ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
اقبال ظفر ))
توہین رسالت کی قانونی وشرعی حیثیت اور ہماری ذمہ داری
توہین رسالت کامسئلہ کوئی عام مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کی نوعیت باقی تمام قوانین سے یکسر مختلف ہے کیونکہ اس سے انبیاء اور ان کی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرکے مذہبی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔حال ہی میں توہین رسالت کی مجرم آسیہ مسیح کی رہائی کےخلاف ملک بھر میں جاری بحث مباحثہ میں بعض ایسے اعتراضات بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ توہین رسالت کی سزا یا تو شرعی طورپر ایک مسلمہ امر نہیں، یا اس کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کے اعتراضات نے چونکہ میڈیا کے ذریعے ہر عام وخاص کو متاثر کیا ہے، اس لئے ان کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کے موقف کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔دوسری طرف عوامی حلقوں کی طرف سے حکومت وقت پر لعن طعن کے بارے میں شرعی نقطہ نظر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہو ں۔
مسلمان کو گالی دینا اور اس کو بغیر حق کے قتل کرنا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّابًا، وَلاَ فَحَّاشًا، وَلاَ لَعَّانًا، كَانَ يَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ المَعْتِبَةِ:(مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُه)ُ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گوئی کرنے والے اور لعنت کرنے اور گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے اور جب کبھی ناراض ہوتے تو صرف اس قدر فرماتے کہ اس کو کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔
(بخاری شریف‘کتاب الادب ‘ حدیث نمبر 6031)مسلمان کو گالی دینا اور اس کو بغیر حق کے قتل کرنا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّابًا، وَلاَ فَحَّاشًا، وَلاَ لَعَّانًا، كَانَ يَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ المَعْتِبَةِ:(مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُه)ُ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گوئی کرنے والے اور لعنت کرنے اور گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے اور جب کبھی ناراض ہوتے تو صرف اس قدر فرماتے کہ اس کو کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔
حدیث نبوی ہے۔
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((سِباب المسلم فسوقٌ، وقتاله كفرٌ))
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
کلمہ گوہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسےقتل کرنا کفر ہے ۔
(مسلم ‘حدیث نمبر:64)عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((سِباب المسلم فسوقٌ، وقتاله كفرٌ))
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
کلمہ گوہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسےقتل کرنا کفر ہے ۔
الشیخ ڈاکٹرعبد اللہ بن حمودالفریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہ مذکورہ حدیث سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ ہے مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بندہ کافر ہو گیا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز کو حلال کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ۔
شیخ محترم لفظ کفر کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:
٭اگر مسلمان بغیر حق کے ( وہ پکا کافر ہو جا ئے یا قصاص اس پر لازم آ جا ئے )دوسرے مسلمان کو قتل کر دے تو یہ بغیر حق قتل ہے اور قاتل اس کو حلال جان کر کرے تو وہ پکا کافر ہو جاتا ہے ۔
٭اگر وہ اس کے قتل کو حلال نہ جانے مگر قتل کر دے تو پھر اس پر قصاص ہے اور اس کفر سے مراد احسان اور نعمت کا کفر مراد ہو گا ۔
قال النووي في شرح مسلم: فسب المسلم بغير حق حرام بإجماع الأمة، وفاعله فاسق
شرح مسلم میں امام نوو ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مسلمان کو بغیر کسی حق کے گالی دینا اجماع امت کی روشنی میں حرام ہے اور اس کا کرنے والا فاسق ہے ۔
اہل سنت والجماعت کا موقف:
وأما القتال فهو المحاربة. وأما الكفر المذكور هنا فهو كفر دون كفر، وليس المراد به الكفر المخرج من الملة
اور اس کفر سے مراد کفر دون کفر یعنی کہ ایسا کفر جو اس کو اسلام کے دائرہ سے نکال دے وہ مراد نہیں بلکہ اس نے فعل کفرکیا ہے مگر وہ کافر نہیں ہو گا ۔
توہین رسالت قانون کی شرعی حثیت:
