• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید حاکمیت میں شرک کی تاریخ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
185
پوائنٹ
77
توحید حاکمیت میں شرک کی تاریخ

حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک کے مشرکین کے شرک کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام مشرک اقوام کا پہلا اور بنیادی شرک توحید الوہیت وحاکمیت میں تھا. توحید حاکمیت دراصل توحید الوہیت اور عبادت کی ذیل میں سے ہے۔

مشرکین کا اصل اور بنیادی شرک شروع سے اللہ تعالٰی کے حکم کی اطاعت وعبادت میں رہا ہے. توحید ربوبیت جو کہ اللہ تعالٰی کو خالق، مالک اور رازق ماننے سے عبارت ہے. مشرکین کم وبیش اللہ تعالٰی کی ان صفات پر ایمان لاتے تھے اور چند مشرک اقوام کے علاوہ کم ہی انہوں نے انسانوں یا مظاہر فطرت کو خالق، مالک اور رازق قرار دیا. لیکن مشرکین مکہ اس شرک میں ضرور مبتلا ہو جاتے تھے کہ وہ اللہ تعالٰی کے احکام اور اس کی عبادت کو چھوڑ کر انسانوں کے حکموں کی اطاعت اور عبادت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔

اگر آپ مشرک اقوام اور ان کے سرداروں خاص کر فرعونوں کے شرک کا مطالعہ کریں تو وہ یہی شرک تھا. ان اقوام کے سرداروں اور فرعونوں نے کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ زمین وآسمان کے خالق و مالک اور رازق ہیں بلکہ ان کا شرک یہی تھا کہ وہ حاکمیت وعبادت اور شعائر بندگی وغلامی میں خود کو شریک ٹھراتے تھے جیسا کہ فرعون کہتا تھا کہ میں ہی (رب) حاکم اعلٰی ہوں اس ملک پر میرا اقتدار اور حاکمیت قائم ہے۔

بتوں کی عبادت کا ڈھونگ تو وہ بیوقوف عوام کے سامنے اس لئے رچاتے تھے کہ وہ عوام سے اپنی غلامی وبندگی کرا سکیں اور ان کا مال و زر بھی بٹور سکیں. دراصل بات یہ ہے کہ شیطان نے انسان کے گلے میں غیراللہ کی حاکمیت کا قلادہ ڈالنے کیلئے مکر وتدبیر سے کام لیا ہے اس نے پہلے قوم کے سرداروں اور مالداروں کے دلوں میں عوام کا مال وزر بٹورے کی ہوس ڈالی. پھر اس کو حاصل کر نے کیلئے اس نے یہ طریقہ سمجھایا کہ وہ اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے عوام میں اپنے مزہبی بت خانوں، مزہبی پنڈتوں اور پروہتوں کی خدائی اور حاکمیت کا ڈنکا بجائیں چنانچہ انھوں نے اسے عوام کے دلوں میں راسخ کر کے ان کے نام پر چندہ، قربانی، چڑھاوے اور نزرانے سے عوام کا پیسہ ہڑپ کیا۔

ان سرداروں اور پروہتوں نے عوام سے مزید مال وزر کے حصول کیلئے احکام وقانون سازی اور رسم ورواج وضع کئے تاکہ عوام کو دونوں ہاتھ سے لوٹا جائے. اس نزرو نیاز، قانون سازی اور عبادت کے ذریعے انہوں نے مزہب کے نام پر افترا باندھا جو ان کے وسیلہ اور قرب سے اللہ تعالٰی تک پہنچتا ہے. اس طرح یہ مشرکین اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرتے ہیں۔

مختلف زمانوں میں آنے والی ان مشرک اقوام نے اللہ کے احکام وقوانین اور حاکمیت واطاعت کو چھوڑ کر ان سرداروں اور پرہتوں کی یہی عبادت کی ہے اور اللّٰہ کی ہدائت جو آسمانوں سے نازل ہوئی ہے اور جسے انبیاء کرام لے کر آئے بالکل چھوڑ کر زمین کو کفر وشرک اور غیراللہ کی حاکمیت سے بھر دیا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک سزا کی خوشخبری دوان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں۔ اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے

[سورة التوبة، آیت ﴿ۙ۳۴﴾]

شیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدي رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ناحق طریقے سے لوگوں کا مال ہتھیانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ لوگ ان کو مال دے کر ایسا فتویٰ حاصل کرتے تھے یا ان سے ایسا فیصلہ کرواتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ [تفسیر السعدي]

