• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توبہ کا راستہ

شمولیت
جون 24، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
24
ایک شخص بڑی فرم میں بطور اسٹور کیپر فرائض سر انجام دیتا تھا۔ چونکہ خام مال کی ضرورت کے مطابق طلب اور وصولی اس کی اہم ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ خام مال وصول کرنے پر اسٹور کیپر رسید دستخط کر کے پارٹی کو دیتا، اور کمپیوٹر سسٹم میں انٹری کرتا جو اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے لئے ہوتی تا کہ پارٹی کوا س بنیاد پر خام مال کی رقم مل سکے ۔
دوران ملازمت مال فراہم کرنے والی پارٹیوں کی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ اصل مال سے زیادہ وصولی کی رسید دی جائے ۔ اور زائد وصولی والے مال کی رقم 50٪ پارٹی رکھے گی۔ اور بقیہ 50٪ فیصد کے تین حصے ہوں گے۔ ایک حصہ کوالٹی کنٹرول انسپکشن کا، دوسرا سیکشن انچارج کا، اور تیسرا اسٹور کیپر کا۔
تقریباً ایک سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد اسٹور کیپر نے اللہ کی پکڑ کے ڈر سے ، اور توبہ کی نیت سے استعفیٰ دے دیا۔ باوجود اس کے کہ یہ ملازمت چھوڑنے کے بعد تقریباً ایک سال بے روزگاری میں گزارا۔ اہلِ علم کے سامنے صورت حال رکھنے پر اسٹور کیپر کو معلوم ہوا کہ توبہ کی چار شرائط میں ایک شرط تمام رقم کی واپسی اور اس کے مالک سے معافی مانگنا ہے۔ ملازمت چھوڑنے کے وقت اسٹور کیپر کے اندازے کے مطابق اس کے حصہ کی کل رقم کم وبیش 10 لاکھ تھی۔ یہ صرف اسٹور کیپر کے حصہ کی رقم ہے۔ باقی لوگوں کے حصے کی رقم اس کے علاوہ ہے۔
اب اسٹور کیپر اپنے حصے کی رقم واپس کرنے سے اس ڈر سے قاصر ہے کہ اگر فرم کے مالک سے اس سلسلہ میں بات کی تو قانونی کاروائی اور تحقیقات کا اندیشہ ہے۔ ملازمت کے حصول کےوقت ہیومن ریسورس سیکشن نے ایک خالی کاغذ پر بھی دستخط لئے تھے۔ لہذا براہِ راست معافی مانگنا انتہائی مشکل اور ایک نئی مصیبت ثابت ہونے کا اندیشہ ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سیلز اینڈ مارکیٹنگ سے 10 لاکھ کی ایک ڈیل بنائی جائے ۔ اسی پس منظر میں کمپنی کے اکاؤنٹ میں تمام رقم جمع کروا کر تصدیقی رسید لی جائے اور ڈیل کا مال وصول نہ کیا جائے۔ اس طرح خاموشی سے رقم مالک تک پہنچ جائے گی۔ کیا اس طریقے سے صرف اپنے حصہ کی رقم واپس کرنے سے یہ بوجھ دنیا اور آخرت میں اتر جائے گا؟ اور توبہ کا راستہ کھل جائے گا؟ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سیلز اینڈ مارکیٹنگ سے 10 لاکھ کی ایک ڈیل بنائی جائے ۔ اسی پس منظر میں کمپنی کے اکاؤنٹ میں تمام رقم جمع کروا کر تصدیقی رسید لی جائے اور ڈیل کا مال وصول نہ کیا جائے۔ اس طرح خاموشی سے رقم مالک تک پہنچ جائے گی۔ کیا اس طریقے سے صرف اپنے حصہ کی رقم واپس کرنے سے یہ بوجھ دنیا اور آخرت میں اتر جائے گا؟ اور توبہ کا راستہ کھل جائے گا؟ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گناہ کے بعد توبہ کی توفیق اور مغفرت کی فکر بہت بڑی نعمت ہے ،جو اللہ کی طرف سے بندہ پر مہربانی کی ایک صورت ہے ،
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ» ( صحیح البخاری 2449 )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ ‘‘
آپ نے کمپنی کا مال واپس کرنے کی جو دوسری صورت بیان کی ہے ، وہی مناسب اور قابل عمل نظر آتی ہے ، جس میں کمپنی کو اپنا جرم بتائے بغیر اس کا غبن کیا ہوا مال واپس کمپنی تک پہنچادیا جائے ۔۔۔
اس طرح اپنی غلطی کا ازالہ ممکن ہے ،اور قبولیت توبہ کا غالب امکان بھی ۔۔۔کیونکہ یہاں مسئلہ ’’ حق بہ حق دار رسید ‘‘ کا ہے ، ناحق لیا گیا مال اصل مالک کو واپس مل جائے ،یہی تو مطلوب ہے، اس کے بعد ابنے گناہ کی معافی رب سے صدق دل کے ساتھ مانگی جائے ، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کیا جائے ،ان شاء اللہ توبہ قبول ہوگی ،اللہ بڑا مہربان ہے ،
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں جامعہ ازہر کے فاضل اور قاہرہ کے معروف عالم الشیخ خالد عبد المنعم کا فتوی درج ذیل ہے

شروط التوبة من أكل المال الحرام

التصنيف: التوبة
تاريخ النشر: 5 ربيع الأول 1429 (13‏/3‏/2008)
السؤال: أنا كنت أعمل في شركة أجنبية عالمية -غير مسلمة-، بالفرع الموجود في بلدي لها, وجاء مشروع لنا بالخارج؛ وترشحتُ له مع أربعة من زملائي؛ بالفعل سافرنا؛ وللأسف هناك اتفقنا مع صاحب الفندق المقيمين به أن ندفع له في
الليلة مثلاً -عشرة جنيهات-، ولكن يكتبها في الفاتورة الرسمية المقدمة للشركة -خمسة عشر جنيهاً- ونأخذ الفرق لنا؛ وبالفعل تحصلنا على مبلغ كبير من هذا, ومرَّ ثلاثة سنوات على هذا, أنا الآن عرفت طريق الحق والهداية، وأريد أن أتوب من هذا الذنب، مع العلم أنني تركت الشركة من فترة كبيرة ولكن زملائي ما زالوا
بها، وأريد منكم إرشادي للخروج من هذا، مع العلم أن إعادة المبلغ للشركة شبه
مستحيل؛ لأنها شركة عالمية، ولابد أن يكون لأي نقود تورَّد لها صفة أو فواتير,
كما أنه سيكون فيه ضرر كبير لزملائي الذين ما زالوا يعملون بها، وما حالي من
زملائي، هل لابد من توبتهم هم أيضاً حتى يقبل الله توبتي؛ حيث إنهم مشاركون
لي في هذا الذنب؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الإجابة: الحمد لله الذي وفقك للتوبة، واللهََ نسألُ أن يتقبل توبتك، ويثبتك على الحق، واعلم أن أخذ أموال الناس بغير حق إثمٌ عظيمٌ، وذنبٌ جسيمٌ، يوجب على صاحبه التوبة إلى الله توبة نصوحاً، والاستغفار والندم على ما سلف من الذنوب،
والإقلاع عنها خوفاً من الله سبحانه وتعظيماً له، والعزم الصادق على عدم العودة إليها؛ قال تعالى: {وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحِيماً} [النساء:110]، وقال تعالى: {فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [المائدة:39]، وقال تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً} [التحريم:8]، وقال تعالى: {وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [النور:31].

وباب التوبة مفتوح أمام العبد، ما لم يُغرغر، أو تطلع الشمس من مغربها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "إن الله يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار، ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل، حتى تطلع الشمس من مغربها" (رواه مسلم) وقوله
صلى الله عليه وسلم: "إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر" (رواه أحمد وأبو داود) من حديث ابن عمر.
كما يجب ردِّ المَظالِم والحقوق إلى أهلها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "مَن كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء، فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم؛ إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه؛ فحمل عليه" (أخرجه البخاري)، (وروى أحمد، وأصحاب السنن، وصححه الحاكم): أنَّ رسول الله صلى الله ‏عليه وسلم قال: "على اليد ما أخذت حتى تؤدِّيه".
وعليه فيجب عليك ردِّ ما أخذته من تلك الشركة، ولو بطريقة غير مباشرة، وأن تبذل في سبيل ذلك كل ما تقدر عليه وانجُّ بنفسك، ولا تتعذَّر بزملائك، هذا إن كنت تعلم مقدار المال الذي أخذته، وأما إن كنت لا تعلم مقدار ما أخذت، فاعمل بغلبة الظن مع الاحتياط، فإن كنت شاكاًّ هل أخذت ألفاً، أو ألفاً ومئة؟ فاجعلها
ألفاً ومئة احتياطاً، وأَكْثِرْ من الأعمال الصالحة؛ قال الله تعالى: {إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ} [هود:14]، ومن أمثلة الطرق غير المباشرة: أن تعمل عملاً لهذه الشركة بأجر يكافئ ماأخذت منهم، ولا تأخذ أجرًا على ذلك، وهكذا.وأما زملاؤك فيجب عليك نصحهم، فإن تابوا وأعادوا الحقوق للشركة كما أعدتها،
فهذا من فضل الله عليك وعليهم، وإن أصرُّوا على فعلهم فيجب عليك إخبار مدير
الشركة؛ حتى لاتكون معينًا لهم على الإثم والعدوان؛ بالسكوت على باطلهم، ولأن في ذلك غشًّا للشركة ومالكيها، ولأن من شروط التوبة الإقلاع عن الذنب، والندم على مافات، وهذا لايتم مع ممارسة زملائك لهذا المنكر سابقًا وربما لاحقًا، وأنت تعلم ذلك، فاجتهد -حفظك الله- في حَثهم على التوبة، وتَرك أكل أموال الناس
بالباطل، ورد الحق إلى أهله، وتخويفهم عقوبة الله تعالى إذا هم تمادوا في ذلك،
ومما يساعدك على إقناعهم جلب بعض الأشرطة المؤثِّرة، والكتيبات التي تتناول أهمية التوبة، ورد المظالم إلى أهلها،، والله أعلم.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

منقول من موقع الآلوكة.
www.islamway.net
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
سعودی عرب کے مشہور عالم مفتی الشیخ محمد صالح المنجد ایسی صورت حال کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ إذا سرق الإنسان مال غيره ، وشق عليه أن يخبره بذلك ، أو خشي زيادة المفسدة بإخباره ، كأن تحصل القطيعة بينهما ، فلا يلزمه إخباره ، بل يرد المال إليه بأي طريق ممكن ، كأن يدخله في حسابه ، أو يعطيه لمن يوصله إليه .
’’ جب کسی انسان نے کسی کا مال چرایا ہو ، اور صاحب مال کو اس چوری سے باخبر کرنے میں مشکلات ہوں ، اور مزید برے نتائج کا اندیشہ ہو
تو (توبہ کیلئے ) اسے بتانا ضروری نہیں ،بلکہ اس کا مال اس کو واپس لوٹانا ضروری ہے ،جو کسی بھی ممکن طریقہ سے واپس کیا جا سکتا ہے ،
اس فتوی کا لنک
 
Top