- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
توہین رسالت، اسلام سے خائف بیمار ذہنوں کی کاررستانی ؟
محمد عاصم حفیظ
ظلم ، ناانصافی اور توہین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ اور یہی احتجاج شدت پکڑ لیتا ہے کہ جب اس کا تعلق گہرے قلبی اور روحانی تعلق سے ہو۔ ۔ حالیہ چند برسوں میں ڈنمارک کے اخبار میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہو یا فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر کارٹون مقابلوں کا اعلان ، عراق اور گوانتاناموبے میں قرآن پاک کی بے حرمتی ہو یا امریکی ملعون پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے کا واقعہ ، نبی محترم ﷺ کی ذات اقدس پر کوئی بھی حملہ ہو تو اس کے خلاف مسلم امہ سراپہ احتجاج رہی ہے اور اب امریکہ کے ایک یہودی کی بنائی گئی توہین آمیز فلم کے انٹر نیٹ پر جاری ہونے پر ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس منعقد کیے جا رہے ہیں ۔ لیبیا میں امریکی سفیر کو مار دیا گیا ہے ، اردن ، مصر ، پاکستان اور دیگر ممالک میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے ہیں جن میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ مسلم ممالک میں امریکی فلم ڈائیریکٹر اور ملعون پادری ٹیری جونز کے خلاف کارروائی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ان واقعات پر ہر دل غمگین ہے جبکہ قرآن پاک اور صاحب قرآنﷺ سے محبت کرنیوالی ہر آنکھ فرط جذبات سے لبریز نظر آتی ہے ۔ جوشیلے مسلمانوں نے تو ان نازک اور حساس معاملات پر جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا ۔ کرہ ارض پر کتنے ہی علم دین ریاستی جبر اور استعمار کے ہاتھوں جنت کی راہوں کے مسافر بن رہے ہیں۔مسلمانوں کا جذبہ ایمانی نعرہ بن کر عالم کفر کو للکار رہا ہے ۔ پورا عالم اسلام پوری قوت کے ساتھ اس توہین رسالت اور توہین قرآن کے خلاف جلسے اور جلوسوں کی صورت میں ابھی تک سراپہ احتجاج ہے۔ان کے دل سے قرآن کا پیغام اور نبی محترم ﷺ کی محبت نہیں نکالی جا سکی ۔مغرب کئی سو سال کی حاکمیت کے باجود اسلامی نظریے کو ختم نہیں کر سکا اور یہی وہ بنیادی وجہ کہ جس کے باعث آج مسلمان زیر عتاب ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس اور ہدایت کی کتاب کی توہین کرکے مسلمانوں کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔عالم کفر پریشان ہے کہ ان کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث اعلی تعلیم یافتہ افراد احیائے اسلام کی تحریکوں کو میسر آ چکے ہیں اور اسی طرح مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بہت سے طالب علم سیکولر معاشروں کی روایات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی صلاحتیں احیائے اسلام کے لیے وقف کر رہے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ میں کئی مسلمان تنظیمیں انتہائی سرگرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام عام کرنے میں مصروف ہیں ۔ مغربی ممالک اسلام پر دہشت گردی ، بنیاد پرستی اور دقیانوسیت کے جو الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرتا ہے تو وہ اسلام کی سچائی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے نامور افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو کہ مغربی ممالک کی مادرپدر آزادی اور عورت کو کھلونا سمجھنے کے تصور کی باغی بن کر اسلام کے نظام عفت و عصمت کو اپنانا چاہتی ہیں۔ برطانیہ، امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک میں اسلامی طرز حیات کو اپنانے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی نفرت نے بھی مسلمانوں کو اپنی شناخت کی طرف لوٹنے کا درس دیا ہے۔ ۔ گوانتاناموبے، ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں کی انسانیت سوز داستانوں اور دوسری جانب قرآن اور پیغبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی توہین کے واقعات نے مسلمانوں کے اندر اپنی دینی روایات سے متعلق تحقیق کرنے، سچ کی تلاش اور دنیا کو حقیقت سے آشکار کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالم کفر کے گھٹیا پروپیگنڈے کے باوجود اسلام اپنی انسانیت نواز خوبیوں کے باعث روز اوّل سے مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ انسان حلقہ بگوش اسلام ہیں ۔سانحہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ میں قبول اسلام کی شرح فزوں تر ہے،بلکہ اسلام یورپی ممالک کا دوسرا سب سے زیادہ وسعت پذیر دین بن چکا ہے۔مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے، انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے اور احساس کمتری میں مبتلا کر دینے کے لیے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم اسلام پسند قوتیں ہر دور میں ان سازشوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں ۔ عالمی مفادات کے تحت دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تو پہلے سے ہی جاری تھا لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع کی جانیوالی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسلام کے خلاف حملوں کو مزید تیز کر دیا ہے ۔ صدر بش نے دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملے کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا نام دیا تھا اور آج یہ بات مزید واضح ہو چکی ہے کہ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کو سزا دینے کی بجائے اسلامی نظریات کو مٹانا تھا۔ یہ جنگ اب مکمل طور پر مذہبی بن چکی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ہرمجدون کا انتظار کرنیوالے انتہاپسند یہودی اور عیسائی قوتیں سرگرم ہیں ۔ مغربی قوتیں نہ صرف اربوں ڈالر کا اسلحہ و بارود استعمال کرکے لاکھوں مسلمانوں کا خون کر چکی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ثقافت ، دینی روایات ، محبت رسول ﷺ ، قرآن سے تعلق غرض پوری معاشرت کو ہی تبدیل کر دینا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اسلام ، نبی اکرم ﷺ اور قرآن پاک کے خلاف توہین آمیز اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔ مسلم ممالک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کے لئے نام نہاد این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کئے گئے ہیں جو کہ آزادی نسواں ، ہم جنس پرستوں کے حقوق ، آزادی اظہار رائے ، فن و ثقافت کے نام پر مغربی کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ دوسری جانب مغربی ممالک کی پریشانی یہ ہے کہ بھرپور کوشش کے باوجود مسلمانوں کو ان کے دین سے دور نہیں کیا جا سکا
ایک تحقیق کے مطابق نصف صدی کے عرصے میں عیسائیت کے تمام فرقوں اور مسلکوں میں 135 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اہل اسلام میں اضافہ ناقابل یقین حد تک 240 فیصد ہوا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ امریکہ اور برطانیہ میں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔ پیو ریلیجس سینیٹر کے سروے کے مطابق دو ہزار تیس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب بیس کروڑ ہو جائے گی ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی شرح پیدائش 1.8 ہے جو کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ نوجوانوں کی عالمی تنظیم الشباب العالمی کی رپورٹ کے مطابق چالیس کروڑ سے زائد مسلمان مسلم ممالک سے باہر رہائش پزیر ہیں ۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو تباہ کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ اسلام مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون سے قبل امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ تھی جو کہ اب اٹھائیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکہ میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کرنیوالے ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق نائن الیون کے واقعے کے بعد پہلے تین ماہ میں قرآن پاک کی فروخت میں پندرہ گنا اضافہ دیکھا گیا اور کئی ماہ تک قرآن پاک امریکہ میں بیسٹ سیلر کتاب رہی ۔۔ العربیہ چینل کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں چونتیس ہزار امریکیوں نے اسلام قبول کیا ۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی مسلمانوں میں 25 فیصد تعداد ایسے افراد کی ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ ہر سال پچاس ہزار امریکی مسلمان ہو جاتے ہیں جبکہ برطانیہ میں نو مسلموں کی شرح دس فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں 2001 میں مسلمانوں کی تعداد 16 لاکھ تھی جو کہ اب 28 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جوکہ 2030 تک ساٹھ لاکھ ہو جائے گی ۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب یورپی ممالک میں موجود مسلمانوں میں مذہبی رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور یہ لوگ احیائے اسلام کی تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بوسینیا اور کوسوو کی آزادی کے بعد یورپ میں دو نئے اسلامی ممالک منظر عام پر آئے ہیں ۔ عرب ممالک اور یورپ میں اسلامی فلاحی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بھی کافی مثبت اثرات دیکھے جا رہے ہیں گو کہ اقوام متحدہ دہشت گردوں کی معاونت کے نام پر کئی اسلامی فلاحی تنظمیوں پر پابندی لگا چکی ہے تاہم اس کے باوجود عرب ممالک اور یورپ سے تعلق رکھنے والی بعض تنظیمیں فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلامی تنظیموں کی مثبت کارکردگی اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنیوالوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ پاکستانی مدارس کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او کہا جاتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ بغیر کچھ خرچ کیے تعیلم اور رہائش کی سہولت حاصل کرتے ہیں۔ مدارس کا نظام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی کامیابی سے چل رہا ہے جبکہ حالیہ دور میں بعض اسلامی مدارس نے طلبہ کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعیلم دینے کا بھی آغاز کیا ہے جبکہ ایسے نصاب تعلیم بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں کہ جن کے ذریعے عصری اور دینی علوم کا امتزاج پیش کیا جائے۔ انہی مدارس کے ذریعے تبلیغ اور مساجد کا نظام چلانے کے لیے علماء کی بڑی تعداد تیار ہوتی ہے جو کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ مغرب اور دوسری غیر اسلامی ممالک میں بھی خدمات سرانجام دیتی ہے۔
