اسلامی نظام کے قیام اور طاغوتی نظام اور اس کے تحت قائم کی جانے والی عدالتوں سے برأت پر ایک نادر و نایاب تحریر
[FONT="]ایک نہایت اہم استفتاء[/FONT]
[FONT="] [/FONT]
[FONT="]اسلامی نظام کے قیام اور طاغوتی نظام اور اس کے تحت قائم[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]کی جانے والی عدالتوں سے برأت پر ایک نادر و نایاب تحریر[/FONT][FONT="][/FONT]
نظام طاغوت اور اس کی عدالتوں سے کفر
اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا (النساء:۶۰)
’’اے نبی!کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں اُس ہدایت پر ایمان لانے کا جو تم پر اور تم سے پہلے کے انبیاء پر اتاری گئی ہے اور پھر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملہ کا فیصلہ ’’طاغوت‘‘سے کرائیں۔ حالانکہ انہیں حکم دیا گیاتھا کہ طاغوت سے کفر کریں (یعنی اس کے حکم کو تسلیم نہ کریں)‘‘۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
سید ابوالاعلیٰ مودودی(رحمہ اللہ)بیسویں صدی کی اُن چند نامور شخصیات میں سے ایک ہیں جو بظاہر سکہ بند عالم دین تونہیں تھے لیکن دین کا اخلاص کے ساتھ درد رکھنے والے ،شریعت اسلامی کے قیام کے زبردست داعی، اسلام اوراس کے احکامات پر مغرب اور مغرب پرست مسلمانوں کی طرف سے اٹھنے والے اعتراضات کا شافی جواب دینے والے اور مسلمانوں کے دینی و دنیوی اعتبار سے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ انہی بنیاد ی صفات کے ساتھ وہ اُٹھے اور انہوں نے دین اسلام کے نفاذ اور خلافت اسلامیہ کے قیام کے لئے مجموعی اعتبار سے ایک صحیح اسلامی جماعت کی بنیاد رکھی ۔چناچہ بہت سے سکہ بند علماء حق بھی ان کے ہمسفر اور ہمرکاب بن گئے ۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی (رحمہ اللہ) بیسوی صدی کی چوتھی دہائی میں جس عقیدے اور دینی فکر پر ایک جماعت کی بنیاد رکھنے جارہے تھے ،اس کا اندازہ اس دور میں موصوف کے خطبات اور تصنیفات سے مخوبی لگایا جاسکتا ہے ،جس کی اساس میں توحید عملی،طاغوت کا کفراور عقیدہ الولاء والبراء نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔اس کی ایک تابندہ اور بہترین مثال موصوف کی وہ تحریر ہے جو کہ ترجمان القرآن ،اگست۱۹۴۰ء کے شمارے میں ’’ایک اہم استفتاء‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ۔اس تحریر سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے موصوف کس شدت کے ساتھ قانون اسلامی کے نفاذ کے حامی اور اس کے برخلاف غیر الٰہی قوانین کوکو نافذ کرنے والے کفار ہوں یا نام نہاد مسلمان ،کس قدر اُن سے بیزار اور اُن سے برأت کا اظہار کرنے والے تھے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اپنی جماعت کو لے کر چلنا چاہا۔
لیکن تاریخ کا یہ بھی ایک المناک باب ہے کہ بہت سی شخصیات اور تحریکیں دین حق کے قیام کے لئے پورے اخلاص ،نیک نیتی اور صحیح بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہیں لیکن زمانے کے حوادث ان کو صحیح منہج اور فکر سے آہستہ آہستہ مختلف حیلے بہانوں سے دور لے جاتے ہیں اور بالآخر یہ ہوتا ہے کہ جو تحریکیں اسلامی نظام اورغیر الٰہی نظام زندگی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے میدان میں آئی ہوتی ہیں وہ اصل منہج وفکر سے اعراض کی وجہ سے وہ غیر اسلامی حتیٰ کہ کفریہ اور شرکیہ طریقہ و منہج کے ذریعے شریعت کے قیام کی کوشش کرنے لگتی ہیں اور اسی نظام باطل سے اسلامی عدالت کی بھیک مانگنے لگتی ہیں جس کے کفر اور انہدام کے لئے ان کو کھڑا ہوناتھا۔
سید ابوا لاعلیٰ مودودی(رحمہ اللہ) کی قائم کردہ جماعت سے آج بھی دین کا دردر رکھنے والے مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت وابستہ ہے اور وہ اس کی آبیاری کے لئے اپنے مال وجان دونوں سے قربانیاں دے رہے ہیں ۔موصوف کی زیر نظر تحریر یہ تقاضہ کرتی ہے کہ وہ دوبارہ اس جماعت کو اُسی منہج وفکر پر واپس لے کر آئیں جس پر اس جماعت کا قیام ہوا تھا ۔بصورت دیگر پھر اپنی ساری محنت و سعی ان بندگانِ خدا کے لئے لگا دیجئے جو اس کلمہ توحید کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان میں رائج ’’نام نہاد اسلامی دستور ‘‘ کی آڑ میں چلنے والے نظام باطل، اس کے نظام قانون اور اس کے تحت چلنے والی عدالتوں کے انہدام کے لئے صحیح اسلامی منہج وفکر کے مطابق اس آیت مبارکہ کی روشنی میں کہ :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ۔
’’اور لڑتے رہوان)نظام باطل کے محافظوں(سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہوجائے‘‘۔(الانفال:۳۸ )
میدان میں اُتر چکے ہیں اور اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹارہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں دین متین کے سچے ساتھیوں کا ساتھ نصیب فرمائے ۔آمین!
