• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین ِرسالتﷺ اور احادیث ِنبویہﷺ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
توہین ِرسالتﷺ اور احادیث ِنبویہﷺ

شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز​
اسلام ذاتِ نبوتﷺ کے گرد گھومتا ہے، آپﷺ کی ذاتِ بابرکات پر ایمان لانے کے بعد ہی انسان حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور نبی آخر الزمانؐ سے دنیا جہاں سے بڑھ کر محبت رکھنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ دین کے تمام احکامات کے ہمارے علم میں آنے اور خود قرآن کے معلوم ہونے کا مصدر ومحور بھی آپﷺ کی ہی ذاتِ گرامی ہے۔پھر قرآن کریم میں جابجا آپﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت ہی قرار دیا گیا ہے۔
محمدﷺ کی اسلام میں اس قدر بنیادی حیثیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کی قدر ومنزلت اور درجہ وفضیلت کا بھی پورا احترام برقرار رکھا جائے اور اس انسان کو دنیا میں زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا جائے جو محسن انسانیتﷺ اور رحمتہ للعالمینﷺ کی ناموسِ مبارک پر حملہ آور ہو۔ دورِ نبوتﷺ کے درج ذیل واقعات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آپﷺ نے ایسے گستاخان کی سزؤوں سے اتفاق کیا یا خود آپﷺ نے ایسے ظالموں کی سرکوبی اور اُنہیں راہِ عدم سدھانے کے لئے اپنے جانثار صحابہ متعین کئے۔(ح م)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ
أن یہودیة کانت تشتم النبي ﷺ وتقع فیہ فخنقھا رجل حتی ماتت فأبطل رسول اﷲ ﷺ دمَھا (ابوداود:۴۳۶۲’ضعیف‘)
’’ایک یہودی عورت، رسول اللہﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردیا تو آپﷺنے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

’’یہ حدیث اس مسئلہ میں نص کا حکم رکھتی ہے کہ نبیﷺ کو گالیاں دینے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ ایسے ذمی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے، پھرمسلم مرد یا عورت اگر آپﷺ کو گالیاں دیں تو ان کو بطریق اولیٰ قتل کرنا جائز ہے اس لئے کہ یہ عورت بھی ان لوگوں میں سے تھی جن کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا۔ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے تمام یہودیوں کے ساتھ مطلق معاہدہ کیا گیا تھا اور ان پرجزیہ بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ اہل علم کے مابین یہ مسئلہ متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ علماے سیر میں سے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا کہ جب رسول اللہ1 مدینہ منورہ تشریف لائے تو عام یہودیوں سے بلاجزیہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ اور امام شافعیؒ کا یہ قول درست ہے۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۶۲)
جب رسول اللہﷺ نے یہودیوں کے ساتھ جزیہ کے بغیر معاہدہ کیا پھرایک یہودی عورت کے خون کو اس لئے رائیگاں قرار دیا کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی تو ایک یہودی عورت کے خون کو جس پر جزیہ عائد کیا گیا تھا اور وہ دینی احکام کے پابند بھی تھے بے کار ٹھہرا دیں تو یہ اولیٰ و افضل ہے اور اگر اس عورت کا قتل جائز نہ ہوتا تو آپﷺ اس عورت کے قاتل کے فعل کی مذمت فرماتے، کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
" من قتل نفسا معاھدة بغیر حقھا لم یرح رائةۃ الجنة" (ابن حبان :۱۱؍۲۹۱، رقم :۸۳۸۲’صحیح‘)
’’جس نے کسی معاہد کو بلا وجہ قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔‘‘
اور آپﷺ اس عورت کی ضمانت یا معصوم کو قتل کرنے کا کفارہ واجب کرتے۔ جب اس عورت کے خون کو آپﷺ نے رائیگاں قرار دیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اسکا خون مباح تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ

