساری ہوتی ہے ۔اور اردو کے محاورات کو عربی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔دیکھواللہ نے حضورﷺ کے بارے میں کہا کہ وو جدک ضالا فہدی اب اس کا ترجمہ مولوی محمودالحسن کرتا ہے کہ اورپایا تجھ کو بھٹکتا اور راہ سجھائی اب کوئی دیوبندی اٹھ کر یہ کہنا شروع کردے کہ جی حضورﷺبھٹکے ہوئے تھے تو کیا آپ اس کی تائید کرو گئے؟؟
پھر جب آپ کے اصول کے مطابق یہ ثابت ہو گیا کہ یہ عبارت گستاخانہ ہے تو سارا دفاع بیکار ہوگیا۔
۴۔پھر گزارش ہے کہ مثال توضیح کے لئے دی جاتی ہے(خیرالفتاوی)۔جبکہ اسماعیل نے یہاں کوئی مثال نہیں دی بلکہ اس کو اعتقادی رنگ میں بیان کیا ہے۔جیسا کہ اس کی کتاب کا اسلوب ہے۔
۵۔رہ گئی یہ بات کہ ذلیل کا معنی کمزور ہے تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ خود تقویۃالایمان کا مصنف کہتا ہے کہ
یہ بات محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولئے اور اس سے کچھ اور معنی مراد لیجئے۔(تقویۃالایمان)
یعنی جو لفظ ظاہر بے ادبی ہو اس سے مراد بھی بے ادبی ہوتی ہے۔اور لفظ ذلیل کی نسبت انبیا کی طرف کرنا بے ادبی ہے(فتوحات صفدرملحضا)
پھر الشہاب الشاقب میں ہے
جو الفاظ موہم تحقیر سرورکائنات علیہ السلام ہوں اگرچہ کہنے والے نے نیت حقارت نہ کی ہو مگر ان سے بھی کہنے ولا کافر ہوجاتا ہے (الشہاب الشاقب ص۲۰۰)
جناب کیا سمجھے جن الفاظ سے تحقیر کا پہلو بھی نکلے وہ کفر ہوتے ہیں اورکہنے والا کافر ہوجاتا ہے۔
ایسے ہی مرتضی حسن کہتاہے
انبیاء کی تعظیم کرنی اور توہین نکرناضروریات دین میں سے ہے(الشد العذاب ص ۹)
اورانور کاشمیری صاحب لکھتے ہیں
ضروریات دین میں تاویل دافع کفر نہیں۔(اکفار الملحدین ص۹۰)
لہذا اس میں کوئی تاویل نہیں چلے گی۔
اسکے بعد حافظ صاحب نے اعلی حضرت کا شعر پیش کیا
واہ کیا مرتبہ ہے غوث بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
یہ شعر نقل کرنے کے بعد حافظ صاحب نے کہا کہ کوئی یہ کہے کہ اونچے سے مراد اولیااور اونے سے بھی اونچوں سے مراد انبیا ہیں؟تو گویا احمد رضا نے شیخ جیلانی کا رتبہ انبیا سے بڑھا دیا؟؟(یہی اعتراض طالب نور صاحب کا بھی ہے)
تو اس کا سادہ سا جواب یہ کہ یہاں عموم ہیں اور عموم میں انبیا کو استشناء حاصل ہے۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں
تو شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔
(تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴)
جب کہ دہلوی کی عبارت عمومی نہیں ۔جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے۔مزید ایک حوالہ حاضر ہے ۔مولوی عامر عثمانی لکھتا ہے
میں دیکھا شاہ اسماعیل شہیدنے تقویۃ الایمان میں فصل اول فی اجتناب عن الاشراک کے ذیل میں لکھاہے کہ
اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔یہ عبارت ہمارے نزدیک سو فیصد صحیح ہے لیکن کیا اس کا صاف اور بدیہی مطلب یہ نہیں کہ اولیا تو رہے ایک طرف تمام انبیا و رسل بھی اللہ کہ شان کے آگے چمار سے ذلیل ہیں۔کیسا خطرناک انداز بیان ہیں اور کتنے لرزا دینے والے الفاظ ہیں۔(تجلی مارچ ۱۹۷۸ص ۷۱)
۶۔پھر جو دو آیات طالب نور صاحب نے پیش کیں انکا جواب ہم خود انہی سے نقل کر چکے کہ
یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے عمومی الفاظ کو خصوصی معنی دے کر تو ہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
اس کے بعد دونوں حضرات نے ایک ملفوظ پیش کیا ۔جس کا پہلا جواب یہ کہ خود حافظ ساجد صاحب کے نزدیک ملفوظات حجت نہیں تو یہاں پر ملفوظات پیش کرنا کھلی ہوئی جہالت ،ضداور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے انحراف نہیں ہے تو اور کیا ہے؟؟؟پھر رہ گئی اصول تکفیر کی عبارت تو حضرت اگر آپ نے گھر کی کتابیں پڑھیں ہوتی تو یہ اعتراض نہ کرتے ۔سنیں خالد محمود صاحب لکھتے ہیں
ہر مخلوق کا لفظ اپنے عموم میں انبیا کوبھی شامل ہے لیکن اس قسم کے عام حکم میں انبیا اور اولیا ء کو صراحت کے ساتھ داخل کرنا بے ادبی ہے (شاہ اسماعیل ص ۱۲۴)
اور تیسری وہی بات کہ یہاں عموم ہے۔
(الزامی جوابات کا رد)
۱۔پہلا اعتراض اعلی حضرت کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب نہیں کی۔بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے۔باقی پیر نصیر جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں۔اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے۔
۲۔اس کے بعد طالب نور صاحب اور حافظ صاحب نے صوفیا کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا۔(فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸،راہ سنت ،فتاوی رشیدیہ)
