- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
تلاوتِ قرآن کا نبوی طریقہ
جناب حافظ حسن مدنی
[آدابِ تلاوت میں چالیس احادیثِ مبارکہ]
اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو سید المرسلین اور خاتم النّبیین کے طورپر مبعوث فرمایا ۔ اور اُنہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک دائمی معجزہ عنایت کیا۔قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللّٰہ تعالیٰ نے لی اور نبی مکرمﷺکے فرائض میں قرآنی آیات کو پڑھ کر سنانا، لوگوں کا تزکیۂ نفس کرنا، اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا شامل کئے،جو اس مشہور آیت میں بیان ہوئے ہیں:
﴿قَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿١٦٤﴾[1]
’’جن لوگوں کو ہم نے کتا ب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہی لوگ اس پر ایمان لانے والے ہیں۔‘‘
یعنی ایمان کے تقاضوں اور حقوقِ قرآن میں سے ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ، اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور یہ تلاوت نبی کریم ﷺ کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت بذات خود بہت بڑی نیکی ہے، جیساکہ ارشادِ نبوی ہے:
«مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ»[3]
’’جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہیں، اور ایک نیکی 10 گنا کے برابر ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الـم ایک حرف ہے۔ لیکن الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘
نبی ﷺنے ایسےحروفِ مقطعات کی مثال بیان کی جس کا مفہوم واضح نہیں ہے، اس مثال میں ایسے لوگوں کا رد ّہے جو کہتے ہیں کہ ترجمے کے بغیر قرآنِ مجید پڑھنے کا کچھ فائدہ ؍ثواب نہیں ہے۔
«مَنِ اسْتَمَعَ إلىٰ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالىٰ كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، ومَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ»[4]
’’جس نے کتاب اللّٰہ کی ایک آیت سنی، اس کے لیے دوہری نیکی لکھی جاتی ہے، اور جس نے اسے تلاوت کیا، وہ تلاوت روز قیامت اس کے لیے باعثِ نور ہوگی۔‘‘
قرآن كریم کی تلاوت کی مہارت کا کیا ثواب ہے اور دوسری طرف اس میں مشقت برداشت کرنے کا کیا اجرہے؟ اس فرمانِ نبوی میں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْـمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ»[5]
’’ قرآن کریم کے ماہر کا انجام مقرب ومعزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ او رجو قرآن پڑھتے ہوئے اَٹکتا ہے، اور روانی سے اچھی تلاوت نہیں کرسکتا، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (ایک تلاوت کا اور دوسرا اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کا)
جس طرح ہر کام کے لیے نبی کریم ﷺکا اُسوہ حسنہ ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اسی طرح تلاوتِ قرآن کے مبارک، مسنون اور نیک عمل کے لیے بھی آپﷺکے طریقہ سے رہنمائی لینا چاہیے، اس سلسلے میں بعض تفصیلات نبی کریمﷺ کے ارشادات (قولی حدیث) سے معلوم ہوتی ہیں اور کچھ آپ کے عمل (فعلی حدیث) سے۔
ذیل میں کتبِ احادیث سے ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:
1. قرآنِ کریم کی تلاوت سوز اور رقت کے ساتھ کرنی چاہیے اور اسے تلاوت کی سب سے بہترین خوبی قرار دیا گیا ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے:
«إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ، الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ، حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى الله»[6]
2. آپﷺ بذاتِ خود قرآن کریم کی تلاوت بے حد سوز اور خشوع کے ساتھ فرمایا کرتے، سیدنا جبیر بن معطم راوی ہیں کہ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْـمَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ :﴿أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَىءٍ أَم هُمُ الخـٰلِقونَ ﴿٣٥﴾ أَم خَلَقُوا السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ بَل لا يوقِنونَ ﴿٣٦﴾ أَم عِندَهُم خَزائِنُ رَبِّكَ أَم هُمُ المُصَۣيطِرونَ ﴿٣٧﴾قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ[7]
’’میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ نماز مغرب میں سورۃ الطّور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب آپ ان آیات پر پہنچے تو [شدتِ تاثیر سے] مجھے لگا کہ میری روح پرواز کرجائے گی۔‘‘
3. قرآنِ کریم کی تلاوت کی یہ تاثیر اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے:
﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ﴾[8]
’’اللّٰہ تعالیٰ نے بہترین کتاب نازل کی، جس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ اللّٰہ کی خشیت رکھنے والوں کے دل اس سے کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور دل اللّٰہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔‘‘
