• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام رسولوں کا پیغام ! ایک اللہ کی عبادت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
لوگوں کو رسولوں کی ضرورت !!!


الحمد للہ :

انبیاء اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کی طرف پیغمبر ہیں جو کہ انہیں اللہ تعالی کے احکام پہنچاتے اور اللہ تعالی نے ان کے لۓ جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں اگر وہ اس کی اطاعت کریں گے تو انہیں ان نعمتوں کی خوشخبری دیتے اور نافرمانی کرنے کی صورت میں ہمیشگی والے عذاب سے ڈراتے اور پہلی امتوں کو اللہ تعالی کی مخالفت کے سبب سے ان پر دنیا میں جو عذاب نازل ہوا اور سزا دی گئ اس کے قصے اور خبریں سناتے ہیں ۔

اللہ تعالی کے یہ احکام اور منہیات عقل کے لۓ ممکن نہیں کہ وہ اکیلی ہی ان کی معرفت کر سکے تو اسی کے لۓ اللہ تعالی نے شریعت بنائی اور اوامر اور نواہی کو فرض کیا تا کہ بنی نوع انسان کی عزت وتکریم اور اسے شرف دینے اور ان کی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے لۓ یہ سب کچھ کیا کیونکہ لوگ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہوئے اللہ تعالی کی محرمات کے توڑنے کا ارتکاب کرتے اور لوگوں پر زیادتی کرتے ہوئے ان کے حقوق سلب کرتے ، تو اللہ تعالی کی یہ حکمت بالغہ تھی کہ وقتا فوقتا ان میں رسول مبعوث ہوتے رہے جو کہ انہیں اللہ تعالی کے اوامر کی یاد دہانی کراتے اور انہیں معصیت میں پڑنے سے ڈراتے رہے اور ان پر نصیحت کی تلاوت کرتے اور انہیں پہلے لوگوں کی خبریں یاد دلاتے رہے-

کیونکہ عجیب خبریں جب کانوں میں پڑتی اور غریب قسم کے معانی ذہنوں کو جگاتے ہیں تو پھر عقلیں ان سے اخذ کرتی ہیں تو ان کا علم زیادہ اور سمجھ صحیح ہو جاتی ہے اور جو لوگ زیادہ سنتے ہیں وہ زیادہ تدبیر کے مالک ہوتے ہیں اور جو زیادہ تدبیر والے ہوں ان کی سوچ زیادہ ہوتی ہے جو زیادہ سوچ وبچار والے ہوں ان کا علم زیادہ ہوتا ہے تو جو زیادہ علم والے ہوں تو ان کا عمل بھی زیادہ ہوتا ہے تو رسولوں کی بعثت کا کوئی بدل اور نہ ہی اس میں کوئی تعدیل پائی جا سکتی ہے –

اعلام النبوہ : تالیف : علی بن محمد الماوردی ، صفحہ نمبر 33

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ - احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام ، جو کہ ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں ان کی پیدائش 661 ہجری اور وفات 728 ہجری میں ہوئی ان کا شمار کبار علماء اسلام میں ہوتا ہے اور ان کی بہت سی تصنیفات ہیں – ان کا قول ہے کہ :

بندے کی معیشت اور اس کی آخرت کی اصلاح کے لۓ رسالت بہت ضروری ہے تو جیسے اس کی آخرت کی اصلاح رسالت کی اتباع کے بغیر نہیں ہو سکتی ایسے ہی اس کی دنیا اور معیشت کی اصلاح رسالت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں تو انسان شریعت کا مضطر ہے کیونکہ یہ دو حرکتوں کے درمیان ہے- ایسی حرکت جو اس کے نفع اور نقصان کو کھینچ لاتی ہے تو یہ زمین میں اللہ تعالی کا نور اور اس کا اپنے بندوں کے درمیان عدل اور وہ قلعہ ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوا وہ امن میں رہے گا –

