• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکبیر تحریمہ ، اونچی یا آہستہ آواز میں اور دلیل ؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نوٹ : بدقسمتی سے یہاں کچھ موضوع مکس ہوگئے ہیں ، اگر کوئی بھائی تکبیر تحریمہ سے متعلق پوسٹس کو الگ کرکے ایک مستقل تھریڈ بنا دے تو میرے خیال میں بہتر ہوگا
تکبیر تحریمہ امام ، مقتدی اور منفرد کو کس اواز میں کہنی چاہئيے اس بارے میں مسلک اہل حدیث کے افراد کیا کہتے ہیں میں فی الحال اس پر ہی گفتگو کرنا چاہتا ہوں
نماز کا استثناء ثابت نہیں۔ دلیل کے لئے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے:

صحیح بخاری حدیث نمبر 7490:
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ عن هشيم،‏‏‏‏ عن أبي بشر،‏‏‏‏ عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ قال أنزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة،‏‏‏‏ فكان إذا رفع صوته سمع المشركون فسبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به‏.‏ وقال الله تعالى ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ لا تجهر بصلاتك حتى يسمع المشركون،‏‏‏‏ ولا تخافت بها عن أصحابك فلا تسمعهم ‏ {‏ وابتغ بين ذلك سبيلا‏}‏ أسمعهم ولا تجهر حتى يأخذوا عنك القرآن‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ' ان سے ہشیم بن بشیر نے ' ان سے ابی بشر نے 'ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ولاتجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کے بارے میں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ نمازمیں آوازبلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے اللہ کو اور اس کے لانے والے جبرائیل علیہ السلام کو گالی دیتے (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اپنی نمازمیں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کر کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کر کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کر۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی آواز سے پڑھ کہ تیرے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں ' اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھ۔

گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!

اور دوسرا جواب یہ کہ یہاں صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ دلیل ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث:

حدیث نمبر 7526:
حدثنا عبيد بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن هشام،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت نزلت هذه الآية ‏ {‏ ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏}‏ في الدعاء‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ' کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ' ان سے ہشام نے ' ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا دعا کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی دعا نہ بہت چلا کر مانگ نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔
۔
یہاں آپ نے تعارض رفع کرنے کے بجائے ایک اور ظاھری تعارض قائم کردیا ۔ آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا دعا کے متعلق نازل ہوئی یا نماز کے متعلق ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ دعا کے متعلق نازل ہوئی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کے متعلق ۔
اس ظاہری تعارض کو رفع کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے ہم اس آیت کو دونوں کے لئیے مان لیں
اس صورت میں یہ آیت نماز کے متعلق بھی ہے اور دعا کے متعلق بھی
اب آتے ہیں نماز کے متعلق
آپ نے ایک تو کہا کہ معتدل آواز سے نماز کا حکم مکہ میں نازل ہوا یہ تو ابتدائی حکم تھا ۔ بعد میں اس پر عمل نہ ہوا
آپ کے الفاظ
گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!
تو اس حکم کی جگہ دوسرے حکم نے کب لی ۔ تکبیر تحریمہ کو کب سے پست آواز میں کہنا شروع کیا گيا ۔ یہ ابتدائي حکم تھا تو اسلام کے آخری دور میں کیا حکم تھا اور اس کی کیا دلیل ہے

اس معتدل آواز کو آپ نے ابتدائی حکم پر کیسے محمول کیا صرف اس لئیے کہ یہ حکم مکہ میں نازل ہوا ۔
کئی احکام مکہ میں نازل ہوئے تو کیا سب ابتدائی حکم کے درجہ میں آکر ہمارے لئیے ناقابل عمل قرار پائيں گے