ایک نہایت اہم استفتاء
سید ابوالاعلیٰ مودودی(رحمہ اللہ)
ہمارے پاس دہلی سے ایک صاحب نے ایک مطبوعہ استفتاء بھیجا ہے ۔جس کا موضوع بجائے خود نہایت اہم ہے اور اس لحاظ سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ہمارے اکابر اس مسئلہ کو غیر شرعی طریقہ پر حل کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ذیل میں استفتاء اور اس کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
ماہرین علوم اسلامیہ و مفتیانِ شرع متین سے حسب ذیل سوالوں کا مدلل جواب کتاب و سنت کی اور فقہ کی روشنی میں جلد مطلوب ہے:
(۱) اگر کوئی غیر مسلم حاکم یا غیر مسلم ثالث و پنچ مسلمان مردو عورت کے نکاح کو اسلامی احکام کے مطابق فسخ کردے ،یا غیر مسلم حاکم یا غیر مسلم ثالث و پنچ عورت پر مرد کا ظلم ثابت ہوجانے کی صورت میں مرد کی طرف سے عورت کو طلاق دے دے ،جیساکہ بعض صورتوںمیں مسلمان قاضی کو یہ حق حاصل ہے، تو کیا نکاح فسخ ہوجائے گا ؟اور عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی ؟اور عورت کو شرعاً یہ حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ غیر مسلم کے فسخ کردہ نکاح اور ایقائے طلاق کو شرعاً درست سمجھ کر بعد عدت یا جیسی صورت ہو، دُوسرے مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے ؟
(۲) اگر سوال مذکورۃ الصدر کو جواب نفی میں ہو۔یعنی شرعاً غیر مسلم کے حُکمِ فسخِ نکاح یا ایقائے طلاق کے بعد بھی وہ عورت شوہر اوّل کی زوجیت میں باقی رہتی ہے ،تو اس صورت میں جو عورت دوسرے مرد سے نکاح کرلے گی،اور دوسرے مرد کو یہ علم بھی ہو کہ اس عورت نے غیر مسلم حاکم یا غیر مسلم ثالث و پنچ کے ذریعے سے طلاق حاصل کی ہے ،تو وہ نکاح باطل و فاسد ہوگا یا نہیں ؟اور دوسرے مرد سے نکاح کے باوجود اس عورت کا دوسرے مرد سے زن وشوہر کے تعلق رکھنا حرام ہوگا یا نہیں ؟اور دونوں شرعاً زنا مرتکب سمجھے جائیں گے یا نہیں ؟
(۳) اور دوسرے مرد سے نکاح باطل ہونے کی صورت میں جب اس دوسرے مرد سے کوئی اولاد ہوگی تو وہ ولد الحرام ہوگی یا نہیں ؟اور یہ اولاد اس دوسرے مرد کے ترکے سے محروم ہوگی یا نہیں ؟
مہربانی فرماکر ان سوالوں کے جواب نمبر وار مدلل تحریر فرمائیے۔الخ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس سوال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ صرف غیر مسلم حاکم یا غیر مسلم ثالث و پنچ کے بارے میں سوال کیاگیا ہے ،حالانکہ سوال یہ کرنا چاہیے تھا کہ جو عدالتی نظامِ خدا سے بے نیاز ہوکر انسان نے خود قائم کرلیاہو اور جس کے فیصلے انسانی ساخت کے قوانین پر مبنی ہوں ،اس کو خداکا قانون جائز تسلیم کرتا ہے یا نہیں ؟اس کے ساتھ ضمنی غلطی یہ بھی ہے کہ سوال صرف فسخ و تفریق کے معاملات کے متعلق کیاگیا ہے حالانکہ اصولی حیثیت سے ان معاملات کی نوعیت دوسرے معاملات سے مختلف نہیں ہے۔
صرف نکاح و طلاق کے معاملات میں نہیں ،بلکہ جملہ معاملات میں غیرا سلامی عدالت کا فیصلہ اسلامی شریعت کی رُو سے غیر مسلم ہے۔اسلام نہ اُس حکومت کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک الملک،یعنی اللہ سے بے تعلق ہوکر آزادانہ خود مختار انہ قائم ہوئی ہو ،نہ اُس قانون کو تسلیم کرتا ہے جو کسی انسان یا انسانوں کی کسی جماعت نے بطور خود بنالیا ہو ،نہ اُس عدالت کو حقِ سماعت و فصلِ خوصو مات کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک و فرمانروا کے ملک میں اس کی اجازت (Sanction)کے بغیر اس کے باغیوں نے قائم کرلی ہو۔اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی عدالتوں کی حیثیت وہی ہے جو انگریزی قانون کی رُو سے اُن عدالتوں کی قرار پاتی ہے جو برطانوی سلطنت کی حدود میں ’’تاج‘‘کی اجازت کے بغیر قائم کی جائیں ۔ان عدالتوں کے جج،ان کے کارندے اور وکیل ،اور ان سے فیصلے کرانے والے جس طرح انگریزی قانون کی نگاہ میں باغی و مجرم اور بجائے خود مستلزم سزا ہیں ،اسی طرح اسلامی قانون کی نگاہ میں وہ پورا عدالتی نظام مجرمانہ وباغیانہ ہے جو بادشاہِ ارض و سما کی مملکت میں اس کے ’’سلطان‘‘کے بغیر قائم کیا گیا ہو،اور جس میں اس کے منظور کردہ قوانین کے بجائے کسی دوسرے کے منظور کردہ قوانین پر فیصلہ کیا جاتا ہو۔