• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکبیر تحریمہ ، اونچی یا آہستہ آواز میں اور دلیل ؟

شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
(یہ موضوع ایک اور جگہ سے علیحدہ کیا گیا ہے ۔ ( انتظامیہ )
یہ بڑا دعویٰ نہیں ہے بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ آپ ہمیں حنفی نہ سمجھیں جن کا کام ہی جھوٹے دعویٰ کرنا ہے اور ثابت کرنے کا وقت آنے پر فرار ہوجانا ہے۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھیں آپ کو اجازت ہے۔
(1) نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟
جناب کے جواب کو دیکھتے ہوئے باقی سوال کرونگا
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
(1) نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟
جناب کے جواب کو دیکھتے ہوئے باقی سوال کرونگا
میرا خیال ہے سوال پوچھنے والے صاحب کو یا انتظامیہ میں سے کسی رُکن کو اس سوال کو ایک الگ تھریڈ میں منتقل کردینا چاہیے۔ جزاک اللہ خیرا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
(1) نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔
اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر بھی اللہ کا ذکر ہی ہے ۔ اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ یہ بھی دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کہی جائے , ہاں مکبر اور امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔ خوب سمجھ لیں ۔ فتویٰ کا ربط

جناب کے جواب کو دیکھتے ہوئے باقی سوال کرونگا
محترم مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ میں نے آپ سے معاہدہ کیا ہو کہ میں صرف آپکے سوالوں کے جواب دونگا اور آپ سے کوئی سوال نہیں کرونگا۔ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے۔ اب ایک سوال کا جواب آپ بھی عنایت فرمادیں پھر اس کے بعد آپ دوسرا سوال کرسکتے ہیں۔

چونکہ آپ مقلد ہیں اس لئے قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا آپ کا کام نہیں ہے آپ کا کام آنکھ بند کرکے اپنے امام کے اقوال کی تقلید کرنا ہے۔ آپ اپنے اصول کے مطابق قول امام سے اسی سوال کا جواب عنایت فرمادیں جو آپ نے ہم سے پوچھا تھا یعنی
نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
شاہد نزیر صاحب: میں نے جناب سے اجازت لیکر سوال پوچھنے شروع کئے ہیں جسکی اجازت جناب نے بڑی تعلّی کے ساتھ اِن الفاظ میں دی تھی
یہ بڑا دعویٰ نہیں ہے بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ آپ ہمیں حنفی نہ سمجھیں جن کا کام ہی جھوٹے دعویٰ کرنا ہے اور ثابت کرنے کا وقت آنے پر فرار ہوجانا ہے۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھیں آپ کو اجازت ہے۔
اب فرار کی کوشش نہ کریں ،اپنے اس دعویٰ پر قائم رہیں اور چُپ چاپ میرے سوالوں کے جواب دیتے رہیں ! جناب اگر مجھ سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اجازت طلب کریں، میری مرضی میں اجازت دوں یا نہیں
ائندہ سوال کرنے سے سے پرہیز کریں-
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد نزیر صاحب: میں نے جناب سے اجازت لیکر سوال پوچھنے شروع کئے ہیں جسکی اجازت جناب نے بڑی تعلّی کے ساتھ اِن الفاظ میں دی تھی
یہ بڑا دعویٰ نہیں ہے بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ آپ ہمیں حنفی نہ سمجھیں جن کا کام ہی جھوٹے دعویٰ کرنا ہے اور ثابت کرنے کا وقت آنے پر فرار ہوجانا ہے۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھیں آپ کو اجازت ہے۔
اب فرار کی کوشش نہ کریں ،اپنے اس دعویٰ پر قائم رہیں اور چُپ چاپ میرے سوالوں کے جواب دیتے رہیں ! جناب اگر مجھ سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اجازت طلب کریں، میری مرضی میں اجازت دوں یا نہیں
ائندہ سوال کرنے سے سے پرہیز کریں-
حیرت ہے کہ آپ میرے جملوں کا حوالہ دینے اور اسے پڑھنے کے باوجود اتنی آسان سی بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میں نے آپ کو کوئی بھی سوال پوچھنے کی اجازت دی تھی جو آپ نے پوچھ لیا اور میں نے جواب بھی دے دیا۔ میں نے یہ کب کہا تھا کہ آپ کو سوالات پوچھنے کی اجازت ہے؟ امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔

کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہم عرصہ دراز سے مقلدوں کے سوالوں کے جوابات دیتے چلے آرہے ہیں لیکن یہ سوالات پوچھنے سے تھکتے ہی نہیں ہیں اور اگر ان سے پلٹ کر کوئی سوال پوچھ لیا جائے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہمارے علماء نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ مقلدوں کی سوال پر سوال پوچھنے کی بری عادت کا علاج یہ ہے کہ اگر وہ آپ سے ایک سوال کریں تو آپ بھی ان سے ایک سوال ضرور کرو تاکہ انہیں پتا لگے کہ آجکل آٹا دال کس بھاؤ بکتا ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ یہ لڑی کسی اور جگہ سے منتقل کی گئی ہے ۔ غلطی سے اس میں دو بھائیوں کے دو مراسلے رہ گئے ہیں ، جس کے لیے اس سے بہتر کوئی حل نظر نہیں آیا کہ ان کو یہاں مراسلہ میں تدوین کرکے کاپی کردیا جائے ۔ غلطی کے لیے معذرت خواہ ہوں ( خضر حیات ) اور مراسلے حاضر خدمت ہیں :
مراسلہ از تلمیذ :
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
یہاں آپ نے صبح و شام کے اوقات میں ذکر خفی کی دلیل دی ہے تو جو نماز دوپہر ، سہ پہر یا رات کو ادا کی جاتی ہے وہاں تکبیر تحریمہ آہستہ ادا کی جائے گی اس کیا دلیل ہے ۔
قراں میں ہے
( ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا ) [ الإسراء : 110 ]
اور نہ اپنی نماز بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
یہاں تو نماز معتدل (میڈیم ) آواز میں پڑھنے کا حکم ہے اور تکبیر تحریمہ آپ حضرات پست آواز سے پڑھتے ہیں تو یقینا اس معتدل اواز سے نہ پڑھنے کے استثناء کی کوئي دلیل آپ کے پاس ہوگی؟؟ وہی دلیل جاننا مطلوب ہے
جہاں تک آپ کا یہ اعتراض کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ ہم بھی بطور مقتدی یا تنہا نماز ادا کرتے ہوئے آہستہ تکبیر تحریمہ کہتے ہیں تو بھائی آپ کا یہ اعتراض باطل ہے کیوں کہ میں ایک عامی حنفی ہوں اور جہاں قراں و حدیث سے واضح نص نہ موجود ہو تو میں حنفی فقہاء کی تقلید کرتا ہوں۔ تقلید تو آپ کے ہاں ایک گالی ہے تو ذرا اس گالی سے بچتے ہوئے اپنی دلیل بیان فرمادیں
جزاک اللہ خیرا
اللہ تبارک و تعالی سے ہی ہدایت کا سوال ہے
مراسلہ از شاہد نذیر :