اسی طرح فلسطین میں حماس، مصر میں حکمران اخوان المسلموں اور النور پارٹی ، ترکی کی حکمران جسٹس اینڈ ڈویلمپنٹ پارٹی عوام میں فلاحی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں جبکہ سعودی عرب اور کویت کی تنظیموں کی جانب سے بھی افریقہ،یورپ اور ایشیاء میں بہت سے پراجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں ۔ اسلامی فلاحی تنظمیوں کی کارکردگی سے دنیا بھر میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت تاثر پیدا کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ عرب ممالک میں حالیہ تبدیلی کی لہر کے بعد ہر جگہ اسلام پسند قوتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔ دوسری جانب معیشت کے میدان میں اسلامی بنکاری کے کامیاب تجربے نے بھی مسلمانوں کو عالمی معیشت میں اصلاحات کا حوصلہ دیا ہے، اسلامی اصولوں کے تحت چلنے والے بنکاری نظام نے دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کو کھوکھلا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مالیاتی بحران کے باعث دنیا بھر کے ممالک شرح سود میں کمی کر رہے ہیں۔ جس کے باعث بلا سود بنکاری کے اسلامی تصور کو تقویت ملی ہے۔ امریکی بنکوں کے دیوالیہ ہونے اور ڈالر کے غیر مستحکم ہونے کے باعث عرب ممالک میں سرمایہ اسلامی بنکوں میں رکھنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انیس سو تریسٹھ میں مصر کے ایک قصبے مت غمر سے شروع ہونے والی اسلامی بنکاری آج عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتی ہے۔ دنیا کے ستائیس مسلمان جبکہ پندرہ غیر مسلم ممالک میں شرعی اصولوں پر بنکاری کا نظام موجود ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی مالیاتی اداروں کے پاس چودہ سو ارب ڈالر کے ا ثاثہ جات موجود ہں جن میں بیس فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تیل کی دولت اور مغربی بنکوں میں سرمایہ محفوظ کرنے کے رحجان میں کمی نے اسلامی بنکاری کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ اسلامی سکالرز عالمی سطح پر برپا ہونیوالے مالیاتی بحران کی بڑی وجہ سود کے سہارے قائم عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہیں۔ اسلامی معاشی ماہرین مغربی ممالک میں شرح سود میں کمی کو بنیاد بنا کر بلاسود بنکاری کے قابل عمل ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔ ۔ نفع و نقصان کی بنیاد پر کام کرنے والا اسلامی نظام معیشت دن بدن مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشی ماہرین اسلام طرز معیشت کے فروغ سے پریشان دیکھائی دیتے ہیں ۔ اسلام کے خلاف اقدامات اور توہین آمیز واقعات کی بڑی وجہ بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اور اسلامی طرز معاشرت و معیشت کا فروغ ہے ۔
توہیں آمیز واقعات کی وجوہات کو سمجھنے کے بعد اب ہم مغربی ممالک میں پیش آنیوالے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح بعض شرپسند عناصر ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام ، نبی اکرم ﷺ اور قرآن پاک کی توہین کرکے دنیا بھر میں اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان ان مزموم حرکتوں سے آگاہ رہیں اور ان شرپسند حلقوں کی پہچان ہو سکے کہ جو اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مغربی ممالک کے حکمرانوں سے لیکر مذہبی پیشواؤں تک ، عسکری حلقوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک ، فنکاروں سے لیکر تدریس و ادب سے منسلک مصنفوں اور شعرا تک ہر ہر شعبے کے افراد میں اسلام کے خلاف بغض و عناد پایا جاتا ہے ۔ اسلام کی توہین کرنے والوں کو بھرپور تحفظ اور مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ۔ نام نہاد آزادی اظہار کے نام پر ان کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ کچھ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جسے شہرت کی خواہش ہوتی ہے یا پھر بہت ساری دولت اکھٹی کرنے کا شوق تو وہ اسلام ، نبی اکرم ﷺ اور قرآن پاک کی توہین کرکے یہ مقاصد حاصل کر سکتا ہے ۔ حتی کہ مغربی دنیا تو مسلم ممالک میں اس قسم کی حرکتیں کرنیوالوں کو پناہ دینے میں بھی انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان گستاخوں کی حفاظت کی خاطر کروڑوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں ۔ سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین ، سمیت بے شمار گستاخان رسول مغربی ممالک میں میزبانی اور سرکاری پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ، قرآن پاک اور نبی اکرم ﷺ کی گستاخیوں کے واقعات تو ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد ان میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ یہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت رونما ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ہم سب سے پہلے نائن الیون کے بعد پیش آنیوالے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں