عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
تکفیری فکر کے رد میں فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان کا کلام
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام علی نبینا محمد والہ و صحیہ و بعد :
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امن نے ضروریات کو وافر کر دیا ہے اور انسانیت اس سے زیادہ اپنی کھانے پینے والی ضروریات کی طرف زیادہ محتاج ہے اسی وجہ سے تو ابراھیم علیہ السلام نے رزق کو اپنی دعا میں مقدم رکھا ۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی ان کی دعا کا تذکرہ کرتے ہیں فرمایا:
کیونکہ لوگ خوف کے ہوتے ہوئے کھانا بھی آسانی سے نہیں کھا سکتے اور کیونکہ خوف وہ رستے بلاک کر دیتا ہے جن کے ذریعے خردو نوش ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتی ہیں ، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ڈاکوؤں کے لیے سخت سزائیں مقرر فرمائیں ہیں فرمایا:’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امن نے دوسری ضروریات کو گھیرلیا ہے اور انسانیت اس کی طرف اپنی دوسری حاجات سے یعنی کھانے پینے والی سے زیادہ محتاج ہے اور اسی وجہ سے تو ابراھیم علیہ السلام نے اس کو اپنی دعا میں رزق سے مقدم رکھا ہے فرمایا :’’ اے میرے رب تو اس شہر کو امن والا بنا اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں کا رزق دے‘‘ ( البقرہ: 126)
اسلام نے پانچ ضروریات کی حفاظت کروائی ہے :’’جو لوگ اللہ اورا س کے رسول ﷺ سے جنگ کرتے ہیں اورزمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا صرف یہی ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کا دیے جائیں یا ان کو جلا وطن کر دیا جائے یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ‘‘۔ (المائدہ : 33)
وہ یہ ہیں ! دین ، جان ، عقل ، آبرو اور مال ۔اور جو شخص ان ضروریات سے تجاوز کرتا ہے اس کے لیے سخت حدود بھی مقرر کیں ہیں چاہے یہ ضروریات مسلمانوں کی ہوں یا معاہد کافروں کی ۔
کافر معاہدہ کے لیے بھی وہ ہی کچھ ہے جو مسلمان کے لیے ہے اور اس پر لازم بھی وہی کچھ ہے جو ایک مسلمان پر ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
اور اللہ تعالی نے فرمایا:’’ جس شخص نے کسی معاہدکافر کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا ‘‘۔ ( بخاری : 2995)
اور جب مسلمانوں کو خطرہ ہو معاہدین سے عہد کو توڑنے کا تو ان کے لیے اسوقت تک ان سے قتال کرنا جائز نہیں کہ جب ان کے عہد کے ختم ہونے کو جان نہ لیں اور نہ وہ ان پر اچانک حملہ کر دیں اطلاع کیے بغیر’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی ایک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو حتی کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اس کو اس کی جگہ پر پہنچا دو ‘‘۔( التوبہ :6)
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
مسلمانوں کے عہد کے تحت کافروں میں سے جو لوگ آتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں :’’اور اگر کبھی تو کسی قوم کی جانب سے کسی خیانت سے فن الواقع ڈرے تو ان کا عہد ان کی طرف مساوی طور پر پھینک دے بے شک اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ (الانفال:58)
1۔ المسأمن :۔ یہ وہ ہے جو ضروری کام کے لیے امان کے ساتھ مسلمانوں کے ملک میں آتا ہے اور اس کو کرنے کے بعد اپنے ملک کی طرف لوالیں لوٹ جاتا ہے ۔
2۔ المعاہد: یہ وہ شخص ہے جو کافروں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کے تحت داخل ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک پناہ دیا جائے گا جب تک کہ دونوں گروہوں کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس پر ذیادتی کرے جس طرح کہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسلمانوں میں سے کسی پر زیادتی کرے ۔۔
3۔ الذمی : وہ شخص جو مسلمانوں کو فدیہ دے کر دفاع حاصل کرتا ہے اور یہ بھی ان کے حکم میں داخل ہو جاتا ہے ۔
اسلام ان تین قسم کے کفار کی کفالت کرتا ہے ان کے خون ، ان کے مال اور ان کی عزتوں کو امن میں رکھنا ۔ جس شخص نے ان پر زیادتی کی یقینا اس نے اسلام کی خیانت کی اور سزا کا مستحق ٹھرا ۔
اور عدل تو مسلمانوں اور کافروں دونوں کے لیے واجب ہے حتی کہ وہ کافر چاہے معاہد ، مسأمن یا ذمی نہ بھی ہو تب بھی ضروری ہے
اللہ تعالی نے فرمایا :
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:’’اور کسی قوم کی دشمنی ، اس لیے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرم سے روکا ، تمہیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ حد سے بڑھ جاؤ‘‘۔ ( المائدہ : 2)
وہ لوگ جو امن کو برباد کرتے ہیں :’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے ، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو ۔ عدل کرو ، یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو ‘‘۔ ( المائدہ : 8)