شاتم رسول کے علاوہ حدود میں سفارش اور صدارتی استثناء کی کوئی حیثیت نہیں‘ معاملہ جب عدالت اور حکمرانوں تک پہنچ جائے تو اس کی معافی کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ شاتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔موضوع کی طوالت کے پیش نظر چند ایک دلائی سے مسئلے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرونگا ۔جس سے مسئلے کی نوعیت اور ضروری وضاحت مقصود ہو گی ۔سینکڑوں دلائل اس مسئلے پر موجود ہیں مگر ضروری وضاحت کے لیے تمام دلائل کا احاطہ کرنا بے جا موضوع کو طوالت کی طرف لیجانے کے مترادف ہے ۔
کعب بن اشرف کا قتل :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔‘‘سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں!۔‘‘ تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تجھے اختیار ہے۔‘‘ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں ’’دو وسق کھجور ‘‘کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرکو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب ﷺ کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔
(صحیح مسلم:با ب کعب بن اشرف کا قتل :حدیث نمبر 1171) کہ مذکورہ حدیث سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ ہے مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بندہ کافر ہو گیا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز کو حلال کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ۔
شیخ محترم لفظ کفر کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:
٭اگر مسلمان بغیر حق کے ( وہ پکا کافر ہو جا ئے یا قصاص اس پر لازم آ جا ئے )دوسرے مسلمان کو قتل کر دے تو یہ بغیر حق قتل ہے اور قاتل اس کو حلال جان کر کرے تو وہ پکا کافر ہو جاتا ہے ۔
٭اگر وہ اس کے قتل کو حلال نہ جانے مگر قتل کر دے تو پھر اس پر قصاص ہے اور اس کفر سے مراد احسان اور نعمت کا کفر مراد ہو گا ۔
قال النووي في شرح مسلم: فسب المسلم بغير حق حرام بإجماع الأمة، وفاعله فاسق
شرح مسلم میں امام نوو ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مسلمان کو بغیر کسی حق کے گالی دینا اجماع امت کی روشنی میں حرام ہے اور اس کا کرنے والا فاسق ہے ۔
اہل سنت والجماعت کا موقف:
وأما القتال فهو المحاربة. وأما الكفر المذكور هنا فهو كفر دون كفر، وليس المراد به الكفر المخرج من الملة
اور اس کفر سے مراد کفر دون کفر یعنی کہ ایسا کفر جو اس کو اسلام کے دائرہ سے نکال دے وہ مراد نہیں بلکہ اس نے فعل کفرکیا ہے مگر وہ کافر نہیں ہو گا ۔
توہین رسالت قانون کی شرعی حثیت:
شاتم رسول کے علاوہ حدود میں سفارش اور صدارتی استثناء کی کوئی حیثیت نہیں‘ معاملہ جب عدالت اور حکمرانوں تک پہنچ جائے تو اس کی معافی کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ شاتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔موضوع کی طوالت کے پیش نظر چند ایک دلائی سے مسئلے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرونگا ۔جس سے مسئلے کی نوعیت اور ضروری وضاحت مقصود ہو گی ۔سینکڑوں دلائل اس مسئلے پر موجود ہیں مگر ضروری وضاحت کے لیے تمام دلائل کا احاطہ کرنا بے جا موضوع کو طوالت کی طرف لیجانے کے مترادف ہے ۔
کعب بن اشرف کا قتل :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔‘‘سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں!۔‘‘ تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تجھے اختیار ہے۔‘‘ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں ’’دو وسق کھجور ‘‘کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرکو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب ﷺ کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
(من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه)
جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔
فقہ حنفی اور گستاخ رسول کی سزا:
ابن المنذر لکھتے ہیں :
(أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل)
اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے۔
(الصارم المسلول على شاتم الرسول:صفحہ نمبر :3)(من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه)
جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔
فقہ حنفی اور گستاخ رسول کی سزا:
ابن المنذر لکھتے ہیں :
(أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل)
اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے۔
پاکستان میں قانون توہین رسالت:
پاکستان پینل کورڈکی دفعات 295 (بی)سےلے کر 298(سی)تک دین کے متعلق جرائم کا بیان ہے ۔اس میں 295(سی)توہین رسالت کو بیان کرتی ہے جیسا کے آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ :
پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملےاستعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت‘ پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارانہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔
یورپین عدالت اور اسٹرین خاتون:
2008ء۔2009ءمیں ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے ایک تقریر کے دوران پغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے جس پر اسٹریلیاں کی عدالت نے اسے 480 یورو کا جرمانہ، بمع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ 26اکتوبر2018کویورپی عدالت جو کہ47 ججوں پر مشتمل ہےاس نے خاتون کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شق نمبر 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی لہذا اس کی سزا باقی رکھی جائے گی۔
آسیہ بی بی کیس کا پس منظر:
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔2009ءمیں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘کلمات کہے تھے۔استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔ الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے جنہوں نے جون 2009 ءمیں ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس میں توہینِ رسالت کے قانون( 295 سی )کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘کلمات کہے تھے۔ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ 2010ءمیں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 ءمیں عدالت نے سزا کی توثیق کر تے ہوئے سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ :
آسیہ بی بی نے جنوری 2015 ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015 ءمیں شروع کی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ( 295 سی )کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔اکتوبر 2016 ءکو سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور یہ مقدمہ بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔ آٹھ اکتوبر 2018 ءکو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔
توہین عدالت اور غلط فیصلے کرنے کے سبب سزا کا قیام:
کیا آئین عدالت عظمیٰ کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا عہد دار کے خلاف عدالتی حکم نہ ماننے یا دیر کرنے پر توہین عدالت کے ضمر میں سزا سنا سکتی ہے ۔توہینِ عدالت کسی ذریعے سے مداخلت کرنے کو کہتے ہیں۔، تقریر یا کسی عمل سے کوئی ایسا اقدام کرنا جس سے عدالت کے وقار کو صدمہ پہنچے یا اس کے کسی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ مثال کے طور پر حکومت نے عدالت میں آنے کے لیے ایک خاص لباس مقرر کر رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص اس حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے عدالت میں چلا جائے تو توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔ کسی زیر سماعت مقدمہ پر اظہار خیال کرنا جس سے اس کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کا اندیشہ ہو، وہ بھی توہین عدالت ہوگا۔ توہین عدالت کی سماعت براہ راست عدالت عالیہ میں ہوتی ہے اور سرسری سماعت کے بعد عام طور پر مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ عدالت ملزم کو سزا ‘قید او رجرمانہ دے سکتی ہے۔
اس کے ضمن میں اگر دیکھا جائے تو میں چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آسیہ مسیح کے کیس میں تقریباً 8 سال تک تاخیر کرنا اورہائی کورٹ کے حکم کو تسلیم نہ کرنا کیا توہین عدالت کو لازم نہیں کرتا ؟اگر یہ خاتون بے گنا ہ تھی تو اتنی لمبی سزا کس جرم کے بدلے دی اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟اگر یہ خاتون بے گناہ ہے تو ان ججوں کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چلائے کہ انہیں کس جرم میں سزائے موت کا حکم دیا گیا ؟کیوں اتنی لمبی قید دی گئی کیا قصور تھا کہ ان کی زندگی جیلوں میں برباد کر دی گئی۔کون ذمہ دار ہے ان ججوں کے خلاف کیس کی سماعت کی جائے اور بغیر ثبوت کےفیصلہ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف عوامی رد عمل :