سوال اب بھی اپنی جگہ امام مقتدی اور منفرد کو تکبیر تحریمہ کو کس آواز میں کہنا چاہئیے ؟
اتنی سی بات کے لئے فقہائے احناف کی تقلید کی کیا حاجت؟؟
اب آپ فقہائے احناف سے اس تعارض کو رفع کر کے بھی دکھا دیجئے، فقط ہماری معلومات کی خاطر
قدوری فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب ہے ۔ حالیہ دور میں محترم و مکرم محمد حنیف صاحب نے اس کی ایک بہتریں اردو میں شرح لکھی ہے اور انہوں نے اسی آیت کے متعلق فقہ حنفی کتب طحاوی ، درمختار و فتح المبین کے حوالہ سے لکھا ہے
ابتداء میں سب نمازوں میں قرات جھرا کی جاتی تھی ۔ مشرکیں مکہ جب قرات سنتے تو قرآن و جبرائیل وغیرہ کو برا بھلا کہتے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آیت کے ذریعے حکم دیا گيا کہ نہ سب نمازوں میں قرات جھرا پڑھیں نہ آہستہ
ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا
فجر اور عشاء میں کفار مکہ سو رہے ہوتے تھے تو قرآت جھرا پڑھیں ، مغرب کے وقت کفار مکہ کھانے میں مشغول ہوتے تو قرات جھرا کی جاسکتی ہے لیکن ظھر و عصر کی نماز میں قرات سرا کی جائے کیوں کہ مشرکین مکہ کے طرف سے ايذا کا خطرہ تھا
وابتغ بين ذلك سبيلا
یعنی درمیانی رستہ اختیار کریں ۔ نہ سب نمازوں میں جھرا قرات نہ سب نمازوں میں سرا قرآت ۔ درمیانی رستہ کچھ نمازوں میں سرا اور کچھ میں جھرا قرات
اب اس آیت اور وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ}‏‏ ‏[‏الأعراف‏:‏205‏]‏، میں ظاھری تعارض بھی ختم ہوگيا
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
فورم پر موجود اہل حدیث بھائی عموما" بڑے دھڑلے سے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ " اہل حدیث کے دو اُصول اطیعو اللہ و اطیعو الرسول " لیکن جب کس کے سوال کا جواب دینا ہو تو اس اُصول سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں او ر اپنے اس اُصول پر قائم نہیں رہتے ، جیسا کہ بھائی شاہد نزیر صاحب نے زین العابدین بھائی کے سوال کا جواب قیاس سے دیتے ہوئے اپنے اس اُصول کی دھجیاں اڑائی ہیں ،
شاہد نزیر بھائی نے امام کے تکبیر بلند کہنے اور مقتدی کے تکبیر ائستہ کہنے پر سورہ اعرف کی یہ آیت پیش کی ہے
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
میں نہیں جانتا کہ شاہد نزیر بھائی عالم ہیں یا غیر عالم ؟جو بھی ہوں!لیکن شاہد صاحب اپنے علماء کی کتابوں اور ان کی تحقیقات سے نابلد ہیں ،یا جانتے بوجھتے ہوئے اپنے بڑوں کی تحقیقات کو غلط ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، آئیے اس ایک مثال دیتا ہوں
اسی فورم کے ایک شعبہ "محدث لائبریری" میں ایک کتاب بڑی تعریفوں کے پُل باندھ کر اپلوڈ کی گئی ہے "توضیح الاکلام" مصنف شیخ ارشاد الحق اثری، اس کتاب کے صفہ
121 پر سورہ اعرف کی آیت 205 کو مقتدی پر فاتحہ پڑھنے کی چوتھی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور صفہ 122 پر لکھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے سری نمازوں اور جہری میں جب امام کی قرات نہ سن رہا ہو (مقتدی) کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے ۔
اب اس فورم کے اہل حدیث بھائی فیصلہ کریں کہ اس موجودہ مھقق شاہد نزیر کے قیاس کو مان کر اس آیت کو امام کے تکبیر بلند کہنے اور مقتدی کے آئستہ کہنے کی تحقیق کو ماننا ہے یا شیخ ارشاد الحق اثری صاحب کے استدلال مقتدی پر فاتحہ پڑھنے کو ماننا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ ان دونوں محققین میں سے کس کی تحقیق قرآن و سنت کے مطابق ہے
میرے خیال میں تو ان دونوں حضرات نے اپنےان دو اُصول "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول "کے مطابق یہ دونوں استدلال غلط کئے ہیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اب آتے ہیں نماز کے متعلق
آپ نے ایک تو کہا کہ معتدل آواز سے نماز کا حکم مکہ میں نازل ہوا یہ تو ابتدائی حکم تھا ۔ بعد میں اس پر عمل نہ ہوا
آپ کے الفاظ
گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!
تو اس حکم کی جگہ دوسرے حکم نے کب لی ۔ تکبیر تحریمہ کو کب سے پست آواز میں کہنا شروع کیا گيا ۔ یہ ابتدائي حکم تھا تو اسلام کے آخری دور میں کیا حکم تھا اور اس کی کیا دلیل ہے
اس معتدل آواز کو آپ نے ابتدائی حکم پر کیسے محمول کیا صرف اس لئیے کہ یہ حکم مکہ میں نازل ہوا ۔
کئی احکام مکہ میں نازل ہوئے تو کیا سب ابتدائی حکم کے درجہ میں آکر ہمارے لئیے ناقابل عمل قرار پائيں گے
سوال اب بھی اپنی جگہ امام مقتدی اور منفرد کو تکبیر تحریمہ کو کس آواز میں کہنا چاہئیے ؟
آپ نے شاکر بھائی کی جس بات کو اعتراضات کی بنیاد بنایا ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں۔
میرا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ سورہ الاسراء کی آیت نمبر110 میں بیان کردہ حکم یا اصول عمومی نہیں بلکہ ایک وقتی اور مخصوص حکم ہے۔ جو خاص حالات میں مسلمانوں کو دیا گیا تھا لیکن جب وہ خاص حالات تبدیل ہوئے تو حکم بھی تبدیل ہوگیا۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قراءت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو اللہ تعالیٰ کے رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں۔ ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانہ آواز سے قراءت کیا کرو، پھر جب آپ ہجرت کرکے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔(تفسیرابن کثیر،جلد سوم، صفحہ 231)

اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف فجر، مغرب اور عشاء کی نماز سے متعلق تھا کیونکہ انہی نمازوں میں امام جہری قراءت کرتا ہے۔ اگر آج بھی کسی علاقے کے مسلمان ان خاص حالات سے دوچار ہوجائیں جن حالات میں جہری نمازوں کے لئے یہ مخصوص حکم نازل ہوا تھا تو وہ عمومی عمل اور حکم کو چھوڑ کر اس خاص حکم پر عمل کریں گے۔

