یہاں آپ نے صبح و شام کے اوقات میں ذکر خفی کی دلیل دی ہے تو جو نماز دوپہر ، سہ پہر یا رات کو ادا کی جاتی ہے وہاں تکبیر تحریمہ آہستہ ادا کی جائے گی اس کیا دلیل ہے ۔
بعض اوقات تو آپ ایسی بات کرتے ہو کہ آپ کی علمیت بری طرح مشکوک ہو جاتی ہے۔ شاید یہ دفاع مذہب کے مرض کا نتیجہ ہے۔ اس آیت قرآنی میں مطلقاٌ ذکر کا بیان ہے جس میں ہر طرح کا ذکر الٰہی شامل ہے یعنی وہ ذکر جو انسان اٹھتے بیٹھتے کرتا ہے یا تلاوت قرآن کی صورت میں یا دوران نماز یا فرض نمازوں کے بعد کئے جانے والے اذکار وغیرہ اس لئے اس آیت کو صرف دو وقت یعنی صرف صبح اور شام کی نماز میں کئے جانے والے ذکر کے ساتھ خاص کرنا تو درست نہیں اور دوسرا اس آیت میں صبح و شام سے مراد سارا دن یا سارا دن اور ساری رات ہے ناکہ صبح اور شام کا کوئی مخصوص وقت یا نماز۔ جیسا کہ ہم اکثر اپنے محاورے میں بھی کہتے ہیں کہ تمہیں یہ کام صبح و شام کرنا پڑے گا تو اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارا دن یا جیسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپکو یہ دوائی صبح و شام کھانی پڑے گی جبکہ سب جانتے ہیں کہ عموماٌ مریض سارا دن میں تین خوراک دوائی لیتا ہے یا بعض اوقات چار مرتبہ۔ تو اس صبح و شام سے مراد صبح سے رات تک کا وقت ہوتا ہے۔
اس قرآنی آیت میں صبح شام یعنی سارا دن یا سارا دن اور ساری رات میںکسی بھی ذکر کے لئے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ذکر پست آواز میں کرو مطلب یہ کہ آواز اونچی نہ ہو۔ یعنی اتنی آواز جسے آپ سن سکیں اور جو دوسروں کو پریشان نہ کرے۔ اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ذکر ہلکی آواز میں کرے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر۔ اس کے علاوہ جس ذکر کے بارے میں خصوصی طور پر جہراٌ پڑھنے کا حکم ہے اس ذکر کو جہراٌ پڑھے۔ اس قرآنی اصول سے مقتدی اور امام کے ذکر کے فرق کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ میرے خیال سے آپکو بہت مناسب جواب دیا گیا ہے ایک عام شخص جو متعصب اور جھگڑالو نہ ہو وہ اس جواب پر مطمئن ہوجانا چاہیے۔
( ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا ) [ الإسراء : 110 ]اور نہ اپنی نماز بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
یہاں تو نماز معتدل (میڈیم ) آواز میں پڑھنے کا حکم ہے اور تکبیر تحریمہ آپ حضرات پست آواز سے پڑھتے ہیں تو یقینا اس معتدل اواز سے نہ پڑھنے کے استثناء کی کوئي دلیل آپ کے پاس ہوگی؟؟ وہی دلیل جاننا مطلوب ہے
آپکی یہ بات تحقیق کی متقاضی ہے اس کا جواب میں بعد میں دوں گا۔ ان شاء اللہ
ویسے میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ نے کیا فقہ حنفی کو ثابت کرنے کا ہی ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے آپ بھی تو قرآن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات پر بھی کہ قرآن میں تضاد نہیں تو اس بظاہر نظر آنے والے تضاد کو خود آپ ہی دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یا پھر اہل حدیث کی مخالفت اور دشمنی میں آپ بھی کفار کی طرح قرآن وحدیث میں شکوک شبہات پیدا کرنے اور پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہو؟
جہاں تک آپ کا یہ اعتراض کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ ہم بھی بطور مقتدی یا تنہا نماز ادا کرتے ہوئے آہستہ تکبیر تحریمہ کہتے ہیں تو بھائی آپ کا یہ اعتراض باطل ہے کیوں کہ میں ایک عامی حنفی ہوں اور جہاں قراں و حدیث سے واضح نص نہ موجود ہو تو میں حنفی فقہاء کی تقلید کرتا ہوں۔ تقلید تو آپ کے ہاں ایک گالی ہے تو ذرا اس گالی سے بچتے ہوئے اپنی دلیل بیان فرمادیں
جزاک اللہ خیرا
اللہ تبارک و تعالی سے ہی ہدایت کا سوال ہے
تقلید کو تو خود آپ بھی گالی سمجھتے ہیں جبھی تو وہ کام کرتے ہیں جس کو آپ کے مستند علماء بھی غیرمقلدیت کا نام دیتے ہیں یعنی ہر مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نصوص ڈھونڈنا اور ان پر عمل کرنا اور جہاں آپ تحقیق نہ کرسکیں صرف اس مسئلہ میں تقلید کرنا۔ یہ تقلید کہاں ہوئی یہ تو تحقیق ہوئی۔
ویسے آپ کا جو طرز عمل اور اصول ہے کہ ایک عامی حنفی ہر مسئلہ میں خود تحقیق کرے گا اور قرآن و حدیث سے نصوص تلاش کرکے ان پر عمل کرے گا۔ کیا یہ اصول آپکے مذہب میں ثابت شدہ ہے؟ یا پھر ہمیں دھوکہ دینے کے لئے آپ غلط بیانی کررہے ہیں؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب مقلد عامی خود ہی تحقیق کرے گا تو امام صاحب نے پھر کیا کیا ہے؟
ہمارے علم کے مطابق تو ایک مقلد عامی کو حنفی مذہب قرآن و حدیث کی طرف رجوع کا حکم ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ چونکہ یہ عامی ہے لہٰذا قرآن وحدیث کی نصوص اس کی سمجھ سے بالا ہیں۔ نصوص کو سمجھنا پھر انکے مطابق فیصلہ دینا مجتہد کا کام ہے۔ اس لئے حنفی مذہب میں عامی کا فریضہ یہ ہے کہ وہ صرف قول امام پر عمل کرے گا اور اگر اتفاقاٌ بھی کوئی حدیث اس کے سامنے آجائے جو اسکے امام کے قول کے خلاف ہو تو وہ حدیث چھوڑ دے گا اور امام کے قول کو لے لے گا کیونکہ وہ عامی ہے۔