توہین رسالت کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے یہ شروع دن سے ہی چلا آ رہا ہے جب اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم علیہ سلام کو پیدا کیا شیطان لعین سے لے کر مختلف ادوار میں انبیاء کی توہین کا سلسلہ جار ہی ہے۔ کبھی انبیاء کو قتل کیا گیا ‘ کبھی ستایا گیا ‘ کبھی استہزاء کیا گیا ۔نبی اکرم ﷺ نے جب نبوت و رسالت اور توحید کا اعلان کیا تو ابو لہب جیسے شریروں نے بہت تکلیفیں دیں اور توہین امیز جملے کسے ۔کبھی طائف میں مار مار کر لہو لہان کیا گیا تو کبھی گندگی پھینکی گئی ۔کبھی راستے میں کانٹے بچھائے گئے تو کبھی مجنون اور پاگل کہا گیا ۔کبھی مکہ میں نماز پڑھنے پرپابندی لگائی گئی تو کبھی ہجرت پر مجبور کیا گیا ۔کبھی قتل کے منصوبے بنائے گئے تو کبھی منہ پر تھوکا گیا ۔کبھی نبوت کے جھوٹے دعویداروں نے رسالت میں شکوک و شبہات پیدا کیے تو کبھی ختم نبوت کا انکار کرتے ہوئے خود کو آخری نبی تصور کیا ۔کبھی ناروے‘ڈنمارک‘فرانس‘جرمنی اور ہالینڈ میں نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔دشمنان اسلام جس طرح حضور نبی کریم ﷺ کی گستاخیوں میں کمر بستہ رہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کے ماننے والے ناموس رسالت کا فریضہ ادا کرتے رہے ۔کبھی گستاخ کو قتل کر کے ‘کبھی مذمتی قراردادیں پاس کر کے ‘کبھی جلوس اور جلسے کر کے اور سفارتی سطح پر دشمنان اسلام اور گستاخانِ نبی ﷺ کے خلاف اقدامات اٹھائے ۔حال ہی میں 31 اکتوبر 2018 بروز بدھ کوآسیہ بی بی (مسیح)کے حق میں پاکستان کی اعلی ٰ عدلیہ سپریم کورٹ کے رہائی کے فیصلے کے خلاف پھر سے ملک بھر میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔تمام مذہبی حلقوں کا شروع دن سے مطالبہ تھا کہ اس کو سزائے موت دی جائے ۔اس معاملے میں قصور وار کون ہے آئیے دیکھتے ہیں ۔
وزیر اعظم پاکستان’ عمران خان‘ کا قوم سے خطاب
سپری کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر کسی کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے ۔خصوصا ہمارے حکمران جو ختم نبوت پر ایمان لانے کا نام بھی لیتے ہیں اور اس پر حلف بھی اٹھاتے ہیں مگر ختم نبوت کے مسئلے پر جس طرح منحرف ہوتے ہیں۔ کبھی ختم نبوت کے مسئلے میں ترمیم تو کبھی اس کو کالا قانون کہنے میں زرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔گزشتہ دنو ں ہالینڈ کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف موجودہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے قابل تحسین ہیں ۔مگر آسیہ مسیح کےمتعلق کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے خطاب جہا ں مثبت پہلوں رکھتا تھا وہاں کئی ایک سوالات چھوڑ گیا ہے ۔ غیر ذمہ داری کا جس قدر حکومت وقت نے اس معاملے پر اظہار کیا قابل صد افسوس ہے ۔ان کے اس خطاب نے آسیہ مسیح کے کیس کا رخ دوسری جانب موڑ دیا ہے کہ لوگوں کا ایک مسئلے کے بارے میں ابھی غصہ ہلکا نہیں ہوا تھا کہ دوسرا ایشو کھڑا کر دیا گیا ۔وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ملک کو چلنے نہ دینا ‘ سڑکوں کو بند کردینا ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔کہی ایسا نہ ہو کہ صورت حال اس حد تک چلی جائے کہ ریاست کو سخت ایکشن لینا پڑھے۔کیا عمران خان صاحب کو وہ وقت یاد نہیں جب دھاندلی کی خاطرآپ نے 126 دن ملک و قوم کا کھربوں روپے کا نقصان کیا تھا ؟ اس وقت آپ کو غریب کا خیال تو نہ آیا کہ وہ مزدوری نہیں کرے گا تو کھائے گا کہا سے ۔عمران خان صاحب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب پی ٹی وی دفتر پر حملہ کر کے آپ نے کروڑوں کی املاک کا نقصان کیا اس وقت کہا تھے آپ؟عمران خان صاحب زرا بتائیں اس وقت روڈ کس نے بلاک کیے تھے اور سکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مذاق کس نے اڑایا تھا ۔عمران خان صاحب بتائیں خود ساختہ دھاندلی کا رونا رونے کا معاملہ ناموس رسالت سے افضل تھا ؟بتائیں حکومت وقت کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کس نے کیا تھا؟خدا راہ ایسا دھمکی امیز بیان دینے سے پہلے زرا اپنے ماضی کی طرف تو دیکھ لیتے یہ ہی قوم اس وقت آپ کے ساتھ دھرنا دینے والی تھی۔انہیں آپ نے یہ سبق سکھایا تھا ؟ آپ نے ہی اس نہج پر ان کی تربیت کی تھی تو آج تکلیف کس بات کی ہے ؟ اپنا مفاد ہو تو حق نبی اکرم ﷺکی ناموس کی بات ہو تو دھمکیاں ‘کہا کا یہ انصاف ہے عمران خان صاحب انصاف کے نام پر انصاف کا قتل ہم نہیں ہونے دیں گے ۔یاد رکھنا قانون رسالت کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ ہے اور عقیدے سے کھلواڑ کرنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا آپ ناموس رسالت کے مسئلے کی تاریخ اٹھا کر پڑھ سکتے ہیں ۔
ملک کی موجودہ صورت حال پر وزیر اعظم کے خطاب کے اثرات