قدوری فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب ہے ۔ حالیہ دور میں محترم و مکرم محمد حنیف صاحب نے اس کی ایک بہتریں اردو میں شرح لکھی ہے اور انہوں نے اسی آیت کے متعلق فقہ حنفی کتب طحاوی ، درمختار و فتح المبین کے حوالہ سے لکھا ہے
ابتداء میں سب نمازوں میں قرات جھرا کی جاتی تھی ۔ مشرکیں مکہ جب قرات سنتے تو قرآن و جبرائیل وغیرہ کو برا بھلا کہتے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آیت کے ذریعے حکم دیا گيا کہ نہ سب نمازوں میں قرات جھرا پڑھیں نہ آہستہ
ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا
فجر اور عشاء میں کفار مکہ سو رہے ہوتے تھے تو قرآت جھرا پڑھیں ، مغرب کے وقت کفار مکہ کھانے میں مشغول ہوتے تو قرات جھرا کی جاسکتی ہے لیکن ظھر و عصر کی نماز میں قرات سرا کی جائے کیوں کہ مشرکین مکہ کے طرف سے ايذا کا خطرہ تھا
وابتغ بين ذلك سبيلا
یعنی درمیانی رستہ اختیار کریں ۔ نہ سب نمازوں میں جھرا قرات نہ سب نمازوں میں سرا قرآت ۔ درمیانی رستہ کچھ نمازوں میں سرا اور کچھ میں جھرا قرات
اب اس آیت اور وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ}‏‏ ‏[‏الأعراف‏:‏205‏]‏، میں ظاھری تعارض بھی ختم ہوگيا
دیکھیں محترم آپ لوگ ہم سے اس بات کی خواہش بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے اصولوں میں رہتے ہوئے سوالات کے جوابات دیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خود پر اپنے کسی اصول کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ میرے بھائی حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ چار میں سے صرف کسی ایک امام کی تقلید واجب ہے جبکہ حنفیوں نے خود پر صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ جب تقلید آپ ابوحنیفہ کی کرتے ہیں تو صاحب ہدایہ، امام طحاوی اور صاحب در مختار وغیرہ ھم کی رائے یا اقوال کیونکر آپ لوگوں کی دلیل بن سکتے ہیں؟ آپ صاحب ہدایہ، طحاوی یا صاحب درمختار کے مقلد تو نہیں ہیں ناں؟ برائے مہربانی آپ اپنے مستند شدہ اصولوں میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کا صرف ابوحنیفہ کے قول سے جواب دیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قدوری فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب ہے ۔ حالیہ دور میں محترم و مکرم محمد حنیف صاحب نے اس کی ایک بہتریں اردو میں شرح لکھی ہے اور انہوں نے اسی آیت کے متعلق فقہ حنفی کتب طحاوی ، درمختار و فتح المبین کے حوالہ سے لکھا ہے
ابتداء میں سب نمازوں میں قرات جھرا کی جاتی تھی ۔ مشرکیں مکہ جب قرات سنتے تو قرآن و جبرائیل وغیرہ کو برا بھلا کہتے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آیت کے ذریعے حکم دیا گيا کہ نہ سب نمازوں میں قرات جھرا پڑھیں نہ آہستہ
ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا
فجر اور عشاء میں کفار مکہ سو رہے ہوتے تھے تو قرآت جھرا پڑھیں ، مغرب کے وقت کفار مکہ کھانے میں مشغول ہوتے تو قرات جھرا کی جاسکتی ہے لیکن ظھر و عصر کی نماز میں قرات سرا کی جائے کیوں کہ مشرکین مکہ کے طرف سے ايذا کا خطرہ تھا
وابتغ بين ذلك سبيلا
یعنی درمیانی رستہ اختیار کریں ۔ نہ سب نمازوں میں جھرا قرات نہ سب نمازوں میں سرا قرآت ۔ درمیانی رستہ کچھ نمازوں میں سرا اور کچھ میں جھرا قرات
اب اس آیت اور وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ}‏‏ ‏[‏الأعراف‏:‏205‏]‏، میں ظاھری تعارض بھی ختم ہوگيا
یہ فقاہت ہے حنفی فقہاء کی؟!!!
اس فقاہت کا پوسٹ مارٹم پیش خدمت ہے۔

حنفی فقہاء کے مطابق پہلے مسلمان تمام نمازیں جہراٌ پڑھتے تھے لیکن اس پر مشرکین گالیاں دیتے تھے اس مسئلہ کے حل کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر110 کے تحت یہ حکم دیا کہ فجر اور عشاء کی نماز جہراٌ پڑھیں کیونکہ اس وقت مشرکین سو رہے ہوتے ہیں مغرب میں وہ کھانے کھاتے ہیں اسلئے ان سے کوئی خطرہ نہیں لیکن چونکہ عصر اور ظہر میں وہ فارغ ہوتے ہیں اس لئے ان کی ایذا سے بچنے کے لئے ان نمازوں میں سراٌ قراءت کریں۔

چلیں ہم نے یہ بلادلیل بات مان لی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں مشرکین موجود نہیں تھے اس لئے ان سے نہ تو کوئی خطرہ تھا اور نہ ہی انکی ایذا رسانی کا ڈر۔ تو جن خاص حالات کے تحت اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو فجر،مغرب اور عشاء میں جہراٌ اور عصر اور ظہر میں سراٌ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو جب وہ حالات ہی نہ رہے جن حالات کی وجہ سے بطور حل یہ حکم دیا گیا تھا تو حالات بدلنے پر حکم تبدیل کیوں نہ ہوا اور کیوں مسلمانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ اب مشرکین کی ایذا رسانی کا ڈر ختم ہوچکا ہے لہٰذا پہلی حالت پر لوٹ جاؤ اور دوبارہ تمام نمازیں جہراٌ پڑھو؟ اس کا معقول سبب بیان کریں۔

