عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پیش کردہ : عابدالرحمٰن بجنوری
حضرت ابو عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مونڈھوں کو پکڑ کر فرمایا:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنكبي فقال كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل وكان ابن عمر يقول إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء وخذ من صحتك لمرضك ومن حياتك لموتك (رواه البخاري)
کہ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستہ طے کرنے والے ہو اور ابن عمرکہتے ہیں کہ جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور جب صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور اپنی صحت کے اوقات سے اپنی مرض کے اوقات کے لیے حصہ لے لے اور اپنی حیات کے وقت سے اپنی موت کیلیے کچھ حصہ لے لے۔( صحیح بخاری)
اس حدیث شریف کو احمد ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی بیان کیا ہے اما ترمذی ؒ کی روایت میں’’ اے عبداللہ تم نہیں جانتے کہ کل تمہیں کیا کہا جائے گا‘‘ کا اضافہ ہے۔
یہ حدیث شریف دنیا میں انسان کے قیام کی نوعیت کا ایسے بلیغ انداز میں واضح کرتی ہے کہ اس سے زیادہ بلاغت کسی انسانی کلام میں ممکن نہیں ،یہ حدیث مومن کو آگاہ کرتی ہے کہ وہ اپنے نصب العین اور مقصد حیات کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں ایک لمحہ کی غفلت بھی روا نہ رکھے، یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ مومن زندگی کےخری لمحہ تک خوشنودی رب کےحصول کے میں ایک مشین کی طرح متحرک رہے اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں ان کا مختصراً ذکر اس طرح ہے۔
’’میرے مونڈھوں کو پکڑ کر فرمایا ‘‘اس سے معلوم ہوا اس طرح کا عمل کسی قابل احترام ہستی کا اپنے کسی عزیز کے مونڈھوں کا تھامنا ،اس کے ذہن کو بیدار کرنا یا اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے ، اس کے علاووہ بھی مخاطب کو اپنی طرف متوجہ کرنےکے لیے اور بھی طریقہ ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، یہاں مونڈھوں کو پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی معلوم دیتی ہے کہ آئندہ کہی جانے والی بات کتنی اہم ہے اور مخاطب پر اس کی اہمیت کا احساس ہوجائے، اس کے علاوہ ایک غرض یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مخاطب متکلم کی شفقت اور بے تکلفی سے بھی متائر ہو اس کا دل شکر اور محبت سے لبریز ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو متکلم سے زیادہ قریب محسوس کرنے لگے،چناچہ اس کیفیت سے جو بات کہی جائے گی اور بہت زیادہ نر م اور دل نشین ہوگی۔
آج بھی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مونڈھے کو تھامے ہوں گے اس وقت ان کے دل کاکیا حال ہوگا ،اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاق کریمانہ پر کتنی بے پایاں مسرت ہوئی ہوگی، اس مختصر سے تکڑے سے ہمیں اپنے موقف کو اپنے عزیزوں یا مخاطَب ْ تک کلمہ خیر پہنچانے کی تربیت ملتی ہے ، اور اس میں ایک داعی کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ایک داعی کے اخلاق کس طرح کے ہونے چاہئے اور کس طرح سے اس کو اپنی بات مدعو تک پہنچانی چاہیے ، داعی کے اس طرز عمل سے مدعو اتنا متاءثر ہوجاتا ہے کہ وہ داعی کی بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش متوجہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کی بات کو غور سے سنتا ہے او ر پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے عمل بھی کرتا ہے، اور داعی اور مدعو دونوں کو اس کا اجر ابھی ملتا ہے۔
اس حدیث شریف سے ہمیں ایک بات یہ بھی مل تی ہے کہ دنیا میں اس طرح رہو، کہ گویا تم مسافر ہو۔ یاکسی راستے کو عبور کررہے ہو،اس حدیث پاک میں ایک انسان کو غریب مسافر کہہ کر خطاب فرمایا گیا بلکہ اس سے بھے کچھ اور ترقی دیکر ’’عابر سبیل‘‘راستے سے گزرنے والے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ مؤثر اور بلیغ تشبیہ دنیا میں انسان کے قیام نوعیت اور حیثیت کو بھی واضح کرتی ہے ، اور ایک مومن کے سامنے آخرت کی بے کراں دنیا کو بھی لاکر کھڑا کردیتی ہے اوراس کی نگاہوں کے سامنے آخرت کی حقیقی اور اصلی اور دائمی زندگی روشن ہوجاتی ہے ،اور اس دنیا کی حقیقت اس کے سامنے ایک عارضی پڑاؤ اورسفر آخرت کی ایک منزل کی مانند نظر آنے لگتی ہے ۔او ر مومن کو مسافرت کا احساس دلانے کے چند فائدے ایک تھوڑی سی توجہ سے معلوم ہوجاتے ہیں۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