ایسا نظامِ عدالت جُرم مجسّم ہے ،اس کے جج مجرم ہیں ،اس کے کارکن مجرم ہیں اور اس کے جملہ احکام قطعی طور پر کالعدم ہیں ۔اگر ان کا فیصلہ کسی خاص معاملہ میں شریعت اسلامی کے مطابق ہو ،تب بھی وہ فی الاصل غلط ہے۔کیونکہ بغاوت اس کی جڑ میں موجود ہے ۔بالفرض اگر وہ چور کا ہاتھ کاٹیں ،زانی پر کوڑے یا رجم کی سزا نافذ کریں ،شرابی پر حد جاری کریں ،تب بھی شریعت کی نگاہ میں چور اور زانی اور شرابی اپنے جرم سے اس سزا کی بنائ پر پاک نہ ہوں گے ،اور خود یہ عدالتیں بغیر کسی حق کے ایک شخص کا ہاتھ کاٹنے یا اس پر کوڑے یا پتھر برسانے کی مجرم ہوں گی۔ کیونکہ انہوں نے خدا کی رعیت پر وہ اختیارات استعمال کیے جو خدا کے قانون کی رُو سے ان کو حاصل نہ تھے۔
ان عدالتوں کی یہ شرعی حیثیت اس صورت میں بھی علیٰ حالہٰ قائم رہتی ہے جبکہ غیر مسلم کے بجائے کوئی نام نہاد مسلمان ان کی کُرسی پر بیٹھا ہو۔خدا کی باغی حکومت سے فیصلہ نافذ کرنے کے اختیارات لے کر جو شخص مقدمات کی سماعت کرتا ہے اور جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کی رُو سے احکام جاری کرتا ہے ،وہ کم از کم جج کی حیثیت سے تو مسلمان نہیں ہے بلکہ وہ خود باغی کی حیثیت رکھتا ہے ،پھر بھلا اس کے احکام کالعدم ہونے سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں؟
یہی قانونی پوزیشن اُس صورت میں قائم رہتی ہے جب کہ حکومت جمہوری ہو اور اس میں مسلمان شریک ہوں ،خواہ مسلمان کسی جمہوری حکومت میں قلیل التعداد ہوں یا کثیر التعداد ،یا وہ ساری آبادی مسلمان ہوں جس نے جمہوری لادینی اصول پر نظامِ حکومت قائم کیا ہو۔بہرحال جس حکومت کی بنیاد اس نظریہ پر ہو کہ اہل ملک خود مالک الملک (Sovereign) ہیں اور ان کو قانونِ الٰہی سے بے نیاز ہوکر خود اپنے لئے قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے ،اس کی حیثیت اسلام کی نگاہ میں بالکل ایسی ہے جیسے کسی بادشاہ کی رعیت اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے اور اس کے بالمقابل اپنی خود مختارانہ حکومت قائم کرلے ۔جس طرح ایسی حکومت کو اُس بادشاہ کا قانون کبھی جائز تسلیم نہیں کرسکتا اُسی طرح اس نوعیت کی جمہوری حکومت کو خدا کا قانون بھی تسلیم نہیں کرتا۔ایسی جمہوری حکومت کے تحت جو عدالتیں قائم ہوں گی ،خواہ ان کے جج قومی حیثیت سے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ،ان کے فیصلے بھی اسی طرح کالعدم ہوں گے، جس طرح کہ صورتِ اول و دوم میں بیان کئے گئے ہیں۔
( درج بالا پیراگراف پڑھنے کے بعد ان لوگوں کی بھی غلط فہمی دور ہوجانے چاہیے جو پاکستان میں نافذخود ساختہ اور غیر الٰہی قوانین و احکام پر مشتمل آئین کو صرف چند الفاظ کے ہیر پھیر کی بنیادپر اسلامی دستورکا نام دیتے ہیں۔مرتب )
جو کچھ عرض کیا گیا اس کی صحت پر پورا قرآن دلیل ہے ۔تاہم چونکہ سائل نے کتاب وسنت کی تصریحات کا مطالبہ کیا ہے ۔اس لئے محض چندآیاتِ قرآنی یہاں پیش کی جاتی ہیں:
1 قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے ،خلق اسی کی ہے ۔لہذا فطرۃً ’’اَمر‘‘کا حق (Right to rule) بھی صرف اسی کو پہنچتا ہے۔اس کے ملک (Dominion) میں اس کی خلق پر، خود اس کے سوا کسی دوسرے کا امر جاری ہونا اور حکم چلنا بنیادی طور پر غلط ہے۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ۔
’’کہواے اللہ!مالک الملک ،تو جس کو چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے‘‘۔(آل عمران:۶ ۲)
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ۔
’’وہ )اللہ ( تمہارا رب ہے ،ملک اُسی کا ہے‘‘۔(فاطر:۳ ۱)
لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ۔
’’بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں (Partner)ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل :۱۱۱)
فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ۔
’’لہذا حکم اللہ بزرگ و برتر ہی کیلئے خاص ہے‘‘۔(المومن :۲۱)
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا۔
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو اپنا حصہ دار نہیں بناتا‘‘۔(الکہف :۲۶)
أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ۔
’’خبردار!خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے‘‘۔(الاعراف:۴ ۵)
يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ۔
’’لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا امر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے ؟کہہ دو کہ امر ساراکا سارا اللہ کے لئے مخصوص ہے‘‘۔(آل عمران ۱۵۴)
2 اس اصل الاصول کی بناء پر قانون سازی کا حق انسان سے بالکلیہ سلب کرلیا گیا ہے ۔کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے ،بندہ اور محکوم ہے اور اس کا کام صرف اس قانون کی پیروی کرنا ہے جو مالک الملک نے بنایا ہو۔اُس کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے،یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، وہ ’’طاغوت‘‘ہے ،باغی اور خارج از اطاعت حق ہے،اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلے پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے۔
( اس مقام پر ان لوگوں کو بھی اپنے فکر و منہج کو درست کرلینا چاہیے جویہ دلیل دیتے ہیں کہ’’ پاکستان کے آئین میں قرآن وسنت کو سب سے بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے،لہذا یہ آئین اسلامی ہے‘‘، اورپھر اس کالازمی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس آئین کے تحت کام کرنے والی عدالتیں بھی از خود اسلامی عدالتوں کادرجہ قرار پاتی ہیں ۔اس ضمن میں چند امور وضاحت طلب ہیں:
. اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس آئین میں یہ لکھا ہے کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف تسلیم نہیں کیا جائے گا،تو کیا یہ شق ان عملی قوانین و احکامات پر اثر انداز ہوتی ہے جو نہ صرف غیر شرعی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں کھلم کھلا شریعت سے متصادم ہیں ۔
. اور جیسا کہ یہ بات وقت کے ساتھ اور واضح ہوتی جارہی ہے کہ’’ آئین پاکستان‘‘ دراصل اسلامی شریعت کے ساتھ کھلم کھلا مذاق اور استہزا ہے جس کے سرورق پر تو یہ لکھا ہے کہ یہ دستور اسلامی ہے ،لیکن اس کے احکام و قوانین نہ صرف ’’مجریہ ہند ‘‘کے چربہ ہیں بلکہ اسلامی حدود وقوانین کے بالکل متصادم و متعارض ہیں۔ صورتحال اب یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت اب عملاً زناء بالرضا ء جائز ہوچکا ہے،شراب نوشی قابل جرم فعل نہیں رہا، سود اب قانونی طور پر جائز ہونے کے بعد معیشت میں خون کی مانند دوڑ رہا ہے،قرآن کریم نے جس قصاص کو زندگی قرار دیا تھا اس کو قانونی طور پر کالعدم قرار دیاجاچکا ہے،اس کے علاوہ اور بہت سے قوانین کی مثال دی جاسکتی ہے۔مختصر یہ کیا ا ن تمام باتوں کے باوجود ہم اس آئین کو اسلامی شریعت کے نعم البدل کے طور پر تسلیم کئے بیٹھے رہیں گے؟
اس آئین کی مثال تو تاتاریوں کے سربراہ چنگیز خان کی مرتب کردہ قانون کی کتاب ’’یاسق ‘‘جیسی ہے، جوکہ تاتاریوں کے ہاں ایک آئین و دستور کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی ۔اُس کی حقیقت یہ تھی کہ چنگیز خان نے اپنے نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ تورات و انجیل اور کچھ اسلامی قوانین بھی اس میں شامل کردیئے تھے۔ سلف و صالحین نے تاتاریوں کے وضع کردہ آئین میں کچھ احکامات اسلامی ہونے کے باوجود اس کو قانونی طور پر تسلیم کرنے والوں کے کفر کا فتویٰ دیا۔علامہ ابن کثیر(رحمہ اللہ)سورۃ المائدۃ کی آیت:
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ۔
’’(اگر یہ اﷲکے قانون سے منہ موڑتے ہیں )تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں؟ اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اﷲتعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے!‘‘ (المائدۃ:۵۰)
کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اس کے ایسے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جن میں ہر قسم کا خیر ہے، ہر قسم کے شر سے روکنے والے ہیں، ایسے احکام کو چھوڑ کر لوگوں کی خواہشات، ان کی آراء اور خود ساختہ اصطلاحات کی طرف جاتے ہیں، جس طرح دورِ جاہلیت کے لوگ اسی طرح کے جاہلانہ اور گمراہ کن احکامات کو نافذ کرتے تھے جو انہوں نے اپنی خواہشات اور آراء سے بنائے ہوئے ہوتے تھے اور جس طرح کے فیصلے اور احکامات تاتاری کرتے تھے جو انہوں نے اپنے بادشاہ چنگیز خان سے لئے تھے۔ چنگیز خان نے تاتاریوں کے لئے ’’یاسق‘‘ وضع کیا تھا۔یاسق اس’’ مجموعہ قوانین‘‘ کا نام ہے جو چنگیز خان نے مختلف مذاہب،یہودیت، نصرانیت اور اسلام وغیرہ سے لے کر مرتب کیا تھا۔ اس میں بہت سے ایسے احکام بھی تھے جو کسی مذہب سے ماخوذ نہیں تھے وہ محض چنگیز خان کی خواہشات اور اس کی صوابدید پر مبنی تھے۔ یہ کتاب بعدمیں قابل اتباع قرار پائی اور وہ اس کتاب کو اللہ اور اس کے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر بھی مقدم رکھتے تھے۔ ان میں سے جس جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ کافر ہے، واجب القتل ہے جب تک کہ توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسول ا کے احکام کی طرف نہ آئے اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا فیصلہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ کرے۔‘‘(تفسیر ابنِ کثیر:۷۷۲)
. قانونی طور پر چند چیزوں کو اسلامی طرز پر ڈھال کر باقی تمام احکامات کو اپنی نفسانی خواہشات یا اغیار کے افکار پر مرتب کرکے مطمئن ہوجانا اوریہ سمجھنا یہ آئین و دستور تو اسلامی ہے اوراس پر عمل کرنا ایسا ہے کہ جیسا اسلامی قانون پر عمل کرنا،کیا شرعی طور پر صحیح ہے۔کیا یہ طرز عمل مغضوب علیھم یہودکا نہیں ہے جن کے اسی طرز عمل اللہ کا شدید غضب بھڑکا:
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔(البقرۃ )
’’تو کیا تم کتاب)شریعت( کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہواور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ،اُن کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی پھیر دیئے جائیں ۔اللہ اُن حرکات سے بے خبر نہیں جو تم (احکام شرعیہ کے ساتھ)کررہے ہو‘‘۔
. دین متین کی تکمیل اور تا قیام قیامت تک قرآن و سنت ہی کوایک دستورو قانون کی حیثیت حاصل ہے تو پھر ایک نئے آئین و دستور کی تدوین وتشکیل و نفاذ کی ضرورت کیا معنی رکھتی ہے؟
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا۔
’’اور جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤرسول کی طرف تو آپ منافقوں کو دیکھے کہ آپ سے چھڑک کر مل رہے ہیں‘‘(النساء: ۶۱)۔(مرتب)
( سید مودودی (رحمہ اللہ) کا کلام دوبارہ یہاں سے شروع ہوتا ہے )
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ۔
’’اور تم اپنی زبانوں سے جن چیزوں کا ذکر کرتے ہو ان کے متعلق جھوٹ گھڑ کر یہ نہ کہہ دیا کروکہ یہ حلال ہے (Lawful)اور یہ حرام (Un-lawful)‘‘۔ ( النحل: ۶ ۱۱)
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ۔
’’جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے اولیائ )اپنے ٹھیرائے ہوئے کارسازوں (کی پیروی نہ کرو‘‘۔)الاعراف:۳(
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔
’’اور جو اُس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو ایسے تمام لوگ کافر ہیں‘‘۔(المائدۃ:۴۴)
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا۔
’’اے نبی!کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں اُس ہدایت پر ایمان لانے کوجو تم پر اور تم سے پہلے کے انبیاء پر اتاری گئی ہے اور پھر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملہ کا فیصلہ ’’طاغوت‘‘سے کرائیں۔ حالانکہ انہیں حکم دیا گیاتھا کہ طاغوت سے کفر کریں )یعنی اس کے حکم کو تسلیم نہ کریں(‘‘۔(النساء:۶۰)
3 خداوند عالم کی زمین پر صحیح حکومت اورصحیح عدالت صرف وہ ہے جو اس قانون کی بنیاد پر قائم ہوجو اُس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے۔اسی کا نام خلافت ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ۔
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ حکم الٰہی کی بناء پر اس کی اطاعت کی جائے ‘‘۔(النساء:۴۶)
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ۔
’’اے نبی ! ہم نے تمہاری طرف کتاب ِ برحق نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اُ س روشنی کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے‘‘۔(النساء۱۰۵)
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ۔