شریعت سے یہ مراد نہیں کہ اس سے نفع اور نقصان کے درمیان حسی طور پر تمییز ہوتی ہے کیونکہ یہ تو حیوانات اور جانوروں کو بھی حاصل ہے تو گدھا اور اونٹ جو اور مٹی کے درمیان تمییز اور فرق کر سکتے ہیں بلکہ ان افعال کے درمیان تمییز جو کہ انہیں زندگی اور آخرت میں نفع اور نقصان دہ ہیں تو وہ افعال جو کہ اسے زندگی اور آخرت میں نفع مند ہیں مثلا ایمان اور توحید اور عدل وانصاف اور نیکی اور احسان اور امانت وعفت اور شجاعت وبہادری اور علم وصبر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور والدین سے نیکی اور پڑوسیوں سے احسان اور ان کے حقوق ادا کرنے اور اللہ تعالی کے لۓ عمل میں اخلاص اور اسی پر توکل اور اسی سے مدد طلب کرنا اور اس کی تقدیر پر راضی ہونا اور اس کے حکم کو تسلیم ، اور اس کی اور اس کے رسولوں کی ہر اس چیز میں تصدیق کرنا جو انہوں نے بتایا ہے اس کے علاوہ جس میں بندے کو اس کی دنیا وآخرت میں نفع ہے اور اس کی مخالف چیزوں میں بندے کی دنیا وآخرت میں اس کی بدبختی اور نقصان ہے ۔

اگر رسالت نہ ہوتی تو عقل معاش میں نفع اور نقصان کی تفصیل کو نہیں پہنچ سکتی تھی تو اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت اور احسان یہ ہے اس نے ان کی طرف اپنے رسول بھیجے اور ان پر اپنی کتابوں کو نازل فرمایا اور ان کے لۓ صراط مستقیم کو بیان کیا، تو اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو وہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی برے حال میں ہوتے تو جو شخص اللہ تعالی کی رسالت کو مانتا ہے اور قبول کرنے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرتا ہے وہ بہترین مخلوق ہے اور جو اسے رد کر دے اور اس سے نکل جائے تو وہ بدترین مخلوق اور اس کی حالت کتے اور خنزیر سے بھی بری اور حقیر سے حقیر تر ہے اہل زمین کے لۓ ان میں رسالت کے موجودہ آثار کے سوا بقا ہی نہیں اور جب زمین سے آثار رسالت مٹ جائیں اور انہیں ہدایت دکھانے والے نشانات ختم ہو جائیں تو اللہ تعالی اوپر والے اور نچلے عالم کو خراب کر کے قیامت قائم کر دے گا ۔

اہل زمین کو رسولوں کی ضرورت اس طرح نہیں کہ جس طرح انہیں سورج چاند اور بارش وہوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس طرح کی ضرورت کہ جس طرح انسان کو زندگی کی ضرورت ہے اور نہ ہی آنکھ کے لۓ روشنی کی اور جسم کی کھانے پینے کی ضرورت کی طرح بلکہ جو کہ کسی کے ذہن میں آسکتا اور کوئی اندازہ لگانے سے بھی اس کی زیادہ سخت ضرورت ہے ۔

رسول علیہم السلام اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان اس کے نواہی اور اوامر میں واسطے اور اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان سفیر ہیں تو ان سب میں خاتم الرسل اور انبیاء جو کہ ان کے سردار اپنے رب کے عزیز ترین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں اللہ تعالی نے رحمۃ العالمین اور سالکین اور ساری مخلوق کے لۓ حجت بنا کر مبعوث کیا اور بندوں پر ان کی محبت توقیر اور ان کی اطاعت واتباع اور ان کی مدد اور ان کے حقوق ادا کرنا فرض قرار دیا ۔

