• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید کو ماننے والے کہاں ہیں؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
578
ری ایکشن اسکور
186
پوائنٹ
77
توحید کو ماننے والے کہاں ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمیں ان پاک طینت موحدین کی خدمت میں کچھ گزارشات کرنی ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو اپنے وجود اور دعوت کی شناخت بناکر نجات کے متلاشی ہیں۔ جو مہنگائی کی فکر سے بلند ہوکر یہ سوچنے پر آمادہ ہیں کہ بجٹ اور مزدوروں کی تنخواہ سے بڑھ کر بھی دنیا میں قوموں کے پریشان ہونے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں روٹی کے نرخ کم کروانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے نہ سڑکیں اور گلیاں پکی کرانے کے لئے۔

جن کا یہ اعتقاد ہے کہ آسمانی صحیفے انسانوں کو نہ تو افراط زر سے ڈرانے کے لئے نازل ہوتے رہے ہیں اور نہ ہی قومی ترقی کی نوید دینے کے لئے، بلکہ پیغمبران حق ہر زمانے کے انسانوں کو اپنے وقت اور اپنے ملک کے طاغوت سے کفر عداوت کرانے اور اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ ایمان اور وابستگی استوار کرناے کے لئے آٹے رہے ہیں اور یہ کہ آسمانی کتابوں کا اصل موضوع جہنم کا عذاہ ہے یا آخرت کی نجات۔

ان خرد مندوں سے یہ بات اوجھل نہ ہوگی کہ ملک میں یہ خوف و ہراس، بے چینی اور بدامنی و بے یقینی کے بڑھتے ہوئے سایے اور اس ماردھاڑ، قتل و غارت، غبن اور خرد برد کا خوفناک طوفان اس قوم کی بدقسمتی کا سبب نہیں صرف ایک مظہر ہے۔ اس کی علّت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کا مالک اس سے ناراض ہے۔

اس قوم کی خوش بختی کی یہی ایک صورت ہے کہ یہ اللہ کے تمام شریکوں کا برسرعام انکار کرکے ہر اس بت کو پاش پاش کر دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہو جو اللہ کے ماسوا اس ملک میں پوجا جاتا ہے اور اپنی معاشی ابتری کا حل تلاش کرنے سے پہلے کتاب اللہ سے اپنا وہ فرض دریافت کرے جس کا ادا کرنا مادی ترقی ایسے کسی معجزے کے ساتھ مشروط نہ ہو۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ھادی تسلیم کرلینے کے بعد کوئی قوم جس شدت سے اپنے مسائل کا حل کفار کے ہاں تلاش کرے گی اسی قدر اس کی منزل قریب نظر آنے کے باوجود سراب بنتی چلی جائے گی۔

{وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللّٰهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ} (النور:39)
’’جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب، کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا۔ اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔‘‘

سو ہمارے مخاطب وہ حضرات ہیں جو یہ احساس رکھتے ہیں کہ ’’معاشی‘‘ اور ’’سیاسی‘‘ منزل یا ’’آزادی‘‘ ایسی اصطلاحیں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زیب نہیں دیتیں۔ اس کی منزل ماسوا اس کے کچھ نہیں کہ الہی ہدایت کا دامن تھام کر یہ اندھیروں سے نکلے اور بھٹکتی انسانیت کو روشنی کی سمت لے کر چلے۔

{اللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ} (البقرۃ:258)
’’ اللہ مومنوں کا حامی وکارساز ہے، وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، ان کے حامی و کارساز طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔‘‘

قرآن کریم گھروں میں رکھ کر جو قوم خود اندھیروں کے تعاقب میں نکل کھڑی ہو، بدبختی کے سوا اس کا کوئی انجام ہونا ہی نہیں چاہیئے تب اس پر لٹیرے مسلط ہوں یا وہ خود ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگیں تو اس کا باعث قوم کی ناخواندگی یا سیاسی شعور کی کمی نہیں، یہ اللہ کے عذاب کی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔

{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ} (الأنعام :65)
’’کہو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کررہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔‘‘

{وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى} (طہ:124)
’’اور جو میرے ذکر(درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