’’اور یہ کہ تم ان کے درمیان حکومت کرو اس ہدایت کے مطابق جو اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں فتنہ میں مبتلا کرکے اُس ہدایت کے کسی جز سے نہ پھیر دیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے.کیا یہ لوگ جاہلیت کی حکومت چاہتے ہیں ؟‘‘ (المائدۃ:۴۹۔۵۰)
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّه۔
’’اے داؤد!ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے لہذا تم حق کے ساتھ لوگوں کے درمیان حکومت کرو اور اپنی خواہش نفس کی پیروی نہ کرو ورنہ اللہ کے راستہ سے وہ تم کو بھٹکا لے جائے گی‘‘۔(ص: ۲۶)
4 اس کے برعکس ہر وہ حکومت اور ہر وہ عدالت باغیانہ ہے جو خداوند عالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے قانون کے بجائے کسی دوسری بنیاد پر قائم ہو۔بلا لحاظ اس کے کہ تفصیلات میں ایسی حکومتوں اور عدالتوں کی نوعیتیں کتنی ہی مختلف ہوں ،ان کے تمام افعال بے اصل اور باطل ہیں۔ان کے حکم اور فیصلہ کے لئے سرے سے کوئی بنیاد ہی جائز نہیں ہے۔حقیقی مالک الملک نے جب انہیں سلطان (Charter) عطاہی نہیں کیا تو وہ جائز حکومتیں اور عدالتیں کس طرح ہوسکتی ہیں۔
(چارٹر سے ہماری مراد یہ ہے کہ جو خدا کومالک الملک اور اپنے آپ کو اس کا خلیفہ )نہ کہ خود مختار )تسلیم کرے، پیغمبرکو اس کا پیغمبر اور کتاب کو اس کی کتاب مانے اور شریعت الٰہی کے تحت رہ کر کام کرنا قبول کرے،صرف ایسی ہی حکومت اور عدالت کو خداوند عالم کا چارٹر حاصل ہے ۔یہ چارٹرخود قرآن میں دیا گیا ہے کہ (
اُحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ)’’لوگوں کے درمیان حکومت کرو اس قانون کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے‘‘حاشیہ سید مودودی(رحمہ اللہ)
وہ توجو کچھ کرتی ہیں،خدا کے قانون کی رو سے سب کا سب کالعدم ہے۔اہل ایمان )یعنی خدا کے وفادار رعایا( ان کے وجود کو بطور ایک خارجی واقعہ (Defacto)کے تسلیم کرسکتے ہیں ،مگر بطور ایک جائز وسیلۂ انتظام و فصل قضایا (Dejure) کے تسلیم نہیں کرسکتے۔ان کا کا م اپنے اصلی فرمانروا.....اللہ....کے باغیوں کی اطاعت کرنا اور ان سے اپنے معاملات کا فیصلہ چاہنا نہیں ہے،اور جو ایسا کریں و ادعائے اسلام و ایمان کے باوجود وفاداروں کے زمرہ سے خارج ہیں ۔یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے کہ کوئی حکومت ایک گروہ کوباغی قرار دے اور پھر اپنی رعایا پر اُن باغیوں کے اقتدار کو جائز تسلیم کرلے اور اپنی رعایا کو ان کا حکم ماننے کی اجازت دے دے۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا۔
’’اے نبی!ان سے کہو میں تمہیں بتاؤں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ ناکام ونامراد کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی پوری سعی بھٹک گئی (یعنی انسانی کوششوں کے فطری مقصود ،رضائے الٰہی سے ہٹ کر دوسرے مقاصد کی راہ میں صرف ہوئی )اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم خوب کام کررہے ہیں ۔یہ وہ لاگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کی ملاقات (اس کے سامنے حاضر ہوکر حساب دینے )کا عقیدہ قبول نہ کیا۔اس لئے ان کے سب احکام حبط (کالعدم)ہوگئے اور قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے‘‘۔(الکہف:۱۰۳ تا ۱۰۵)
وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ۔
’’یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی اطاعت نہ کی اور ہر جبار دشمن حق کے امر کا اتباع کیا‘‘۔(ہود:۹ ۵)
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ
’’اور ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح روشن سلطان کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان ریاست کے پاس بھیجا مگر ان لوگوں نے ہمارے فرستادہ شخص کے بجائے فرعون کے امر کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا امر درست نہ تھا )یعنی مالک الملک کے سلطان پر مبنی نہ تھا(‘‘۔(ہود۷۹)
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا۔
’’اور تو کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے (یعنی اس حقیقت کے شعور و ادراک سے کہ ہم اس کے رب ہیں )غافل کردیا جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی اور جس کا امر حق سے ہٹا ہوا ہے‘‘۔(الکہف:۸ ۲)