سب انبیاء ورسل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی اتباع کرنے کا عہد و میثاق اور وعدے لۓ اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اتباع کرنے والے مومنوں سے بھی یہ وعدہ لیں اللہ تعالی نے انہیں قیامت سے پہلے خوشخبری دینے اور ڑرانے والا اور اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ، تو ان کے ساتھ رسالت کو ختم کیا اور گمراہی سے ہدایت دی نیز جہالت سے علم سکھایا اور ان کی رسالت کے ساتھ اندھوں کی آنکھیں اور بہروں کے کان کھولے اور دلوں کو پردوں سے نکالا تو اس رسالت سے اندھیری زمین روشن ہو گئ اور اختلاف میں پڑے ہوئے دل آپس میں مل گۓ اور ٹیڑھی ملت کو سیدھا کر دیا اور سفید راہ کو واضح کر دیا اس رسالت کے لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کھول دیا اور ان سے بوجھ ختم کیا اور ان کا ذکر بلند کر دیا تو جو بھی ان کی مخالفت کرے گا اسے ذلیل ورسوا کر دیا انہیں اس وقت مبعوث کیا جب کہ رسولوں کے درمیان وقفہ پڑ چکا اور کتابیں پرانی ہو چکی اور کلمات میں تحریف کی جا چکی اور شریعتوں کو بدلا جا چکا اور ہر قوم اپنی غلط رائے پر عمل کر رہی اور اپنے فرسودہ نظاموں اور اپنی خواہشات کے ساتھ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان فیصلہ کر رہے تھے۔

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخلوق کو ہدایت نصیب، اور راہوں کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو اندھیرے سے نور کی طرف نکالا اور فاسقوں فاجروں اور کامیاب لوگوں کے درمیان تمییز اور فرق کیا تو جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنایا وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جو بھی ان کے راستے سے ادھر ادھر ہٹا وہ گمراہ ہوا اور سرکشی کی، اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سب رسولوں اور نبیوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے –

قاعدہ فی جوب الاعتصام بالرسالۃ : تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

مجموع الفتاوی جلد نمبر 19 صفحہ نمبر 99 – 102

اور لوامع الانوار البھیۃ جلد 2 صفحہ 216 – 236 بھی دیکھیں-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
انسان کو رسالت کی ضرورت :

اس کر تلخیص مندرجہ ذیل نقاط میں بیان کرنا ممکن ہے :

1- انسان ایک مخلوق اور غلام ہے تو ضروری ہے کہ اپنے خالق کو پہچانے اور یہ جانے وہ خالق اس سے کیا چاہتا اور اسے کس لۓ پیدا کیا ہے تو یہ سب کچھ انسان خود نہیں جان سکتا جب تک وہ انبیاء ورسل کو نہ پہچانے اور اس ہدایت ونور کو جسے وہ لے کر آۓ پہچانے بغیر ممکن نہیں –

2- بیشک انسان جسم اور روح سے مل کر بنا ہے اور جسم کی غذا جو بھی کھانا پینا میسر ہو اور روح کی غذا اس نے مقرر کی جس نے اسے پیدا فرمایا اور وہ دین صحیح ہے عمل صالح ہے انبیاء ورسل دین صحیح لا‎ۓ ہیں اور انہوں نے ہی عمل صالح کی راہ دکھائی ہے –

3- انسان فطرتی طور پر ہی دین دار ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا دین ہو جسے اختیار کرے اور پھر اس دین کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے تو صحیح دین تک پہنچنے کے لۓ انبیاء ورسل اور اس چیز پر جو کہ وہ لاۓ ہیں ایمان لانا ضروری ہے–

4- بیشک انسان ایسے راہ کا محتاج ہے جو کہ اسے دنیا میں اللہ تعالی کی رضا مندی اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچاۓ تو اس راہ کو بتانے اور دکھانے والا انبیاء اور رسل کے علاوہ کوئی نہیں –

