ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
توحید کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
توحید دین اسلام کی بنیاد اور اساس ہے. اسلامی عقیدہ توحید کی بنیاد پر ہی دین اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید کی بنیاد جس قدر گہری، مضبوط اور صحیح ہوگی اس قدر اسلام کی عمارت مضبوط قائم ہوگی۔ جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی، جس طرح درخت کی جڑ کے بغیر درخت قائم نہیں رہ سکتا، اس طرح عقیدہ توحید کی صحت کے بغیر اسلام قائم نہیں ہوسکتا۔ عقیدہ توحید ہی تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور یہ اسلام کا عقیدہ حیات ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کا ساری کائنات اور تمام جن وانس کو پیدا کرنے کا مقصد توحید تھا۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون [الزریات: ٥٦]
میں نے تمام جن وانس کو اپنی عبادت (توحید) کیلئے پیدا کیا ہے۔
توحید دین اسلام کی وہ شہادت ہے جس کی گواہی اللہ تعالٰی نے جن وانس کی تخلیق سے پہلے لی اور اللہ تعالٰی نے آدم اور ابن آدم کی تمام روحوں کو اکٹھا کیا اور ان سے فرمایا:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا… [الاعراف: ۱۷۲]
اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں ان کی جانوں پر گواہ بنایا (اور پوچھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں۔
توحید کو اللہ تعالٰی نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اگر انسان اپنے ارد گرد کے احوال و ظروف سے متاثر نہ ہو تو انسان خالص توحید پر عمل پیرا ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ [صحیح بخاری: ۱۳۵۷]
توحید دین اسلام کا وہ حکم ہے جو اللہ تعالٰی نے انسان کو سب سے پہلے دیا اور تمام انبیاء بنی نوع انسان کو اسی توحید کی دعوت دینے کیلئے مبعوث کئے گئے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
وما أرسلنا من قبلك من رسول إلا يوحى إليه أنه لا إله إلا أنا فاعبدون [الانبیاء]
اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بیشک میرے سوا کوئی معبود نہیں لہذا تم میری ہی عبادت کرو۔
ہزاروں انبیاء کو اللہ تعالٰی نے توحید کی تبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کے بنی آدم توحید کو ہی اختیار کئے ہوئے تھے، لیکن آہستہ آہستہ وہ توحید کے راستے کو بھلا بیٹھے اور انہوں نے شرک کا راستہ اختیار کرنا شروع کردیا اور شیطان کے راستے پر چل پڑے۔
ابلیس شیطان کی انتہائی کوشش ہے کہ انسان کو توحید اصلی بھلا کر کسی نہ کسی طریقے سے شرک کے راستے پر ڈال دے۔ وہ اللہ تعالٰی کے دربار سے اس مزعوم دعوے سے آیا ہے کہ وہ انسان کو ضرور توحید سے گمراہ کر کے رہے گا اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہا اور اس نے بنی نوع انسان کی کثیر تعداد کو شرک اور گمراہی میں ڈال رکھاہے۔
اس گمراہی اور شرک کی اصلاح کیلئے اللہ تعالٰی نے عظیم انبیاء کا سلسلہ شروع کیا جنہوں نے اپنی قوموں اور قبیلوں کو توحید کا درس دیا۔ لیکن ان قوموں اور قبیلوں میں شرک کے تاریک راستے پر چلنے والے لوگوں پر اللہ تعالی نے عذاب نازل کئے۔
اسی توحید کی خاطر انبیاء نے انتھک محنتیں اور کوششیں کیں اور اسی کی خاطر تکلیفیں اور پریشانیاں جھیلیں اور تعزیب و تشدد کا نشانہ بنے اور کچھ انبیاء نے اسی توحید کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کیا۔
دعوت توحید کا یہ سلسلہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اوج کمال کو پہنچا جو ایک دفعہ پھر انسانیت کو جو شرک کی ضلالت اور اندھیرنگری میں گم تھی توحید کی نعمت اور نور سے بہرہ ور فرمانے کیلئے مبعوث کئے گئے۔
اور انہوں نے اللہ تعالی کی توحید کو خالص انداز میں پیش کیا اسلام کی دعوت پیش کی اور اس دعوت کی بنیاد اور اساس توحید کو قرار دیا۔ اللہ تعالی نے اس توحید کی دعوت کیلئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
هَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ [ابراہیم: ٥٢]
یہ لوگوں تک پہنچانے کیلئے(کتاب نازل فرمائی ہے) تاکہ اس کے ذریعے سے یہ لوگ خبردار ہوجائیں اور جان لیں کہ وہ الٰہ اکیلا ہے اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے توحید کی دعوت دینے میں ذرا کمی نہ کی اور اس کیلئے قریش مکہ کی طرف سے آنے والی ہر قسم کی سختیوں اور تکلیفوں کا مقابلہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسی توحید کی خاطر طائف میں پتھر کھائے اور اسی کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شعب ابی طالب میں تین سال تک بھوک و پیاس اور قید وبند جھیلی اور اسی توحید کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت وجہاد کا راستہ اختیار کیا اور تمام انسانیت کے سامنے توحید کا پیغام رکھا اور انہیں اس سے مکمل روشناس کروایا اور ہر قسم کی ہدایت اور دنیا وآخرت میں کامیابی اسی توحید کو قرار دیا اور فرمایا:
قولوا لا اله الا اللّٰہ تفلحوا تملکوا العرب والعجم [مسند احمد: ٣-٤٩٢] لوگو لا اله الا اللہ کہہ دو کامیاب ہوجاؤ اور عرب وعجم کے حکمران بن جاؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسی دعوت توحید پر صحابہ کرام کی جماعت تیار کی جنہوں نے اس دعوت کو لے کر دنیا پر توحید کو قائم کیا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے توحید کی اصلیت اور صحیح فہم کو جانا اور شرک کے ہر رنگ اور قسم کو چھوڑ دیا انہوں نے کلمہ توحید لا اله الا اللہ کو نہ صرف زبان سے ادا کیا بلکہ اس کا اصل فہم ان کے روح وعمل میں اتر گیا.
لیکن آج ہم ہیں کہ کلمہ لا اله الا اللہ کو ۲ ہزار بار ادا کرنے کے باوجود توحید کے اصل فہم اس کے معنی اور حقیقت اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہیں جس پر اسلام کی بنیاد کھڑی ہے اور اس پر باقی تمام اعمال استوار ہوتے ہیں۔
ان اعمال کی قبولیت اسی پر ہے جب ہماری توحید کامل ہوگی اگر ہماری توحید پوری نہ ہوئی اور اس میں ذرا سا بھی شرک آگیا تو ہمارا کوئی عمل قبول نہیں بلکہ دنیا میں ضلالت و گمراہی اور آخرت میں جہنم اور دردناک عزاب ہوگا۔
آج امت مسلمہ جو کروڑوں کی تعداد میں ہے جو زبان سے کلمہ لا اله الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں مگر ان میں سے اکثر توحید کے فہم سے مکمل عاری ہیں اور شرک اکبر میں گرفتار ہیں لیکن اس کا علم نہیں رکھتے۔جبکہ قرآن توحید کے علم اور فہم سے بھرا پڑا ہے۔ اللہ تعالی نے توحید کو سمجھانے کیلئے نہایت آسان سادہ مثالوں، عقلی دلائل اور اپنی قدرتوں اور نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالی کی توحید کو جان لیں اور شرک جیسے گناہ سے بچ جائیں۔