اسکے علاوہ ابتداء میں جب نماز فرض نہیں ہوئی تھی تو مکہ میں مسلمان صرف دو یا تین نمازیں ہی پڑھتے تھے۔ نماز پنجگانہ تو مدینہ میں جاکر شب معراج پر مقرر اور فرض ہوئی تھیں۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر110 مکہ میں نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے نازل ہوئی تھی تو ایسی صورت میں تو حنفی فقہاء کی یہ فقاہت کسی کام کی نہیں رہی۔ نماز پنجگانہ کی فرضیت کے حکم سے پہلے نازل شدہ آیت کو حنفی فقہاء نے کس دلیل کی بنیاد پر پنجگانہ نمازوں کے متعلق سمجھ لیا؟؟؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میرے بھائی : جھوٹ بول کر اب فرار کی کوشش نہ کریں!
میں نے جناب کو لکھا تھا "بندے کو بڑے بڑے دعوے نہیں کرنے چاہئیں ،اگر اس پوسٹ میں کوئی اور بھائی دخل نہ دے تو میں چند سوال جناب سے پوچھنا چاہتا ہوں ،جس کا جواب جناب صرف اپنے اس ایک اصول کی روشنی میں دینے کے پابند ہوں گے۔ اگر بھائی اجازت دے گا تو سوال پوچھوں گا
اسکے جواب میں میرے پیارے سے بھائی نے " تعلّی " سے کام لیتے ہوئے لکھا تھا
یہ بڑا دعویٰ نہیں ہے بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ آپ ہمیں حنفی نہ سمجھیں جن کا کام ہی جھوٹے دعویٰ کرنا ہے اور ثابت کرنے کا وقت آنے پر فرار ہوجانا ہے۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھیں آپ کو اجازت ہے۔
اب جناب نے صریح طور پر جھوٹ لکھا ہے "کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی" بھائی جان "کوئی بھی ایک سوال" اور کوئی بھی سوال"
کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں؟؟؟
پہلے جناب نے لکھا "کوئی بھی سوال پوچھیں" اب آپ کہتے ہیں کہ "کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی" کیا جھوٹ کے کوئی سینگ ہوتے ہیں؟؟؟
اب جناب نے جہالت پر مبنی بات لکھی ہے
"حیرت ہے کہ آپ میرے جملوں کا حوالہ دینے اور اسے پڑھنے کے باوجود اتنی آسان سی بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میں نے آپ کو کوئی بھی سوال پوچھنے کی اجازت دی تھی جو آپ نے پوچھ لیا اور میں نے جواب بھی دے دیا۔ میں نے یہ کب کہا تھا کہ آپ کو سوالات پوچھنے کی اجازت ہے؟ امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔"
جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ " کوئی بھی سوال پوچھنے سے "مراد" ایک سوال پوچھنا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ "کوئی بھی" ایک مراد ہوتا ہے یا ایک سے زیادہ
عموما" علمائے کرام جب کسی مشہور حدیث کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "کوئی بھی حدیث کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لو یہ حدیث مل جائے گی؟
یہاں "کوئی بھی" سے مراد ایک حڈیث کی کتاب کا ہونا ہے یا زیادہ کا؟
چند محاورے لکھتا ہوں کیا ان میں "کوئی بھی" سے مراد ایک ہونا ہے یا ایک سے زیادہ (1) کوئی بھی تحریر دیکھ لیں، (2)کوئی بھی ناجائز بات نہ کریں، (3)کوئی بھی انٹرویو دیکھ لیں،(4) کوئی بھی ملکی ادارہ، (5) کوئی بھی کرنسی دیکھ لیں۔
امید ہے سمجھ آگئی ہو گی
بندہ جناب کے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں جب تک کہ میں اجازت نہ دوں ،اور جناب "تعلّی " کرتے ہوئے مجھے اجازت دے چکے ہیں اس لئے میرے سوالوں کا جواب دینے کےپابند ہیں ، فرار نہیں ہونے دونگا کوشش بھی نہ کریں
میرے بھائی آپ تو سوال پوچھے جانے سے ایسے بری طرح خوفزدہ ہورہے ہیں جیسے پاگل کتے کا کاٹا ہوا شخص پانی سے خوفزدہ ہوتا ہے۔(معاف کیجئے گا موقع کی مناسبت سے یہی مثال ذہن میں آئی ہے۔)

کوئی سے مراد ایک ہوتا ہے۔ اسے انگریزی گرائمر کے اصول سے سمجھ لیں۔
An Apple
اس کا ایک ترجمہ ہے ’’ایک سیب‘‘ اور ایک ترجمہ ہے ’’کوئی سیب‘‘
A Book
اسی طرح اس جملہ کا ترجمہ ہوگا ’’ایک کتاب‘‘ یا ’’کوئی کتاب‘‘

مطلب یہ ہوا کہ کوئی اور ایک میں فرق نہیں ہے۔

اسکے علاوہ میں نے جواب دیتے ہوئے لکھا تھا ’’ کوئی سوال‘‘ تو مجھے بتا دیں کہ سوال واحد ہے یا جمع؟ سب کو معلوم ہے کہ سوال کی جمع سوالات ہوتا ہے۔ تو جب میں نے سوال لکھا ہے تو اس کے معنی ایک سوال کے علاوہ اور کیا ہوگا؟ جبکہ سوال کے لفظ کو واحد آپ بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے کہ واحد ایک ہی ہوتا ہے۔

آپ نے جتنی بھی مثالیں دی ہیں ان سب سے مراد ایک ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں اور تمام بھائیوں سے پوچھتا ہوں آپ سے بھی کہ اس کا جواب دیں۔
میرے پاس دس عدد سیب ہیں جنھیں میں اپنے مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کوئی بھی سیب اٹھا لیں اگر آپ ہی میرے مہمان ہیں تو بتائیں میری اس پیشکش پر آپ کتنے سیب اٹھاؤ گے؟؟؟
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
میرے بھائی آپ تو سوال پوچھے جانے سے ایسے بری طرح خوفزدہ ہورہے ہیں جیسے پاگل کتے کا کاٹا ہوا شخص پانی سے خوفزدہ ہوتا ہے۔(معاف کیجئے گا موقع کی مناسبت سے یہی مثال ذہن میں آئی ہے۔)