یا تو وہ خوارج ہونگے یا ڈاکو ہونگے یا باغی ہونگے اور تلوار کا جاری کرنا ہی ان تینوں قسم کے لوگوں کو اس کی حد پر کھڑا کر سکتا ہے اور ان کے شرکو مسلمانوں ، معاہدین ، مسأمین اور اہل الذمہ سے روکا جا سکتا ہے ، اور کسی بھی جگہ میں یہی لوگ (صور تحال بگاڑتے )ہیں اور معصوم جانوں کو ہلاک کرتے ہیں ۔ معاہدین اور مسلمانوں کے حرام شدہ محترم اموال کو لاٹ لیٹے ہیں۔ عورتوں کو بیوہ کر دیتے ہیں بچوں کو یتیم بنا دیتے ہیں یہ وہی لوگ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
ایک عجیب بات:’’اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جس کی بات تجھے دنیا کی زندگی کے بارے اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بنا تا ہے جو اس کے دل میں ہے ، ھالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑ ا لو ہے ۔ (204) اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں دوڑ دھوپ کرتا ہے تا کہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے اور اللہ تو فساد پسند نہیں کرتا ۔ (205) اور جب اس سے کہا جاتاہے کہ اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقینا وہ برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔ (206) ( البقرہ)
یہ اسلام کے حکم سے تجاوز کرنے والے اور بہت آگے نکل جانے والے اپنے اس عمل کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دیتے ہیں اور یہ تو اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ ہے یقینا اللہ تعالی نے اس کو فساد بنا یا ہے جہاد نہیں بنا یا لیکن ہمیں اس وہ تعجب نہیں ہوتا جب ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے سلف ان کے بڑے لوگ خوارج میں سے ہیں جنہوں نے صحابہ اکرام کو کافر قرار دیا ۔ عثمان وعلی رضی اللہ عنھما کو شہید کر دیا اور دونوں خلفاء راشدین عشرہ مبشرہ بالجنۃ میں سے ہیں ۔ انہوں نے ان دونوں کو شہید کردیا اور اس کا نام جہاد فی سبیل اللہ دکھ دیا حالانکہ یہ تو صرف جہاد فی سبیل الشیطان ہے
اللہ تعالی نے فرمایا:
اور اسلام پر ان کے اس کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے جس طرح کہ دشمنان اسلام کفار منافقین کہتے ہیں کہ دین اسلام تو ڈرانے دھمکانے کا دین ہے اور دلیل ان مجرموں کے معل سے لیتے ہیں سو یقیناََ ان کا یہ فعل اسلام میں سے نہیں دین اسلام اس کو برا قرار نہیں رکھتا بس یہ تو ایک خارجی سوچ اور فکر ہے تحقیق نبی ﷺ ان لوگوں کو قتل کرنے پر ابھارہ ہے اور فرمایا:’’وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ کے رستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے رستے میں لڑتے ہیں‘‘ ۔ ( النسآء: 76)
اور جس شخص نے ان کو قتل کیا اس کے لیے بہت زیادہ اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کا حاکم ہی ان سے قتال کرے گا جس طرح کہ صحابہ اکرام نے اپنے امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ان سے قتال کیا ۔تم جہاں بھی ان کو ملو ان کو قتل دو ()
ایک شبہ کا ازالہ
اور بعض منافق یا جاہل لوگوں کا یہ گمان ہے کہ مسلمانوں کے ( درسگا ہیں ) ہی ان کو یہ فکر اور سوچ سکھاتی ہیں اور ان کی پڑھائی کے جو منہج ہیں وہ ہی اس پھر ی ہوئی سوچ کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں اور پھر وہ تعلیم کے مناہج کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
ہم یہ کہتے ہیں :
اس فکر کے لوگ مسلمانوں کی درسگاہوں سے نہیں نکلتے اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے علماء سے علم حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں مسلمانوں کے علماء کو حقیر اور جاہل قرار دیتے ہیں اور انہیں بادشاہوں کے عمالوں سے موصوف کرتے ہیں اور یہ خود راہ راست سے ہٹی ہوئی سوچ رکھنے والوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کم عمر اور کم عقل لوگوں کے پاس تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی طرح ان کے سلف نے بھی صحابہ اکرام کے علماء کو جاہل اور کافر قرار دیا تھا ۔
آج کے بعد ہم امید کرتے ہیں :
کہ والدین اپنے بچوں کا خیال رکھیں گے ایسی خطر ناک سوچ کے حامل لوگوں کے پاس ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ ان کو اس گمراہ سوچ اور راہ راست سے ہٹے ہوئے منہج کی طر ف چلا دیں مشکوک اجتماعات مجہول سفروں اور ایسی آرام گاہوں کے لیے بھی نہ انہیں چھوڑیں جو گمراہ لوگوں کی چراگاہ ہوتی ہیں اور خونخوار بھیڑیوں کی شکار گا ہوتی ہیں اور اپنی بچوکو چھوٹی عمر میں بیرون ممالک کے سفر وں کے لیے بھی نہ چھوڑیں۔
اور علماء پر یہ بات لازم ہے کہ وہ صحیح عقائد کی تعلیم درسگاہوں میں مساجد میں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ہر شخص تک پہنچا دیں یہاں تک کہ اور ان اصحاب الضلال کے لیے کوئی لمحہ باقی نہ بچے جو کہ صرف اندھیرے اور اصلاح کرنے والوں کی غفلت میں نکلتے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں نفع بخش علم اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
و صلی اللہ علی نبینا محمد والہ و صحبہ و سلم