• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توبہ پر قائم نہیں رہ پارہا ، کوئی وظیفہ بتائیے

NAEIMKHAN

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توبہ پر نہیں رہ پارہ ہوں کچھ وظیفہ بتائیے۔

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توبہ پر نہیں رہ پارہ ہوں کچھ وظیفہ بتائیے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توبہ پر قائم رہنا یعنی استقامت اللہ کی توفیق خاص ہے ،اور بہت بڑا عطیہ اور انعام ہے ، جو صرف مخلصین کو ملتا ہے ،
اس کیلئے پہلے تو توبہ کی شرائط پوری کرنا لازمی شرط ہے ،
اندلس کے نامور مفسر امام أبو عبد الله محمد بن أحمد القرطبي (المتوفى: 671ھ)
اپنی تفسیر "احکام القرآن " سورۃ النساء آیت 17 کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
وھی اربعہ:الندم بالقلب،وترک المعصیہ فی الحال،والعزم علی الا یعود الی مثلھا،وان یکون ذلک حیاءمن اللہ تعالی لامن غیرہ،فاذا اختل شرط من ھذہ الشروط لم تصح التوبہ۔ وقد قیل من شروطھا:الاعتراف بالذنب و کثرہ الاستغفار۔
توبہ کی شرائط :
اور وہ چار ہیں:دل سے ندامت،فورا گناہ کا چھوڑ دینا،اور اس بات کا عزم کہ آئندہ ایسا نہ کرے گا اور یہ کہ ہو یہ توبہ اللہ تعالی سے حیا کی وجہ سے نہ کہ کسی اور وجہ سے،پس اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوئی،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ توبہ کی شرائط میں سے یہ بھی ہے:گناہ کا اعتراف کرنا اور کثرت استغفار کرنا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مشہور محدث شارح صحیح مسلم امام نوویؒ ریاض الصالحین کے باب التوبہ میں فرماتے ہیں :

قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي فلها ثلاثة شروط:
أحدها: أن يقلع عن المعصية.
والثاني: أن يندم على فعلها.
والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا.
فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.
وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه، وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه، وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب وبقي عليه الباقي. وقد تظاهرت دلائل الكتاب والسنة وإجماع الأمة على وجوب التوبة."

ترجمہ :
توبہ کابیان علماء نے کہا ہے کہ توبہ ہر گناہ سے واجب ہے۔
اگر گناہ کا تعلق اللہ سے ہے، کسی آدمی کا حق اس سے متعلق نہیں ہے تو ایسے گناہ سے توبہ کی قبولیت کےلئے تین شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ اس گناہ کو چھوڑ دے جس سے وہ توبہ کر رہا ہے دوسری یہ کہ اس پر ندامت (پشیمانی کا اظہار کرے)۔ تیسری یہ کہ وہ پختہ ارادہ کرے کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کرے گا۔ اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی شرط مفقود ہو گی تو توبہ صحیح نہیں ہو گی۔

اور اگر اس گناہ کا تعلق دوسرے آدمیوں سے ہے تو اس کے لئے چار شرطیں ہیں۔ تین وہی جو ابھی مذکور ہوئیں اور چوتھی ہے کہ وہ صاحب حق
کا حق ادا کرے۔ اگر کسی کا مال یا اسی قسم کی کوئی چیز ناجائز طریقے سے لی ہو تو اسے واپس کرے گی ،اور اگر کسی پر تہمت وغیرہ لگائی ہو تو اس کی حد اپنے نفس پر لگواۓ یا اس سے معافی طلب کر کے اس کو راضی کرے اگر کسی ایک یا چند ایک گناہ سے توبہ کرے گا تو اہل سنت کے نزدیک توبہ صحیح ہے۔ لیکن یہ توبہ صرف اسی گناہ سے ہو گی۔ دوسرے گناہ اس کے ذمہ باقی رہیں گے۔ (جب تک ان سے بھی شرائط مذکورہ کے مطانق توبہ نہیں کرے گا) توبہ کے وجوب پر کتاب و سنت کے بکثرت دلائل اور امت کا اجماع ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
توبہ پر قائم رہنے کیلئے اگلا قدم
یہ ہے کہ بکثرت استغفار کرتا ہے
«یأیھا الناس توبوا إلی اللہ فإني أتوب إلیه في الیوم مائة مرة» (بخاری)
کہ لوگو! اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ رب العزت سے دعا کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔

وقتِ استغفار:
ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور مجیب الدعوات ہے۔ لیکن رات کا آخری ثلث اس کام کے لئے زیادہ مخصوص ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔
﴿وَالمُستَغفِر‌ينَ بِالأَسحارِ‌ ١٧﴾... سورة آل عمران
اور رات کے پچھلے پہراللہ سے بخشش مانگنے والے "
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَبِالأَسحارِ‌ هُم يَستَغفِر‌ونَ ١٨﴾... سورة الذاريات
کہ اللہ کے بندے ہنگامِ سحر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)پانچوں فرض نمازوں کا بڑے اہتمام سے ادا کرنا بھی استقامت کیلئے ضروری ہے
(4) روزانہ تلاوت قرآن کیلئے کچھ وقت نکالنا بے حد مؤثر ہے ،
(5) کھانے پینے میں حلال کی پابندی نہ ہو تو استقامت نہیں مل سکتی،
(6) صبح و شام کے مسنون اذکار کی پابندی و اہتمام بھی بڑا کار گر ہے ؛
(7 ) پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ نفس حضرات کی صحبت بھی اس معاملہ میں مجرب نسخہ ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن أبي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول : ( إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ قَالَ رَبِّ أَصَبْتُ أَوْ قَالَ أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلاثًا ....الحديث )
رواه البخاري (7507) ومسلم ( 2758 )
سیدنا ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" ايك بندہ گناہ كر بيٹھا يا كہا كہ ايك بندے نے گناہ كر ليا تو كہنے لگا: اے ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے يا فرمايا مجھ سے گناہ ہو گيا ہے تو مجھے بخش دے، تو اس كا رب كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس پر مؤاخذہ بھى كرتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ بندہ ركا رہا پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا : اس سے گناہ ہو گيا تو كہنے لگا: ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے مجھے معاف كردے، تو اللہ تعالى كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہوں كو بخشتا ہے اور ان كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ گناہ سے ركا رہا اور پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا اس سے گناہ ہو گيا، راوى كہتے ہيں بندہ كہتا ہے اے ميرے رب ميں گناہ كر بيٹھا ہوں، يا فرمايا: مجھ سے گناہ ہو گيا ہے لھذا مجھے بخش دے تو اللہ تعالى كہتا ہے، كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، يہ تين بار فرمايا... " الحديث
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7507 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2758 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث پر باب كا عنوان يہ ركھا ہے:
باب " قبول التوبة من الذنوب وإن تكررت الذنوب والتوبة " .
گناہوں سے توبہ قبول ہونے كا باب چاہے گناہ اور توبہ ميں تكرار ہو"

اور اس كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
هذه المسألة تقدمت في أول كتاب التوبة , وهذه الأحاديث ظاهرة في الدلالة لها , وأنه لو تكرر الذنب مائة مرة أو ألف مرة أو أكثر , وتاب في كل مرة : قبلت توبته , وسقطت ذنوبه , ولو تاب عن الجميع توبة واحدة بعد جميعها : صحت توبته .
" شرح مسلم " ( 17 / 75 ) .
يہ مسئلہ كتاب التوبہ كے شروع ميں بيان ہو چكا ہے، اور يہ احاديث اس پر دلالت ميں بالكل ظاہر اور واضح ہيں، اور يہ كہ اگر گناہ سوبار يا ہزار بھى يا اس سے بھى زيادہ ہو جائے، اور ہر بار توبہ كر لے تو اس كى توبہ قبول ہو گى، اور اسكے گناہ ختم ہوں جائيں گے، اور اگر وہ ان سب گناہوں كے بعد ايك توبہ ہى كرتا ہے تو اس كى توبہ صحيح ہوگى.
ديكھيں: شرح مسلم ( 17 / 75 ).
 