قارئین کرام !جہاں وزیر اعظم صاحب کےخطاب کے مثبت پہلو ں کا ذکر ہے تو ان کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ قوم و ملک اور شرعی نقطہ نظر کے مطابق وقت کی ضرورت بھی تھا ۔کہ جب لوگوں میں شدید غم و غصہ کی لہر تھی لوگ نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر مر مٹنے کو تیار اور حکومت کے مزید اقدامات کے خلاف نعرے بازی سے کام لے رہے تھے ۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے چاہیے تو یہ تھا کہ اس کیس پر علما ء کی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتی اور شرعی نقطہ نظر معلوم کیا جاتا کیونکہ یہ عام کیس نہیں تھا یہ ایسا کیس تھا جس کے شریعت کے بغیر فیصلہ دینے کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی بجائے چیف جسٹس آف سپریم کو رٹ جناب ثاقب نثار میڈیا پر آکر قوم کو اس فیصلے کی نوعیت کے بارے میں وضاحت دیتے اور مزید اس کیس کی چھان بین کے لیے قوم کو اعتماد میں لیتے تاکہ لوگ قانون اور آئین کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام کرتے۔وزیر اعظم کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ میڈیا پر آتے اور ناموس رسالت کے حق میں مظاہرین کو مزید غصہ دلانے کے لیے دھمکی امیز خطاب کرتے ۔وزیر اعظم صاحب اگر ماضی میں اس طرح کے فیصلوں پر قانون کے مطابق مجرموں کو سزا دی جاتی تو اس طرح کے بیان جاری کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی ۔ملکی حالات میں فساد اور انتشار کے خلاف ایسا بیان جاری کرنا کسی بڑے انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔ آپ کے بیان کے مندرجہ ذیل اثرات ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہو سکتے ہیں ۔
٭آپ کابیان عوامی غصہ کو مزید بڑھانے کا سبب بنا ہے ۔
٭ناموس رسالت پر ایسا بیان جاری کرنا غیر ذمہ داری کا مظہر ہے ۔
٭وزیر اعظم کو سب سے پہلے چاہیے تھا کہ مفاہمت اور مذاکرات کی میز پر معاملے کو حل کرنے کے لیے علماء کا اجلاس بلاتے ۔
٭ عدالتوں کی جگہ پر صفائی دینے کی تمہیں ضرورت نہیں تھی دلیہ کی ترجمانی سے عوام کا آپ سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔
٭باہم دست و گریباں ہونا اور اپنے ہی لوگوں ے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا فساد کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔
٭ آپ کے بیان سے دشمن قوتوں کو من مانی کا موقع مل سکتا ہے ۔
٭ایسا بیان شروع میں ہی جاری کرنا حکومت کے ہر جائز و ناجائز فیصلے کو زبردستی عوام پر لاگوں کرنے کے مترادف جو ٹکراؤ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
٭پولیس اور عوام کا ٹکراؤ قتل و غارت گری کا ناجائز راستہ کھولنے کا سبب سن کتا ہے ۔
٭ اس جیسے بیان سے انتشار بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا ۔
٭بیان جاری کرنے سے پہلے معاملے کی سنگینی کو سمجھنا بےحد ضروری ہوتا ہےجو کہ آپ کی تقریر سے ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملا۔
ملکی صورت حال پرمذہبی و حکومتی نمائندوں کو دعوت فکر :
علماء اور حکومت کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بیٹھ کر بات کریں اور شرعی نقطہ نظر سے حکومت وقت کو آگاہ کرنے کے ساتھ اس پر عملے کروانے میں حکومت پر پر امن طریقے سے دباؤں ڈالیں اور حکمرانوں کو حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کو ان کے جمہوری حق سے نہ روکیں یا پھر ان کو اعتماد میں لیں تاکہ یہ تشدد و فساد والا معاملہ کھڑا نہ ہو ملک پہلے ہی دشمنوں کے گھیرےمیں ہے۔ مزید ہم بحثیت مسلمان اور پاکستانی قوم باہم دست و گریباں ہو کر دشمن کو من مانی کا موقع نہ دیں ورنہ پہلے کی طرح دوبارہ پھر ہم دہشت گردی کے خلاف جیتی جنگ ہار بیٹھیں گے۔ یہاں ٹکرانے کی اور جلا و گیراؤ کی ضروت نہیں حکمت کے ساتھ معاملے کے مثبت نتیجے کی طرف باہم اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھ کر ایسا فیصلہ کریں کہ مستقل بنیادوں پر یہ مسئلہ حل ہو جائے آئے روز اس کےساتھ چھیڑ خانی کرنے سے خانہ جنگی اور مارشل لاء جیسے حالات کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
ملک قوم کےلیے مظاہرین اور حکومت کی طرف سے تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی صورت درست نہیں شریعت کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ ایسے معاملات اور فیصلوں پر ناموس رسالت سے محبت کا اظہار قابل قدر عمل ہے مگر دیکھیں کہ :