کوئی سے مراد ایک ہوتا ہے۔ اسے انگریزی گرائمر کے اصول سے سمجھ لیں۔معاف کیجئے گا اگر برا لگاہو
An Apple
اس کا ایک ترجمہ ہے ’’ایک سیب‘‘ اور ایک ترجمہ ہے ’’کوئی سیب‘‘
A Book
اسی طرح اس جملہ کا ترجمہ ہوگا ’’ایک کتاب‘‘ یا ’’کوئی کتاب‘‘

مطلب یہ ہوا کہ کوئی اور ایک میں فرق نہیں ہے۔

اسکے علاوہ میں نے جواب دیتے ہوئے لکھا تھا ’’ کوئی سوال‘‘ تو مجھے بتا دیں کہ سوال واحد ہے یا جمع؟ سب کو معلوم ہے کہ سوال کی جمع سوالات ہوتا ہے۔ تو جب میں نے سوال لکھا ہے تو اس کے معنی ایک سوال کے علاوہ اور کیا ہوگا؟ جبکہ سوال کے لفظ کو واحد آپ بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے کہ واحد ایک ہی ہوتا ہے۔

آپ نے جتنی بھی مثالیں دی ہیں ان سب سے مراد ایک ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں اور تمام بھائیوں سے پوچھتا ہوں آپ سے بھی کہ اس کا جواب دیں۔
میرے پاس دس عدد سیب ہیں جنھیں میں اپنے مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کوئی بھی سیب اٹھا لیں اگر آپ ہی میرے مہمان ہیں تو بتائیں میری اس پیشکش پر آپ کتنے سیب اٹھاؤ گے؟؟؟
شاہد نزیر صاحب:جسے پاگل کتے نے کاٹا ہو اُسے ہی ایسی مثالیں یاد آتی ہیں(معاف کیجئے گا اگر برا لگا ہو)
اُردو کی مثال لکھ کر انگریزی کی مثالوں سے اسے ثابت کرنا انگریزوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر "کوئی بھی" کا مطلب ایک ہونا ہوتا تو جناب یہ نہ لکھتے""کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی"
اب ضد ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں جناب کی مرضی
جناب نے ایک مثال ذکر کی کہ "میرے پاس دس عدد سیب ہیں جنھیں میں اپنے مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کوئی بھی سیب اٹھا لیں اگر آپ ہی میرے مہمان ہیں تو بتائیں میری اس پیشکش پر آپ کتنے سیب اٹھاؤ گے؟؟؟
میں نے اپنی زندگی میں ایسا کم ظرف میزبان نہیں دیکھا جو مہمان کو دس سیب پیش کر کے یہ سوچ رکھتا ہو کہ یہ مہمان ایک ہی سیب کھائے۔
میں بھی آخر میں ایک مثال پیش کرتا ہوں " کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس نے توحید بیان نہ کی ہو ؟
امید ہے کہ جناب اب بھی یہی کہیں گے کہ اسکا مطلب ہے کہ ایک نبی نے توحید بیان کی تھی باقی نے نہیں؟
اجازت دیکر جواب دینے سے ڈر کون رہا ہے یہ تو سب کو نظر آرہا ہے کہنے کی ضرورت نہیں ، چادر سے زیادہ پاؤں نہیں پھیلانے چاہئیں بندے کو بڑکیں لگانے سے پہلے سوچنا چاہئے ،اپ میرے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں بڑکیں نہ ہانکیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
معاف کیجئے گا کوئی معقول جواب نہ ہونے کی صورت میں آپ فضولیات ہانک کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش فرمارہے ہیں۔ مضبوط باتوں کو چھوڑ کر اور نظرانداز کرکے باتوں کے کمزور پہلو ڈھونڈ کر ناحق پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

اُردو کی مثال لکھ کر انگریزی کی مثالوں سے اسے ثابت کرنا انگریزوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک معروف طریقہ کار ہے کہ بات سمجھانے کے لئے انگریزی کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں بعض اوقات اردو کا مشکل لفظ لکھ کر بریکٹ میں انگریزی کا لفظ بھی ساتھ لکھ دیا جاتا ہے تاکہ قاری کو بات سمجھنے میں آسانی رہے۔ لیکن آپ کو یہ طریقہ پسند نہیں آیا کیونکہ اس طریقہ کار میں آپکو اپنے موقف کا غلط ہونا صاف نظر آرہا ہے۔

اگر "کوئی بھی" کا مطلب ایک ہونا ہوتا تو جناب یہ نہ لکھتے""کوئی بھی ایک سوال پوچھنے والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی تھی"
اب ضد ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں جناب کی مرضی
کوئی بھی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے جسے میں نے دلیل سے ثابت کردیا ہے۔ ’’کوئی بھی‘‘ کو میں نے ’’کوئی بھی ایک‘‘ اپنی بات کی مزید وضاحت کرنے کے لئےلکھا تھا تاکہ میں بتا سکوں کے اس ’’کوئی بھی‘‘ سے میری مراد ’’کوئی بھی ایک‘‘ سے تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں نے بات بدل دی ہے۔
میں اپنی بات کی وضاحت کررہا ہوں اپنے ہی الفاظ سے اسکی دلیل دے رہا ہوں تو اسے ہٹ دھرمی تو نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر آپ ضرور ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں کیونکہ ہٹ دھرمی نہ صرف آپ کی ضرورت ہے بالکل مجبوری بھی۔ یہی تو ایک چیز ہے جس کے ذریعہ آپ کے اکابرین بھی اہل حدیث کے سامنے کچھ دیر ٹک جاتے تھے ورنہ حنفیوں کے بے دلیل، خلاف عقل اور خلاف شرع مذہب میں اس ہٹ دھرمی کے علاوہ اور ہے کیا؟