أن أعمی کانت لہ أم ولد تشتم النبي ﷺ وتقع فیہ فینھاھا فلا تنتھي ویزجرھا فلا تنزجر قال فلما کانت ذات لیلة جعلت تقع في النبي ﷺ وتشتمہ فأخذ المغول فوضعہ في بطنھا واتکأ علیھا فقتلھا فوقع بین رجلیھا طفل فلطخت ما ھناک بالدم فلما أصبح ذکر ذلک للنبي ﷺ فجمع الناس فقال : (أنشد اﷲ رجلا فعل ما فعل لي علیہ حق إلا قام) فقام الأعمیٰ یتخطی الناس وھو یتزلزل حتی قعد بین یدي النبي ﷺ فقال:یارسول اﷲ! أنا صاحبھا کانت تشتمک وتقع فیک فأنھاھا فلا تنتھي وأزجرھا فلا تنزجر ولي منھا ابنان مثل اللؤلؤتین وکانت بي رفیقة فلما کان البارحة جعلت تشتمک وتقع فیک فأخذت المغول فوضعتہ في بطنھا واتکأت علیھا حتی قتلتھا فقال النبيﷺ:" ألا اشھدوا أن دمھا ھدر"
(سنن ابوداود:۴۳۶۱’صحیح‘)
’’ایک اندھے شخص کی ایک اُمّ ولد لونڈی تھی جو رسول اللہﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ وہ اسے روکتا مگر وہ باز نہ آتی، وہ ڈانٹتا مگر وہ رُکتی نہ تھی۔ ایک رات اس نے رسولِ کریمﷺ کو گالیاں دینے کا آغاز کیا تو اس نے بھالا لے کراس کے شکم میں پیوست کردیا اور اسے زور سے دبایا جس سے وہ ہلاک ہوگئی۔ صبح کو اس کا تذکرہ رسول کریمﷺ سے کیا گیا تو لوگوں کو جمع کرکے آپﷺ نے فرمایا:میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے یہ قتل کیا اور میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ یہ سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہوا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آپﷺ کے پاس آیا اور بیٹھ گیا۔ اس نے کہا: یارسول ﷺ ! (اسے میں نے قتل کیا ہے) وہ آپﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر وہ باز نہ آتی تھی، میں اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا مگر وہ پروا نہ کرتی۔ اس کے بطن سے میرے دو موتیوں جیسے بیٹے ہیں، وہ میری رفیقہ حیات تھی۔ گذشتہ شب جب وہ آپﷺ کو گالیاں بکنے لگی تو میں نے بھالا لے کراس کے پیٹ میں گاڑ دیا اور اسے زور سے دبایا حتیٰ کہ وہ مرگئی۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: گواہ رہو کہ اس کا خون رائیگاں ہے۔‘‘
مندرجہ بالا واقعہ میں اگر اس عورت کو قتل کرنا ناروا ہوتا تو رسول کریمﷺ فرما دیتے کہ اس کو قتل کرنا حرام ہے اور اس کا خون معصوم ہے۔ معصوم کو قتل کرنے کی وجہ سے اس پر کفارے کو واجب قرار دیتے اوراگر وہ اس کی لونڈی نہ ہوتی تو اس پر دیت کو واجب قرار دیتے۔ جب آپﷺنے فرمایا کہ اس کا خون ہدر (رائیگاں)ہے اور ہدر وہ خون ہوتا ہے جس کا قصاص دیا جاتا ہے نہ دیت اور نہ کفارہ تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ ذمی ہونے کے باوجود مباح الدم تھی۔ گویا گالیاں دینے کے مذموم فعل نے اس کے خون کو مباح کردیاتھا۔ مزید برآں آپﷺ نے اس کے خون کو اس وقت ہدر قرار دیا جب آپﷺ کو بتایا گیا کہ گالیاں دینے کی وجہ سے اس کو قتل کیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس کا موجب و محرک یہی ہے اور اس واقعہ کی دلالت اس پر واضح ہے۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول:ص۶۸)
٭ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وفي حدیث ابن عباس وحدیث الشعبي دلیل علی أنہ یقتل من شتم النبي ﷺ وقد نقل ابن المنذر الاتفاق علی أن من سبّ النبي ﷺ صریحا وجبَ قتلہ ونقل أبوبکر الفارسي أحد أئةۃ الشافعیة في کتاب الإجماع أن من سبَّ النبي ﷺ بما ھو قذف صریح کفر باتفاق العلماء فلو تاب لم یسقط عنہ القتل لأن حد قذفہ القتل وحد القذف لا یسقط بالتوبة (نیل الاوطار:۷؍۱۸۹)
‘‘حدیث ِابن عباسؓ اور حدیث ِشعبیؒ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نبیﷺ کو گالیاں دے، اسے قتل کردیا جائے۔ ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ جو شخص صریحاً نبیﷺ کو گالیاں دے اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ ابوبکر فارسی جو ائمہ شافعیہ میں سے ہیں نے کتاب الإجماع میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبیﷺ کو گالیاں دے تو وہ تمام ائمہ کے نزدیک کافر ہے۔ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو پھر بھی اس سے سزاے قتل ساقط نہیں ہوسکتی، کیونکہ (نبیﷺ پر) قذف کی حد قتل ہے اورحد ِقذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘
