عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
آج آیاتِ الٰہی اور فرامین نبویہؐ کی بے حرمتی کے پس پردہ مغرب کا یہ طنز چھپا ہوا ہے کہ وہ ہمیں اپنے شعائر کی حرمت کے تحفظ پر قادر ہی نہیں خیال کرتے وگرنہ ان کو لگاتار یہ رویہ اپنانے کا موقع کیوںکر ملتا۔
مغربی میڈیا اور حکومتوں کی یہ اسلام سے یہ مضحکہ آرائی مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی اور مفاد پرستی کا بھی نوحہ ہے !! مسلم حکمران اگر آج بھی غیروں کی کاسہ لیسی چھوڑ کر اپنے مسلمان عوام کی رائے کا احترام کریں اور عوام کو اپنی مقبوضہ جاگیر سمجھنے کی بجائے ان کی نمائندگی کا راستہ اختیار کریں تو نہ صرف اس سانحہ سے بلکہ اُمت ِمسلمہ کو درپیش متعدد مسائل سے نجات حاصل کرنے کا باعزت راستہ مل سکتا ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ مغربی طرزِ حکومت ملکی حد بندیوں اور چاردیواریوں میں مقید نظامِ حکومت کا تصور پیش کرتا ہے، جبکہ اسلام اللہ کے ماننے والے تمام مسلمانوں کو ایک ملت اسلامیہ اورجسد ِواحد کا تصور دیتا ہے۔ لیکن دنیا کی عملی صورتحال آج بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام کا یہ سیاسی نظریہ آج مغرب نے اپنے حرزِ جان بنایا ہوا ہے۔ خود تو امریکہ ۵۰ ریاستوں کے ساتھ پورے بر اعظم کو ایک حکومت میں سمیٹے بیٹھا ہے اوردوسری طرف یورپی ممالک نے یورپی یونین کے ذریعے آپس میں ایک دوسرے کو متحد کررکھا ہے۔ آپس میں آمد ورفت کی پابندیوں اور تجارتی بندشوں سے آزاد یورپی ممالک فقط انتظامی لکیروں کی حد تک متعدد ممالک ہیں جبکہ مشترکہ کرنسی، کثیرالقومی تجارتی کمپنیوں،مشترکہ عدالت ہائے انصاف اوریورپی یونین کے قوانین کے ذریعے یہ تمام ملک داخلی تشخص کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اکائی میں متحد و یکجان ہیں۔ ان کی قوت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے!!
جبکہ دوسری طرف مسلمان ممالک اپنے جھوٹے مفادات کے لئے، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کے بل بوتے پر آپس میں تقسیم د رتقسیم ہورہے ہیں۔اور اس تمام تر تقسیمکو مغرب کے پروردہ اسلامی حکمران ہر طرح سے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔یہاں ملکی لکیریں کو اتنا گہرا تقدس بخش دیا گیا اور وطنیت پرستی کا وہ صور پھونکا گیا ہے کہ آپس میں ملی مفادات کے لئے مل بیٹھنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ نسلی وحدت اور تہذیبی مماثلتوں کے علاوہ سب سے بڑھ کر ان مسلمانوں کا مذہبی ودینی تشخص اور نظریات وتصورات بالکل ایک ہیں، لیکن ان کے ملی مسائل حل کرنے اور اُنہیں آپس میں متحد کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار نہیں لا جارہے۔مسلمانوں کا سیاسی ادارہ ’خلافت‘ جو اسلام کی عظمت وسطوت کا نشان تھا، اس کی بساط اس طرح لپیٹی گئی ہے کہ دوبارہ اس طرف کوئی مسلم حکومت پلٹ کر بھی نہیں دیکھنا چاہتی!!
اس المناک سانحے کے مرحلے پر بھی ایک بار پھر یورپی یونین نے اپنے اتحاد واشتراک کے بل بوتے پر اُمت ِمسلمہ کو رنج والم کی کیفیت سے دوچار کر دیاہے۔ ڈنمارک کے بعد دیگر یورپی ممالک میں ان خاکوں کی اشاعت کسی حادثہ یا محض اتفاق پر مبنی نہیں بلکہ ڈینش وزیر اعظم کی دیگر یورپی ممالک سے رابطوں کا نتیجہ ہے۔ دیگر ممالک میں ان کارٹونوں کو شائع کرانے کے پس پردہ یہ ہدف کارفرما ہے کہ اُمت ِمسلمہ کسی ایک ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر تو قدرت رکھتی ہے لیکن ان تمام ممالک او ریورپی یونین کی مصنوعات کو ترک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ گویا اس طرح وہ اس جرم میں بھی اپنے ساتھی کی معاونت سے پیچھے نہیں ہٹتے!
اس واقعہ پر جس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں نے اپنے دلی جذبات کا واضح اظہار کیا ہے، اور تمام اُمت میں کلی اتفاق رائے حاصل ہوا ہے، اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر امت ِمسلمہ کو کسی ایسے مرکزی نظم میں پرویا جاسکتا ہے جس کے بعد مغربی ممالک کی اس ثقافتی جارحیت کے علاوہ ان کی سیاسی جارحیت کا توڑ بھی ہوسکے گا۔ جس طرح یورپی یونین نے یہ اعلان کیا کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام ممبر ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا او رسب مل کر اس کا جواب دیں گے، اسی طرح مسلمانوں کو اپنے ہی سیاسی فلسفے ’ملی وحدت‘ کے احیا کے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
مسلم حکمرانوں کی کاسہ لیسی، اقتدار پرستی اور مغرب نوازی اب ایک پختہ روایت بن چکی ہے، جن سے بہت سی توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔ اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی ادارے اپنا مقصد ِجواز کھو دیں گے ، اگر وہ اس مرحلے پر اُمت کے اس اجتماعی موقف کو کوئی نتیجہ خیز شکل دینے پر قادر نہیں ہوتے۔
مغربی میڈیا اور حکومتوں کی یہ اسلام سے یہ مضحکہ آرائی مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی اور مفاد پرستی کا بھی نوحہ ہے !! مسلم حکمران اگر آج بھی غیروں کی کاسہ لیسی چھوڑ کر اپنے مسلمان عوام کی رائے کا احترام کریں اور عوام کو اپنی مقبوضہ جاگیر سمجھنے کی بجائے ان کی نمائندگی کا راستہ اختیار کریں تو نہ صرف اس سانحہ سے بلکہ اُمت ِمسلمہ کو درپیش متعدد مسائل سے نجات حاصل کرنے کا باعزت راستہ مل سکتا ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ مغربی طرزِ حکومت ملکی حد بندیوں اور چاردیواریوں میں مقید نظامِ حکومت کا تصور پیش کرتا ہے، جبکہ اسلام اللہ کے ماننے والے تمام مسلمانوں کو ایک ملت اسلامیہ اورجسد ِواحد کا تصور دیتا ہے۔ لیکن دنیا کی عملی صورتحال آج بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام کا یہ سیاسی نظریہ آج مغرب نے اپنے حرزِ جان بنایا ہوا ہے۔ خود تو امریکہ ۵۰ ریاستوں کے ساتھ پورے بر اعظم کو ایک حکومت میں سمیٹے بیٹھا ہے اوردوسری طرف یورپی ممالک نے یورپی یونین کے ذریعے آپس میں ایک دوسرے کو متحد کررکھا ہے۔ آپس میں آمد ورفت کی پابندیوں اور تجارتی بندشوں سے آزاد یورپی ممالک فقط انتظامی لکیروں کی حد تک متعدد ممالک ہیں جبکہ مشترکہ کرنسی، کثیرالقومی تجارتی کمپنیوں،مشترکہ عدالت ہائے انصاف اوریورپی یونین کے قوانین کے ذریعے یہ تمام ملک داخلی تشخص کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اکائی میں متحد و یکجان ہیں۔ ان کی قوت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے!!
جبکہ دوسری طرف مسلمان ممالک اپنے جھوٹے مفادات کے لئے، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کے بل بوتے پر آپس میں تقسیم د رتقسیم ہورہے ہیں۔اور اس تمام تر تقسیمکو مغرب کے پروردہ اسلامی حکمران ہر طرح سے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔یہاں ملکی لکیریں کو اتنا گہرا تقدس بخش دیا گیا اور وطنیت پرستی کا وہ صور پھونکا گیا ہے کہ آپس میں ملی مفادات کے لئے مل بیٹھنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ نسلی وحدت اور تہذیبی مماثلتوں کے علاوہ سب سے بڑھ کر ان مسلمانوں کا مذہبی ودینی تشخص اور نظریات وتصورات بالکل ایک ہیں، لیکن ان کے ملی مسائل حل کرنے اور اُنہیں آپس میں متحد کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار نہیں لا جارہے۔مسلمانوں کا سیاسی ادارہ ’خلافت‘ جو اسلام کی عظمت وسطوت کا نشان تھا، اس کی بساط اس طرح لپیٹی گئی ہے کہ دوبارہ اس طرف کوئی مسلم حکومت پلٹ کر بھی نہیں دیکھنا چاہتی!!
اس المناک سانحے کے مرحلے پر بھی ایک بار پھر یورپی یونین نے اپنے اتحاد واشتراک کے بل بوتے پر اُمت ِمسلمہ کو رنج والم کی کیفیت سے دوچار کر دیاہے۔ ڈنمارک کے بعد دیگر یورپی ممالک میں ان خاکوں کی اشاعت کسی حادثہ یا محض اتفاق پر مبنی نہیں بلکہ ڈینش وزیر اعظم کی دیگر یورپی ممالک سے رابطوں کا نتیجہ ہے۔ دیگر ممالک میں ان کارٹونوں کو شائع کرانے کے پس پردہ یہ ہدف کارفرما ہے کہ اُمت ِمسلمہ کسی ایک ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر تو قدرت رکھتی ہے لیکن ان تمام ممالک او ریورپی یونین کی مصنوعات کو ترک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ گویا اس طرح وہ اس جرم میں بھی اپنے ساتھی کی معاونت سے پیچھے نہیں ہٹتے!
اس واقعہ پر جس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں نے اپنے دلی جذبات کا واضح اظہار کیا ہے، اور تمام اُمت میں کلی اتفاق رائے حاصل ہوا ہے، اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر امت ِمسلمہ کو کسی ایسے مرکزی نظم میں پرویا جاسکتا ہے جس کے بعد مغربی ممالک کی اس ثقافتی جارحیت کے علاوہ ان کی سیاسی جارحیت کا توڑ بھی ہوسکے گا۔ جس طرح یورپی یونین نے یہ اعلان کیا کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام ممبر ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا او رسب مل کر اس کا جواب دیں گے، اسی طرح مسلمانوں کو اپنے ہی سیاسی فلسفے ’ملی وحدت‘ کے احیا کے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
مسلم حکمرانوں کی کاسہ لیسی، اقتدار پرستی اور مغرب نوازی اب ایک پختہ روایت بن چکی ہے، جن سے بہت سی توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔ اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی ادارے اپنا مقصد ِجواز کھو دیں گے ، اگر وہ اس مرحلے پر اُمت کے اس اجتماعی موقف کو کوئی نتیجہ خیز شکل دینے پر قادر نہیں ہوتے۔