• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مسنون اذکار کو روزمرہ وظائف میں شامل رکھنا، بعض کا ضرورت کےمطابق چناؤ کرنا اور استغفار کی فضیلت

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تمام مسنون اذکار کو روز مرہ وظائف میں شامل رکھنا، بعض کا ضرورت کےمطابق چناؤ کرنا اور استغفار کی فضیلت !

اول:


ذکر کی فضیلت اور اسکا شرف دین اسلام میں بالکل واضح ہے، اور اس کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ذکر الہی میں مشغول لوگوں کا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے، اور ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب :"الوابل الصيب من الكلم الطيب" میں ذکر کرتے ہیں کہ ذکر الہی کے سو سے زیادہ فوائد ہیں، پھر آپ نےبہت سے فوائد شمار کر وائے۔

دوم:


شرعی عمل یہ ہے کہ ذکر الہی کرنے والا شخص اذکار کے تمام الفاظ کو وقتا فوقتا اپنے اذکار میں شامل کرتا رہے، اور کسی ایک پر پابندی کر کے دوسرے اذکار کو نظر انداز مت کرے، تا کہ انسان اللہ کی طرف سے احسان کردہ تمام اذکار کا اجر و ثواب سمیٹ سکے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
" کسی شخص کو فضائل اعمال کے بارے میں کوئی حدیث معلوم ہو تو اس پر کم از کم ایک بار ضرور عمل کرے، تا کہ اپنا شمار اس پر عمل کرنے والوں میں کروا سکے، اور مطلق طور پر ترک کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ قدر امکان اس پر عمل کرنا چاہیے" انتہی
"الأذكار" (ص: 8)

سوم:


یہ بات ثابت ہے کہ : " سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ " ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کی وجہ سے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے؛ چنانچہ امام احمد نے مسند : (6583) میں روایت کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بیشک اللہ کے نبی نوح صلی اللہ علیہ وسلم جب قریب المرگ تھے، تو انہوں نے اپنے بیٹے کیلئے کہا: "میں تمہیں وصیت کرنے والا ہوں: تمہیں دو چیزوں کا حکم دونگا، اور دو چیزوں سے روکوں گا: میں تمہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" کا حکم دیتا ہوں؛ کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہوں، اور "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" دوسرے پلڑے میں ہو تو "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" والا پلڑا بھاری ہو جائے گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک ٹھوس حلقے کی طرح ہوں تو انہیں "لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ" پاش پاش کردے، اور "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" ہر چیز کی نماز ہے، اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔۔۔ ") البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ": (134) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین کلام یہی ذکر ہے، چنانچہ مسلم: (2731) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین کلام کے بارے میں نہ بتلاؤں؟) میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھے اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین گفتگو کے بارے میں بتلائیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ("سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین چیز ہے)

سائل بھائی کا یہ کہنا کہ: " گناہوں کی وجہ سے انسان کو رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور استغفار سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، اس لئے استغفار کرنا حصولِ رزق کا باعث ہے " یہ بات مفہوم کے اعتبار سے اجمالی طور پر درست ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فرمانِ باری تعالی :

{وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ}
ترجمہ: اور تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تمہیں ایک وقت مقررہ تک اچھا فائدہ دے گا، اور ہر فضیلت والا کام کرنیوالے کو فضیلت بھی بخشے گا[هود : 3]

اسی طرح قوم ہود کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

{وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ}
ترجمہ: اے میری قوم ! تم اپنے رب سے مغفرت مانگو، اور اسی کی طرف توبہ کرو، وہی تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ بھی فرمائے گا، لہذا تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو[هود : 52]

بلاشبہ استغفار گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے، اور جب گناہ مٹ جائیں تو اس پر مرتب ہونے والے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں، اور اس طرح انسان وافر رزق، اور ہر مصیبت و پریشانی سے نجات پا لیتا ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (3/299) -ترتیب مکتبہ شاملہ

جبکہ یہ حدیث کہ : (آدمی کو گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے) اسے ابن ماجہ: (4022) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف ابن ماجہ" میں ضعیف قرار دیا ہے۔

چہارم:


بخاری: (6405) اور مسلم: (2691) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص " سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ " ایک دن میں سو مرتبہ کہے تو اس کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں، چاہے سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں)

چنانچہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ذکر گناہوں کو مٹا تا ہے، تاہم یہ استغفار کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لہذا توبہ، گناہوں کی بخشش، اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے موقع پر استغفار کرنا اس ذکر سے افضل ہوگا؛ کیونکہ استغفار کرتے وقت انسان اپنے گناہوں کو تصور میں ضرور لاتا ہے، اسی طرح خوف الہی دل میں محسوس کرتا ہے، اورساتھ میں اللہ سے معافی کی امید بھی ہوتی ہے، چنانچہ یہ ذکر استغفار کی جگہ نہیں لے سکتا؛'

یہی وجہ ہے کہ مسلم : (484) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ :

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ "[ترجمہ: اللہ تعالی پاک ہے اور اس کی حمد کے ذریعے اسی کی پاکی بیان کرتا ہوں، اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں، اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں]بہت ہی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے" عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : "میں آپ سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں آپکو دیکھتی ہوں کہ آپ کثرت کے ساتھ "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ "کہتے رہتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے میرے رب نے خبر دی ہے کہ میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا، چنانچہ جب میں نے وہ علامت دیکھ لی تو میں نے کثرت سے: "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ " کہنا شروع کر دیا، میں نے یہ دیکھا تھا کہ: (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ )[ترجمہ؛ جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی] سے مراد فتح مکہ ہے، اور ( وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا)[ترجمہ: اور آپ لوگوں کو دینِ الہی میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھیں گے٭ تو اب اپنے رب کی حمد بیان کر، اور اسی سے بخشش طلب کر، بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا ہے]"


چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
"سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کیساتھ استغفار بھی ملایا، لہذا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض تسبیح کرتے رہنا استغفار کا قائم مقام نہیں بن سکتا، اور نہ ہی استغفار تسبیح کا قائم مقام بن سکتا ہے؛ بلکہ بندے سے ہر دو امر مطلوب ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ حالات کے مطابق ایک دوسرے کو فوقیت مل سکتی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:


"یہ بہت ہی مفید نکتہ ہے، جس کیلئے انسان کو انتہائی حاذق اور دانشمند ہونا چاہیے، اسی طرح انسان کو اس بات کا ادراک ہو کہ کسی چیز کی مخصوص فضیلت، اور چند حالات کی وجہ سے اسے حاصل ہونے والی عارضی فضیلت میں فرق ہے، اس لئے ہر چیز کو اس کا پورا پورا حق دے، اور ہر عمل مناسب وقت و حالت میں کرے؛ بالکل ایسے ہی جیسے آنکھ کا اپنا مقام ہے، تو پاؤں کا اپنا ہے، اسی طرح پانی کیلئے مخصوص حالت ہے، تو گوشت کیلئے کوئی اور حالت ہے!!

اور مختلف اشیاء کے ماتب کا خیال رکھنے سے ہی امر و نہی کا نظام کامل ترین صورت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔

بالکل ایسے ہی جیسے صابن اور اشنان وغیرہ سے کپڑے کو دھونا مخصوص وقت میں مفید ثابت ہوتا ہے، جبکہ خوشبو والی دھونی اور عرق گلاب لگانے کا اپنا ایک وقت ہے، ۔

میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک دن کہا : "کسی اہل علم سے پوچھا گیا ہے کہ: انسان کیلئے تسبیح افضل ہے یا استغفار؟"(آپ کیا فرماتے ہیں)، تو انہوں نے فرمایا: اگر کپڑا پہلے ہی پاک صاف ہو تو خوشبو والی دھونی، اور عرق گلاب اس کیلئے مفید ہوتا ہے، اور اگر کپڑا میلا کچیلا ہو تو صابن و گرم پانی اس کیلئے زیادہ مفید ہیں!!

پھر مجھے انہوں نے فرمایا: "جب ہمارے کپڑے ہی میلے ہیں تو [تسبیح کا کیا فائدہ ، ہمیں استغفار ہی کرنا پڑے گا]"" انتہی
"الوابل الصیب" (232-233)

- واللہ اعلم -آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ: انسان کو ہر وقت و ہر لمحے استغفار کی ضرورت رہتی ہے۔

اس طرح سائل کو چاہیےکہ تسبیح و تحمید سے کنارہ کشی نہ کرے، جیسے کہ پہلے بھی اس بات کا ذکر ہو چکا ہے، وہ انہیں بھی ساتھ میں ملا کر چلے، اور مخصوص حالات کے پیش نظر کسی ایک ذکر کو ترجیح بھی دے سکتا ہے، یہاں سے فقہ العبودیت، اور اعمال کی درجہ بندی کا باب شروع ہو جائے گا۔

استغفار کی فضیلت کے بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (104919) کا مطالعہ کریں

اور استغفار کے مختلف الفاظ جاننے کیلئے سوال نمبر: (39775) کا جواب ملاحظہ کریں

اور " سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ " کا معنی جاننے کیلئے سوال نمبر: (104047) کا مطالعہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.