یہاں آپ نے صبح و شام کے اوقات میں ذکر خفی کی دلیل دی ہے تو جو نماز دوپہر ، سہ پہر یا رات کو ادا کی جاتی ہے وہاں تکبیر تحریمہ آہستہ ادا کی جائے گی اس کیا دلیل ہے ۔
بعض اوقات تو آپ ایسی بات کرتے ہو کہ آپ کی علمیت بری طرح مشکوک ہو جاتی ہے۔ شاید یہ دفاع مذہب کے مرض کا نتیجہ ہے۔ اس آیت قرآنی میں مطلقاٌ ذکر کا بیان ہے جس میں ہر طرح کا ذکر الٰہی شامل ہے یعنی وہ ذکر جو انسان اٹھتے بیٹھتے کرتا ہے یا تلاوت قرآن کی صورت میں یا دوران نماز یا فرض نمازوں کے بعد کئے جانے والے اذکار وغیرہ اس لئے اس آیت کو صرف دو وقت یعنی صرف صبح اور شام کی نماز میں کئے جانے والے ذکر کے ساتھ خاص کرنا تو درست نہیں اور دوسرا اس آیت میں صبح و شام سے مراد سارا دن یا سارا دن اور ساری رات ہے ناکہ صبح اور شام کا کوئی مخصوص وقت یا نماز۔ جیسا کہ ہم اکثر اپنے محاورے میں بھی کہتے ہیں کہ تمہیں یہ کام صبح و شام کرنا پڑے گا تو اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارا دن یا جیسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپکو یہ دوائی صبح و شام کھانی پڑے گی جبکہ سب جانتے ہیں کہ عموماٌ مریض سارا دن میں تین خوراک دوائی لیتا ہے یا بعض اوقات چار مرتبہ۔ تو اس صبح و شام سے مراد صبح سے رات تک کا وقت ہوتا ہے۔
اس قرآنی آیت میں صبح شام یعنی سارا دن یا سارا دن اور ساری رات میںکسی بھی ذکر کے لئے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ذکر پست آواز میں کرو مطلب یہ کہ آواز اونچی نہ ہو۔ یعنی اتنی آواز جسے آپ سن سکیں اور جو دوسروں کو پریشان نہ کرے۔ اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ذکر ہلکی آواز میں کرے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر۔ اس کے علاوہ جس ذکر کے بارے میں خصوصی طور پر جہراٌ پڑھنے کا حکم ہے اس ذکر کو جہراٌ پڑھے۔ اس قرآنی اصول سے مقتدی اور امام کے ذکر کے فرق کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ میرے خیال سے آپکو بہت مناسب جواب دیا گیا ہے ایک عام شخص جو متعصب اور جھگڑالو نہ ہو وہ اس جواب پر مطمئن ہوجانا چاہیے۔
( ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا ) [ الإسراء : 110 ]اور نہ اپنی نماز بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
یہاں تو نماز معتدل (میڈیم ) آواز میں پڑھنے کا حکم ہے اور تکبیر تحریمہ آپ حضرات پست آواز سے پڑھتے ہیں تو یقینا اس معتدل اواز سے نہ پڑھنے کے استثناء کی کوئي دلیل آپ کے پاس ہوگی؟؟ وہی دلیل جاننا مطلوب ہے
آپکی یہ بات تحقیق کی متقاضی ہے اس کا جواب میں بعد میں دوں گا۔ ان شاء اللہ
ویسے میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ نے کیا فقہ حنفی کو ثابت کرنے کا ہی ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے آپ بھی تو قرآن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات پر بھی کہ قرآن میں تضاد نہیں تو اس بظاہر نظر آنے والے تضاد کو خود آپ ہی دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یا پھر اہل حدیث کی مخالفت اور دشمنی میں آپ بھی کفار کی طرح قرآن وحدیث میں شکوک شبہات پیدا کرنے اور پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہو؟
جہاں تک آپ کا یہ اعتراض کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ ہم بھی بطور مقتدی یا تنہا نماز ادا کرتے ہوئے آہستہ تکبیر تحریمہ کہتے ہیں تو بھائی آپ کا یہ اعتراض باطل ہے کیوں کہ میں ایک عامی حنفی ہوں اور جہاں قراں و حدیث سے واضح نص نہ موجود ہو تو میں حنفی فقہاء کی تقلید کرتا ہوں۔ تقلید تو آپ کے ہاں ایک گالی ہے تو ذرا اس گالی سے بچتے ہوئے اپنی دلیل بیان فرمادیں
جزاک اللہ خیرا
اللہ تبارک و تعالی سے ہی ہدایت کا سوال ہے