ان تمام مخلصین سے ہمیں دریات کرنا ہے کہ آج کفر کی نیست و نابود کر دینے میں اصل رکاوٹ اس کے سوا کیا ہے کہ باطل کا قبیح چہرہ اسلام کے پردے سے ڈھانپ دیا گیاہے؟ آج فرزندان توحید کے ہاتھوں میں تیشے اس لئے دکھائی نہیں دیتے کہ معبودان باطل کو اسلام کی قبائیں زیب تن کرادی گئی ہیں۔

آج اللہ کے شریکوں تک نے کلمہ گوئی کی سند حاصل کر لی ہے اور باطل کا سرکاری نام حق رکھ دیا گیا ہے۔ چاہیئے تو نہ تھا کہ آج باطل تہ تیغ ہونے سے اس لئے بچا رہتا کہ کفر نے اسلام کا روپ دھار لیا ہے اور استعمار نے اپنی شکل تبدیل کر رکھی ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے انہی ایوان ہائے شرک کا طواہ ہوتا ہے اور کسی کو یہ احساس نہیں کہ اللہ کے عذاب کو برسر عام دعوت دی جارہی ہے؟

کیا ہمارے دین میں واقعتا کوئی ایسا رخنہ ہے کہ کلمہ گوئی کے بعد ہر قسم کے شرک اور کفر کا کھلا پروانہ مل جاتا ہے؟ کیا واقعی کفر کو اسلام بن جانے کے لئے صرف تبدیلی نام کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟ اور یوں نام اور شکلیں تبدیل ہوجائیں تو کفر اسلام بن جایا کرتا ہے، حرام حلال ہوجاتا ہے اور طاغوت ’’اولی الامر‘‘ کہلانے لگتے ہیں؟ اگر سود کو انویسٹمنٹ کا نام دے دیا جائے، جوے کو انشورنس اور پرائز بانڈ کہہ لیاجائے، شراب کو جامِ حیات فاحشاؤں کو فنکار و آرٹسٹ! اور غیر اللہ کی حاکمیت جیسے کھلے شرک کو اسلامی جمہوریت کا لقب دے دیابجائے تو کیا واقعی شریعت کے تقاضے بدل جاتے ہیں ؟

ہمارے دین نے تو تلبیس کی اس روش کی صرف مذمت ہی نہیں پیشین گوئی تک کر رکھی ہے۔ {ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ:275) ’’یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘

غلاظت کو خوبصورت الفاظ دینا اور حق کو باطل سے ملانا، یہ عین سنت یہود ہے۔ انہی نے سود کو تجارت کا نام دیکر اور کاروبار سے تشبیہ دے کر داعی برحق کو جھٹلانے کی کوشش کی تھی۔ انہی کی تاریخ اس فعل قبیح سے بھری ہوئی ہے۔ {فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ

آج انہی یہود کے پیروکار اور شاگرد ہمیں یہ بتانے آتے ہیں کہ قرآنی شوریٰ کا تصور تو جمہوری پارلیمنٹ سے ملتا جلتا ہے!ہمیں یہ سبق پڑھائے جاتے ہیں کہ ابرھام لنکن کا دیا ہوا ووٹ کا تصور بھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ہونے والی بیعت کی طرح کی چیز ہے!

اسلام کے نام پر بننے والے جاہلی اداروں میں دن رات یہ تلقین ہوتی ہے کہ اسلامی حقوق و فرائض اور جمہوریت کی مادر پدر آزادیوں میں بس تھوڑا ہی فرق ہے! یہ انما البیع مثل الربا صرف ایک جملہ نہیں جو قرآن نے نقل کر دیا ہے۔ مذہبی فریب کاری اور نقب زنی کی تاریخ میں ایک باقاعدہ مذہب چلا آیا ہے۔ اس امت میں بھی اس شیطانی مذہب کا چلن ہونا تھا سو ہوگیا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی یہ کہہ کر فرمائی۔

عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ , يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا , يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ , يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ , وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ".

”میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا“۔؛ [سنن ابن ماجه، حدیث نمبر: ۴۰۲۰، قال الشيخ زبير على زئي: حسن]

از قلم : فضیلۃ الشیخ حامد محمود حفظہ اللہ
 
Top