ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
توحید حاکمیت اور انبیاء کرام علیہم السلام
اللہ تعالٰی نے انسانیت کو اپنی توحید الوہیت وحاکمیت سے روشناس کرانے کیلئے اور انہیں غیر اللہ کی حاکمیت اور شرک سے نکالنے کیلئے پے درپے انبیاء کرام کو نازل فرمایا اور انہوں نے انسانیت کے سامنے اللہ کا پیغام توحید رکھا۔ انبیاء نے اپنی دعوت کا آغاز ہمیشہ توحید الوہیت وحاکمیت سے کیا، ان کی بنیادی اور اول و آخر دعوت توحید حاکمیت ہی تھی اور انہوں نے اس دعوت کو قوموں کی اصلاح کیلئے بنیاد بنایا، انہوں نے اللہ تعالٰی کی توحید اور حاکمیت کو قائم کرنے کی خاطر ان گنت قربانیاں دیں اور تکلیفیں اٹھائیں لیکن ان کی دعوت یہی رہی جس کے متعلق ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا
ہم نے ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالٰی سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے ، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالٰی کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ۔
[سورة النساء، آیت ﴿۶۴﴾ ]
انبیاء کرام کی سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالٰی کی الوہیت وحاکمیت اور اطاعت پر گامزن کر دیں اور اطاعت اور غلامی صرف ایک اللہ کی کریں اور اپنی قوم کے سرداروں اور پروہتوں کی حاکمیت وغلامی چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی حاکمیت و غلامی اختیار کریں اسی لئے انبیاء کرام اپنی قوموں کو غیر اللہ کی حاکمیت و غلامی سے نکالنے کیلئے ان قوموں کے فرعونوں اور سرداروں سے ٹکراتے رہے؛
انبیاء کرام علیہم السلام کی ان سے جنگ اس بنیاد پر ہوتی تھی کہ وہ انسانیت کو ان کی اطاعت وحاکمیت سے نکال کر اللہ تعالٰی کی اطاعت و غلامی میں دینا چاہتے تھے مگر انسانیت شیطان کی راہ پر گامزن ہو کہ برابر اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں غیر اللہ کو شریک کرکے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرتی رہی۔
اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کر نے میں قوم کے امراء وسردار اور حاکم وبادشاہ تو ہمیشہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور کبھی کاہن و پروہتاور کبھی علماء ورھبان اور کبھی قوم کی خواہش نفس، رسوم ورواج اور قوانین کو اللہ تعالٰی کے احکامات کے مقابل ٹھرا کر کیا گیا۔ الغرض انسانیت اللہ تعالی کی حاکمیت کو چھوڑ کر غیراللہ کی حاکمیت میں غرق ہو گئی۔
آخرکار اللہ تعالٰی نے ایک بار پھر انسانیت کو اپنی توحید اور حاکمیت سے آگاہ کرنے کیلئے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے تمام انسانیت کو غیر اللہ کی حاکمیت کے شکنجے سے نکال کر اور غلامی کے بوجھ اور طوق سے آزاد کر کے زمین پر صرف ایک اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو قائم کرنے کیلئے جدوجہد کی۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
وہ جو اس پیغمبر ، نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے ، بدی سے روکتا ہے ، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
[سورة الأعراف، آیت ﴿۱۵۷﴾]
لیکن شیطان جو اللہ تعالٰی کے دربار میں یوں عہد کر چکا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور عبادت سے قیامت تک پھسلاتا رہے گا اور غیراللہ کے حکم کا عبادت گزار بنا کر چھوڑے گا۔ اس نے امت محمدیہ کو بھی اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے شرک وکفر میں مبتلا کر کے چھوڑا۔ آج امت محمدیہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت سے شرک وکفر کی تمام انواع واقسام میں بالکل غرق ہو چکی ہے۔ الا ما شاء اللہ۔
اور اس کے بھی اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں شرک کے وہی پیمانے ہیں جو دوسرے انبیاء کی اقوام نے اختیار کیے تھے. یہ امت کہیں اپنے لیڈروں اور حاکموں کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں شریک ٹھرا رہی ہے، کہیں علماء ورھبان کو اور کہیں خواہش نفس پر مبنی دستور و قوانین کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں شریک کر رہی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان بھی اصل تنازع عقیدہ توحید حاکمیت وعبادت اور اتباع الٰہی پر تھا. مشرکین مکہ اللہ تعالٰی کو خالق، مالک اور رازق مانتے تھے لیکن حاکمیت وعبادت میں اسے خالص کرنے پر تیار نہ تھے. ہر مشرک قوم نے اسی توحید حاکمیت میں انبیاء کرام کو جھٹلایا ہے اس لئے ہر نبی نے توحید حاکمیت پر اصرار کیا ہے. اور ہر رسالت کی بنیاد یہی عقیدہ رہا ہے. کہ غلامی، اطاعت، حاکمیت اور عبادت کو صرف ایک اللہ تعالٰی کیلئے خالص کیا جائے اور اس میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا جائے۔
اولوالعزم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ابراھیم ، موسی، عیسٰی، نوح اور دیگر انبیاء علیہم السلام اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے قیام کی خاطر فرعون ونمرود اپنے قوم وقبیلے اور سرداروں سے ٹکراتے رہے. اور حضرت سلیمان، داود اور یوسف علیہم السلام کو اللہ تعالٰی نے اپنی حاکمیت پر مبنی حکومتیں عطا فرمائیں۔
اس حقیقت کو دنیا والوں سے منوانے کیلئے انبیاء کرام نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ ان کی انسانوں کو دعوت اور پیغام یہی تھا کہ انسان صرف اللہ تعالٰی کی حاکمیت کی توثیق وتصدیق کریں. اور انسانوں کی عبادت نہ کریں انہیں حاکم مطلق اور الٰہ مت بنائیں، قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالٰی کو دیں اور اطاعت وغلامی صرف اللہ تعالٰی کے احکام وقوانین کی کریں تاکہ وہ اللہ تعالٰی کی توحید میں داخل ہو سکیں۔