حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
توہم پرستی کا تعارف وتاریخ
توہم پرستی کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ ان برائیوں میں سے ہے جس سے آزاد کرنے کے لئے اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کو بھیجا تھا۔ پرانے زمانے میں لوگ اس طرح کے خیالات کو سینے لگائے ہوئے تھے۔ کہ اگر پرندے دائیں طرف جائیں تو یہ اچھا شگون ہے او راگر بائیں طرف جائیں تو یہ برا شگون ہے ، اگر شیشہ ٹوٹ جائے تو ہمارے لیے اچھا نہیں ، کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو یہ بھی برا شگون ہے۔ اگر خرگوش راستے سے گزر ے تو یہ خوشبختی کی علامت ہے۔ نمک بکھر جائے تو یہ بھی خطر ناک ہے۔ بلی کا رونا برا ہے کسی کو پیچھے سے آواز دینے کو بھی برا خیال کیا جاتا ہے۔ دو بیٹیوں کی اکھٹی شادی کرنے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک خوش نہیں رہے گی وغیرہ۔ اس تمام عمل میں انسان اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی تذلیل کرتا ہے کیونکہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایک معمولی خرگوش ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے یا ایک بے جان سیڑھی، لکڑی یا نمک وغیرہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو گویا ہم اپنے آپ کو ان سے کم تر سمجھ رہے ہیں۔ ہم قرآن کو بھی بعض اوقات ایسی چیزوں کے لئے استعمال کرتے ہیں مثلا شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی سر پر رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اس کی قسمت اچھی ہو جائے گی یہ وہ سب چیزیں ہیں جن سے آزاد کروانے کے لئے نبیﷺآئے تھے اور ہم بدقسمتی سے اور لا علمی کی وجہ سے دوبارہ انہیں چیزوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو غلام بنا رہے ہیں۔
اسی لیے رسول اللہﷺنے فرمایا:
« لاَ طِيَرَةَ وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ» قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْفَأْلُ قَالَ « الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ» (مسند أحمد: 9262)
’’ كوئی بد فالی نہیں، اس سے اچھی بات نیک شگون ہے۔ صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ نیک شگون کیا ہے؟ نبیﷺنے فرمایا صالح کلمہ جس کو تم میں سے کوئی ایک سنتا ہے۔‘‘
توہم پرستی کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ ان برائیوں میں سے ہے جس سے آزاد کرنے کے لئے اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کو بھیجا تھا۔ پرانے زمانے میں لوگ اس طرح کے خیالات کو سینے لگائے ہوئے تھے۔ کہ اگر پرندے دائیں طرف جائیں تو یہ اچھا شگون ہے او راگر بائیں طرف جائیں تو یہ برا شگون ہے ، اگر شیشہ ٹوٹ جائے تو ہمارے لیے اچھا نہیں ، کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو یہ بھی برا شگون ہے۔ اگر خرگوش راستے سے گزر ے تو یہ خوشبختی کی علامت ہے۔ نمک بکھر جائے تو یہ بھی خطر ناک ہے۔ بلی کا رونا برا ہے کسی کو پیچھے سے آواز دینے کو بھی برا خیال کیا جاتا ہے۔ دو بیٹیوں کی اکھٹی شادی کرنے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک خوش نہیں رہے گی وغیرہ۔ اس تمام عمل میں انسان اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی تذلیل کرتا ہے کیونکہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایک معمولی خرگوش ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے یا ایک بے جان سیڑھی، لکڑی یا نمک وغیرہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو گویا ہم اپنے آپ کو ان سے کم تر سمجھ رہے ہیں۔ ہم قرآن کو بھی بعض اوقات ایسی چیزوں کے لئے استعمال کرتے ہیں مثلا شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی سر پر رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اس کی قسمت اچھی ہو جائے گی یہ وہ سب چیزیں ہیں جن سے آزاد کروانے کے لئے نبیﷺآئے تھے اور ہم بدقسمتی سے اور لا علمی کی وجہ سے دوبارہ انہیں چیزوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو غلام بنا رہے ہیں۔
اسی لیے رسول اللہﷺنے فرمایا:
« لاَ طِيَرَةَ وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ» قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْفَأْلُ قَالَ « الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ» (مسند أحمد: 9262)
’’ كوئی بد فالی نہیں، اس سے اچھی بات نیک شگون ہے۔ صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ نیک شگون کیا ہے؟ نبیﷺنے فرمایا صالح کلمہ جس کو تم میں سے کوئی ایک سنتا ہے۔‘‘