• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید وقت کی شدید ترین ضرورت:محمد عطاء الرحمن مدنی

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
توحید وقت کی شدید ترین ضرورت:

محمد عطاء الرحمن مدنی
عالمی تناظر میں اقوام عالم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو امت مسلمہ سب سے زیادہ مجبور ومقہور اور پسماندہ ہے، اور مغربی اقوام کی ذہنی اور سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلمان ہی تہذیب وتمدن کے بانی تھے اور باقی اقوام کو علم کی روشنی مسلمانوں سے ہی ملی تھی۔پھر یہ پسماندگی و تباہی کیوں؟...اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے "توحید" کا سبق بھلا دیا، ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قیادت میں مسلم معاشرہ سے اس وقت کی سپر طاقتیں روم و فارس لرزہ براندام تھیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں اٹل اور غیرمتزلزل "توحید" موجود تھی، جس کی وجہ سے اللہ کے علاوہ دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایمان کی حلاوت وچاشنی اور استحکام "توحید" کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اور ایسے ہی ایمان بالتوحید کے لیے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ اللہ کی طرف سے یہ اعلان آج بھی موجود ہے:​
(إنَّ الاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ) (الأنبیاء:105)(وَأنْتُمُ الاَعْلَوْنَ إنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِيْنَ)(اٰل عمران:139)
رہےگا تو ہی جہاں میں یگانہ ویکتا​
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ​
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے، لیکن اس کی حالت یہ ہے:(يَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْيَةِ اللهِ أوْ أشَدَّ خَشْيَةً) (النساء:77) "وہ اللہ سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں۔"​
اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ (کَأنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ) "وہ لکڑی کے کندے ہیں جودیوار کے ساتھ چن کررکھ دیے گئے ہوں۔"​
حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتی ہے ان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ:​
(يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ۠ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ) (الحج:73)
"بےشک اللہ کو چھوڑ کر جن کوتم لوگ پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی تک پیدا کرنے پرقادرنہیں، اگرچہ اس کام کے لیے وہ سب مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اُس سے وہ چیز چھڑالینے کی طاقت بھی ان میں نہیں ہے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔درحقیقت قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔"
اُمت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام عظمت اورمنصب امامت اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل وجان سے ڈٹ جائے اور ان کی زندگیوں میں توحیدکے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں، صرف زبانی جمع وخرچ سے کام نہ لے۔​
خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیاحاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں​
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت، تذبذب اور شک وشبہ نہ ہو۔ بلکہ اصحاب الاخدود، اصحاب کہف اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا ایمان ہو۔ ساری محبت واطاعت اللہ ہی کے لیے ہو۔ بلکہ ساری گفتگو کو ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ"ساری اُمت مسلمہ اللہ کی ہی ہوکر رہے:​
(اِِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ لَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُکُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْآخِرَةِ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ)(حٓمٓ السجدۃ: 30-32)
"جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر وہ اس پر ڈٹ گئے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ، اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیاہے۔ ہم اس دنیاکی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملےگا، اور ہر چیز جس کی تم تمنا کروگے وہ تمہاری ہوگی۔ یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔"
تاریخ انسانی کے سٹیج پر بڑے بڑے فرعون آئے۔ اپنی اپنی ڈفلی بجاکر نابود ہوگئے۔ اصل قوت وطاقت کامالک تو اللہ الواحد القہار ہے۔ اگر اسی سے تعلق مضبوط کیا جائے، اسی سے محبت کی جائے، اسی سے ہرحال میں رجوع کیا جائے، اسی کی اطاعت وبندگی کی جائے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ (اَلَيْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَهُ) وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ پکارسنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ تو پھر اصل سہاراچھوڑکر نقلی سہارے تلاش کرناعقل کافتور نہیں تو اورکیاہے۔​
شعلہ بن کر پھونکدے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرباطل بھی تو​
 
Top