تقلید کو تو خود آپ بھی گالی سمجھتے ہیں جبھی تو وہ کام کرتے ہیں جس کو آپ کے مستند علماء بھی غیرمقلدیت کا نام دیتے ہیں یعنی ہر مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نصوص ڈھونڈنا اور ان پر عمل کرنا اور جہاں آپ تحقیق نہ کرسکیں صرف اس مسئلہ میں تقلید کرنا۔ یہ تقلید کہاں ہوئی یہ تو تحقیق ہوئی۔
ویسے آپ کا جو طرز عمل اور اصول ہے کہ ایک عامی حنفی ہر مسئلہ میں خود تحقیق کرے گا اور قرآن و حدیث سے نصوص تلاش کرکے ان پر عمل کرے گا۔ کیا یہ اصول آپکے مذہب میں ثابت شدہ ہے؟ یا پھر ہمیں دھوکہ دینے کے لئے آپ غلط بیانی کررہے ہیں؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب مقلد عامی خود ہی تحقیق کرے گا تو امام صاحب نے پھر کیا کیا ہے؟
ہمارے علم کے مطابق تو ایک مقلد عامی کو حنفی مذہب قرآن و حدیث کی طرف رجوع کا حکم ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ چونکہ یہ عامی ہے لہٰذا قرآن وحدیث کی نصوص اس کی سمجھ سے بالا ہیں۔ نصوص کو سمجھنا پھر انکے مطابق فیصلہ دینا مجتہد کا کام ہے۔ اس لئے حنفی مذہب میں عامی کا فریضہ یہ ہے کہ وہ صرف قول امام پر عمل کرے گا اور اگر اتفاقاٌ بھی کوئی حدیث اس کے سامنے آجائے جو اسکے امام کے قول کے خلاف ہو تو وہ حدیث چھوڑ دے گا اور امام کے قول کو لے لے گا کیونکہ وہ عامی ہے۔
( یہاں تک دونوں مراسلہ مکمل ہو گئے اس سے آگے تلمیذ صاحب کا حالیہ مراسلہ ہے ۔ خضرحیات)
السلام علیکم
بعض اوقات تو آپ ایسی بات کرتے ہو کہ آپ کی علمیت بری طرح مشکوک ہو جاتی ہے۔ شاید یہ دفاع مذہب کے مرض کا نتیجہ ہے۔
علمی قابلیت کا کبھی میں نے دعوی نہیں کیا اور جہاں تک دفاع مذھب کا الزام ہے تو میں صر ف دعا کر سکتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو آپس میں بدگمانی سے بچائے
اس آیت قرآنی میں مطلقاٌ ذکر کا بیان ہے جس میں ہر طرح کا ذکر الٰہی شامل ہے یعنی وہ ذکر جو انسان اٹھتے بیٹھتے کرتا ہے یا تلاوت قرآن کی صورت میں یا دوران نماز یا فرض نمازوں کے بعد کئے جانے والے اذکار وغیرہ اس لئے اس آیت کو صرف دو وقت یعنی صرف صبح اور شام کی نماز میں کئے جانے والے ذکر کے ساتھ خاص کرنا تو درست نہیں اور دوسرا اس آیت میں صبح و شام سے مراد سارا دن یا سارا دن اور ساری رات ہے ناکہ صبح اور شام کا کوئی مخصوص وقت یا نماز۔ جیسا کہ ہم اکثر اپنے محاورے میں بھی کہتے ہیں کہ تمہیں یہ کام صبح و شام کرنا پڑے گا تو اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارا دن یا جیسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپکو یہ دوائی صبح و شام کھانی پڑے گی جبکہ سب جانتے ہیں کہ عموماٌ مریض سارا دن میں تین خوراک دوائی لیتا ہے یا بعض اوقات چار مرتبہ۔ تو اس صبح و شام سے مراد صبح سے رات تک کا وقت ہوتا ہے۔
یہاں آپ نے دو نکات بیان کیے ہیں
1- یہاں ذکر کا بیان مطلقا ہوا ہے اور جب ذکر مطلقا ہوا تو عمومی ذکر بھی مراد ہے اور نماز کا ذکر بھی
میں اس نکتہ سے متفق ہوں لیکن اگر ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سے دیکھا جائے تو نماز کا استثناء ظاہر ہوتا ہے
2- صبح و شام سے مراد 24 گھنٹے ہیں
غیر متفق۔ آپ نے 24 گھنٹے مراد اپنے قیاس آرائی سے لی ہے جو غلط ہے
بالغدو و الآصال سے کیا مراد لی گئی ہے ملاحظہ فرمائيں
حدثنا بشر قال : حدثنا يزيد قال : حدثنا سعيد ، عن قتادة ، قوله : ( واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ) ، إلى قوله : ( بالغدو والآصال ) ، أمر الله بذكره ، ونهى عن الغفلة . أما " بالغدو " : فصلاة الصبح " والآصال " : بالعشي . تفسير الطبري
بالغدو سے مراد صبح کی نماز اور الآصال سے مراد عشي ہے
وأخرج ابن جرير ، وأبو الشيخ ، عن مجاهد بالغدو قال : آخر الفجر صلاة الصبح ، والآصال آخر العشي صلاة العصر
فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية
محمد بن علي بن محمد الشوكاني