قَالَ رَسُولُ اللّه ﷺ: «اقْرَأْ عَلَيَّ» قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ: «إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي» قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: ﴿فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًاؕؐ﴾ [النساء:41] قَالَ لِي: «كُفَّ - أَوْ أَمْسِكْ -» فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ[9]
’’مجھے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن کی تلاوت سناؤ۔ میں نے کہا : میں آپ کو کیسے قرآن سناؤں ، حالانکہ آپ پر تو قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ آپﷺ کہنے لگے: میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے تلاوت سنوں۔ سو میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی، حتی کہ جب میں اس آیت پرپہنچا کہ وہ کیسا وقت ہوگا جب ہم ہر اُمّت سے گواہ بلائیں گے، اور آپﷺ کو ان تما م لوگوں پرگواہ بنائیں گے تو آپ کہنے لگے: بس بس، رک جاؤ۔ میں نے دیکھا ،آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘
5. قرآن پڑھتے ہوئے اگر خشیت نہ بھی طاری ہوتو ارشادِ نبوی ؐہے کہ رونے کی سی شکل بنا لی جائے اور تلاوت میں رِقت آمیز لہجہ اختیار کیا جائے، عبد الرحمن بن سائب سے مروی ہے:
قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا، وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا»[10]
’’سعد بن ابی وقاص ہمارے ہاں آئے جبکہ آپ کی بصارت ختم ہوچکی تھی۔ میں نے انہیں سلام کہا تو پوچھنےلگے: کون؟ میں نے تعارف کرایا، بولے: بھانجے خوش آمدید، مجھے پتہ چلا ہے کہ تم قرآن بڑی خوبصورت آواز میں تلاوت کرتے ہو، میں نے اللّٰہ کے رسول ﷺ کو فرماتےسنا تھا کہ یہ قرآن پرغم کی کیفیت غالب ہے، جب تم اسے پڑھو تو رویا کرو۔ اگر رو نہ پاؤ تو رونے کی صورت بنا لیا کرو۔ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو، کیونکہ جو اسے خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔‘‘
6. اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو فکر وتدبر اور تذکیر ونصیحت کے لیے نازل کیا ہے، اور نبی کریمﷺ کی تلاوت بھی ان تقاضوں کے مطابق ہوتی تھی، قرآنِ کریم میں ہے :
’’یہ کتاب ہم نے آپ پر اُتاری ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تدبر کریں، اور باشعور لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
7. نبی کریمﷺ آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کے معانی میں غور کرکے، اُس کے مطابق عمل کیا کرتے، سیدنا حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ
قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ، فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ»، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ»، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى»، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِهِ. [12]
’’میں نے ایک رات نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورۃ البقرۃ سے آغاز کیا۔ میں نے سوچا کہ آپ سو آیات پڑھ کر رکوع کرلیں گے، آپ کی تلاوت جاری رہی۔میں نے سوچا کہ اس سورۃ کو ایک رکعت میں ختم کرلیں گے۔ آپ کی تلاوت جاری رہی، پھر آپ نے سورۃ النساء کا آغاز کردیا، اس کو پڑھا، پھر سورۃ آل عمران کا آغاز کردیا، اس کوبھی پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے۔ جب بھی کسی تسبیح والی آیت سے گزرتے تو اللّٰہ کی تسبیح بیان کرتے، جب بھی کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللّٰہ سے مانگتے، اور جب بھی کسی پناہ والی آیت پر پہنچتے تو اللّٰہ سے پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا۔آپ کا رکوع آپ کے قیام کے برابر ہی طویل تھا، پھر سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہا جو رکوع کے برابر لمبا تھا، پھر سجدہ کیا اور سبحان ربی الاعلیٰ کہا، آپ کے سجدے بھی قیام کے بقدر لمبے تھے۔‘‘
8. سیدنا عوف بن مالک سے مروی ہے کہ
كُنْتُ مَعَ رَسُولِ الله ﷺ لَيْلَةً فَاسْتَاكَ ثُمَّ تَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ مَعَهُ فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ الْبَقَرَةَ فَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ، وَيَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْـمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ، وَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً سُورَةً يَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ[13]