جناب نے ایک مثال ذکر کی کہ "میرے پاس دس عدد سیب ہیں جنھیں میں اپنے مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کوئی بھی سیب اٹھا لیں اگر آپ ہی میرے مہمان ہیں تو بتائیں میری اس پیشکش پر آپ کتنے سیب اٹھاؤ گے؟؟؟
میں نے اپنی زندگی میں ایسا کم ظرف میزبان نہیں دیکھا جو مہمان کو دس سیب پیش کر کے یہ سوچ رکھتا ہو کہ یہ مہمان ایک ہی سیب کھائے۔
اگر آپ کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا تو ایسے مضحکہ خیز طریقے سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ صاف کہہ دیتے کہ اس سوال کا جواب کیونکہ میرے خلاف ہے اس لئے نہیں دونگا۔

میں بھی آخر میں ایک مثال پیش کرتا ہوں " کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس نے توحید بیان نہ کی ہو ؟
امید ہے کہ جناب اب بھی یہی کہیں گے کہ اسکا مطلب ہے کہ ایک نبی نے توحید بیان کی تھی باقی نے نہیں؟
آپ نے مثال دینے سے پہلے غور نہیں فرمایا کہ میری کہی ہوئی بات میں پھر اسکے حق میں پیش کی گئی مثالوں اور آپ کی پیش کردہ اس مثال میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اور وہ فرق ہے مثبت اور منفی کا۔ میں نے چونکہ مثبت جملہ کہا تھا اس لئے اسکے ثبوت میں مثال بھی مثبت جملے ہی کی پیش کی تھی جس کا آپ سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو اسے مذاق اور طنز میں اڑا دیا۔ لیکن آپ مثبت جملے کو منفی جملوں کی مثالوں سے رد کرنے کی کوشش فرمارہے ہو۔ اگر آپ معقول اور ڈھنگ کی کوئی بات نہیں کرسکتے تو بے مقصد بحث کرکے ہمارا قیمتی وقت برباد کرنے کی ایسی کیا ضرورت ہے؟

اجازت دیکر جواب دینے سے ڈر کون رہا ہے یہ تو سب کو نظر آرہا ہے کہنے کی ضرورت نہیں ، چادر سے زیادہ پاؤں نہیں پھیلانے چاہئیں بندے کو بڑکیں لگانے سے پہلے سوچنا چاہئے ،اپ میرے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں بڑکیں نہ ہانکیں
جواب دینے سے آپ نہیں ڈریں گے تو کون ڈرے گا؟ آپ کے اکابرین بیچارے بھی اہل حدیثوں کے سوالوں کے جوابات دئے بغیر ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو آپ تو پھر نئی نئی فریب کاری اور مغالطہ انگیزی سیکھ رہے ہو۔
جہاں تک بات ہماری ہے تو آپ جتنے سوال کروگے ان تمام کے تسلی بخش جوابات ہمارے علماء قرآن وحدیث کی روشنی میں پہلے ہی دے چکے ہیں ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

آخر میں، میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے میری پوسٹ کے کچھ حصوں کا جان چھڑانے کے انداز سے جواب دیا لیکن ایک پیراگراف کو بالکل گول کرگئے؟ اگر اس کا جواب نہیں تھا تو اسکے جواب میں بھی کوئی لطیفہ لکھ دیتے۔ بہرحال میں اس پیراگراف کو دوبارہ یہاں نقل کررہا ہوں یہ پیراگراف میری بات کو بالکل سچ ثابت کررہا ہے اور آپ کی ناکامی کا اشتہار پیش کررہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
اسکے علاوہ میں نے جواب دیتے ہوئے لکھا تھا '' کوئی سوال'' تو مجھے بتا دیں کہ سوال واحد ہے یا جمع؟ سب کو معلوم ہے کہ سوال کی جمع سوالات ہوتا ہے۔ تو جب میں نے سوال لکھا ہے تو اس کے معنی ایک سوال کے علاوہ اور کیا ہوگا؟ جبکہ سوال کے لفظ کو واحد آپ بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے کہ واحد ایک ہی ہوتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جناب شاہد نزیر صاحب: بندہ نے سوال پوچھا تھا کہ
"نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
جناب نے اس کے جواب میں لکھا
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر بھی اللہ کا ذکر ہی ہے ۔ اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ یہ بھی دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کہی جائے , ہاں مکبر اور امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔ خوب سمجھ لیں ۔
محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جناب نے جو دلیل پیش کی ہے کیا اس میں امام مقتدی کا ذکر ہے؟یقینا" نہیں! تو ثابت ہوا کہ جناب کی یہ دلیل اس مسئلہ کو ثابت کرنے پر "صریح "نہیں۔
ہمت کریں ایسی کوئی صریح دلیل پیش کریں جس میں امام کو بلند آواز سے تکبیر کہنے کا حکم ہو اور مقتدی کو آئستہ کہنے کا؟
دیکھیں آپ کا اصل سوال مقتدی کے تکبیر آہستہ کہنے اور امام کے بلند آواز سے کہنے سے متعلق ہے۔ مطلب اصل سوال ذکر الٰہی سے متعلق ہے کہ نماز میں ایک خاص مقام پر مقتدی ذکر الٰہی پست آواز میں اور امام بلند آواز سے کیوں کرے۔ اور ہم نے بھی جو قرآن کی آیت بطور دلیل پیش کی ہے وہ بھی ذکر الٰہی سے متعلق ہی ہے۔ اس لئے اصل مسئلہ کی صراحت تو دلیل میں آگئی ہے۔لیکن آپ اسے غیر صریح اس لئے فرما رہے ہیں کہ اگر آپ نے مان لیا تو بحث آگے کیسے بڑھے گی۔

اگرچہ قرآنی آیت میں نماز اور امام و مقتدی کا ذکر نہیں ہے لیکن اس کے عموم میں نماز بھی داخل ہے اور نماز میں ذکر الٰہی کرنے والے امام و مقتدی بھی اس لئے یہ نماز میں ذکر الٰہی (چاہے وہ مقتدی کرے یا امام) کی بھی دلیل ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا نماز سے اور امام و مقتدی کے ذکر الٰہی کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دلیل پیش فرمادیں۔ اور اگر آپ کے پاس دلیل نہیں ہے تو پھر ہماری پیش کردہ دلیل کو مان لیں۔ ایسا نہیں چلے گا کہ نہ آپ خود دلیل پیش کریں اور نہ ہی ہماری دلیل کو تسلیم کریں۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ ہم نے قرآن کی آیت عمومی حکم کے لئے پیش کی ہے کہ اس آیت کی رو سے امام و مقتدی اصلاٌ پست آواز سے تکبیرات کہیں گے لیکن جہاں امام پست کے بجائے تکبیر میں آواز بلند کرے گا تو اسکے اس خاص عمل کی وجہ احادیث ہیں جن میں امام کو عمومی حکم سے ہٹ کر خاص حکم دیا گیا ہے۔ تو ہم نے مقتدی کے پست آواز سے تکبیر کہنے کے لئے قرآنی آیت بطور دلیل پیش کردی لیکن امام کے بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کے لئے صرف احادیث کی جانب اشارہ کیا ہے انہیں پیش نہیں کیا لیکن مطالبہ پر انہیں پیش بھی کیا جاسکتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ اس مسئلہ کو ہم نے قرآن وحدیث دونوں سے صراحتاٌ ثابت کیا ہے۔والحمدللہ

دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ دلیل اپنے ایک اُصول (اطیعو اللہ و اطیع الرسول) سے لکھیں،
جناب نے قرآن مجید کی آیت پیش کر کے اپنے قیاس سے مسئلہ ثابت کرنے کی جو ناکام کوشش کی یہ جناب کے اپنے اس ایک اُصول کے خلاف ہے ،
جناب کو قیاس اور استدلال اور استنباط کا فرق بھی نہیں معلوم اور شوق چرایا ہے اہل حق سے بحث کرنے کا۔سبحان اللہ!
عرض ہے کہ ہم نے قیاس نہیں کیا بلکہ قرآنی آیت سے استدلال کیا ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے پیش کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہو کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ امام بلند آواز سے تکبیر کہے اور مقتدی آئستہ،
اس آیت کی عملی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور امام تکبیر بلند آواز سے کہتے تھے اور صحابہ پست آواز سے۔ یعنی امام کا تکبیر کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی حدیث سے ثابت ہے اور مقتدی کا پست آواز میں تکبیر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث سے ثابت ہے۔ والحمدللہ

اسکے باوجود کہیں اپنے اکابرین کی طرح یہ مت کہہ دینا کہ نہیں ہمیں تو وہی حدیث چاہیے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہو کہ نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے کہے اور مقتدی پست آواز میں۔ یعنی اس حدیث میں نماز باجماعت کا لفظ بھی ہو امام کا بھی اور مقتدی کا بھی۔

جناب اپنا قیاس یا کسی عالم کا قیاس یا تشریح پیش کر کے اپنے اس ایک اُصول کی خلاف ورضی نہ کریں بلکہ اس پر قائم رہتے ہوئے میرے سوال کا صریح جواب اپنے اس ایک اُصول کے مطابق لکھیں
میرا پہلا سوال ابھی تک جناب کے سر پر تلوار بن کر لٹکا ہوا ہے ،اس قرض کو جلدی اُتارنے کی کوشش کریں ،
لیں جناب آپکی منہ مانگی مراد پوری ہوگئی نہ تو ہم نے خود قیاس کیا اور نہ ہی اپنے عالم کا قیاس پیش کیا اور اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے آپ کے سوال کا صریح جواب دے دیا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
معاویہ زین العابدین صاحب کے دلائل کی حقیقت:

معاویہ صاحب اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے دلائل دے رہے ہیں حالانکہ انہیں کے دلائل سے انکا اپنا موقف بری طرح رد ہو رہا ہے۔ دیکھئے:
جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ " کوئی بھی سوال پوچھنے سے "مراد" ایک سوال پوچھنا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ "کوئی بھی" ایک مراد ہوتا ہے یا ایک سے زیادہ
عموما" علمائے کرام جب کسی مشہور حدیث کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "کوئی بھی حدیث کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لو یہ حدیث مل جائے گی؟
یہاں "کوئی بھی" سے مراد ایک حدیث کی کتاب کا ہونا ہے یا زیادہ کا؟
یہاں ''کوئی بھی'' سے مراد احادیث کی بہت ساری کتابوں میں سے ایک حدیث کی کتاب ہے۔ اگر یہاں ایک سے زیادہ حدیث کی کتابیں مراد ہوتیں تو جملہ یوں ہوتا ''کوئی بھی حدیث کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لو'' جبکہ خود معاویہ صاحب نے جو جملہ لکھا ہے اس میں کتابیں نہیں بلکہ کتاب ہے اور جملہ یہ ہے ''کوئی بھی حدیث کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لو''
مجھے بتائیں کتاب ایک ہوتی یا ایک سے زائد؟ اگر کتاب کا مطلب بھی ایک سے زائد ہے تو پھر کتابیں کیا ہے؟

چند محاورے لکھتا ہوں کیا ان میں "کوئی بھی" سے مراد ایک ہونا ہے یا ایک سے زیادہ
ان کا یہ بلند وبانگ دعویٰ ملاحظہ کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ موصوف کس طرح آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان چیزوں سے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جس سے ان کا نہیں بلکہ ہمارا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ دیکھئے لکھتے ہیں:
(1) کوئی بھی تحریر دیکھ لیں،
یہاں بھی ’’کوئی بھی تحریر‘‘ سے مراد ایک تحریر ہے اگر دو یا دو سے زائد مراد ہوتا تو لفظ ’’تحریر‘‘ کی جمع ’’تحریریں‘‘ یا ’’تحاریر‘‘ استعمال ہوتا۔
(2)کوئی بھی ناجائز بات نہ کریں،
اگر یہ مثال معاویہ صاحب کے دعویٰ کے مطابق ہوتی تو یہاں ’’ناجائز باتیں‘‘ لکھا ہوتا۔ جبکہ یہاں ’’ناجائز بات‘‘ لکھا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ لفظ ’’بات‘‘ واحد ہے اور واحد کا مطلب ایک ہوتا ہے دو یا دو سے زائد نہیں۔
(3)کوئی بھی انٹرویو دیکھ لیں،
یہ مثال بھی معاویہ صاحب کے خلاف ہے کیونکہ یہاں بھی جو لفظ یعنی ’’انٹرویو‘‘ استعمال کیا گیا ہے وہ واحد لفظ ہے جبکہ اس کی جمع ’’انٹرویوز‘‘ ہے۔

یہاں میں بھی معاویہ صاحب سے پوچھوں گا جیسا کہ انہوں نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ اردو جملہ لکھتے وقت آپ کو انگریز یا انگریز کا ایجنٹ بنتے ہوئے انگریزی لفظ انٹرویو لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اردو میں اسکے لئے کوئی لفظ نہیں ہے؟ یا آپکے اکابرین نے انگریز سے محبت کی جو پینگیں بڑھائی تھیں یہ ان کا اثر ہے؟
(4) کوئی بھی ملکی ادارہ،
’’ادارہ‘‘ کا لفظ بھی جمع نہیں ہے بلکہ یہ واحد لفظ ہے اور اس کی جمع ’’ادارے‘‘ ہے۔
(5) کوئی بھی کرنسی دیکھ لیں۔
یہاں ’’کرنسی‘‘ کا لفظ بھی واحد ہے اسکی جمع ’’کرنسیز‘‘ ہے۔ اور واحد کا لفظ دو یا دو سے زائد کے لئے نہیں بلکہ ایک کے لئے ہوتا ہے۔

یہاں بھی آپ پر انگریز کی محبت غالب آگئی اور اردو جملہ لکھتے وقت آپ نے انگریزی کا لفظ استعمال کیا جبکہ کرنسی کو اردو میں بیرونی یا غیرملکی روپیہ کہا جاتا ہے۔
امید ہے سمجھ آگئی ہو گی
امید ہے ہوش ٹھکانے آگئے ہوں گے۔ ان شاء اللہ

معاویہ صاحب شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ اہل حدیث کو بے وقوف بنانا آسان ہے تو جو چاہے الٹا سیدھا لکھ کر اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ معاویہ صاحب نے کیسی کھلم کھلا فریب کاری کا مظاہرہ کیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ خود کو جھوٹے منہ اہل حق کہتے ہیں۔

فرار نہیں ہونے دونگا کوشش بھی نہ کریں
امید ہے آپ فرار نہیں ہونگے اور اس کا معقول جواب عنایت فرمائیں گے۔
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
شاہد نزیر صاحب بندہ نے سوال پوچھا تھا کہ "نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
میرے سوال میں نماز باجماعت اور صریح دلیل کا مطالبہ موجود ہے
جناب نے اس کے جواب میں لکھا
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
یہاں جناب نے تسلیم کیا کہ ہمارے دعویٰ(اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ) اور دلیل کے عین مطابق ہے اور مزید لکھا کہ اسکا جواب ( یعنی میرے سوال کا جواب) قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی۔۔۔صرف قرآنی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں(میرا سوال ذہن میں رہے)
جناب نے دلیل پیش کی
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس کے جواب میں بندہ نے لکھا تھا کہ"محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جناب نے جو دلیل پیش کی ہے کیا اس میں امام مقتدی کا ذکر ہے؟یقینا" نہیں! تو ثابت ہوا کہ جناب کی یہ دلیل اس مسئلہ کو ثابت کرنے پر "صریح "نہیں۔
ہمت کریں ایسی کوئی صریح دلیل پیش کریں جس میں امام کو بلند آواز سے تکبیر کہنے کا حکم ہو اور مقتدی کو آئستہ کہنے کا؟
اب جناب نے خود مان لیا ہے کہ "اگرچہ قرآنی آیت میں نماز اور امام و مقتدی کا ذکر نہیں ہے "
جناب نے جب خود تسلیم کر لیا کہ اس آیت میں نماز کا ذکر نہیں ،امام مقتدی کا ذکر نہیں تو امام مقتدی کی تکبیرات کے اونچا یا آئستہ کہنا کیسےثابت ہوگیا؟؟؟
اسے کہتے ہیں "جادو وہ جو سر چھڑ کر بولے"
اب جناب درمیان میں لٹک گئے ہیں "نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے "ایک مثل مشہور ہے کہ "دھوبی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب ہمت کریں اور اپنے ایک اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نص کے ذریعہ اس آیت میں نماز ، امام ومقتدی ،اور تکبیرات کا بلند یا آئستہ کہنا ثابت کریں تو یہ جناب کی دلیل بن سکتی ہے ورنہ نہیں۔
جناب نے لکھا تھا کہ"اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔"
قرآن مجید سے تو جناب میرے سوال کا جواب ثابت نہ کر سکے ،ہمت کریں اور وہ حدیث پیش کر دیں جس میں اس سوال("نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے"صریح طور پر موجود ہو ۔ورنہ رسول اللہ ﷺ پر بہتان نہ باندھیں
 
Top