بالغدو سے مراد فجر کی نماز اور عصر کی نماز ہے
آپ اس مراد 24 گھنٹے لے رہے ہیں کیا اس کی دلیل بتائيں گے سلف الصالحین کی فہم سے۔

اس قرآنی آیت میں صبح شام یعنی سارا دن یا سارا دن اور ساری رات میںکسی بھی ذکر کے لئے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ذکر پست آواز میں کرو مطلب یہ کہ آواز اونچی نہ ہو۔ یعنی اتنی آواز جسے آپ سن سکیں اور جو دوسروں کو پریشان نہ کرے۔ اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ذکر ہلکی آواز میں کرے چاہے وہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر۔ اس کے علاوہ جس ذکر کے بارے میں خصوصی طور پر جہراٌ پڑھنے کا حکم ہے اس ذکر کو جہراٌ پڑھے۔ اس قرآنی اصول سے مقتدی اور امام کے ذکر کے فرق کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ میرے خیال سے آپکو بہت مناسب جواب دیا گیا ہے ایک عام شخص جو متعصب اور جھگڑالو نہ ہو وہ اس جواب پر مطمئن ہوجانا چاہیے۔
متفق لیکن ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سے استثناء نظر آرہا ہے ، اس استثناء پر آپ کیا کہیں گے
آپکی یہ بات تحقیق کی متقاضی ہے اس کا جواب میں بعد میں دوں گا۔ ان شاء اللہ
کوئی جلدی نہیں ۔ تحقیق کے بعد جواب دے دیجئیے گا
ویسے میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ نے کیا فقہ حنفی کو ثابت کرنے کا ہی ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے آپ بھی تو قرآن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات پر بھی کہ قرآن میں تضاد نہیں تو اس بظاہر نظر آنے والے تضاد کو خود آپ ہی دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یا پھر اہل حدیث کی مخالفت اور دشمنی میں آپ بھی کفار کی طرح قرآن وحدیث میں شکوک شبہات پیدا کرنے اور پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہو؟
فقہ حنفی کو ثابت کرنے کا کوئي ٹھیکہ مجھے نہیں ملا ۔ میں تو فقہ حنفی سے آپ حضرات کی غلط فہمیاں دور کرنا چاھتا ہوں ۔ آپ رفع الیدین پر عامل رہیں ، امام کے پیچھے سورہ الفاتحہ پڑھیں مجھے کوئی انقباض نہیں ہوگا لیکن اگر رفع الیدین نہ کرنے والوں کو اسلام کا دشمن بتایا جائے گآ تو میری کوشش ہوگی کہ حنفی مسلک کے جو دلائل مجھے معلوم ہیں وہ بیان کروں تاکہ مسلمانوں کے دو گروہ میں محبت و اتفاق پیدا ہو۔
دوسری بات ، قرآن میں کوئي تعارض نہیں ۔ اور میں حنفی فقہاء کی تقلید کرتے ہوئے اس ظاھری تعارض کو ختم کر سکتا ہوں لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا ا س سلسلے میں کیا موقف ہے کیوں کہ تقلید کے آپ حضرات قائل نہیں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
یہاں آپ نے دو نکات بیان کیے ہیں
1- یہاں ذکر کا بیان مطلقا ہوا ہے اور جب ذکر مطلقا ہوا تو عمومی ذکر بھی مراد ہے اور نماز کا ذکر بھی
میں اس نکتہ سے متفق ہوں لیکن اگر ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سے دیکھا جائے تو نماز کا استثناء ظاہر ہوتا ہے
۔۔۔۔