الاسلام سؤال وجواب


http://islamqa.info/ur/194733
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75
استغفار بدنی قوت کا باعث ہے

سوال: میں اپنے جسم کو مضبوط بنانے کیلئے باڈی بلڈنگ کرتا ہوں، میرا اصل ہدف جہاد فی سبیل اللہ ہے،میرا سوال ہے کہ
1) کیا استغفار جسم کو قوت بخشتا ہے؟
2) اور وہ کون سے اوقات ہیں جن میں استغفار کرنا چاہیے، اور کتنی تعداد میں کرنا چاہیے؟ برائے مہربانی مجھے آپ بدنی قوت بڑھانے کیلئے دعائیں اور اذکار بتلائیں۔

الحمد للہ:
پیارے بھائی! آپ نے اپنی جسمانی ورزش کی جو نیت کی ہے وہ بہت اچھی ہے،اور یہ آپ نے بہت اچھا کام کیاہے، کیونکہ اچھی نیت کے ذریعے عادت بھی عبادت بن جاتی ہے۔
اور آپ کا سوال کہ استغفار انسانی قوت میں اضافے کا باعث بنتا ہے یا نہیں؟ تو اسکا جواب "ہاں" میں ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی ہود علیہ السلام کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:
(وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْاْ مُجْرِمِينَ)
ترجمہ: اے میری قوم ! تم اپنے رب سے استغفار کرو، پھر توبہ بھی مانگو، تو وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل کریگا، اور تمہاری موجود قوت میں مزید اضافہ فرمائے گا، لہذا مجرم بن کر رو گردانی مت کرو[هود:52]
ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الوابل الصيب" (صفحہ: 77)میں ذکر -اسی میں استغفار بھی شامل ہے- کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"فائدہ نمبر: 61: ذکر انسان کو قوت فراہم کرتا ہے، بلکہ ذکر کی وجہ سے انسان ایسے کام بھی کر جاتا ہے جو ذکر کے بغیر ممکن نہیں ہیں، میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چال ڈھال، گفتگو، حوصلہ و ہمت، اور تصنیف میں بہت ہی تعجب خیز مناظر کا مشاہدہ کیا ہے، آپ صرف ایک دن میں اتنی تحریر لکھ دیتے تھے جو عام لکھاری و کاتب ایک ہفتے یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں لکھ پاتا، بلکہ اسلامی لشکر نے دورانِ جنگ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جوانمردی کے نظارے بھی کئے ہیں۔
اسی طرح جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی چلانے اور دیگر گھریلو کام کاج کی وجہ سے جسم میں تھکاوٹ محسوس کرنے کی شکایت کی اور اس کے بدلے میں ایک خادم کا مطالبہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما دونوں کو ہر رات بستر میں سوتے وقت 33 بار تسبیح، 33 بار الحمد للہ، اور 34 بار اللہ اکبر کہنا سکھایا تھا، اور آپ نے یہ بھی ساتھ میں فرمایا: (یہ تمہارے لئے خادم سے بھی بہتر ہے) چنانچہ اس حدیث کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: جو شخص اس عمل پر ہمیشگی کرے تو اس کے جسم میں اتنی قوت آ جاتی ہے کہ اسے خادم کی بھی ضرورت نہیں پڑتی" انتہی
ذکر کرنے کا وقت، اور عدد کے بارے میں یہ ہے کہ مؤمن اللہ تعالی کا ذکر ہر وقت اور ہر حالت میں کرتا رہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ)
ترجمہ: [مؤمن بندے] اللہ کا ذکر اٹھتے ، بیٹھتے، اور اپنے پہلو کے بل بھی کرتے ہیں ۔ [آل عمران:191]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اس روایت کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس لئے انسان کو ذکر الہی اور استغفار کثرت سے کرنا چاہیے، چنانچہ جتنا زیادہ اللہ کا ذکر کیا جائے گا، اتنا ہی اچھا ہوگا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا * وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی کا خوب ذکر کیا کرو [41] اور صبح و شام اسکی پاکیزگی بیان کرو۔ [الأحزاب:41- 42]
اسی طرح اللہ تعالی کا [مؤمنین کی صفات کے بارے میں ]یہ بھی فرمان ہے:
(وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں اور خواتین کیلئے اللہ تعالی نے بہت بڑی مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ [الأحزاب:35]
صحیح مسلم : (2702) میں اغر مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں)
اور ابو داود : (1516) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی مجلس میں سو مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنتے تھے: (رَبِّ اغْفِرْ لِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ) [میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، اور نہایت مہربان ہے]" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
واللہ اعلم.

الاسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ur/104919

 
Top