ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے کائنات کو تخلیق فرمایا اور اس کو تخلیق کرنے میں جو مقصد عظیم تھا وہ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت اور اس کی حاکمیت کا اقرار تھا۔ اللہ تعالی نے اپنی حاکمیت کو کائنات پر جاری وساری فرمایا۔ کائنات کے ستاروں، سیاروں، تمام اجسام فلکی اور زمین وآسمان اسی حاکمیت کے تابع ہیں۔
یہ کھربوں کی تعداد میں بے آب وجنس سیارے درحقیقت اللہ تعالٰی کی حاکمیت کا مظہر ہیں کہ وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے بے چوں چراں حرکت پزیر اور اطاعت گزار ہیں. ان پر یہ توحید، اللہ کا حکم جاری ہونے اور اس کی اطاعت کی صورت میں نافذہے۔ یہ تمام اجسام جو اللہ کی عبادت میں مستغرق ہیں ان کی عبادت یہی ہے۔
کائنات کے فلکی بھاری اجسام ہی نہیں بلکہ مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اللہ تعالٰی کے احکامات اور قوانین کے تابع ہے اس طرح اللہ تعالٰی کی توحید حاکمیت کی روح کائنات کے ذرے ذرے میں سمائی ہوئی ہے۔ اور انہوں نے اللہ تعالٰی کے احکامات اور قوانین سے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک ذرہ بھی جنبش نہیں کی۔
کائنات میں اگر اللہ تعالٰی کی حاکمیت سے ذرہ بھر بھی انحراف ہو جائے تو یہ کائنات پاش پاش ہو جائے اور اس کا کوئی وجود اور حقیقت ہی نہ رہے۔ ان کا وجود اور حقیقت اسی پر قائم ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے حکم کے تابع رہیں۔ اللہ تعالٰی کی حاکمت تمام زمین وآسمان سے ہم آہنگ ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
افغير دين الله یبغون ولہ اسلم من فی السموات والارض طوعا اوکرھا والیہ یرجعون [آل عمران: ۸۳]
کیا وہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو کو ئی بھی ہے وہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ تعالٰی کا اطاعت گزار ہے اور اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے.
اللہ تعالٰی نے اسی مقصد کی خاطر جن وانس کو پیدا فرمایا:
ارشاد باری تعالٰی ہے:
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون [الزاریات: ٥٦]
میں نے تمام جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔
اللہ تعالٰی نے جس مقصد کی خاطر اس کائنات کو پیدا فرمایا اسی مقصد عظیم کی خاطر جن وانس کو پیدا فرمایا کہ وہ بھی اس کے حکم کی اُسی طرح اطاعت کریں جس طرح یہ کائنات اور زمین وآسمان اللہ تعالٰی کے حکم کے اطاعت گزار ہیں۔
اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد ان کی پشت سے تمام نسل آدم کی روحوں کو نکالا اور ان سے جو عہد لیا وہ یہی تھا کہ وہ صرف اللہ تعالٰی کی اطاعت وعبادت کریں گے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
واذ اخز ر بک منم بنی آدم من ظھورم ذریتھم واشھدھم علٰی انفسھم الست بربکم قالو بلٰی شھدنا…[الااعراف: ۱۷۲]
اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں ان کی جانوں پر گواہ بنایا (اور پوچھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں۔
اللہ تعالٰی جن و انس کو ہوائے نفس دے کر ان سے اپنی اطاعت و حاکمیت کی آزمائش فرمائی۔ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ابلیس سے کہا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرے لیکن اس نے اپنی عقل پر چل کراللہ تعالٰی کے حکم کا انکار کیا اور توبہ کرنے کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا۔
اللہ تعالٰی نے اپنی حاکمیت کے انکار کی پادش میں ابلیس کو ہمیشہ کیلئے اپنے دربار سے دھتکار دیا۔ اس کے بعد ابلیس نے عہد کیا کہ وہ ابن آدم کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت سے نکالنے کے کیلئے ہمیشہ تگ ودو کرتا رہے گا۔ کائنات میں سب سے پہلا گناہ اللہ تعالٰی کے حکم سے انکار اور اس کی حاکمیت سے کفر تھا جو ابلیس نے کیا۔
حضرت آدم علیہ السلام کی اللہ کے حکم کی پہلی آزمائش جنت میں ہوئی اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان ابلیس نے اللہ تعالی کے حکم سے پھسلا دیا
لیکن حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی حاکمیت سے انحراف پر شیطان کی طرح تکبر نہ کیا بلکہ اللہ تعالٰی سے اپنی غلطی کی معافی مانگی جسے اللہ تعالٰی نے قبول کرتے ہوئے انہیں دوبارہ آزمائش کیلئے زمین پر بھیجا اور زمین میں انکی آزمائش کیلئے اپنی طرف سے احکامات اور قوانین نازل فرمائے
اور ان کی اطاعت کی صورت میں اللہ تعالٰی نے ابن آدم سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں جنت میں لوٹا دے گا. اللہ تعالٰی نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ ٹھرایا اس لئے کہ وہ زمین پر اللہ تعالٰی کی حاکمیت کی اطاعت اور اس کے قیام کی ذمہ داری ادا کر تا ہے.
ارشاد باری تعالٰی ہے:
فامایاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون. [البقرہ]
ہم نے کہا تم یہاں سے اترو پھر اگر تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ان پر کو ئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
انسانیت نے حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے سے لے کر اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور توحید پر کاربند رہی اور اللہ تعالٰی کی زمین پر اس کے حکموں کو بجا لاتی رہی مگر کافی وقت گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ ابن آدم علیہ السلام اللہ تعالٰی کی حاکمیت کی اطاعت سے غافل ہوتا چلاگیا۔
شیطان ابن آدم کو اللہ تعالٰی کی حاکمیت سے پھسلانے میں کامیاب رہا اور اس نے حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہو نے والے احکامات کی اطاعت سے ابن آدم کو غافل کر دیا اور انسانیت اللہ تعالٰی کے احکامات کو چھوڑ کر اپنے قوم وقبیلے کے ہوائے نفس پر مبنی رسوم وقوانین اور احکامات کی تعمیل واتباع میں مصروف ہو گئی۔
شیطان نے اللہ تعالٰی کے احکام و قوانین کی نافرمانی پر ابن آدم کو لگانے اور اسے مزین کر نے کیلئے ان احکامات کو حضرت آدم علیہ السلام کی قوم کے نیک بندوں سے منسوب کیا. اس طرح انسانیت آہستہ آہستہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت کی اطاعت کی بجائے غیراللہ کی حاکمیت کی اطاعت میں غرق ہوتی چلی گئی. اور انسان جس شرک میں سب سے پہلے مبتلا ہوا وہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں تھا۔
حدیث قدسی ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
انی خلقت عبادی حنفاءکلھم وانھم اتتھم الـشیاطین فا جتالتھم عن دینھم وحرمت علیھم ما احللت لھم وامرتھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہ سلطانا. [صحیح مسلم: ٢٨٦٥]