5- یقینی طور پر انسان فی نفسہ کمزور اور اس کے دشمن بہت زیادہ ہیں جو کہ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہیں تو شیطان اسے گمراہ کرنے کے چکروں میں اور کہیں اس کے رفقاء اسے گندی اور قبیح چیزیں مزین کر کے دکھانے کے چکروں میں ہیں اور ایسے ہی نفس امارہ بھی اس کا دشمن ہے تو اس لۓ انسان کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو کہ اسے دشمن کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے ، تو انبیاء ورسل ہی ہیں جنہوں نے اسے اچھی طرح بیان کیا اور وضاحت کی اور اس کی راہ دکھائی ہے –

6- انسان طبعی طور پر مہذب اور شہری ہے تو اس کا مخلوق کے ساتھ جمع ہونے اور بودوباش اختیار کرنے کے لۓ ضروری ہے کہ کوئی ایسی شرع اور قانون ہو جس کے ساتھ لوگ عدل وانصاف قائم کریں وگرنہ ان کی زندگی تو وحشیوں اور جنگلیوں کے مشابہ ہو گی – تو اس شرع اور قانون کے لیےضروری ہے کہ وہ ہر حقدار کے حق کو افراط وتفریط کے بغیر محفوظ رکھے تو ایسی مکمل شرع اور قانون سواۓ انبیاء اور رسولوں کے کوئی اور نہیں لا سکتا–

7- یقینی طور پر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ اسے امن اور اطمینان نفس ہو اور اسے حقیقی سعادت کے اسباب کی راہ دکھائی جائے تو انبیاء اور رسول اسی کا راہ دکھاتے ہیں – .

ڈاکٹر محمد بن عبداللہ صالح السحیم کی کتاب : الاسلام اصولہ ومبادہ سے لیا گیا ہے

http://islamqa.info/ur/13957
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
تمام انبیاء اور رسل کی بعثت کا مقصد:

"تمام رسولوں کی دعوت کا محوراور خلاصہ توحیدِ الوہیت ہی ہے ، حقیقت میں یوں کہیں کہ یہ مقصدِ بعثت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ ''میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہذا صرف میری ہی عبادت کرو

[الأنبياء: 25]"
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 09-جمادی ثانیہ-1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان:

" فضائل ِتوحید، واہل توحید"

ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کتاب وسنت کے مطابق فضائل ِ توحید بیان کئےکہ یہ اللہ کی بہت بڑی کرم نوازی ہے جسے چاہے عنائت کرتا ہے، اس نعمت کا شکر ادا کرنے کیلئے لوگوں کو عقیدہ توحید کی دعوت دینا ضروری ہے، جبکہ مرتے دم تک اس پر قائم رہنے کیلئے اللہ سے استقامت طلب کرناایک اچھا ذریعہ ہے۔

پہلا خطبہ:

یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی اور بُرے اعمال کے شرسے اسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام بھیجے۔

حمد اور درود و سلام کے بعد!

اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اللہ کا ڈر راہِ ہدایت ہے اور اس سے رو گردانی بد بختی کا راستہ ہے۔

مسلمانو!

اللہ سبحانہ و تعالی یکتا و منفرد ہے، اللہ کی ذات بے نظیر ہے ، اُس نے اپنی ذات کو کسی بھی شریک، ہم پلہ سے پاک رکھا ہے، جبکہ اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اُسی کی عبادت کریں ، اسی لئے مختلف عبادات ان کیلئے مقرر کیں، توحیدِ الوہیت کو اللہ تعالی نے دین کی بنیاد اور سب سے پہلا رکن قرار دیا، یہ ہی تمام عبادات کا نچوڑ ہے، اسی لئے اس کے بِنا نیکی قبول ہی نہیں کی جاتی، جبکہ توحیدِ الوہیت کی موجودگی میں تھوڑے سے عمل کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، نیک اعمال چاہے پہاڑوں کے برابر ہوں توحیدِ الوہیت کے بغیر بالکل غارت ہونگے۔

تمام رسولوں کی دعوت کا محوراور خلاصہ توحیدِ الوہیت ہی ہے ، حقیقت میں یوں کہیں کہ یہ مقصدِ بعثت ہے-

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ ''میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہذا صرف میری ہی عبادت کرو
[الأنبياء: 25]

قرآنِ مجید کی ہر آیت کا موضوع صراحۃً یا اشارۃً توحید ہی ہے، کہیں توحید کےلازم و ملزوم مسائل کا بیان ہے ، تو کہیں اس پر ملنے والے ثواب، تو کہیں مخالفت پر ملنے والے عذاب کا تذکرہ ہے، مزید برآں کہ قرآنِ مجید میں سب سے پہلا حکم بھی اسی کا دیا گیا ہے-

فرمانِ باری تعالی ہے:

يَ
ا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ

اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے
[البقرة: 21]؛

یعنی، اس کو ایک ہی مانو۔

جبکہ ہر نماز میں تمام مسلمان
إِيَّاكَ نَعْبُدُ [الفاتحة: 5] کہتے ہوئے اللہ تعالی کے ساتھ اس بات پر معاہدہ بھی کرتے ہیں، یعنی : اے اللہ ! تیرے سوا کسی کی بھی عبادت نہیں کرینگے، اور وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تجھ ہی سے مدد مانگے گیں۔

توحید اللہ کا بندوں پر حق ہے، اور یہ ہی سب سے پہلی مطلوب عبادت ہے-

معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

(دیکھو ! سب سے پہلے صِرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا) بخاری مسلم

اور اسی کے بارے میں سب سے پہلے قبر میں سوال کیا جائے گا:

(من ربک) تیرا معبود کون ؟

توحید ہی رضائے الہی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہےاسی اہمیت کے پیش نظر امام االموحدین ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے توحید پر استقامت کی دعا کی ہے فرمایا:

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ

اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے ایک جماعت پیدا کر جو تیری فرمانبردار ہو۔
[البقرة: 128]

جبکہ یوسف علیہ السلام نے بھی دعا کرتے ہوئے فرمایا:

تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

اسلام پر میرا خاتمہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرلے
[يوسف: 101]


جبکہ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے:

«يا مُقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قلبِي على دينِك»

اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔
مسلم

اسی کے بارے میں تمام انبیاء کرام نے اپنی اولاد کو وصیت کی فرمانِ باری تعالی ہے:

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

اور ابراہیم نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی تھی اور یعقوب نے بھی؛ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا : ''اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔ لہذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔''
[البقرة: 132]

انبیاء کرام نے اپنی اولاد سے نزع وقت بھی اسی کے بارے میں سوال کیا، جیسے کہ اللہ تعالی نے یعقوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب پر موت کا وقت آیا۔ اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا ''میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ ''انہوں نے جواب دیا ''ہم اسی ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم اسماعیل اور اسحاق کا الٰہ ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے
[البقرة: 133]

دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے بچوں کو صِرف ایک اللہ سے تعلق بنانے کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں-

ابن عباس رضی اللہ عنہما کو آپ نے فرمایا:

(لڑکے! میں تمہیں ایک بات سیکھاتا ہوں: اللہ کو تم یاد رکھنا ؛ وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا ؛ اُسے اپنی مدد کیلئے ہر جگہ پاؤ گے، جب بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگو، اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو ایک اللہ ہی سے مدد مانگو) ترمذی

اور اللہ نے ہمیں حکم دیتے ہوئے کہاکہ موت آنے تک عقیدہ توحید پرکار بند رہنا ہے، فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں
[آل عمران: 102]

اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہی سے شرح صدر ہوتی ہے، اور دل مطمئن ہوکر مخلوق کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ

جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے

[الأنعام: 125]

اُسی کی عبادت اور پکارنے سے تکالیف کے بادل چھٹ جاتے ہیں جس طرح یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