۳۔رہ گیا تفاسیر کا حوالہ تو ہم پہلی بات اردو محاوارات کو عربی پر قیاس کرنا غلط ہے۔دیکھو آپ کو کوئی ولد الحرام کہے اور تاویل یہ کرے کہ جی عربی میں حرام معزز کو کہتے ہیں تو کیا آپ یہ تاویل قبول کریں گئے؟؟
۴۔رہ گیا اوراق غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا۔اور یہ (فازلھماالشیطن)سے اقتباس ہے لہذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے۔
تیسری گزارش کا مختصر جواب۔
عتراض نمبر ۱۔
اگر اسماعیل کا کلام گستاخانہ تھاتو اعلیحضرت نے اس کو کافر کیوں نہیں کہا؟اس کا مطلب کلام گستاخانہ نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قائل کا کفر ہونا اور بات اور کلام کا کفریہ ہونا اور بات اس پر ایک گوہی
مرتضٰی حسن لکھتا ہے
کلام کا کلمہ کفر ہونا اور بات ہے اور قائل کو کافر کہنا امر آخر(رسائل چاندی پوری)
اسی طرح اعلی حضرت نے اس کے کلام کو کفریہ کہا مگر اس کو کافر کہنے میں کف لسان کیا۔
اعتراض نمبر ۲۔اگر اسماعیل کا کلام گستاخانہ تھا تو وہ کافر اور احمد رضا نے اسکو کافر نہیں کہا لہذا خود کا فر ۔یا اسماعیل کو اور لوگوں نے کافر کہا اورامام احمد رضا نے نہیں کہا ۔لہذا یہ کافر ہو گئے۔
اس کا الزامی جواب یہ کہ اشرف علی کہتا ہے تقویۃالایمان کے الفاظ کا استعمال تو گستاخی ہے مگر تقویۃالایمان والے کو کچھ نہیں کہاجائے گا۔اب دیوبندی حضرات جو چاہیے کہ اشرف علی کی بھی تکفیر کریں۔
یہی تھانوی مجالس الحکمت میں کہتا ہے
اگر کوئی واقعی ہی کافر ہے اور ہم نے اس کو کافر نہیں کہا تو کیا حرج ہوا اس میں کیا نقصان ہے۔
اب ر ہ گیا یہ اعتراض کہ جی فضل حق خیر آبادی نے تکفیر کلامی کی اور اعلی حضرت نے نہی کی۔اس مفصل جواب تحقییق جمیل میں ملاحظہ کریں یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اشرف علی تھانوی ایک شعر کے بارے میں کہتا ہے کہ
مولاناا سماعیل نے اسی بنا پر عرفی کے اس شعر کی تغلیط کی ہے اورسنا ہے تکفیر بھی کی ہے آگے اسی شعر کی تاویل کر کے کہتا ہے
اس صورت میں تکفیر کی ضرورت نہیں۔(خطبات میلادالنبی ص ۳۳۷،۳۳۸)
بہر حال اس سے یہ ثبات ہوا کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اعلی حضرت کے اس قول کہ خود کافر کہے گئے نہیں اور کوئی اور کہے تو روکے گئے نہیں سے سارے اعتراض رد ہو جاتے ہیں۔حنیف قریشی صاحب کا تکفیر کرنا بھی اس مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے۔
پھر ہم نے اوپر وضاحت کر دی کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اعتراض نمبر ۳۔پہلے اس نے اس کو کافر کہا پھر مسلمان ۔لہذا اس لحاظ سے بھی یہ ہوگیا کافر۔
پہلی بات یہ نرا جھوٹ ہے کہ اعلی حضرت نے اسماعیل کو مسلمان کہا ہم ساجد اسماعیلی وھابی کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔کہ یہ دیکھا سے کہ اعلی حضرت نے کہا ہو کہ میرے نزدیک اسماعیل دہلوی مسلمان ہے۔
پھر اس کو مسلمان نہیں کہا البتہ تکفیر میں کف میں لسان کیا ۔اس کا الزامی جواب یہ کہ امام احمد بن حنبل نے یزید کو کافر کہا جب کہامام اعظم نے سکوت کیا ؟کیا امام اعظم پر بھی کفر کا فتوی لگاو گے۔مزید سنو فتاوی رشیدیہ میں ہے کہ
جو اسماعیل کو کافر کہتے ہیں وا بلا تاویل کہتے ہیں لہذا ان لوگوں کوکافر کہنا اور ان کے ساتھ معاملہ کفار کا سا کرنا نہ چاہیے(فتاوی رشیدیہ ج ۱ ص ۴)
آخری گزارش کاجواب۔
الموت الاحمر میں ا سی اعتراض کہ تم لوگوں کے نزدیک جب کفر صریح میں تاویل ممکن نہیں تو بعید احتمال کہاں سے آگیا کے جواب میں ہے
ان گالیوں کی محمد رسولااللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی انہیں ایذا پہنچی یہ بلا شبہ حق ہے۔حضورﷺ پر عرض اعمال کے تو دیوبندی بھی مقر ہیں جو کلمہ اپنے صاف صریح متبین معنی پر گستاخی دشنام ہو۔تو ضرور اسے گالی ہی کہا جائے گا اور موجب ایذا ہوگا ۔اگرچہ اپنے پہلو میں کوئی خفی بعید احتمال عدم دشنام رکھتا ہو مگر متعین ہر گز نہ ہوگاجب تک ہر ضعیف سا ضعیف بعید سا بعید احتمال بھی متنفی نہ وہجائے۔یہ عدم تعین اس احتمال پر کہ شائد مراد قائل بعید و پہلوئے ابعدہو،صرف بطور متکلمین مقام احتیاط میں اسے کفر سے بچائے گا،اس کے ارادہ پر ہم کو جزم نہ دے گا نہ یہ کہ وہ گالی نہ رہے ایذا نہ رہے۔بھلا اگر کوئی یہ لفظ دہلوی یا تھانوی صاحبانکو کہے کیا یہ اسے اچھا جان سکتے ہیں۔(ص ۲۲۔۲۳)
اب دیکھیں عبد الماجد دریاباری لکھتا ہے کہ
میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے بھی ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے۔(حکیم الامت ص ۲۵۹)
اوئے جب قادیانیوں کے کفر صریح میں تاویل ہوسکتی ہے تو اسماعیل دہلوی کے کفریات میں بھی بعید سا (فاسد)پہلو نقل سکتا ہے۔اور اب یہاں پر لگاو اپنا فتوی کہ جی ایک معنی اسلام کا ہو تو عبارت اسلامی ۔اب کہہ دو کہ قادیانی مسلما ن ہے۔بلکہ تعجب ہے جن لوگوں مرزا قادیانی تک کو مرد صالح کہا ہے وہ اعلی حضرت پر اعتراضات کرتے ہیں۔
مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے
حضرت والا کا یہ عمل سلف کے موافق ہے کہ انہوں نے معتزلہ تک کو کافر کہنے میں احتیاط کی ہے ۔اگر چہ ان کے عقائد صریح کفر کے ہیں لیکن سلف نے احتیاطا یہ اصول رکھا کہ لا نکفر اہل القبلہ اور ان کے معاملہ کو اللہ کے سپرد رکھا اور ان اقوال کے لیے ایک کلی تاویل کر لی کہ متمسک اپنا وہ بھی قرآن و حدیث کو ہی کہتے ہیں۔گو تمسک میں غلطی کرتے ہیں۔تو کفر انکا لزومی ہو انہ کہ کفر صریح (ملفوظات حکیم الا مت ج ۲۹ص ۲۲۷)۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ صریح کفر میں بھی تاویل ہوسکتی ہے۔
پھر مفتی عزیز الرحمٰن دیوبندی کہتا ہے
مرزا قادیانی کے عقائدو خیالات باطلہ اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ ان سے واقف ہو کر کوئی مسلمان مرزا کو مسلمان نہیں کہہ سکتاالبتہ جس کو علم اس کے عقائد باطلہ کا نہ ہو یا تاویل کرے وہ کافر نہ کہیں تو ممکن ہے۔جو شخص بہ سبب کسی شبہ یا تاویل کے کافر نہ کہے تو اس کو بھی کافر نہ کہا جاوے(فتاوی دورالعلوم دیوبندج۱ ص ۱۰۱)لے جی اگر تاویل کے ساتھ قادیانی کو کا فر نہ کہا جائے تو اس پر بھی فتوی کفر نہیں لگتا ۔ اب جو اسماعیل کو نہ کہے اس پر کیسے لگے گا۔ہمارا مشورہ ہے پہلے گھر کی کتابیں پڑ ھ لو پھر ہم پراعتراض کرنا۔
آخر میں گزارش ہے کہ کلمہ نبی کا پڑھنا ہے مولوی کا نہیں خدار ہٹ دھرمی کو چھوڑو اور ان کفریہ عقیدوں سے تو بہ کرو۔
دیوبند تو آپ ہی کے بھائی ہیں۔ان کے حوالے دینے سے کام نہیں چلے گتقویۃالایمان کی ایک عبارت پر طالب نور اور حافظ ساجد کے شبہات کا جائزہ
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علٰی سید الانبیاء والمرسلین امابعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ۔جس دن ظالموں کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں گے اور ان کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے بُرا گھر (پارہ24مومن 52)
اما بعد ! ضد و عناد کی بجائے حق کے سامنے سر جھکانے ہی میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے ۔آج اگر حیلے بہانوں ،شور شرابا یا قلمی جادو دیکھا کر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک بھی دی تو کل بروز قیامت یہ سب بہانے کچھ کام نہ آئیں گے ۔اس لئے معترضعین حضرات کو کچھ سوچنا چاہیے اور ضد و عناد اور مسلک پرستی کی حدووں سے باہر نکل کر اپنی آخرت کا کچھ خیال و فکر کرنی چاہیے۔
ہندوستان میں وہابیت کا بیچ بونے والے اسماعیل دہلوی صاحب نے ایک ’’کتاب تقویتہ الایمان ‘‘تحریر فرمائی ۔دیوبندی مولانا سید احمد رضا بجنوری نے اس کتاب کے بارے میں لکھا کہ
’’افسوس ہے کہ اس کتاب(اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویتہ الایمان )کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبانوے فی صد حنفی المسلک ہیں ،دو گروہ میں بٹ گے ہیں ،ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسیخطے میں بھی ،ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔
(انوار الباری ج ۱۱ ص ۱۰۷ بحوالہ مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان۵۰)
اور خود اسماعیل دہلوی صاحب نے جب یہ کتاب لکھی تو کہا کہ ’’ میں نے یہ کتاب لکھی ہے اورمیں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے مثلا ان امور کو جو شرک خفی تھے شرک جلی لکھ دیا گیا ہے ،ان وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی اشاعت سے شورش ضرور ہو گی۔۔۔ گو اس سے شورش ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائیں گے‘‘
(ارواح ثلاثہ صفحہ ۸۴۔اشرفعلی تھانوی )۔
ا بوالکلام آزاد کا بیان ہے کہ ’’مولانا محمد اسماعیل شہید ،مولانا منور الدین کے ہم درس تھے ۔شاہ عبد العزیز کے انتقال کے بعد جب انہوں نے تقویتہ الایمان اور جلاء العنین لکھی اور ان کے اس مسلک کا ملک بھر میں چرچا ہوا، تو تمام علماء میں ہلچل پڑ گئی۔ان کے رد میں سب سے زیادہ سر گرمی مولانا منور الدین نے دکھائی۔متعدد کتابیں لکھیں اور ۱۲۴۸ھ والامشہور مباحثہ جامع مسجد کیا ۔ تمام علمائے ہند سے فتویٰ مرتب کرایا۔پھر حرمین سے فتویٰ منگایا۔۔۔۔جامع مسجد کا شہرہ آفاق مناظرہ ترتیب دیا جس میں ایک طرف مولانا اسماعیل اور مولانا عبد الحی تھے اور دوسری طرف مولانا منور الدین اورتمام علمائے دہلی ‘‘
(آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی از عبد الرزاق ملیح آبادی ص36)۔
بحرحال شاہ اسماعیل دہلوی صاحب کی اس کتاب کی وجہ سے ہندوستان میں جب فرقہ پرستی کا آغاز ہوا تو اس وقت کے قدیم علماء اہل سنت و جماعت نے اسماعیل دہلوی کا رد کیا ،ان کے خلاف کتابیں لکھیں ،فتوے جاری کیے۔اور جس وقت یہ سلسلہ چل رہا تھا اُس وقت اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ( تاریخ پیدائش 1272 ٗٗھ ،1856عیسوی)) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہاسماعیل دہلوی صاحب ’’ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ‘ ‘ کی پیدائش سے تقریباََ 26سال پہلے 1246ھ میں پٹھانوں کے ہاتھوں بالاکوٹ میں قتل ہوئے مٹی میں مل چکے تھے۔
لہذاہندوستان میں فتنہ و فساد کی جڑ شاہ اسماعیل دہلوی صاحب بنے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل ہی سنی اور وہابی تقسیم ہو چکی تھی ،اب سوچئے کہ جن علماء نے اسماعیل دہلوی کا رد کیا وہ بریلوی تھے؟ان کوامام احمد رضارحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے بریلوی کس طرح کہا جا سکتا ہے جبکہ اس وقت تو خود امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تک نہیں ہوئی تھی۔لہذا معلوم ہوا کہ بریلوی علماء سے قبل ہی قدیم علماء اہل سنت و جماعت رحمۃ اللہ علہیم اجمعین وہابی مذہب ،شاہ اسماعیل دہلوی کے سخت مخالف تھے اور ان مجاہدین اسلام نے شاہ اسماعیل دہلوی کے جدید مذہب کو ہرگز قبول نہیں کیا ۔
لہذا اسماعیل دہلوی یاوہابی مذہب سے اختلافات کا آغاز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں ہوا بلکہ ان کی ولادت با سعادت سے بھی سالوں قبل کا ہے ۔اور بقول شاہ اسماعیل دہلوی صاحب کے تقویتہ الایمان کی اشاعت سے شورش ہوئی اور جن لڑائی جھگڑوں نے جنم لیا وہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور دور دور تک ختم ہونے کے آثار نظر بھی نہیں آتے ۔
بہرحال میں اپنے موضوع کی طرف چلتا ہوں،تقویتہ الایمان میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے بارے کثیر مقامات پر تشدد سے کام لیا گیا اور سخت و تیز الفاظ کا استعمال کیا گیا جن کے بارے میں شریعت اسلامیہ ہمیں قطعاََ اجازت نہیں دیتی ۔
شاہ اسماعیل دہلوی صاحب خود کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے ۔(ارواح ثلاثہ صفحہ ۸۴،اکمل البیان)دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی کے مطابق ’تقویتہ الایمان ‘‘کے بعض مسائل میں بظاہر تشدد ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ ۲۲۶) اشرفعلی تھانوی دیوبندی کے مطابق ’’تقویتہ الایمان میں بعض الفاظ جو سخت واقع ہیں‘‘(امداد الفتاویٰ جلد ۴ص۱۱۵)شاہ اسماعیل دہلوی کے انہی سخت و تیز الفاظ میں ایک یہ عبارت بھی موجود ہے کہ ’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘ (تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)انہی سخت و تیز الفاظ میں ایک یہ عبارت بھی موجود ہے کہ ’’ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
علماء اہل سنت و جماعت نے قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ثا بت کیا کہ تقویتہ الایمان کی ایسی سخت و تیز عبارات انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام او ر اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم و توقیر ،شان و عظمت کے سخت خلاف ہیں ،اور ایسی عبارات میں ان مقدس و مقرب ہستیوں کی سخت بے ادبیاں و گستاخیاں ہیں ۔دہلوی صاحب کی ایسی سخت و تیز عبارات کا رد علماء اہل سنت و جماعت کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
(معترضعین کی تاویلات فاسدہ اور عبارت معترضہ کے بار ے میں مختلف بہانے)
بہرحال اس ساری تمہید کے بعد اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔جس میں ہم طالب نور اور ساجد صاحب کے شبہات کا جواب دے گیں۔
۱۔اس عبارت کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ عبارت عمومی ہے اور بریلویوں کویہ بات مسلم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات۔حالانکہ اسماعیل دہلوی صاحب کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔تقویتہ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علماء وہابیہ دیوبندئیہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
*دہلوی صاحب کہتے ہے کہ ’’اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵ )
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ کہتے ہیں کہ
’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں‘‘
(تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳)
معاذ اللہ عزوجل ۔لہذا اس سے واضح ہو گیا کہ دہلوی صاحب نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا۔
(۔۔۔تقویتہ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم۔۔۔)
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویتہ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1)ایک چھوٹی مخلوق (2)اور دوسری بڑی مخلوق۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیالیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمینکو لیا۔
*شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ’’انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے‘‘ ( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۳۲)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتے ہیں ۔
*پھر کہتے ہیں کہ’’جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۵۹)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویتہ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔بڑی اور چھوٹی ۔بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری۔۔۔
(تقوییہ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*دیوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
’’ تو اس سبب سے صاحب تقویتہ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جو چاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘
( تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔لہذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے۔
(دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد)
*اسی طرح دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی صاحب سے کسی سائل نے(اسماعیل دہلوی کی ) اسی مذکور عبارت کو لکھ کر سوال پوچھا کہ ’’ اس عبارت کے مضمون کا کیا مطلب ہے مولانا علیہ الرحمۃ نے کیا مراد لیا ہے۔‘‘
تو گنگوہی نے اس کامطلب سمجھاتے ہوئے لکھاکہ
’’ اس عبارت سے مراد حق تعالیٰ کی بے نہایت برائی ظاہر کرنا ہے کہ اسکی سب مخلوقات اگر چہ کسی درجہ کی ہو اُس سے کچھ مناسب نہیں رکھتی۔ کمہار لوٹا مٹی کا بنا دے اگر چہ خوبصورت پسندیدہ ہو اس کو احتیاط سے رکھے مگر توڑنے کا بھی اختیار ہے اور کوئی مساوات کسی وجہ سے لوٹے کو کمہار سے نہیں ہوتی۔ پس حق تعالیٰ کی ذات پاک جو خالق محض قدرت ہے اس کے ساتھ کیا نسبت و درجہ کسی خلق کاہو سکتا ہے چمار کو شہنشاہ دنیا سے اولاد آدم ہونے میں مناسبت و مساوات ہے اور شہنشاہ نہ خالق و رازق چمار کا ہے تو چمار کو تو شہنشاہ سے مساوات بعض وجودہ سے ہے بھی مگر حق تعالیٰ کیساتھ اس قدر بھی مناسبت کسی کو نہیں کہ کوئی عزت برابری کی نہیں ہو سکتی۔۔فخر عالم علیہ السلام باوجودیکہ تمام مخلوق سے برتر و معزز و بے نہایت عزیز ہیں کہ کوئی مثل ان کے نہ ہوا نہ ہو گا مگر حق تعالےٰ کی ذات پاک کے مقابلہ میں وہ بھی بندہ مخلوق ہیں ۔ تو یہ سب (جو عبارت لکھی ) حق ہے مگر کم فہم اپنی کجی فہم سے اعتراض بہودہ کر کے شانِ حق تعالیٰ کو گھٹاتے ہیں اور نام حب رسول ﷺ رکھتے ہیں۔
( فتاوی رشیدیہ صفحہ۲۲۴)
تو گنگوہی صاحب کو بھی اقرار ہے کہ اسکی سب مخلوقات اگر چہ کسی درجہ کی ہو( خواہ انبیاء ہوں یا اولیاء ) اُس سے کچھ مناسب نہیں رکھتی۔۔۔۔فخر عالم علیہ السلام باوجودیکہ تمام مخلوق سے برتر و معزز و بے نہایت عزیز ہیں (اوردہلوی کے مطابق تو اسی مخلوق کا یہی درجہ تو بڑی مخلوق ہے کہ کوئی مثل ان کے نہ ہوا نہ ہو گا مگر حق تعالےٰ کی ذات پاک کے مقابلہ میں وہ بھی بندہ مخلوق ہیں ۔ تو یہ سب (یعنی اسماعیل دہلوی نے جو کہا کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے) حق ہے۔معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ۔
لہذا جہاں شاہ اسماعیل دہلوی نے’’بڑی چھوٹی مخلوق کی‘‘ خود تخصیص فرما دی وہیں ان کے ماننے والوں نے بھی یہی مراد لی ۔ لہذا عبارت کو عمومی قرار دینا غلط ہے۔
اب جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس میں ابنیا اور اولیا کی تخصیص ہے تو اب علمائے اہل حدیث و دیوبند کا فتوی ملاحظہ کریں۔
طالب نور صاحب لکھتے ہیں
مگر یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ اگر انبیا کا نام لے کر یا خاص ان کی طرف ذلت کو منسوب کیا جائے تو یہ ان کی شدید گستاخی ہے۔
(ضرب حق دسمبر۲۰۱۱ص۲۰)
مولوی امین کہتا ہے
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تقویۃالایمان کی عبارت میں حضور ﷺکا نام ہے تو یہ عبارت گستاخانہ ہے۔(فتوحات صفدر ج۱ص ۶۰۱)
لہذا علماء وہابیہ کے فتاوی کی رو سے یہ عبارت گستاخانہ ہے۔
۲۔اب رہ گئیں وہ عبارات جو طالب صاحب نے پیش کیں تو انکا جواب خود انہوں نے ہی دے دیا
یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے عمومی الفاظ کو خصوصی معنی دے کر تو ہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
۲۔پھر یہ کہا گیا کہ شاہ صاحب کا مقصد اللہ کی قدرتوں کو بیان کرنا اور مخلوق کی عاجزی اور ضعف کو بیان کرنا ہے۔
جوابا عرض ہے جناب اللہ کی قدرت کاملہ کو بیان کرنے میں اعتراض نہیں ۔اعتراض توحید کی آڑ میں محبوبان خدا کی تو ہین پر ہے۔اسی بات کا رونا مفتی سعید نے رویا ہے کہتاہے دیوبندی مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ’’ہمارے ملک میں دیوبندیت کو ان نواصب کے علاوہ جس مسلک یا عقیدے نے بہت نقصان پہنچایا ہے ،وہ وہابیت ہے ۔ اسی کا اثر ہے کہ اب بیعت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔اس مسلک کے علماء بھی اب اول تو بیعت نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو ذکر اور سلوک کے اسباق کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔اولیاء اللہ کا توسل،اہل اللہ کا ادب،شعائر اللہ کا احترام اور چھوٹے بڑے کی تمیز اٹھ جانے کا ایک سبب وہ وہابیت کا اثر ہے ،جو ہمارے مدارش میں گھس آئی ہے۔
اور توحید کے نام پر طلباء،حضرات اولیاء کرام رحمہم اللہ کو گستاخ آمیز جملوں کا نشانہ بنانے لگے ہیں ۔
(دیوبندیت کی تطہیر ضروری ہے صفحہ14۔)
لہذا اللہ قدرت کاملہ کا بیان الگ چیز ہے اور محبوبان خدا کی گستاخی الگ چیز۔
پھر یہ کتاب انبیا او اولیا کی اہانت سے پر ہے۔جگہ جگہ ان کی توہین کی گئی ہے۔کبھی ان کو بے خبر اور نادان اور کبھی حضورﷺ کے بارے میں کہ آپ دہشت کے مارے بد حواس ہوگئے ۔کہیں لکھا کہ آپ مر کر مٹی میں مل گئے ۔اور کہیں لکھا کہ آپ کی تعظیم فقت بڑے بھائی کی کسی کرنی چاہیئے۔اور لطف یہ کہ خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے کہ اس کا لہجہ سخت ہے(اکمل البیان،ارواح ثلاثہ،امداد الفتاوی)
۳۔پھر جو آیات اور تفاسیر پیش کی گئیں انکا جواب یہ کہ وہاں عبد کی تشریح کی گئی ہے اور وہاں یہ بات ہے کہ جب بھی کوئی اللہ کہ سامنے کھڑا ہوتا ہے تو انتہائی تذلل کے ساتھ۔اپنے آپ کو رب العزت کے حضورعاجز و کمزور سمجھنا الگ بات ہے اور ذلیل ہونا الگ بات۔ یہ عاجزی و انکساری ہوتی ہے ۔اور اردو کے محاورات کو عربی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔دیکھواللہ نے حضورﷺ کے بارے میں کہا کہ وو جدک ضالا فہدی اب اس کا ترجمہ مولوی محمودالحسن کرتا ہے کہ اورپایا تجھ کو بھٹکتا اور راہ سجھائی اب کوئی دیوبندی اٹھ کر یہ کہنا شروع کردے کہ جی حضورﷺبھٹکے ہوئے تھے تو کیا آپ اس کی تائید کرو گئے؟؟
پھر جب آپ کے اصول کے مطابق یہ ثابت ہو گیا کہ یہ عبارت گستاخانہ ہے تو سارا دفاع بیکار ہوگیا۔
۴۔پھر گزارش ہے کہ مثال توضیح کے لئے دی جاتی ہے(خیرالفتاوی)۔جبکہ اسماعیل نے یہاں کوئی مثال نہیں دی بلکہ اس کو اعتقادی رنگ میں بیان کیا ہے۔جیسا کہ اس کی کتاب کا اسلوب ہے۔
۵۔رہ گئی یہ بات کہ ذلیل کا معنی کمزور ہے تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ خود تقویۃالایمان کا مصنف کہتا ہے کہ
یہ بات محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولئے اور اس سے کچھ اور معنی مراد لیجئے۔(تقویۃالایمان)
یعنی جو لفظ ظاہر بے ادبی ہو اس سے مراد بھی بے ادبی ہوتی ہے۔اور لفظ ذلیل کی نسبت انبیا کی طرف کرنا بے ادبی ہے(فتوحات صفدرملحضا)
پھر الشہاب الشاقب میں ہے
جو الفاظ موہم تحقیر سرورکائنات علیہ السلام ہوں اگرچہ کہنے والے نے نیت حقارت نہ کی ہو مگر ان سے بھی کہنے ولا کافر ہوجاتا ہے (الشہاب الشاقب ص۲۰۰)
جناب کیا سمجھے جن الفاظ سے تحقیر کا پہلو بھی نکلے وہ کفر ہوتے ہیں اورکہنے والا کافر ہوجاتا ہے۔
ایسے ہی مرتضی حسن کہتاہے
انبیاء کی تعظیم کرنی اور توہین نکرناضروریات دین میں سے ہے(الشد العذاب ص ۹)
اورانور کاشمیری صاحب لکھتے ہیں
ضروریات دین میں تاویل دافع کفر نہیں۔(اکفار الملحدین ص۹۰)
لہذا اس میں کوئی تاویل نہیں چلے گی۔
اسکے بعد حافظ صاحب نے اعلی حضرت کا شعر پیش کیا
واہ کیا مرتبہ ہے غوث بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
یہ شعر نقل کرنے کے بعد حافظ صاحب نے کہا کہ کوئی یہ کہے کہ اونچے سے مراد اولیااور اونے سے بھی اونچوں سے مراد انبیا ہیں؟تو گویا احمد رضا نے شیخ جیلانی کا رتبہ انبیا سے بڑھا دیا؟؟(یہی اعتراض طالب نور صاحب کا بھی ہے)