اسلام پر امن مذہب ہے اور اپنے ماننے والوں سے بھی امن و سلامتی کا متقاضی ہے۔اسلام انتشار‘فتنہ و فساد‘بد امنی ‘توڑ پھوڑاور جلا و گیراو‘دہشت گردی ‘ بغاوت و خروج کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے کہ کلمہ گوہ مسلمان کے خلاف خروج و کفر و الحاد کا فتویٰ دے کر لوگوں کو حکومت وغیرہ کے خلاف اکسائے وہ اسلامی تعلیمات سے صحیح طرح واقف نہیں ۔اسلام تو جنگ کے دوران دشمن کی فصلوں‘ سازوسامان‘بیوی بچوں‘بوڑوں اور حتی ٰ کے دشمن کی لاش کو نقصان پہنچانے سے بھی سختی سے منع کر تا ہے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ان سب چیزوں کی اجازت ایک کلمہ گوہ مسلمان کے خلاف دے اور وہ ان کے خلاف نفرت و عداوت اور کفر کے فتوے لگاتا پھرے اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان پینل کورڈکی دفعات 295 (بی)سےلے کر 298(سی)تک دین کے متعلق جرائم کا بیان ہے ۔اس میں 295(سی)توہین رسالت کو بیان کرتی ہے جیسا کے آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ :
پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملےاستعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت‘ پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارانہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔
یورپین عدالت اور اسٹرین خاتون:
2008ء۔2009ءمیں ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے ایک تقریر کے دوران پغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے جس پر اسٹریلیاں کی عدالت نے اسے 480 یورو کا جرمانہ، بمع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ 26اکتوبر2018کویورپی عدالت جو کہ47 ججوں پر مشتمل ہےاس نے خاتون کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شق نمبر 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی لہذا اس کی سزا باقی رکھی جائے گی۔
آسیہ بی بی کیس کا پس منظر:
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔2009ءمیں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘کلمات کہے تھے۔استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔ الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے جنہوں نے جون 2009 ءمیں ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس میں توہینِ رسالت کے قانون( 295 سی )کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ’تین توہین آمیز‘کلمات کہے تھے۔ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ 2010ءمیں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 ءمیں عدالت نے سزا کی توثیق کر تے ہوئے سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ :
آسیہ بی بی نے جنوری 2015 ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015 ءمیں شروع کی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ( 295 سی )کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔اکتوبر 2016 ءکو سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور یہ مقدمہ بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔ آٹھ اکتوبر 2018 ءکو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔
توہین عدالت اور غلط فیصلے کرنے کے سبب سزا کا قیام:
کیا آئین عدالت عظمیٰ کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا عہد دار کے خلاف عدالتی حکم نہ ماننے یا دیر کرنے پر توہین عدالت کے ضمر میں سزا سنا سکتی ہے ۔توہینِ عدالت کسی ذریعے سے مداخلت کرنے کو کہتے ہیں۔، تقریر یا کسی عمل سے کوئی ایسا اقدام کرنا جس سے عدالت کے وقار کو صدمہ پہنچے یا اس کے کسی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ مثال کے طور پر حکومت نے عدالت میں آنے کے لیے ایک خاص لباس مقرر کر رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص اس حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے عدالت میں چلا جائے تو توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔ کسی زیر سماعت مقدمہ پر اظہار خیال کرنا جس سے اس کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کا اندیشہ ہو، وہ بھی توہین عدالت ہوگا۔ توہین عدالت کی سماعت براہ راست عدالت عالیہ میں ہوتی ہے اور سرسری سماعت کے بعد عام طور پر مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ عدالت ملزم کو سزا ‘قید او رجرمانہ دے سکتی ہے۔
اس کے ضمن میں اگر دیکھا جائے تو میں چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آسیہ مسیح کے کیس میں تقریباً 8 سال تک تاخیر کرنا اورہائی کورٹ کے حکم کو تسلیم نہ کرنا کیا توہین عدالت کو لازم نہیں کرتا ؟اگر یہ خاتون بے گنا ہ تھی تو اتنی لمبی سزا کس جرم کے بدلے دی اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟اگر یہ خاتون بے گناہ ہے تو ان ججوں کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چلائے کہ انہیں کس جرم میں سزائے موت کا حکم دیا گیا ؟کیوں اتنی لمبی قید دی گئی کیا قصور تھا کہ ان کی زندگی جیلوں میں برباد کر دی گئی۔کون ذمہ دار ہے ان ججوں کے خلاف کیس کی سماعت کی جائے اور بغیر ثبوت کےفیصلہ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف عوامی رد عمل :