توحید حاکمیت اور اہل کتاب:

اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرنے کی تاریخ میں اہل کتاب بنی اسرائیل، ان کے مزہبی علماء ورھبان، کلیسا، حکومت اور بادشاہوں کا کردار بھی اہم ہے. اللہ تعالٰی نے اہل کتاب کی جو اصل گمراہی اور بنیادی گناہ قرار دیا ہے وہ توحید حاکمیت میں شرک تھا. اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اس گمراہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔


[سورة التوبة، آیت ﴿۳۱﴾]

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سورة التوبة آية ۳۱، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ

عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا: ”عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت: «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله» ”انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے“ ( التوبہ: ۳۱ ) ، پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے“ ۱؎۔

[جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ، حدیث نمبر : ۳۰۹۵، حکم : حسن (الألباني)]

اس حدیثِ رسول سے واضح ہوتا ہے کہ اہل کتاب کا اصل شرک اور گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے معاملات زندگی میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر غیر اللہ کے حکم وقانون کو متعین کر لیا تھا.
اہل کتاب اللہ تعالٰی ہی کو خالق ومالک مانتے تھے لیکن ان میں جو انحراف اور کجی پیدا ہوئی جس کے باعث ان کے عقائد واعمال اور ساری زندگی بدل گئی اس کا سبب یہ تھا کہ توحید حاکمیت کا خالص تصور دلوں سے مٹ گیا تھا۔

اس ایک تبدیلی کے بعد ساری تبدیلیاں اور کجیاں پیدا ہو گئیں. انہوں نے اپنی اہواء وخواہشات کو معبود بنا لیا تھا اور اس کی خاطر وہ اللہ تعالٰی کے احکامات میں تبدیلیاں کرتے ان کے علماء ورھبان ان کے خاطر یہ سب کام کرتے. اور ان کیلئے آسان اور سہل قوانین اختراع کرتے. ان خودساختہ احکام وقوانین کی اطاعت عوام کیلئے لازم ہوتی تھی اس طرح ان کی عبادت اور حاکمیت غیراللہ کیلئے مختص ہو گئی۔

توحید حاکمیت اور مشرکین مکہ:

دوسری مشرک اقوام اور اہل کتاب کی طرح مشرکین مکہ بھی جس شرک میں لت پت تھے وہ اللہ تعالٰی کی الوہیت وحاکمیت میں شرک تھا. مشرکین مکہ توحید ربوبیت پر ایمان لاتے تھے اور اللہ تعالٰی ہی کو خالق، مالک اور رازق مانتے تھے لیکن دوسری طرف انہوں نے الوہیت کے خصائص یعنی حاکمیت کو اپنے کاہنوں اور پروہتوں کے ہاتھوں مین دے رکھا تھا ان کے عباداتی اور معاشرتی احکام وقوانین یہ کاہن وپروہت ہی طے کرتے تھے یعنی مشرکین مکہ کی اصل گمراہی توحید الوہیت وحاکمیت میں شرک تھا جبکہ توحید ربوبیت پر وہ ایمان لاتے تھے جس کا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے ۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں۔
[سورة الزخرف، آیت ﴿ۙ۸۷﴾]

نیز ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدللہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔
[سورة لقمان، آیت ﴿۲۵﴾]

نیز ارشاد باری تعالٰی ہے:

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ
ان سے پوچھو، کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟ کون بےجان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بےجان کو نکالتا ہے ؟ کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو ، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے ؟
[سورة يونس، آیت ﴿۳۱﴾]

نیز ارشاد باری تعالٰی ہے:

قُلۡ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾
ان سے کہو ، بتاؤ، اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ
﴿۸۵﴾
یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے ؟

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ
﴿۸۶﴾
ان سے پوچھو ، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ
﴿۸۷﴾
وہ ضرور کہیں گے اللہ۔ کہو ، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ؟

قُلۡ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ
﴿۸۸﴾
ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے ؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟

سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ فَاَنّٰی تُسۡحَرُوۡنَ
﴿۸۹﴾
یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے ۔ کہو ، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتا ہے ؟

[سورة المؤمنون، آیت ﴿۸۴﴾ - ﴿۸۹﴾]