تو اس کا سادہ سا جواب یہ کہ یہاں عموم ہیں اور عموم میں انبیا کو استشناء حاصل ہے۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں
تو شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔
(تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴)
جب کہ دہلوی کی عبارت عمومی نہیں ۔جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے۔مزید ایک حوالہ حاضر ہے ۔مولوی عامر عثمانی لکھتا ہے
میں دیکھا شاہ اسماعیل شہیدنے تقویۃ الایمان میں فصل اول فی اجتناب عن الاشراک کے ذیل میں لکھاہے کہ
اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔یہ عبارت ہمارے نزدیک سو فیصد صحیح ہے لیکن کیا اس کا صاف اور بدیہی مطلب یہ نہیں کہ اولیا تو رہے ایک طرف تمام انبیا و رسل بھی اللہ کہ شان کے آگے چمار سے ذلیل ہیں۔کیسا خطرناک انداز بیان ہیں اور کتنے لرزا دینے والے الفاظ ہیں۔(تجلی مارچ ۱۹۷۸ص ۷۱)
۶۔پھر جو دو آیات طالب نور صاحب نے پیش کیں انکا جواب ہم خود انہی سے نقل کر چکے کہ
یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے عمومی الفاظ کو خصوصی معنی دے کر تو ہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے(ضرب حق ص ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱)
اس کے بعد دونوں حضرات نے ایک ملفوظ پیش کیا ۔جس کا پہلا جواب یہ کہ خود حافظ ساجد صاحب کے نزدیک ملفوظات حجت نہیں تو یہاں پر ملفوظات پیش کرنا کھلی ہوئی جہالت ،ضداور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے انحراف نہیں ہے تو اور کیا ہے؟؟؟پھر رہ گئی اصول تکفیر کی عبارت تو حضرت اگر آپ نے گھر کی کتابیں پڑھیں ہوتی تو یہ اعتراض نہ کرتے ۔سنیں خالد محمود صاحب لکھتے ہیں
ہر مخلوق کا لفظ اپنے عموم میں انبیا کوبھی شامل ہے لیکن اس قسم کے عام حکم میں انبیا اور اولیا ء کو صراحت کے ساتھ داخل کرنا بے ادبی ہے (شاہ اسماعیل ص ۱۲۴)
اور تیسری وہی بات کہ یہاں عموم ہے۔
(الزامی جوابات کا رد)
۱۔پہلا اعتراض اعلی حضرت کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت نے حضورﷺ کی طرف ذلت منسوب نہیں کی۔بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے۔باقی پیر نصیر جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں۔اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے۔
۲۔اس کے بعد طالب نور صاحب اور حافظ صاحب نے صوفیا کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا۔(فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸،راہ سنت ،فتاوی رشیدیہ)
۳۔رہ گیا تفاسیر کا حوالہ تو ہم پہلی بات اردو محاوارات کو عربی پر قیاس کرنا غلط ہے۔دیکھو آپ کو کوئی ولد الحرام کہے اور تاویل یہ کرے کہ جی عربی میں حرام معزز کو کہتے ہیں تو کیا آپ یہ تاویل قبول کریں گئے؟؟
۴۔رہ گیا اوراق غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا۔اور یہ (فازلھماالشیطن)سے اقتباس ہے لہذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے۔
تیسری گزارش کا مختصر جواب۔
عتراض نمبر ۱۔
اگر اسماعیل کا کلام گستاخانہ تھاتو اعلیحضرت نے اس کو کافر کیوں نہیں کہا؟اس کا مطلب کلام گستاخانہ نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قائل کا کفر ہونا اور بات اور کلام کا کفریہ ہونا اور بات اس پر ایک گوہی
مرتضٰی حسن لکھتا ہے
کلام کا کلمہ کفر ہونا اور بات ہے اور قائل کو کافر کہنا امر آخر(رسائل چاندی پوری)
اسی طرح اعلی حضرت نے اس کے کلام کو کفریہ کہا مگر اس کو کافر کہنے میں کف لسان کیا۔
اعتراض نمبر ۲۔اگر اسماعیل کا کلام گستاخانہ تھا تو وہ کافر اور احمد رضا نے اسکو کافر نہیں کہا لہذا خود کا فر ۔یا اسماعیل کو اور لوگوں نے کافر کہا اورامام احمد رضا نے نہیں کہا ۔لہذا یہ کافر ہو گئے۔
اس کا الزامی جواب یہ کہ اشرف علی کہتا ہے تقویۃالایمان کے الفاظ کا استعمال تو گستاخی ہے مگر تقویۃالایمان والے کو کچھ نہیں کہاجائے گا۔اب دیوبندی حضرات جو چاہیے کہ اشرف علی کی بھی تکفیر کریں۔
یہی تھانوی مجالس الحکمت میں کہتا ہے
اگر کوئی واقعی ہی کافر ہے اور ہم نے اس کو کافر نہیں کہا تو کیا حرج ہوا اس میں کیا نقصان ہے۔
اب ر ہ گیا یہ اعتراض کہ جی فضل حق خیر آبادی نے تکفیر کلامی کی اور اعلی حضرت نے نہی کی۔اس مفصل جواب تحقییق جمیل میں ملاحظہ کریں یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اشرف علی تھانوی ایک شعر کے بارے میں کہتا ہے کہ