متفق لیکن ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سے استثناء نظر آرہا ہے ، اس استثناء پر آپ کیا کہیں گے
نماز کا استثناء ثابت نہیں۔ دلیل کے لئے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے:

صحیح بخاری حدیث نمبر 7490:
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ عن هشيم،‏‏‏‏ عن أبي بشر،‏‏‏‏ عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ قال أنزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة،‏‏‏‏ فكان إذا رفع صوته سمع المشركون فسبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به‏.‏ وقال الله تعالى ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ لا تجهر بصلاتك حتى يسمع المشركون،‏‏‏‏ ولا تخافت بها عن أصحابك فلا تسمعهم ‏ {‏ وابتغ بين ذلك سبيلا‏}‏ أسمعهم ولا تجهر حتى يأخذوا عنك القرآن‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ' ان سے ہشیم بن بشیر نے ' ان سے ابی بشر نے 'ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ولاتجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کے بارے میں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ نمازمیں آوازبلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے اللہ کو اور اس کے لانے والے جبرائیل علیہ السلام کو گالی دیتے (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اپنی نمازمیں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کر کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کر کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کر۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی آواز سے پڑھ کہ تیرے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں ' اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھ۔

گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!

اور دوسرا جواب یہ کہ یہاں صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ دلیل ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث:

حدیث نمبر 7526:
حدثنا عبيد بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن هشام،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت نزلت هذه الآية ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ في الدعاء‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ' کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ' ان سے ہشام نے ' ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا دعا کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی دعا نہ بہت چلا کر مانگ نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔

اتنی سی بات کے لئے فقہائے احناف کی تقلید کی کیا حاجت؟؟

اب آپ فقہائے احناف سے اس تعارض کو رفع کر کے بھی دکھا دیجئے، فقط ہماری معلومات کی خاطر۔
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
حیرت ہے کہ آپ میرے جملوں کا حوالہ دینے اور اسے پڑھنے کے باوجود اتنی آسان سی بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میں نے آپ کو کوئی بھی سوال پوچھنے کی اجازت دی تھی جو آپ نے پوچھ لیا اور میں نے جواب بھی دے دیا۔ میں نے یہ کب کہا تھا کہ آپ کو سوالات پوچھنے کی اجازت ہے؟ امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔

کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہم عرصہ دراز سے مقلدوں کے سوالوں کے جوابات دیتے چلے آرہے ہیں لیکن یہ سوالات پوچھنے سے تھکتے ہی نہیں ہیں اور اگر ان سے پلٹ کر کوئی سوال پوچھ لیا جائے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہمارے علماء نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ مقلدوں کی سوال پر سوال پوچھنے کی بری عادت کا علاج یہ ہے کہ اگر وہ آپ سے ایک سوال کریں تو آپ بھی ان سے ایک سوال ضرور کرو تاکہ انہیں پتا لگے کہ آجکل آٹا دال کس بھاؤ بکتا ہے۔
میرے بھائی : جھوٹ بول کر اب فرار کی کوشش نہ کریں!
میں نے جناب کو لکھا تھا "بندے کو بڑے بڑے دعوے نہیں کرنے چاہئیں ،اگر اس پوسٹ میں کوئی اور بھائی دخل نہ دے تو میں چند سوال جناب سے پوچھنا چاہتا ہوں ،جس کا جواب جناب صرف اپنے اس ایک اصول کی روشنی میں دینے کے پابند ہوں گے۔ اگر بھائی اجازت دے گا تو سوال پوچھوں گا
اسکے جواب میں میرے پیارے سے بھائی نے " تعلّی " سے کام لیتے ہوئے لکھا تھا
یہ بڑا دعویٰ نہیں ہے بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ آپ ہمیں حنفی نہ سمجھیں جن کا کام ہی جھوٹے دعویٰ کرنا ہے اور ثابت کرنے کا وقت آنے پر فرار ہوجانا ہے۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھیں آپ کو اجازت ہے۔
اب جناب نے صریح طور پر جھوٹ لکھا ہے "کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی" بھائی جان "کوئی بھی ایک سوال" اور کوئی بھی سوال"
کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں؟؟؟
پہلے جناب نے لکھا "کوئی بھی سوال پوچھیں" اب آپ کہتے ہیں کہ "کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی" کیا جھوٹ کے کوئی سینگ ہوتے ہیں؟؟؟
اب جناب نے جہالت پر مبنی بات لکھی ہے
"حیرت ہے کہ آپ میرے جملوں کا حوالہ دینے اور اسے پڑھنے کے باوجود اتنی آسان سی بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میں نے آپ کو کوئی بھی سوال پوچھنے کی اجازت دی تھی جو آپ نے پوچھ لیا اور میں نے جواب بھی دے دیا۔ میں نے یہ کب کہا تھا کہ آپ کو سوالات پوچھنے کی اجازت ہے؟ امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔"
جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ " کوئی بھی سوال پوچھنے سے "مراد" ایک سوال پوچھنا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ "کوئی بھی" ایک مراد ہوتا ہے یا ایک سے زیادہ
عموما" علمائے کرام جب کسی مشہور حدیث کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "کوئی بھی حدیث کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لو یہ حدیث مل جائے گی؟
یہاں "کوئی بھی" سے مراد ایک حڈیث کی کتاب کا ہونا ہے یا زیادہ کا؟
چند محاورے لکھتا ہوں کیا ان میں "کوئی بھی" سے مراد ایک ہونا ہے یا ایک سے زیادہ (1) کوئی بھی تحریر دیکھ لیں، (2)کوئی بھی ناجائز بات نہ کریں، (3)کوئی بھی انٹرویو دیکھ لیں،(4) کوئی بھی ملکی ادارہ، (5) کوئی بھی کرنسی دیکھ لیں۔
امید ہے سمجھ آگئی ہو گی
بندہ جناب کے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں جب تک کہ میں اجازت نہ دوں ،اور جناب "تعلّی " کرتے ہوئے مجھے اجازت دے چکے ہیں اس لئے میرے سوالوں کا جواب دینے کےپابند ہیں ، فرار نہیں ہونے دونگا کوشش بھی نہ کریں
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
جناب شاہد نزیر صاحب: بندہ نے سوال پوچھا تھا کہ
"نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
جناب نے اس کے جواب میں لکھا
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر بھی اللہ کا ذکر ہی ہے ۔ اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ یہ بھی دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کہی جائے , ہاں مکبر اور امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔ خوب سمجھ لیں ۔
محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جناب نے جو دلیل پیش کی ہے کیا اس میں امام مقتدی کا ذکر ہے؟یقینا" نہیں! تو ثابت ہوا کہ جناب کی یہ دلیل اس مسئلہ کو ثابت کرنے پر "صریح "نہیں۔
ہمت کریں ایسی کوئی صریح دلیل پیش کریں جس میں امام کو بلند آواز سے تکبیر کہنے کا حکم ہو اور مقتدی کو آئستہ کہنے کا؟
دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ دلیل اپنے ایک اُصول (اطیعو اللہ و اطیع الرسول) سے لکھیں،
جناب نے قرآن مجید کی آیت پیش کر کے اپنے قیاس سے مسئلہ ثابت کرنے کی جو ناکام کوشش کی یہ جناب کے اپنے اس ایک اُصول کے خلاف ہے ، قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے پیش کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہو کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ امام بلند آواز سے تکبیر کہے اور مقتدی آئستہ،
جناب اپنا قیاس یا کسی عالم کا قیاس یا تشریح پیش کر کے اپنے اس ایک اُصول کی خلاف ورضی نہ کریں بلکہ اس پر قائم رہتے ہوئے میرے سوال کا صریح جواب اپنے اس ایک اُصول کے مطابق لکھیں
میرا پہلا سوال ابھی تک جناب کے سر پر تلوار بن کر لٹکا ہوا ہے ،اس قرض کو جلدی اُتارنے کی کوشش کریں ،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جناب شاہد نزیر صاحب: بندہ نے سوال پوچھا تھا کہ
"نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
جناب نے اس کے جواب میں لکھا
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر بھی اللہ کا ذکر ہی ہے ۔ اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ یہ بھی دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کہی جائے , ہاں مکبر اور امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔ خوب سمجھ لیں ۔
محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جناب نے جو دلیل پیش کی ہے کیا اس میں امام مقتدی کا ذکر ہے؟یقینا" نہیں! تو ثابت ہوا کہ جناب کی یہ دلیل اس مسئلہ کو ثابت کرنے پر "صریح "نہیں۔
ہمت کریں ایسی کوئی صریح دلیل پیش کریں جس میں امام کو بلند آواز سے تکبیر کہنے کا حکم ہو اور مقتدی کو آئستہ کہنے کا؟
دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ دلیل اپنے ایک اُصول (اطیعو اللہ و اطیع الرسول) سے لکھیں،
جناب نے قرآن مجید کی آیت پیش کر کے اپنے قیاس سے مسئلہ ثابت کرنے کی جو ناکام کوشش کی یہ جناب کے اپنے اس ایک اُصول کے خلاف ہے ، قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے پیش کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہو کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ امام بلند آواز سے تکبیر کہے اور مقتدی آئستہ،
جناب اپنا قیاس یا کسی عالم کا قیاس یا تشریح پیش کر کے اپنے اس ایک اُصول کی خلاف ورضی نہ کریں بلکہ اس پر قائم رہتے ہوئے میرے سوال کا صریح جواب اپنے اس ایک اُصول کے مطابق لکھیں
میرا پہلا سوال ابھی تک جناب کے سر پر تلوار بن کر لٹکا ہوا ہے ،اس قرض کو جلدی اُتارنے کی کوشش کریں ،
میرے بھائی گھما پھرا کے سوال کرنا کیا اچھی بات ہیں کیا اس طرح کا سوال صحابہ کیا کرتے تھے کیا آپ کو اللہ کا خوف نہیں - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی فرمان سامنے آ جائے جو صحیح ہو اس پر عمل کریں کل قیامت والے دن آپ سے ابو حنیفہ رحمہ کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔ کہ آپ نے انو حنیفہ رحمہ کی بات کیوں نہیں مانی -

آپ پہلے میری رفع الدین والی پوسٹ کا جواب دیں -

اور آخر میں !

امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے ۔جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے ۔


امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:



إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے تا کہ تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔ البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔
 
Top