یونس علیہ السلام-نے اندھیروں میں پکارا کہ

فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ -

'':تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا۔
[الأنبياء: 87]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دنیاوی سختیوں سے نمٹنے کا توحید سے اچھا کوئی ہتھیار نہیں"

اسی توحید کی برکت سے کینہ ختم اور دل کی اصلاح ہوتی ہے-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین چیزوں کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کے دل میں کینہ نہیں ہوسکتا، عمل کرے تو صِرف اللہ کیلئے، مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی کرے، اور اجماعی معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ رہے) ترمذی

عقیدہ توحید اچھی زندگی کا بہترین نسخہ ہے، بلکہ دنیا میں اسکے بغیر کامیابی ہے ہی نہیں-

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً

جو شخص بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے
[النحل: 97]

یہ ہی عقیدہ توحید زندگی کیلئے بہترین سہارا ہے، فرمایا:

فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف اٹھائے گا۔
[طه: 123]

اسی عقیدہ توحید کے سائے تلے تمام عرب و عجم یک جان ہو سکتے ہیں چاہے کوئی مشرقی ہو یا مغربی فرمایا:

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

یہ (انبیاء کی جماعت) ہی تمہاری امت ہے جو ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کرو۔
[الأنبياء: 92]

کلمہ توحید مضبوط اور تن آور کلمہ ہے، جسکی جڑیں انتہائی مضبوط اور شاخیں آسمان کو چھوتی ہیں ، اسی کو "کلمۃ اللہ العلیا" کہا جاتا ہے، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے گفتگو کے دوران بلاواسطہ یہ ہی کلمات کہے تھے، جیسا کہ قرآن مجید یہ الفاظ یوں بیان ہوئے، اللہ نے موسی علیہ السلام سے کہا،

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي

بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہذا میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو
[طه: 14]

ایمان کے تمام درجات میں سے بلند ترین درجہ عقیدہ توحید کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ایمان کی ساٹھ سے زائد درجات ہیں، اور ان میں سب سے بڑھ کر " لا إله إلا الله " کہنا ہے)مسلم

پاکیزہ ترین اور ترازو میں سب سے وزنی بات بھی یہ ہی کلمہ ہے، جسکا ثواب غلام آزاد کرنے کے برابر ہے، اور روزانہ کی بنیاد پر شیطان سے مکمل حفاظت کا ضامن بھی، فرمانِ رسالت ہے:

(جس شخص نے سو بار "لا إله إلا الله وحده لا شريك له، لهُ المُلكُ ولهُ الحمدُ، وهو على كل شيءٍ قدير " کہا اُس سے افضل عمل وہ ہی کر سکتا ہے جو اِس سے بھی زیادہ تعداد میں کہے) بخاری

" لا إله إلا الله " کا وظیفہ کسی بھی زبان پر جاری ہونیوالے تمام کلمات سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مجھ سے پہلے انبیاء اور میں نے جتنے بھی اذکار کئے ہیں ان میں سب سے افضل ذکر" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له المُلكُ وله الحمدُ، وهو على كل شيء قدير" ہے ) ترمذی

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو بھی اس کلمے کی جانب دعوت دے گا، اللہ تعالی اُسکا اور اُسکی دعوت کا چرچہ ہمیشہ کیلئے باقی رکھے گا، فرمایا:

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ

اللہ تعالی نے اُنکی دعوت کو آنیوالی تمام نسلوں تک کیلئے باقی رکھا
[الزخرف: 28]

اسی کلمہ کو اللہ نے "قول ثابت" کہا ہے، فرمایا:

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ

جو لوگ ایمان لائے انھیں اللہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا
[إبراهيم: 27]

تمام تر مخلوقات میں کامل وہی ہے جس نے اللہ کی بندگی کرتے ہوئے کمال درجہ پایا، اور درجۂِ بندگی عقیدہ توحید کے مطابق کم اور زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالی اپنے مُوَحِّد بندے کا دین و دنیا ہر حالت میں دفاع کرتا ہے، اسی لئے اللہ کی جانب سے مغفرت کا پہلا حقدار موحد ہی ہے-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

-حدیث قدسی ہے- (اے میرے بندے اگر توں زمین کے برابر گناہوں کے انبار لے کر ائے اور ان گناہوں میں شرک شامل نہ ہو تو میں تمہیں -شرک نہ ہونے کی وجہ سے- اسی زمین کے برابر مغفرت عنائت کر دونگا) ترمذی

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"توحید ہی مغفرت کیلئے سببِ اعظم ہے؛ جسکے پاس یہ نہیں اس کیلئے کوئی مغفرت نہیں، اور جس کے کھاتے میں توحید پائی گئی یقینا اسکے پاس بہت بڑا سببِ مغفرت ہے"

شیطان کو توحید پرست پر کنٹرول نہیں مل سکتا، اللہ نے فرمایا:

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

اس کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں
[النحل: 99]

جس قدر انسان توحید پرست ہوگا اللہ تعالی اس کا اتنا ہی دفاع فرمائے گا، فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

جو لوگ ایمان لائے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے دفاع کرتا ہے
[الحج: 38]

جس نے عقیدہ توحید پالیا اللہ تعالی فحاشی اور تباہ کن گناہوں سے اسکی حفاظت فرمائے گا-

جیسے کہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

اس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا۔ کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں سے تھے
[يوسف: 24]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جتنا دل توحید میں کمزور اور شرک میں مضبوط ہوگا وہ دل اتنا ہی بے حیا اور حیا باختہ ہوگا"

توحید پرست کیلئے دنیاوی زندگی میں صِرف سکون اور اطمینان ہی ہے، اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق امن و سلامتی اسکا مقدر ہے-

فرمایا:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں
[الأنعام: 82]

فوت شدگان کو اہلِ توحید کی دعاؤں سے فائدہ ہوتا ہے، اسی لئے نماز جنازہ میں اِنکے علاوہ کسی کی دعا میت کے بارے میں قبول نہیں ہوتی-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(کسی مسلمان کے فوت ہونے پر چالیس -40- توحید پرست اسکے جنازے میں شرکت کریں، تو اللہ تعالی انکی سفارش اس مسلمان میت کے بارے میں قبول فرما لیتا ہے) مسلم

موحد کی موت کے وقت اللہ تعالی اسے دنیا ہی میں خوشخبری بھی دے دیتا ہے-

فرمانِ رسالت ہے:

(جس شخص کی آخری بات اس دنیا میں " لا إله إلا الله " ہوئی وہ جنت میں داخل ہوگا) ابو داود

اللہ تعالی نے جیسے دنیا میں توحید پرست کی عزت افزائی فرمائی ہے اسی طرح آخرت میں بھی اسے اپنے کرم سے نوازے گا، اور اسے بہترین بدلہ عنائت فرمائے گا، چنانچہ جس شخص کوموت توحید پر آئے وہ جنت میں ضرور جائے گا، چاہے اُسےاپنے گناہوں کی سزا پانی پڑے، اسی لئے موحد کو اپنے گناہوں کے باعث اگر جہنم میں جانا پڑا تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا،وہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جو شخص توحید پر فوت ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا) مسلم

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حقدار بھی اہلِ توحید ہونگے-

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:

"اللہ کے رسول! وہ کون سعادت مند ہے جسے آپکی شفاعت نصیب ہوگی؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(قیامت کے دن میری شفاعت پانے والا سعادت مند وہ ہوگا جس نے صدقِ دل سے " لا إله إلا الله "پڑھا ہو)
بخاری

اس سے بڑھ کر یہ کہ موحد جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے کسی بھی دروازے سے داخل ہو سکتا ہے-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جو اچھی طرح وضو کرے اور پھر کہے: " أشهد أن لا إله إلا الله، وأن مُحمَّدًا عبدُ الله ورسولُه "