ان آیات سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالٰی کو ہی رب مانتے تھے اور اس کی توحید ربوبیت پر ایمان لاتے تھے لیکن ان کا اصل شرک توحید الوہیت وحاکمیت میں تھا۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ اور اس کے گرد کے علاقوں میں لاقانونیت اور جہالت کا دور دورا تھا. یہ ایک غلط فہمی ہے ان علاقوں میں رہنے والے بدو قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے. قبائل کی تہزیب ایک مخصوص رنگ میں رنگی ہوتی ہے اور اس میں رسم ورواج بہت اہم ہوتے ہیں ہر قبیلے کے رسم ورواج مختلف ہوتے ہیں یعنی ہر قبیلے کا قانون tribal law اپنا ہوتا تھا جس پر بلا چوں چراں عمل کرنا لازم ہوتا اور اس کے سے اسی اور معاشرتی قوانین قبیلے کا سردار اور مزہبی کاہن بناتا تھا یعنی حاکمیت کا حق انہیں حاصل تھا۔

اسلام نے ان کی حاکمیت اور قوانین کو مٹانے اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت قائم کرنے کی ان کو دعوت دی. اور اس کی خاطر ان کے خلاف جنگ برپا کی. اور لوگوں کو ان کے کاہنوں اور سرداروں کی غلامی اور حاکمیت سے نکالنے کیلئے اسلام کی صاف دعوت کو ان کے سامنے پیش کیا. اور ان کو اختیار دیا کہ وہ اسے قبول کریں یہ نہ کریں. لیکن اسلام زمین پر کسی شکل میں غیراللہ کی الوہیت وحاکمیت برداشت نہیں کرتا جو انسانوں کو اپنا غلام بنائے۔

اسلام کو اس بات کی شدید حرص ہے اور اس نے بے انتہاء کوشش کی ہے کہ عقیدہ توحید حاکمیت کو مجرد اور خالص کر کے پیش کرے اس کا سبب یہ ہے کہ وجود کائنات جس حقیقت پر قائم ہے وہ یہی عقیدہ ہے. علاوہ ازیں انسانی زندگی اور اسلامی معاشرہ اپنے اصول وفروع سمیت اس عقیدے کے علاوہ کسی اور بنیاد پر کھڑا نہیں ہو سکتا. لہذا یہ بات ضروری ہے کہ یہاں اس عقیدے کی قدروقیمت پر مفصل بات کریں جس طرح کہ قرآن مجید اور اسلام چاہتا ہے تاکہ لوگ دین کے اس اصل الا اصول کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔

توحید حاکمیت اور آج کے مشرکین:

دور حاضر کے مشرکین کا شرک بھی توحید الوہیت وحاکمیت میں ہے. یہ مشرکین بھی عموماً توحید ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہی خالق، مالک اور رازق ہے وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے، وہی آسمان سے بارش برساتا ہے، وہی شفا دیتاہے جسے چاہے اولاد دیتا ہے اور جسے چاہے بے اولاد رکھتا ہے۔

ان سب کاموں کا اختیار اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہے نہ کہ انسانوں، حاکموں یا کسی اور ہستی کے پاس ہے. لیکن زندگی کے سیاسی اور معاشرتی قوانین اور نظاموں میں حاکمیت کا اختیار ان کے خود ساختہ زمینی خداؤں حاکموں وبادشاہوں کے ہاتھ میں ہے. غرض آج کے مشرک مشرکین مکہ کہ طرح جاہل ہیں بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور ان کا شرک مشرکین مکہ سے بھی بدتر ہے۔

مشرکین مکہ بھی حاکمیت میں اپنے زمینی خداؤں کو شریک کرتے تھے. جن سے وہ رسم ورواج اور عبادتی شعائر لیتے اور جن کو وہ اپنے زمینی خداؤں کے آگے ادا کرتے تھے. جبکہ عصر حاضر کے مشرکین اپنے تمام سماجی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی احکام و قوانین ان زمینی خداؤں سے لیتے ہیں. ان لوگوں کی عبادت ہر مسئلے اور قانون میں ان کی اطاعت ہے. یہ لوگ اپنے زمینی خداؤں کے احکام وقوانین کو آج کے زمانے کیلئے اللہ تعالٰی کے احکام وقوانین سے بہتر سمجھتے ہیں.اس لئے آج کے لو گوں کا شرک مشرکین مکہ سے بھی بدتر ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔
[سورة النساء، آیت ﴿۵۱﴾]