NAEIMKHAN

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توبہ پر قائم رہنا یعنی استقامت اللہ کی توفیق خاص ہے ،اور بہت بڑا عطیہ اور انعام ہے ، جو صرف مخلصین کو ملتا ہے ،
اس کیلئے پہلے تو توبہ کی شرائط پوری کرنا لازمی شرط ہے ،
اندلس کے نامور مفسر امام أبو عبد الله محمد بن أحمد القرطبي (المتوفى: 671ھ)
اپنی تفسیر "احکام القرآن " سورۃ النساء آیت 17 کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
وھی اربعہ:الندم بالقلب،وترک المعصیہ فی الحال،والعزم علی الا یعود الی مثلھا،وان یکون ذلک حیاءمن اللہ تعالی لامن غیرہ،فاذا اختل شرط من ھذہ الشروط لم تصح التوبہ۔ وقد قیل من شروطھا:الاعتراف بالذنب و کثرہ الاستغفار۔
توبہ کی شرائط :
اور وہ چار ہیں:دل سے ندامت،فورا گناہ کا چھوڑ دینا،اور اس بات کا عزم کہ آئندہ ایسا نہ کرے گا اور یہ کہ ہو یہ توبہ اللہ تعالی سے حیا کی وجہ سے نہ کہ کسی اور وجہ سے،پس اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوئی،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ توبہ کی شرائط میں سے یہ بھی ہے:گناہ کا اعتراف کرنا اور کثرت استغفار کرنا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مشہور محدث شارح صحیح مسلم امام نوویؒ ریاض الصالحین کے باب التوبہ میں فرماتے ہیں :

قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي فلها ثلاثة شروط:
أحدها: أن يقلع عن المعصية.
والثاني: أن يندم على فعلها.
والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا.
فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.
وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه، وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه، وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب وبقي عليه الباقي. وقد تظاهرت دلائل الكتاب والسنة وإجماع الأمة على وجوب التوبة."

ترجمہ :
توبہ کابیان علماء نے کہا ہے کہ توبہ ہر گناہ سے واجب ہے۔
اگر گناہ کا تعلق اللہ سے ہے، کسی آدمی کا حق اس سے متعلق نہیں ہے تو ایسے گناہ سے توبہ کی قبولیت کےلئے تین شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ اس گناہ کو چھوڑ دے جس سے وہ توبہ کر رہا ہے دوسری یہ کہ اس پر ندامت (پشیمانی کا اظہار کرے)۔ تیسری یہ کہ وہ پختہ ارادہ کرے کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کرے گا۔ اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی شرط مفقود ہو گی تو توبہ صحیح نہیں ہو گی۔

اور اگر اس گناہ کا تعلق دوسرے آدمیوں سے ہے تو اس کے لئے چار شرطیں ہیں۔ تین وہی جو ابھی مذکور ہوئیں اور چوتھی ہے کہ وہ صاحب حق
کا حق ادا کرے۔ اگر کسی کا مال یا اسی قسم کی کوئی چیز ناجائز طریقے سے لی ہو تو اسے واپس کرے گی ،اور اگر کسی پر تہمت وغیرہ لگائی ہو تو اس کی حد اپنے نفس پر لگواۓ یا اس سے معافی طلب کر کے اس کو راضی کرے اگر کسی ایک یا چند ایک گناہ سے توبہ کرے گا تو اہل سنت کے نزدیک توبہ صحیح ہے۔ لیکن یہ توبہ صرف اسی گناہ سے ہو گی۔ دوسرے گناہ اس کے ذمہ باقی رہیں گے۔ (جب تک ان سے بھی شرائط مذکورہ کے مطانق توبہ نہیں کرے گا) توبہ کے وجوب پر کتاب و سنت کے بکثرت دلائل اور امت کا اجماع ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
توبہ پر قائم رہنے کیلئے اگلا قدم
یہ ہے کہ بکثرت استغفار کرتا ہے
«یأیھا الناس توبوا إلی اللہ فإني أتوب إلیه في الیوم مائة مرة» (بخاری)
کہ لوگو! اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ رب العزت سے دعا کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔

وقتِ استغفار:
ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور مجیب الدعوات ہے۔ لیکن رات کا آخری ثلث اس کام کے لئے زیادہ مخصوص ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔
﴿وَالمُستَغفِر‌ينَ بِالأَسحارِ‌ ١٧﴾... سورة آل عمران
اور رات کے پچھلے پہراللہ سے بخشش مانگنے والے "
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَبِالأَسحارِ‌ هُم يَستَغفِر‌ونَ ١٨﴾... سورة الذاريات
کہ اللہ کے بندے ہنگامِ سحر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)پانچوں فرض نمازوں کا بڑے اہتمام سے ادا کرنا بھی استقامت کیلئے ضروری ہے
(4) روزانہ تلاوت قرآن کیلئے کچھ وقت نکالنا بے حد مؤثر ہے ،
(5) کھانے پینے میں حلال کی پابندی نہ ہو تو استقامت نہیں مل سکتی،
(6) صبح و شام کے مسنون اذکار کی پابندی و اہتمام بھی بڑا کار گر ہے ؛
(7 ) پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ نفس حضرات کی صحبت بھی اس معاملہ میں مجرب نسخہ ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن أبي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول : ( إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ قَالَ رَبِّ أَصَبْتُ أَوْ قَالَ أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلاثًا ....الحديث )
رواه البخاري (7507) ومسلم ( 2758 )
سیدنا ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" ايك بندہ گناہ كر بيٹھا يا كہا كہ ايك بندے نے گناہ كر ليا تو كہنے لگا: اے ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے يا فرمايا مجھ سے گناہ ہو گيا ہے تو مجھے بخش دے، تو اس كا رب كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس پر مؤاخذہ بھى كرتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ بندہ ركا رہا پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا : اس سے گناہ ہو گيا تو كہنے لگا: ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے مجھے معاف كردے، تو اللہ تعالى كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہوں كو بخشتا ہے اور ان كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ گناہ سے ركا رہا اور پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا اس سے گناہ ہو گيا، راوى كہتے ہيں بندہ كہتا ہے اے ميرے رب ميں گناہ كر بيٹھا ہوں، يا فرمايا: مجھ سے گناہ ہو گيا ہے لھذا مجھے بخش دے تو اللہ تعالى كہتا ہے، كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، يہ تين بار فرمايا... " الحديث
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7507 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2758 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث پر باب كا عنوان يہ ركھا ہے:
باب " قبول التوبة من الذنوب وإن تكررت الذنوب والتوبة " .
گناہوں سے توبہ قبول ہونے كا باب چاہے گناہ اور توبہ ميں تكرار ہو"

اور اس كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
هذه المسألة تقدمت في أول كتاب التوبة , وهذه الأحاديث ظاهرة في الدلالة لها , وأنه لو تكرر الذنب مائة مرة أو ألف مرة أو أكثر , وتاب في كل مرة : قبلت توبته , وسقطت ذنوبه , ولو تاب عن الجميع توبة واحدة بعد جميعها : صحت توبته .
" شرح مسلم " ( 17 / 75 ) .
يہ مسئلہ كتاب التوبہ كے شروع ميں بيان ہو چكا ہے، اور يہ احاديث اس پر دلالت ميں بالكل ظاہر اور واضح ہيں، اور يہ كہ اگر گناہ سوبار يا ہزار بھى يا اس سے بھى زيادہ ہو جائے، اور ہر بار توبہ كر لے تو اس كى توبہ قبول ہو گى، اور اسكے گناہ ختم ہوں جائيں گے، اور اگر وہ ان سب گناہوں كے بعد ايك توبہ ہى كرتا ہے تو اس كى توبہ صحيح ہوگى.
ديكھيں: شرح مسلم ( 17 / 75 ).
جزاك الله خير واحسن جزاء في دنيا وآخره

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 
Top