محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ۱۴۰ۙ وَلِيُمَحِّصَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ۱۴۱ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۱۴۲
۱؎ ان آیات میں بزدل مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ جیسے چوٹیں تم نے کھائی ہیں، ویسے ہی تمھارے دشمن بھی زخمی ہوئے ہیں اور یہ عارضی غلبہ جو کفار کو ہوگیا ہے ، اس لیے ہے تاکہ مخلصین کا امتحان ہوجائے ۔اگرتم نے(جنگ احد) میں زخم کھایا تو وہ قوم (کفارمکہ) بھی ایسا ہی زخم کھاچکی ہے (جنگ بدر میں) اور یہ ایام ہیں جن کو ہم آدمیوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔۱؎ اس لیے کہ خدا کو ایمان دار لوگ معلوم ہوجائیں اور اس لیے کہ بعض کو تم میں سے گواہ پکڑے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ (۱۴۰) اور اس لیے کہ ایمان داروں کو اللہ خالص کرے اورکافروں کو مٹادے۔(۱۴۱) کیا تمھیں یہ خیال ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے، حالانکہ ابھی توخدانے ان لوگوں کوظاہرہی نہیں کیا جو تم میں جہاد کرنے والے ہیں اور نہ ہی ان کو ظاہر کیا جو صبر کرنے والے ہیں۔(۱۴۲)
سے مراد یہ نہیں کہ غلبہ کبھی تمھیں میسر ہوتا ہے اور کبھی کفار کو بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ تکلیف کے دن اور آزمائش کی گھڑیاں سب کے لیے یکساں ہیں۔ مومن کے لیے ابتلا ہے اور کافر کے لیے عذاب ورنہ اصل نصرت وفتح صرف مسلمانوں کے لیے مختص ہے۔تِلْکَ الْایَّامٌ نُدَا وِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ
{خَلَتْ} خلایۃ کے معنی ہوتے ہیں۔ وہ خلوت میں اس سے ملا { رَجُلٌخلی} بے کار آدمی کو کہتے ہیں۔ خلا کے معنی ہیں ہوگزرا۔ مجازاً اس کا اطلاق موت پر بھی ہوتاہے۔ {سُنَنٌ}طریق۔راستے۔حل لغات