اس سے پہلے بھی لوگ اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں شرک کرتے اور قانون سازی خود کر کے اسے اللہ تعالٰی کی طرف منسوب کر دیتے لیکن آج کے مشرکین نے جمہوری نظام کے ذریعے علی الاعلان اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو انسان کے سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی نظام سے بالکل خارج کر دیا ہے اور چند عبادات کے علاوہ باقی تمام قانون سازی انسان کے ہاتھ میں ہے۔

آج کے مشرکین کا لوگوں کے مال وزر بٹورنے اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرنے کا طریقہ وہی ہے جو قدیم مشرکین کا تھا. جس کے لئے وہ بتوں اور غیراللہ کی حاکمیت کا ڈنکا بجاتے تھے. آج کے مشرکین نے بھی لوگوں کا سرمایہ اور مال بٹورنے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کی صورت میں جدید بت متعارف کروایا ہے۔

ریاست و جمہوریت کے بت کے پجاریوں کے کے نزدیک بھی انسانی نظام وقوانین کو بنانے والی چیز آسمانی حکم نہیں بلکہ صرف دنیاوی ومالی اور معاشی واقتصادی ضرورت ہے. یہ نظریہ نہائت ابتدائی ہے جس کے ذریعے شروع سے لیکر آج تک انسانوں نے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو چھوڑ کر غیراللہ کی الوہیت وحاکمیت کو اختیار کیا ہے. آج کا انسان خود ساختہ الٰہوں، طاغوتی حاکموں اور بادشاہوں کا پُجاری ہو کر رہ گیا ہے. اور اس نے اللہ کی اصل توحید الوہیت وحاکمیت کو بھلا دیا ہے۔

مشرکین کیوں اللہ تعالٰی کی حاکمیت غصب کرتے ہیں:

دراصل انسانوں کے اندر مال وہوا کی ہوس پائی جاتی ہے یہ مادی مفادات اور خواہش پرستی کی ہوس ہے جو انسان کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت غصب کرنے پر آمادہ کرتی ہے. علاوہ ازیں ہر انسان میں انفرادی حاکمیت کی طلب پائی جاتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں پر حاکم بن کر انہیں اپنا غلام اور اپنے سے کم تر دیکھنا چاہتا ہے. یہی اسباب ہیں جو اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں شرک کا باعث بنتے ہیں۔

اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرنے والے طاغوت جانتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی کی حاکمیت اور اسلام محض عقائد وعبادات کا نام نہیں بلکہ اسلامی زندگی کے ہر معاملے سے بحث کرتا ہے. اور انسانوں کی زندگی کو غیر اللہ کی حاکمیت سے نکال کر اسلام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتا ہے۔ پس ہر دور کے طاغوت اور حکام وبادشاہ اپنی بقا اسی صورت میں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور اسلام کو قائم نہ ہونے دیا جائے. کیونکہ اس کے غلبے اور کامیابی کی صورت میں ان کے مالی مفادات کا خاتمہ ہوتا ہے۔

اسلام شرک و طاغوت کے ہر حکم کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے طاغوت اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ ہمارے مالی مفادات، امتیازات اور سیاسی ومعاشی فوائد کو بہا لے جائے گا. کیونکہ اسلام محض زبانی عقیدہ نہیں بلکہ منہج حیات ہے جو زندگی کے ہر معاملے کی بات کرتا ہے. پس وہ سود، احتکار، ظلم وتعدی، معاشی ناہمواری اور جاہلیت کی اونچ نیچ برداشت نہیں کرتا۔

یہی حقیقت ہے جس کے پیش نظر اللہ تعالٰی کی حاکمیت کو غصب کرنے والے ہر دور کے مشرکین اور آج کے مشرکین بھی اسلام اور شریعت کے خلاف اپنا سب کچھ جھونک دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں. کیونکہ جب اسلام اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت قائم ہو جائے گی تو ان کی حاکمیت ختم ہو جائے گی. جب ایک اللہ کی شریعت اور قانون چلے گا تو طواغیت کا وضع کردہ دستور وآئین نہیں چلے گا. طاغوت جب اللہ تعالی کی حاکمیت اور شریعت کا انکار کرتے ہیں تو اس لئے کرتے ہیں کہ اس میں انہیں اپنی حاکمیت کی موت نظر آتی ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یَزۡعُمُوۡنَ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَحَاکَمُوۡۤا اِلَی الطَّاغُوۡتِ وَ قَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِہٖ ؕ وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا

تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ [سورة النساء، آیت ﴿۶۰﴾]
 
Top