٭ نسائی کے شارح امام سندھیؒ فرماتے ہیں:
فیہ دلیل علی أن الذمي إذا لم یکف لسانہ عن اﷲ ورسولہ فلا ذمة لہ فیَحُلُّ قتلہ (حاشیہ نسائی:۷؍۱۰۹)
’’حدیث ِابن عباسؓ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ذمی آدمی جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف زبان درازی سے باز نہ آئے تو اس کا معاہدہ ختم اور اس کا قتل جائز ہے۔‘‘
٭ امام خطابی ؒ فرماتے ہیں:
ولا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتلہ ولکن إذا کان الساب ذمیا فقد اختلفوا فیہ فقال مالک بن أنس: من شتم النبي ﷺ من الیھود والنصاریٰ قتل إلا أن یسلم،وکذلک قال أحمد بن حنبل وقال الشافعي: یقتل الذمي إذا سبَّ النبي ﷺ وتبرأ منہ الذمة واحتج في ذلک بخبر کعب بن الأشرف۔۔۔وحُکِی عن أبي حنیفة أنہ قال: لایقتل الذمي بشتم النبي ﷺ ماھم علیہ من الشرک أعظم (معالم السنن:۳؍۲۹۵)
’’شاتم رسولﷺ کے قتل کے واجب ہونے میں مسلمانوں میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن جب شاتم ذمی ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ امام مالکؒ و احمدؒ بن حنبل کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں سے کوئی بھی آپﷺ کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے گا، اِلا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ذمی آدمی اگر آپﷺ کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے معاہدہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس سلسلہ میں کعب بن اشرف کے قتل والی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے نزدیک شاتم رسول ذمی کو قتل نہیں کیا جائے کیونکہ وہ جس کفریہ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہے وہ آپﷺ کو گالیاں دینے سے بھی زیادہ بڑاجرم ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’ من سبَّ نبیا قُتِل ومن سبَّ أصحابہ جُلِدَ‘‘ (الصارم المسلول: ص۹۲)
’’جس نے نبیﷺ کو گالی دی، اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپﷺ کے صحابہؓ کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
’’اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے تو یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ نبیﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کرنا واجب ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کیا جائے نیزیہ کہ قتل اس کے لئے حد شرعی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کسی نبی کو بھی جو گالیاں دے گا یا بُرا کہے گا تو وہ قتل کا مستحق ہے اور جو صحابہؓ میں سے کسی کو بُرا کہے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔حضرت ابوبرزہؓ فرماتے ہیں کہ
کنتُ عند أبي بکر فتغیَّظ علی رجل فاشتد علیہ فقلت تأذن لي یا خلیفة رسول اﷲ ﷺ اَضرب عنقہ، قال فاذھبتْ کلمتي غضبَہ فقال فدخل فأرسل إليَّ فقال: ما الذي قلت آنفا قلت: ائذن لي اضرب عنقہ قال أ کنت فاعلا لو أمرتک؟ قلت: نعم قال: لا واﷲ ما کانت لبشر بعد محمد ! (سنن ابوداود: ۴۳۶۳ ’صحیح‘)
’’میں حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپؓ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسولؐ! آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس کی گردن اُڑا دوں؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر گھر چلے گئے او رمجھے بلابھیجا۔ میں گیا تو مجھ سے فرمایا کہ ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: یہ کہا تھا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس شخص کی گردن اُڑا دوں۔ فرمایا: اگر میں تم کو حکم کرتا توتم یہ کام کرتے؟ عرض کیا:آپ فرماتے تو ضرور کرتا۔ فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم یہ بات (کہ بدکلامی پر گردن اُڑا دی جائے) محمدﷺکے بعد کسی کے لئے نہیں۔‘‘