اللہ تعالی اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیتا ہے جس مرضی دروازے سے داخل ہو جائے)
مسلم

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جس قدر عقیدہ توحید پختہ ہوگا ، اللہ کی جانب سے مغفرت بھی اسی قدر کامل ہوگی، چنانچہ جس شخص نے کبھی بھی شرک نہ کیا ہوگا اللہ تعالی اسکے سارے گناہ معاف فرما دے گا"

اللہ تعالی جنت میں جن ستر ہزار افراد کو بغیر حساب و کتاب کے داخلہ نصیب فرمائے گا وہ تمام کے تمام اہلِ توحید ہی ہونگے-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یہ وہ لوگ ہونگے جو کسی سے کہہ کر دَم نہیں کرواتے، نہ ہی بد فالی لیتے ہیں، اور نہ ہی داغ دیتے ہیں، اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں) بخاری ومسلم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
مسلمانو!

عقیدہ توحید مسلمان کا قیمتی خزانہ ہے، جسے اللہ نے اس دولت سے نوازا ہے وہ انتہائی مضبوطی سے اس پر کاربند رہے، اور اس عقیدہ کو در پیش ہمہ قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے، جو بھی اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے مانگے، یا قبر پر طواف کرے، یا غیر اللہ کیلئے ذبح کرے، یقینا وہ نورِ توحید اور اسکے فضائل سے محروم ہوگیا، اب -توبہ کرنے تک- اسکی کوئی اطاعت قبول نہیں ہوگی، اور اُسے قرآن و سنت میں بیان کردہ سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں (ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ لہذا جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔
[الكهف: 110]

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔

مسلمانو!

عقیدہ توحید اللہ تعالی کی جانب سے بہت بڑی دولت ہے، وہ جسے چاہتا ہے عنائت کرتا ہے، جبکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہےکہ عقیدہ توحید سیکھنے سیکھانے کیلئے اپنی جان ، اولاد ، رشتہ داروں اور تمام لوگوں کیلئے کوشش کرے۔

اس نعمت کا شکر ادا کرنے کیلئے تمام لوگوں کو اِسی کی دعوت دے، اور لوگوں کو توحید کے منافی ہمہ قسم کے امور سے دور رکھنے کی پوری کوشش کرے۔

عقیدہ توحپد پر ثابت قدم رہنے کیلئے مثبت اقدام بھی کرے، مثلا، اللہ سے دعاکرے ، تمام شہوانی اور شبہاتی بدعات سے دور رہے، اللہ کی فرماں برداری میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے، شرعی علم حاصل کرے، اور کسی بھی قسم کا شبہ پیدا ہونے پر ربانی علماء سے رابطہ بھی کرے۔


یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ

اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
[الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم على نبينا محمد,اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔

دعا:

اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔

یا اللہ! ہمیں قول و عمل میں اخلاص پیدا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ ہمیں اسلام کی حالت میں زندہ رکھنا، اور اسی پر موت دینا، یا اللہ ہمیں بغیر کسی امتحان و رسوائی کے نیک لوگوں کا ساتھ نصیب کرنا۔

یا اللہ تجھ سے جنت کے قریب کر دینے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ ! دین کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ جو تیرے موحد بندوں کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں انہیں تو ذلیل فرما، یا اللہ ! اس امت کیلئے اپنا فیصلہ جاری فرما جس میں تیرے نیک بندوں کیلئے اعزاز ہو، جس میں نافرمانوں کیلئے رسوائی ہو، جس کی بنا پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم ہو۔

یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ ! مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ رب العالمین !مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ تباہی و بربادی اپنے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے مقدر میں لکھ دے۔

اللہ کے بندو!


إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔
[النحل: 90]

تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔

https://www.facebook.com/kmnurdu/photos/a.515418891827674.1073741826.476230782413152/517752488260981/?type=1
 
Top