4۔حضرت ابوبرزہؓ فرماتے ہیں کہ
کنتُ عند أبي بکر فتغیَّظ علی رجل فاشتد علیہ فقلت تأذن لي یا خلیفة رسول اﷲ ﷺ اَضرب عنقہ، قال فاذھبتْ کلمتي غضبَہ فقال فدخل فأرسل إليَّ فقال: ما الذي قلت آنفا قلت: ائذن لي اضرب عنقہ قال أ کنت فاعلا لو أمرتک؟ قلت: نعم قال: لا واﷲ ما کانت لبشر بعد محمد ! (سنن ابوداود: ۴۳۶۳ ’صحیح‘)
’’میں حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپؓ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسولؐ! آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس کی گردن اُڑا دوں؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر گھر چلے گئے او رمجھے بلابھیجا۔ میں گیا تو مجھ سے فرمایا کہ ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: یہ کہا تھا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس شخص کی گردن اُڑا دوں۔ فرمایا: اگر میں تم کو حکم کرتا توتم یہ کام کرتے؟ عرض کیا:آپ فرماتے تو ضرور کرتا۔ فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم یہ بات (کہ بدکلامی پر گردن اُڑا دی جائے) محمدﷺکے بعد کسی کے لئے نہیں۔‘‘
مطلب یہ کہ صرف رسول اللہﷺ کی شان میں بدزبانی کرنے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ آپﷺ کے بعد کوئی انسان ایسا نہیں جس کی بدگوئی کرنے والے کو سزائے موت دی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے گالی دینے والے کوقتل کردیں۔ آپﷺ کو یہ حق بھی حاصل تھاکہ اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیں جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیاجا رہا ہے۔ اس معاملہ میں لوگوں کو آپﷺ کی اطاعت کرنا چاہئے، اس لئے کہ آپؐ اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو اور آپؐ اللہ کی نافرمانی کا کبھی حکم نہیں دیتے۔ جو آپﷺ کی اطاعت کرتا ہے، وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ کی دو خصوصیات ہیں :
1۔ آپﷺ جس کو قتل کرنے کا حکم دیں، اس میں آپؐ کی اطاعت کی جائے۔
2۔جو شخص آپﷺ کو گالیاں دے اور سخت سست کہے، آپؐ اس کو قتل کرسکتے ہیں۔
آپﷺ کو یہ دوسرا اختیار جو دیا گیا تھا، وہ آپؐ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ لہٰذا جو شخص آپﷺ کو گالی دے یا آپؐ کی شان میں سخت الفاظ کہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے بلکہ آپؐ کی وفات کے بعد یہ حکم مؤکد تر ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپﷺ کا تقدس اور حرمت وفات کے بعد اور زیادہ کامل ہوجاتی ہے اور آپﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کی ناموس و آبرو میں سہل انگاری اور تغافل شعاری ممکن نہیں۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ آپﷺ کو مطلقاً قلت و کثرت کو ملحوظ رکھے بغیر گالی دینے سے ایسے شخص کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں اس حدیث کے عموم سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہو یا کافر۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۹۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے مسئلہ زیر بحث پر قرآن و سنت کے نصوص اور صحابہ و تابعین کا مسلسل تعامل ذکرکرتے ہوئے آخر میں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی شخص نے ان کو بر ابھلا کہا اور ان کی ہتک عزت کی۔ غالباً اس علاقے کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے استصواب کیا ہوگا کہ ایسے مفسد شخص کو قتل کردیا جائے؟ تو اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے گورنر کو لکھا کہ قتل صرف اس شخص کو کیا جاتا ہے جو شانِ رسالتؐ میں دریدہ د ہنی کرے لہٰذا اس شخص کو قتل تو نہ کیا جائے ،البتہ سرزنش کے لئے اس کے سر پر اتنے کوڑے لگائیں جائیں او ریہ کوڑے لگانا بھی محض اس شخص کی اصلاح اور بہتری کے لئے ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں اس کے کوڑے لگانے کا بھی حکم نہ دیتا۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
وھذا مشہور عن عمر بن عبدالعزیز وھو خلیفة راشد عالم بالسنة متبع لھا فھذا قول أصحاب رسول اﷲ ﷺ والتابعین لھم بإحسان لایعرف عن صاحب ولا تابع خلاف لذلک بل إقرار علیہ واستحسان لہ۔ (الصارم المسلول: ص۲۰۵)
’’اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ مشہور ہے جبکہ وہ خلیفہ راشد، قرآن و سنت کے عالم اور بے حد متبع سنت ہیں۔ پس شاتم رسولﷺ کا واجب القتل ہونا صحابہؓ و تابعینؒ کا اجماعی فیصلہ ہے اورکسی ایک صحابی ؓ اور ایک تابعیؒ سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اسلامی قانون کی رُو سے توہین ِرسالت کا مرتکب سزاے موت کا مستحق ہے اور اس مسئلہ پر تمام صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہائے اُمت متفق ہیں۔
جاری ہے