توہین رسالت کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے یہ شروع دن سے ہی چلا آ رہا ہے جب اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم علیہ سلام کو پیدا کیا شیطان لعین سے لے کر مختلف ادوار میں انبیاء کی توہین کا سلسلہ جار ہی ہے۔ کبھی انبیاء کو قتل کیا گیا ‘ کبھی ستایا گیا ‘ کبھی استہزاء کیا گیا ۔نبی اکرم ﷺ نے جب نبوت و رسالت اور توحید کا اعلان کیا تو ابو لہب جیسے شریروں نے بہت تکلیفیں دیں اور توہین امیز جملے کسے ۔کبھی طائف میں مار مار کر لہو لہان کیا گیا تو کبھی گندگی پھینکی گئی ۔کبھی راستے میں کانٹے بچھائے گئے تو کبھی مجنون اور پاگل کہا گیا ۔کبھی مکہ میں نماز پڑھنے پرپابندی لگائی گئی تو کبھی ہجرت پر مجبور کیا گیا ۔کبھی قتل کے منصوبے بنائے گئے تو کبھی منہ پر تھوکا گیا ۔کبھی نبوت کے جھوٹے دعویداروں نے رسالت میں شکوک و شبہات پیدا کیے تو کبھی ختم نبوت کا انکار کرتے ہوئے خود کو آخری نبی تصور کیا ۔کبھی ناروے‘ڈنمارک‘فرانس‘جرمنی اور ہالینڈ میں نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔دشمنان اسلام جس طرح حضور نبی کریم ﷺ کی گستاخیوں میں کمر بستہ رہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کے ماننے والے ناموس رسالت کا فریضہ ادا کرتے رہے ۔کبھی گستاخ کو قتل کر کے ‘کبھی مذمتی قراردادیں پاس کر کے ‘کبھی جلوس اور جلسے کر کے اور سفارتی سطح پر دشمنان اسلام اور گستاخانِ نبی ﷺ کے خلاف اقدامات اٹھائے ۔حال ہی میں 31 اکتوبر 2018 بروز بدھ کوآسیہ بی بی (مسیح)کے حق میں پاکستان کی اعلی ٰ عدلیہ سپریم کورٹ کے رہائی کے فیصلے کے خلاف پھر سے ملک بھر میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔تمام مذہبی حلقوں کا شروع دن سے مطالبہ تھا کہ اس کو سزائے موت دی جائے ۔اس معاملے میں قصور وار کون ہے آئیے دیکھتے ہیں ۔
وزیر اعظم پاکستان’ عمران خان‘ کا قوم سے خطاب
سپری کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر کسی کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے ۔خصوصا ہمارے حکمران جو ختم نبوت پر ایمان لانے کا نام بھی لیتے ہیں اور اس پر حلف بھی اٹھاتے ہیں مگر ختم نبوت کے مسئلے پر جس طرح منحرف ہوتے ہیں۔ کبھی ختم نبوت کے مسئلے میں ترمیم تو کبھی اس کو کالا قانون کہنے میں زرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔گزشتہ دنو ں ہالینڈ کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف موجودہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے قابل تحسین ہیں ۔مگر آسیہ مسیح کےمتعلق کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے خطاب جہا ں مثبت پہلوں رکھتا تھا وہاں کئی ایک سوالات چھوڑ گیا ہے ۔ غیر ذمہ داری کا جس قدر حکومت وقت نے اس معاملے پر اظہار کیا قابل صد افسوس ہے ۔ان کے اس خطاب نے آسیہ مسیح کے کیس کا رخ دوسری جانب موڑ دیا ہے کہ لوگوں کا ایک مسئلے کے بارے میں ابھی غصہ ہلکا نہیں ہوا تھا کہ دوسرا ایشو کھڑا کر دیا گیا ۔وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ملک کو چلنے نہ دینا ‘ سڑکوں کو بند کردینا ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔کہی ایسا نہ ہو کہ صورت حال اس حد تک چلی جائے کہ ریاست کو سخت ایکشن لینا پڑھے۔کیا عمران خان صاحب کو وہ وقت یاد نہیں جب دھاندلی کی خاطرآپ نے 126 دن ملک و قوم کا کھربوں روپے کا نقصان کیا تھا ؟ اس وقت آپ کو غریب کا خیال تو نہ آیا کہ وہ مزدوری نہیں کرے گا تو کھائے گا کہا سے ۔عمران خان صاحب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب پی ٹی وی دفتر پر حملہ کر کے آپ نے کروڑوں کی املاک کا نقصان کیا اس وقت کہا تھے آپ؟عمران خان صاحب زرا بتائیں اس وقت روڈ کس نے بلاک کیے تھے اور سکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مذاق کس نے اڑایا تھا ۔عمران خان صاحب بتائیں خود ساختہ دھاندلی کا رونا رونے کا معاملہ ناموس رسالت سے افضل تھا ؟بتائیں حکومت وقت کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کس نے کیا تھا؟خدا راہ ایسا دھمکی امیز بیان دینے سے پہلے زرا اپنے ماضی کی طرف تو دیکھ لیتے یہ ہی قوم اس وقت آپ کے ساتھ دھرنا دینے والی تھی۔انہیں آپ نے یہ سبق سکھایا تھا ؟ آپ نے ہی اس نہج پر ان کی تربیت کی تھی تو آج تکلیف کس بات کی ہے ؟ اپنا مفاد ہو تو حق نبی اکرم ﷺکی ناموس کی بات ہو تو دھمکیاں ‘کہا کا یہ انصاف ہے عمران خان صاحب انصاف کے نام پر انصاف کا قتل ہم نہیں ہونے دیں گے ۔یاد رکھنا قانون رسالت کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ ہے اور عقیدے سے کھلواڑ کرنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا آپ ناموس رسالت کے مسئلے کی تاریخ اٹھا کر پڑھ سکتے ہیں ۔