مطلب یہ کہ صرف رسول اللہﷺ کی شان میں بدزبانی کرنے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ آپﷺ کے بعد کوئی انسان ایسا نہیں جس کی بدگوئی کرنے والے کو سزائے موت دی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے گالی دینے والے کوقتل کردیں۔ آپﷺ کو یہ حق بھی حاصل تھاکہ اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیں جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیاجا رہا ہے۔ اس معاملہ میں لوگوں کو آپﷺ کی اطاعت کرنا چاہئے، اس لئے کہ آپؐ اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو اور آپؐ اللہ کی نافرمانی کا کبھی حکم نہیں دیتے۔ جو آپﷺ کی اطاعت کرتا ہے، وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ کی دو خصوصیات ہیں :
1۔ آپﷺ جس کو قتل کرنے کا حکم دیں، اس میں آپؐ کی اطاعت کی جائے۔
2۔جو شخص آپﷺ کو گالیاں دے اور سخت سست کہے، آپؐ اس کو قتل کرسکتے ہیں۔
آپﷺ کو یہ دوسرا اختیار جو دیا گیا تھا، وہ آپؐ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ لہٰذا جو شخص آپﷺ کو گالی دے یا آپؐ کی شان میں سخت الفاظ کہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے بلکہ آپؐ کی وفات کے بعد یہ حکم مؤکد تر ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپﷺ کا تقدس اور حرمت وفات کے بعد اور زیادہ کامل ہوجاتی ہے اور آپﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کی ناموس و آبرو میں سہل انگاری اور تغافل شعاری ممکن نہیں۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ آپﷺ کو مطلقاً قلت و کثرت کو ملحوظ رکھے بغیر گالی دینے سے ایسے شخص کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں اس حدیث کے عموم سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہو یا کافر۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۹۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے مسئلہ زیر بحث پر قرآن و سنت کے نصوص اور صحابہ و تابعین کا مسلسل تعامل ذکرکرتے ہوئے آخر میں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی شخص نے ان کو بر ابھلا کہا اور ان کی ہتک عزت کی۔ غالباً اس علاقے کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے استصواب کیا ہوگا کہ ایسے مفسد شخص کو قتل کردیا جائے؟ تو اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے گورنر کو لکھا کہ قتل صرف اس شخص کو کیا جاتا ہے جو شانِ رسالتؐ میں دریدہ د ہنی کرے لہٰذا اس شخص کو قتل تو نہ کیا جائے ،البتہ سرزنش کے لئے اس کے سر پر اتنے کوڑے لگائیں جائیں او ریہ کوڑے لگانا بھی محض اس شخص کی اصلاح اور بہتری کے لئے ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں اس کے کوڑے لگانے کا بھی حکم نہ دیتا۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
وھذا مشہور عن عمر بن عبدالعزیز وھو خلیفة راشد عالم بالسنة متبع لھا فھذا قول أصحاب رسول اﷲ ﷺ والتابعین لھم بإحسان لایعرف عن صاحب ولا تابع خلاف لذلک بل إقرار علیہ واستحسان لہ۔ (الصارم المسلول: ص۲۰۵)
’’اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ مشہور ہے جبکہ وہ خلیفہ راشد، قرآن و سنت کے عالم اور بے حد متبع سنت ہیں۔ پس شاتم رسولﷺ کا واجب القتل ہونا صحابہؓ و تابعینؒ کا اجماعی فیصلہ ہے اورکسی ایک صحابی ؓ اور ایک تابعیؒ سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اسلامی قانون کی رُو سے توہین ِرسالت کا مرتکب سزاے موت کا مستحق ہے اور اس مسئلہ پر تمام صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہائے اُمت متفق ہیں۔​

جاری ہے​
 
Top