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا۔
’’اے نبی ! کہہ دو کہ میرے رب نے حرام کیا ہے فحش کاموں کو خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور معصیت کو اور حق کے بغیر ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کو،اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ (حاکمیت)یا الوہیت میں ان کو شریک کرو جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے‘‘۔(الاعراف:۳۳)
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ۔
’’اور تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی بندگی کرتے ہوں وہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے اگلوں نے رکھ لئے ہیں ۔اللہ نے ان کے لئے کوئی سلطان نازل نہیں کیا ہے حکم صرف اللہ کے لئے خاص ہے ۔اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ‘‘۔(یوسف ۴۰)
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔
’’اور جو کوئی رسول سے جھگڑا کرے درآنحالیکہ راہ راست اس پر واضح ہوگئی اور ایمان داروں کا راستہ چھوڑکر دوسری راہ پر چلنے لگے ،اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدہر وہ خود مڑ گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(النساء:۱۵۱)
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ۔
’’پس تیرے رب کی قسم! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اے نبی تجھ کو اپنے باہمی اختلافات میں فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کریں ‘‘۔(النساء ۶۵)
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا۔
’’اور جب کہا گیا کہ آؤاس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف توتو نے منافقوں کو دیکھا کہ تجھ سے چھڑک کر مل رہے ہیں‘‘۔(النساء:۱۶)
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا۔
’’اور اللہ نے کافروں )یعنی اپنی سلطنت کے باغیوں( کے لئے اہل ایمان )یعنی اپنی وفاداررعایا (پر کوئی راہ نہیں رکھی ہے‘‘۔(النساء:۱۴۱)
یہ قرآن کے محکمات ہیں ۔ ان میں کچھ بھی متشابہ نہیں ہے ۔اسلام کے نظام اخلاق اور نظام تمدن کی بنیاد جس مرکزی عقیدہ پر رکھی گئی ہے وہی اگر مشتبہ رہ جاتا ہے ،تو قرآن کا نزول ہی معاذ اللہ بیکار ہوتا۔اس لئے قرآن نے اس کو اتنے صاف اور قطعی طریقے سے بیان کردیا ہے کہ اس میں دو رائیں ہونے کی گنجائش ہی نہیں ہے ،اور قرآن کی ایسی تصریح کے بعد ہم کو ضرورت نہیں کہ حدیث یافقہ کی طرف رجوع کریں ۔پھر جب کہ اسلام کی ساری عمارت ہی اس سنگِ بنیا پر کھڑی ہے کہ اللہ نے جس چیز کے لئے کوئی سلطان نہ اتارا ہو وہ بے اصل ہے اور اللہ کے سلطان سے بے نیاز ہوکر جو چیز بھی قائم کی گئی ہو اس کی قانونی حیثیت سراسر کالعدم ہے ،تو کسی خاص معاملہ کے متعلق یہ دریافت کرنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی کہ اس معاملہ میں بھی کسی غیر الٰہی حکومت کی عدالتوں کا فیصلہ شرعاًنافذ ہوتا ہے یا نہیں ۔جس بچے کا نطفہ ہی حرام سے قرارپایا ہو تو اس کے بارے میں یہ کب پونچھا جاتا ہے کہ اس کے بال بھی حرامی ہے یا نہیں ؟خنزیر جب پورا کاپورا حرام ہے تو اس کی کسی بوٹی کے متعلق یہ سوال کب پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی حرام ہے یا نہیں ؟پس یہ سوال کرنا کہ فسخِ نکاح ،اور فریقین میں بین الزوجین اور ایقائے طلاق کے بارے میں غیر الٰہی عدالتوں کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے یا نہیں ،اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے اور اس سے زیادہ ناواقفیت کی دلیل یہ ہے کہ سوال صرف غیر مسلم ججوں کے بارے میں کیا جائے ۔گویا سائل کے نزدیک جو نام کے مسلمان غیر الٰہی نظام عدالت کے پرزوں کی حیثیت سے کام کررہے ہوں اُن کا فیصلہ تو نافذ ہوہی جاتا ہوگا ،حالانکہ خنزیر کے جسم کی بوٹی کا نام ’’بکرے کی بوٹی ‘‘رکھ دینے سے نہ تو وہ بوٹی فی الواقع بکرے کی بوٹی بن جاتی ہے اور نہ حلال ہی ہوسکتی ہے۔
( اسی طرح غیر الٰہی قوانین پر مشتمل آئین ودستور کے ماتھے پر ’’دستوراسلامی ‘‘لکھ دینے سے وہ اسلامی آئین نہیں بن جاتا۔مرتب )