ملک کی موجودہ صورت حال پر وزیر اعظم کے خطاب کے اثرات
قارئین کرام !جہاں وزیر اعظم صاحب کےخطاب کے مثبت پہلو ں کا ذکر ہے تو ان کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ قوم و ملک اور شرعی نقطہ نظر کے مطابق وقت کی ضرورت بھی تھا ۔کہ جب لوگوں میں شدید غم و غصہ کی لہر تھی لوگ نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر مر مٹنے کو تیار اور حکومت کے مزید اقدامات کے خلاف نعرے بازی سے کام لے رہے تھے ۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے چاہیے تو یہ تھا کہ اس کیس پر علما ء کی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتی اور شرعی نقطہ نظر معلوم کیا جاتا کیونکہ یہ عام کیس نہیں تھا یہ ایسا کیس تھا جس کے شریعت کے بغیر فیصلہ دینے کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی بجائے چیف جسٹس آف سپریم کو رٹ جناب ثاقب نثار میڈیا پر آکر قوم کو اس فیصلے کی نوعیت کے بارے میں وضاحت دیتے اور مزید اس کیس کی چھان بین کے لیے قوم کو اعتماد میں لیتے تاکہ لوگ قانون اور آئین کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام کرتے۔وزیر اعظم کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ میڈیا پر آتے اور ناموس رسالت کے حق میں مظاہرین کو مزید غصہ دلانے کے لیے دھمکی امیز خطاب کرتے ۔وزیر اعظم صاحب اگر ماضی میں اس طرح کے فیصلوں پر قانون کے مطابق مجرموں کو سزا دی جاتی تو اس طرح کے بیان جاری کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی ۔ملکی حالات میں فساد اور انتشار کے خلاف ایسا بیان جاری کرنا کسی بڑے انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔ آپ کے بیان کے مندرجہ ذیل اثرات ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہو سکتے ہیں ۔
٭آپ کابیان عوامی غصہ کو مزید بڑھانے کا سبب بنا ہے ۔
٭ناموس رسالت پر ایسا بیان جاری کرنا غیر ذمہ داری کا مظہر ہے ۔
٭وزیر اعظم کو سب سے پہلے چاہیے تھا کہ مفاہمت اور مذاکرات کی میز پر معاملے کو حل کرنے کے لیے علماء کا اجلاس بلاتے ۔
٭ عدالتوں کی جگہ پر صفائی دینے کی تمہیں ضرورت نہیں تھی دلیہ کی ترجمانی سے عوام کا آپ سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔
٭باہم دست و گریباں ہونا اور اپنے ہی لوگوں ے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا فساد کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔
٭ آپ کے بیان سے دشمن قوتوں کو من مانی کا موقع مل سکتا ہے ۔
٭ایسا بیان شروع میں ہی جاری کرنا حکومت کے ہر جائز و ناجائز فیصلے کو زبردستی عوام پر لاگوں کرنے کے مترادف جو ٹکراؤ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
٭پولیس اور عوام کا ٹکراؤ قتل و غارت گری کا ناجائز راستہ کھولنے کا سبب سن کتا ہے ۔
٭ اس جیسے بیان سے انتشار بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا ۔
٭بیان جاری کرنے سے پہلے معاملے کی سنگینی کو سمجھنا بےحد ضروری ہوتا ہےجو کہ آپ کی تقریر سے ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملا۔
ملکی صورت حال پرمذہبی و حکومتی نمائندوں کو دعوت فکر :
علماء اور حکومت کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بیٹھ کر بات کریں اور شرعی نقطہ نظر سے حکومت وقت کو آگاہ کرنے کے ساتھ اس پر عملے کروانے میں حکومت پر پر امن طریقے سے دباؤں ڈالیں اور حکمرانوں کو حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کو ان کے جمہوری حق سے نہ روکیں یا پھر ان کو اعتماد میں لیں تاکہ یہ تشدد و فساد والا معاملہ کھڑا نہ ہو ملک پہلے ہی دشمنوں کے گھیرےمیں ہے۔ مزید ہم بحثیت مسلمان اور پاکستانی قوم باہم دست و گریباں ہو کر دشمن کو من مانی کا موقع نہ دیں ورنہ پہلے کی طرح دوبارہ پھر ہم دہشت گردی کے خلاف جیتی جنگ ہار بیٹھیں گے۔ یہاں ٹکرانے کی اور جلا و گیراؤ کی ضروت نہیں حکمت کے ساتھ معاملے کے مثبت نتیجے کی طرف باہم اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھ کر ایسا فیصلہ کریں کہ مستقل بنیادوں پر یہ مسئلہ حل ہو جائے آئے روز اس کےساتھ چھیڑ خانی کرنے سے خانہ جنگی اور مارشل لاء جیسے حالات کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
ملک قوم کےلیے مظاہرین اور حکومت کی طرف سے تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی صورت درست نہیں شریعت کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ ایسے معاملات اور فیصلوں پر ناموس رسالت سے محبت کا اظہار قابل قدر عمل ہے مگر دیکھیں کہ :