محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ يَتُوْبُ اللہُ عَلَيْھِمْ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا۱۷ وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا۱۸
۲؎ فحش وحرام کاری کے بعد ضروری تھا کہ فلسفۂ توبہ پرروشنی ڈالی جائے۔ اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ توبہ اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب گناہ کے ارتکاب کی پوری ہمت موجود ہو اور وقت مساعد ہو ورنہ اس وقت جب کارواں منزل تک پہنچ چکا ہو اور ہمت وقوت جواب دے چکی ہو، توبہ سے کیا حاصل؟ اس وقت کی توبہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اپنے گناہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جب زندگی ہی نہیں تو ارتکاب گناہ کیسا؟بات یہ ہے کہ اسلامی فرائض ومناہی استدلال ومنطق پرمبنی ہیں اور جب عالم غیب کی بہت سی چیزیں بلاغور وفکر کئے آنکھوں کے سامنے آموجود ہوں اور فطرت کے راز ہائے سربستہ خود اپنی چہرہ کشائی پر آمادہ ہوں تو اس وقت خیر وشر میں تمیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
۱؎ فرمایا۔ تائب وہ ہے جو نادانستہ گناہ کر بیٹھے اورپھرفوراً ہی جان لینے کے بعد توبہ کرلے۔وہ نہیں جو عمداً توبہ کے بھروسے پر گناہ کرے۔حدیث میں آیاہے۔اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ کہ صحیح معنو ں میں توبہ کرنے والا بالکل معصوم انسان کی طرح ہوجاتا ہے ۔خدا کو ضرور انھیں لوگوں کی توبہ قبول کرنی ہے جو نادانی سے گناہ کرتے اور پھر جلد توبہ کر لیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ متوجہ ہوتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔۱؎(۱۷)اوران کی توبہ کچھ نہیں جو بدیاں کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت سامنے آجائے تو کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی اور ان کی توبہ بھی کچھ نہیں جو کافر ہی مرجاتے ہیں ۔ان کے لیے ہم نے دکھ کا عذاب تیار کررکھا ہے ۔۲؎(۱۸)
توبہ کا وقت
۲؎ فحش وحرام کاری کے بعد ضروری تھا کہ فلسفۂ توبہ پرروشنی ڈالی جائے۔ اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ توبہ اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب گناہ کے ارتکاب کی پوری ہمت موجود ہو اور وقت مساعد ہو ورنہ اس وقت جب کارواں منزل تک پہنچ چکا ہو اور ہمت وقوت جواب دے چکی ہو، توبہ سے کیا حاصل؟ اس وقت کی توبہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اپنے گناہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جب زندگی ہی نہیں تو ارتکاب گناہ کیسا؟بات یہ ہے کہ اسلامی فرائض ومناہی استدلال ومنطق پرمبنی ہیں اور جب عالم غیب کی بہت سی چیزیں بلاغور وفکر کئے آنکھوں کے سامنے آموجود ہوں اور فطرت کے راز ہائے سربستہ خود اپنی چہرہ کشائی پر آمادہ ہوں تو اس وقت خیر وشر میں تمیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