یہ جو سفاک اہلِ پستی ہیں
میری مٹی سے ہے نمو جِن کی
میرے گلشن کے پھول کلیوں کو
اُنہی خاروں نے گھیر رکھا ہے
یہ جو شوریدہ سر بیگانے ہیں
میری ہی کوکھ سے جنم لے کر
میرے ہی گھر پہ وار کرتے ہیں
میری پگڑی اُچھالتے ہیں یہی
میری آنکھیں نکالتے ہیں یہی
سب یہی بار بار کرتے ہیں
میرے ہی گھر پہ وار کرتے ہیں
خُوں سے رنگتے ہیں میری گلیوں کو
مار دیتے ہیں میرے شاہیں یہ
نوچ لیتے ہیں تتلیاں میری
کاٹ دیتے ہیں میری نسلِ نو
راج کرتے ہیں میرے دل پہ جو
آگ میں اُن کو ڈال دیتے ہیں
نام لے کر وفائے مذہب کا
میری پگڑی اُچھال دیتے ہیں