مولاناا سماعیل نے اسی بنا پر عرفی کے اس شعر کی تغلیط کی ہے اورسنا ہے تکفیر بھی کی ہے آگے اسی شعر کی تاویل کر کے کہتا ہے
اس صورت میں تکفیر کی ضرورت نہیں۔(خطبات میلادالنبی ص ۳۳۷،۳۳۸)
بہر حال اس سے یہ ثبات ہوا کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اعلی حضرت کے اس قول کہ خود کافر کہے گئے نہیں اور کوئی اور کہے تو روکے گئے نہیں سے سارے اعتراض رد ہو جاتے ہیں۔حنیف قریشی صاحب کا تکفیر کرنا بھی اس مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے۔
پھر ہم نے اوپر وضاحت کر دی کہ تکفیر میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اعتراض نمبر ۳۔پہلے اس نے اس کو کافر کہا پھر مسلمان ۔لہذا اس لحاظ سے بھی یہ ہوگیا کافر۔
پہلی بات یہ نرا جھوٹ ہے کہ اعلی حضرت نے اسماعیل کو مسلمان کہا ہم ساجد اسماعیلی وھابی کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔کہ یہ دیکھا سے کہ اعلی حضرت نے کہا ہو کہ میرے نزدیک اسماعیل دہلوی مسلمان ہے۔
پھر اس کو مسلمان نہیں کہا البتہ تکفیر میں کف میں لسان کیا ۔اس کا الزامی جواب یہ کہ امام احمد بن حنبل نے یزید کو کافر کہا جب کہامام اعظم نے سکوت کیا ؟کیا امام اعظم پر بھی کفر کا فتوی لگاو گے۔مزید سنو فتاوی رشیدیہ میں ہے کہ
جو اسماعیل کو کافر کہتے ہیں وا بلا تاویل کہتے ہیں لہذا ان لوگوں کوکافر کہنا اور ان کے ساتھ معاملہ کفار کا سا کرنا نہ چاہیے(فتاوی رشیدیہ ج ۱ ص ۴)
آخری گزارش کاجواب۔
الموت الاحمر میں ا سی اعتراض کہ تم لوگوں کے نزدیک جب کفر صریح میں تاویل ممکن نہیں تو بعید احتمال کہاں سے آگیا کے جواب میں ہے
ان گالیوں کی محمد رسولااللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی انہیں ایذا پہنچی یہ بلا شبہ حق ہے۔حضورﷺ پر عرض اعمال کے تو دیوبندی بھی مقر ہیں جو کلمہ اپنے صاف صریح متبین معنی پر گستاخی دشنام ہو۔تو ضرور اسے گالی ہی کہا جائے گا اور موجب ایذا ہوگا ۔اگرچہ اپنے پہلو میں کوئی خفی بعید احتمال عدم دشنام رکھتا ہو مگر متعین ہر گز نہ ہوگاجب تک ہر ضعیف سا ضعیف بعید سا بعید احتمال بھی متنفی نہ وہجائے۔یہ عدم تعین اس احتمال پر کہ شائد مراد قائل بعید و پہلوئے ابعدہو،صرف بطور متکلمین مقام احتیاط میں اسے کفر سے بچائے گا،اس کے ارادہ پر ہم کو جزم نہ دے گا نہ یہ کہ وہ گالی نہ رہے ایذا نہ رہے۔بھلا اگر کوئی یہ لفظ دہلوی یا تھانوی صاحبانکو کہے کیا یہ اسے اچھا جان سکتے ہیں۔(ص ۲۲۔۲۳)
اب دیکھیں عبد الماجد دریاباری لکھتا ہے کہ
میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے بھی ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے۔(حکیم الامت ص ۲۵۹)
اوئے جب قادیانیوں کے کفر صریح میں تاویل ہوسکتی ہے تو اسماعیل دہلوی کے کفریات میں بھی بعید سا (فاسد)پہلو نقل سکتا ہے۔اور اب یہاں پر لگاو اپنا فتوی کہ جی ایک معنی اسلام کا ہو تو عبارت اسلامی ۔اب کہہ دو کہ قادیانی مسلما ن ہے۔بلکہ تعجب ہے جن لوگوں مرزا قادیانی تک کو مرد صالح کہا ہے وہ اعلی حضرت پر اعتراضات کرتے ہیں۔
مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے
حضرت والا کا یہ عمل سلف کے موافق ہے کہ انہوں نے معتزلہ تک کو کافر کہنے میں احتیاط کی ہے ۔اگر چہ ان کے عقائد صریح کفر کے ہیں لیکن سلف نے احتیاطا یہ اصول رکھا کہ لا نکفر اہل القبلہ اور ان کے معاملہ کو اللہ کے سپرد رکھا اور ان اقوال کے لیے ایک کلی تاویل کر لی کہ متمسک اپنا وہ بھی قرآن و حدیث کو ہی کہتے ہیں۔گو تمسک میں غلطی کرتے ہیں۔تو کفر انکا لزومی ہو انہ کہ کفر صریح (ملفوظات حکیم الا مت ج ۲۹ص ۲۲۷)۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ صریح کفر میں بھی تاویل ہوسکتی ہے۔
پھر مفتی عزیز الرحمٰن دیوبندی کہتا ہے
مرزا قادیانی کے عقائدو خیالات باطلہ اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ ان سے واقف ہو کر کوئی مسلمان مرزا کو مسلمان نہیں کہہ سکتاالبتہ جس کو علم اس کے عقائد باطلہ کا نہ ہو یا تاویل کرے وہ کافر نہ کہیں تو ممکن ہے۔جو شخص بہ سبب کسی شبہ یا تاویل کے کافر نہ کہے تو اس کو بھی کافر نہ کہا جاوے(فتاوی دورالعلوم دیوبندج۱ ص ۱۰۱)لے جی اگر تاویل کے ساتھ قادیانی کو کا فر نہ کہا جائے تو اس پر بھی فتوی کفر نہیں لگتا ۔ اب جو اسماعیل کو نہ کہے اس پر کیسے لگے گا۔ہمارا مشورہ ہے پہلے گھر کی کتابیں پڑ ھ لو پھر ہم پراعتراض کرنا۔
آخر میں گزارش ہے کہ کلمہ نبی کا پڑھنا ہے مولوی کا نہیں خدار ہٹ دھرمی کو چھوڑو اور ان کفریہ عقیدوں سے تو بہ کرو۔
محجے کسی بھی اہل حدیث کا حوالہ نظر نہیں آیاجناب وہ ہمارے نہیں آپ کے بھائی دونوں کا مخرج ایک ہے پھر حوالے مکس ہیں۔