اس میں شک نہیں کہ اسلام کے اس اصل الاصول کو تسلیم کرنے کے بعد غیر الٰہی حکومت کے تحت مسلمانوں کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے لیکن مسلمانوں کی زندگی کو آسان کرنے کے لئے اسلام کے اولین بنیادی اصول میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ مسلمان اگر غیر الٰہی حکومتوں کے اندر رہنے کی آسانی چاہتے ہیں تو انہیں اصولِ اسلام میں ترمیم کرنے یا باالفاظ دیگر اسلام کو غیر اسلام بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے،البتہ ’’مرتد‘‘ہونے کا موقع ضرور حاصل ہے ۔کوئی چیزیہاں اس سے مانع نہیں۔شوق سے اسلام کو چھوڑ کر کسی آسان طریقِ زندگی کو قبول کرسکتے ہیں ۔لیکن اگر وہ مسلمان رہنا چاہتے ہیں تو اُن کے لئے صحیح اسلامی طریقہ یہ نہیں ہے کہ غیر الٰہی حکومت میں رہنے کی آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ایسے حیلے بہانے ڈھونڈتے پھریں جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے متعارض ہوں،بلکہ صرف ایک راستہ اُن کے لئے کھلا ہوا ہے اور وہ یہ کہ جہاں بھی وہ ہوں ،حکومت کے نظریہ کو بدلنے اور اصول حکمرانی کو درست کرنے کی سعی میں اپنی پوری قوت صرف کردیں۔
) ترجمان القرآن۔اگست۱۹۴۰ء۔بحوالہ حقوق الزوجین از ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ)
امام ابن تیمیہ(رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
’’تومعلوم ہوا کہ جب تک اسلام کے احکامات کی عملاً پابندی نہ ہوجائے ،اس وقت تک اسلام کو خالی اپنالینے سے قتال ساقط نہیں ہوجاتا ،اس لئے جب تک دین سارے کا سارا ایک اللہ وحدہ، لاشریک کے لئے نہ ہو جائے اور جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے قتال’’ واجب‘‘ ہے ۔چنانچہ جب دین )اطاعت وپابندی، حکم وقانون (غیر اللہ کے لیے ہوجائے تو قتال واجب ہوجاتا ہے .چنانچہ وہ لوگ جو اسلام کے ظاہر ومتواتر احکامات وقوانین کی پابندی نہیں کرتے ،ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علمائ اسلام میں کوئی بھی اختلاف نہیں جانتا ،اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ۔
’’اور قتال کرو ان سے یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین کل کاکل اللہ ہی کے لئے ہوجائے‘‘۔(سورۃ الانفال )
اس لئے اگر دین کچھ تو اللہ کے لئے اورکچھ غیر اللہ کے لئے ہو تو قتال واجب ہوگاجب تک دین سارے کا سارا اللہ کے لئے نہ ہوجائے۔‘‘ (فتاویٰ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) : (۵۰۲-۵۱۱/۲۸)
جُرم مجسّم
اسلام نہ اُس حکومت کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک الملک،یعنی اللہ سے بے تعلق ہوکر آزادانہ خود مختار انہ قائم ہوئی ہو ،نہ اُس قانون کو تسلیم کرتا ہے جو کسی انسان یا انسانوں کی کسی جماعت نے بطور خود بنالیا ہو ،نہ اُس عدالت کو حقِ سماعت و فصلِ خوصو مات کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک و فرمانروا کے ملک میں اس کی اجازت (Sanction)کے بغیر اس کے باغیوں نے قائم کرلی ہو۔اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی عدالتوں کی حیثیت وہی ہے جو انگریزی قانون کی رُو سے اُن عدالتوں کی قرار پاتی ہے جو برطانوی سلطنت کی حدود میں ’’تاج‘‘کی اجازت کے بغیر قائم کی جائیں ۔ان عدالتوں کے جج،ان کے کارندے اور وکیل ،اور ان سے فیصلے کرانے والے جس طرح انگریزی قانون کی نگاہ میں باغی و مجرم اور بجائے خود مستلزم سزا ہیں ،اسی طرح اسلامی قانون کی نگاہ میں وہ پورا عدالتی نظام مجرمانہ وباغیانہ ہے جو بادشاہِ ارض و سما کی مملکت میں اس کے ’’سلطان‘‘کے بغیر قائم کیا گیا ہو،اور جس میں اس کے منظور کردہ قوانین کے بجائے کسی دوسرے کے منظور کردہ قوانین پر فیصلہ کیا جاتا ہو۔ایسا نظامِ عدالت جُرم مجسّم ہے ،اس کے جج مجرم ہیں ،اس کے کارکن مجرم ہیں اور اس کے جملہ احکام قطعی طور پر کالعدم ہیں ۔اگر ان کا فیصلہ کسی خاص معاملہ میں شریعت اسلامی کے مطابق ہو ،تب بھی وہ فی الاصل غلط ہے۔کیونکہ بغاوت اس کی جڑ میں موجود ہے ۔
(سیدمودودی رحمہ اللہ)
[FONT="] [/FONT]
[FONT="] [/FONT] [FONT="] [/FONT]
[FONT="]الامام سید ابوالاعلیٰ مودودی [/FONT][FONT="]رحمہ اللہ[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="] [/FONT]