’’میں رسو ل اللّٰہ ﷺکے پاس ایک رات موجود تھا۔ آپ نے مسواک کرکے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آ پ نے سورۃ البقرۃ سے آغاز کیا۔ آپ کسی آیتِ رحمت سے نہ گزرتے مگر وہاں رک کر اللّٰہ کی رحمت کا سوال کرتے۔ اور کسی آیت عذاب سے نہ گزرتے مگر رک کر اللّٰہ عزوجل سے پناہ مانگتے۔پھر رکوع کیا تو اس میں قیام کے بقدر موجود رہےاور اپنے رکوع میں یہ دعا ... پڑھتے۔ پھر سجدہ کیا تو اس میں رکوع کے بقدر وقفہ کیا اور سجدوں میں یہ دعا «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْـمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ»پڑھتے۔ پھر آپ نے [اگلے قیام میں ]سورۃ آلِ عمران کی تلاوت کی، پھر کوئی اور سورت، پھر کوئی اور... اور ہر سورۃ میں ایسے ہی کرتے۔‘‘
9. آپ ﷺ نماز میں آیات کے معانی پر غور کرتے ہوئے آیات کو دہرایا کرتے، جیساکہ ابوذرّ غفاری سے مروی ہے :
«قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ يُرَدِّدُهَا» وَالْآيَةُ: ﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾[14]
’’ایک رات نبی ﷺ نے قیام کیا، تو ساری رات گزر گئی اور اسی آیتِ کریمہ کو آپ دہراتے رہے کہ ’’یاالٰہی! یہ تیرے ہی بندے ہیں، اگر تو انہیں معاف کردے تو تو غالب ودانا ہے۔‘‘
10. آپ قرآنی آیات میں غور وفکر فرمایا کرتے، اور تلاوتِ قرآن کے دوران بہت زیادہ رویا کرتے، جیساکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں :
لَمَّا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي قَالَ: «يَا عَائِشَةُ! ذَرِينِي أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّي». قُلْتُ: وَالله إِنِّي لَأُحِبُّ قُرْبَكَ وَأُحِبُّ مَا سَرَّكَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ حِجْرُهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ لِحْيَتَهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ الْأَرْضُ. فَجَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ. فَلَمَّا رَآهُ يَبْكِي. قَالَ يَا رَسُولَ الله! لِمَ تَبْكِي وَقَدْ غَفَرَ الله لَكَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ. قَالَ: «أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ آيَةٌ وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَكَّرْ فِيهَا: ﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ﴾ الآية كلها»[15]
’’راتوں میں سے ایک رات نبی کریم ﷺ کہنے لگے: یا عائشہ! مجھے چھوڑ دو میں اس رات اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: واللّٰہ ! مجھے آپ کی قربت بڑی عزیز ہے لیکن آپ کی خوشی بھی مجھے محبوب ہے۔ کہتی ہیں کہ آپ کھڑے ہوگئے اور وضو کیا۔کہتی ہیں کہ نماز میں روتے رہے حتی کہ آپ کی گود تر ہوگئی۔پھر کہتی ہیں کہ روتے رہے حتی کہ ڈاڑھی مبارک بھی بھیگ گئی۔ پھر روتے رہے اور اتنا روئےحتی کہ زمین بھی گیلی ہوگئی۔ پھر بلال آگئے ، نماز کی اطلاع دینے کے لیے۔ جب انہیں روتے دیکھا تو کہا: یارسول اللّٰہ ! آپ کیوں روتے ہیں؟ اللّٰہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے ہیں۔ تو جواب دیا: میں اللّٰہ کا شکرگزار بندہ کیوں نہ بنوں، آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ، افسوس اس پر جو اس کو پڑھے لیکن اس میں غور وفکر نہ کرے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
[1] سورۃ آلِ عمران: 164
[2] سورة البقرة: 121
[3] جامع ترمذی: 2910
[4] مسند احمد: رقم8475۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔( ضعیف الجامع: 5408)
[5] صحیح مسلم:رقم244
[6] سنن ابن ماجہ 1339، تحقیق محمد فواد عبد الباقی، طبع دار احیاء کتب العربیۃ، قال الالبانی : صحیح... محدثِ شام شيخ شعيب ارناؤوط نے ا س حدیث کی جمیع اسناد ذکر کرکے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ مزید تحقیق حدیث کے لیے دیکھیں: اخلاق حملۃ القرآن از آجری
[7] صحيح بخاری:رقم4854
[8] سورة الزمر: 23
[9] صحيح بخاری:6؍197، رقم 5055
[10] سنن ابن ماجہ:رقم 1337، تحقیق:شیخ شعیب ارناؤوط (2؍361)... یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے اور اکثر میں ضعف پایا جاتا ہے، تاہم کثرتِ طرق کی بنا پر یہ احادیث مقبول درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔
[11] سورة ص: 29
[12] صحيح مسلم : 1؍ 536،رقم 203
[13] الشمائل المحمديةاز امام ترمذی،ص: 256، رقم 314،طبع المكتبة التجارية
[14] سورۃ المائدة: 118... سنن ابن ماجہ:1؍429، رقم1350،قال الألبانی:حسن
[15] آل عمران: 190صحيح ابن حبان ،محقق:2؍ 387،رقم 620 ۔شیخ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ إسناده صحيح علىٰ شرط مسلم، وأخرجه أبو الشيخ في "أخلاق النبي" ص 186 عن الفريابي، عن عثمان بن أبي شيبة، بهذا الإسناد. وله طريق أخرى عن عطاء عند أبي الشيخ ص 190، 191 وفيه أبو جناب الكلبي يحيى بن أبي حية، ضعفوه لكثرة تدليسهن لكن صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه