بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ : بدقسمتی سے یہاں کچھ موضوع مکس ہوگئے ہیں ، اگر کوئی بھائی تکبیر تحریمہ سے متعلق پوسٹس کو الگ کرکے ایک مستقل تھریڈ بنا دے تو میرے خیال میں بہتر ہوگا
تکبیر تحریمہ امام ، مقتدی اور منفرد کو کس اواز میں کہنی چاہئيے اس بارے میں مسلک اہل حدیث کے افراد کیا کہتے ہیں میں فی الحال اس پر ہی گفتگو کرنا چاہتا ہوں
یہاں آپ نے تعارض رفع کرنے کے بجائے ایک اور ظاھری تعارض قائم کردیا ۔ آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا دعا کے متعلق نازل ہوئی یا نماز کے متعلق ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ دعا کے متعلق نازل ہوئی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کے متعلق ۔نماز کا استثناء ثابت نہیں۔ دلیل کے لئے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے:
صحیح بخاری حدیث نمبر 7490:
حدثنا مسدد، عن هشيم، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ { ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها} قال أنزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا رفع صوته سمع المشركون فسبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به. وقال الله تعالى { ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها} لا تجهر بصلاتك حتى يسمع المشركون، ولا تخافت بها عن أصحابك فلا تسمعهم { وابتغ بين ذلك سبيلا} أسمعهم ولا تجهر حتى يأخذوا عنك القرآن.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ' ان سے ہشیم بن بشیر نے ' ان سے ابی بشر نے 'ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ولاتجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کے بارے میں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ نمازمیں آوازبلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے اللہ کو اور اس کے لانے والے جبرائیل علیہ السلام کو گالی دیتے (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اپنی نمازمیں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کر کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کر کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کر۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی آواز سے پڑھ کہ تیرے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں ' اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھ۔
گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!
اور دوسرا جواب یہ کہ یہاں صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ دلیل ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث:
حدیث نمبر 7526:
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت نزلت هذه الآية { ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها} في الدعاء.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ' کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ' ان سے ہشام نے ' ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا دعا کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی دعا نہ بہت چلا کر مانگ نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔
۔
اس ظاہری تعارض کو رفع کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے ہم اس آیت کو دونوں کے لئیے مان لیں
اس صورت میں یہ آیت نماز کے متعلق بھی ہے اور دعا کے متعلق بھی
اب آتے ہیں نماز کے متعلق
آپ نے ایک تو کہا کہ معتدل آواز سے نماز کا حکم مکہ میں نازل ہوا یہ تو ابتدائی حکم تھا ۔ بعد میں اس پر عمل نہ ہوا
آپ کے الفاظ
گویا یہ معتدل جہر ابتدائی دور میں فقط صحابہ کی تعلیم کی خاطر تھا۔ واللہ اعلم!
تو اس حکم کی جگہ دوسرے حکم نے کب لی ۔ تکبیر تحریمہ کو کب سے پست آواز میں کہنا شروع کیا گيا ۔ یہ ابتدائي حکم تھا تو اسلام کے آخری دور میں کیا حکم تھا اور اس کی کیا دلیل ہے
اس معتدل آواز کو آپ نے ابتدائی حکم پر کیسے محمول کیا صرف اس لئیے کہ یہ حکم مکہ میں نازل ہوا ۔
کئی احکام مکہ میں نازل ہوئے تو کیا سب ابتدائی حکم کے درجہ میں آکر ہمارے لئیے ناقابل عمل قرار پائيں گے
سوال اب بھی اپنی جگہ امام مقتدی اور منفرد کو تکبیر تحریمہ کو کس آواز میں کہنا چاہئیے ؟
قدوری فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب ہے ۔ حالیہ دور میں محترم و مکرم محمد حنیف صاحب نے اس کی ایک بہتریں اردو میں شرح لکھی ہے اور انہوں نے اسی آیت کے متعلق فقہ حنفی کتب طحاوی ، درمختار و فتح المبین کے حوالہ سے لکھا ہےاتنی سی بات کے لئے فقہائے احناف کی تقلید کی کیا حاجت؟؟
اب آپ فقہائے احناف سے اس تعارض کو رفع کر کے بھی دکھا دیجئے، فقط ہماری معلومات کی خاطر
ابتداء میں سب نمازوں میں قرات جھرا کی جاتی تھی ۔ مشرکیں مکہ جب قرات سنتے تو قرآن و جبرائیل وغیرہ کو برا بھلا کہتے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آیت کے ذریعے حکم دیا گيا کہ نہ سب نمازوں میں قرات جھرا پڑھیں نہ آہستہ
ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا
فجر اور عشاء میں کفار مکہ سو رہے ہوتے تھے تو قرآت جھرا پڑھیں ، مغرب کے وقت کفار مکہ کھانے میں مشغول ہوتے تو قرات جھرا کی جاسکتی ہے لیکن ظھر و عصر کی نماز میں قرات سرا کی جائے کیوں کہ مشرکین مکہ کے طرف سے ايذا کا خطرہ تھا
وابتغ بين ذلك سبيلا
یعنی درمیانی رستہ اختیار کریں ۔ نہ سب نمازوں میں جھرا قرات نہ سب نمازوں میں سرا قرآت ۔ درمیانی رستہ کچھ نمازوں میں سرا اور کچھ میں جھرا قرات
اب اس آیت اور وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ} [الأعراف:205]، میں ظاھری تعارض بھی ختم ہوگيا