ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 53
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
قارئین کرام!
جب کبھی کوئی تکلیف دہ یا ضرر رساں بات پردۂ سماع سے ٹکرائے خواہ وہ زوجین میں سے کسی کی طرف سے ہو یا بھائی بہن یا پھر والدین کی طرف سے ہو یا کسی قریبی رشتے دار یا غیر رشتے دار ہی کی طرف سے ہو اور اس سے دل میں کوفت وتکلیف محسوس ہو اور نفس کو مجروح کرنے کا باعث بنے لیکن اس کے باوجود آپ خاموشی اختیار کیے رہیں اور درگزر وچشم پوشی سے کام لیں تو اسی چیز کو عربی میں "عفو وحلم" سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اندر یہ صفت کیسے پیدا کریں؟
اور سب سے اہم چیز یہ کہ ہم ان جیسے جارحانہ وضرر رساں کلمات سے اپنے دل کی حفاظت کیسے کریں تاکہ اس کے اندر "حسد، کینہ کپٹ، بغض وعداوت جیسی مہلک بیماریاں جنم نہ لے سکے؟
تین مقامات پہ قرآن کریم ایسی حالات میں دل کی حفاظت کے اسی "ذریعے" کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
پہلی آیت سورہ طہ کی اللہ فرماتا ہے:
ﻓَﺎﺻﺒِﺮ ﻋَﻠﻰ ﻣﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻭَﺳَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻗَﺒﻞَ ﻃُﻠﻮﻉِ ﺍﻟﺸَّﻤﺲِ ﻭَﻗَﺒﻞَ ﻏُﺮﻭﺑِﻬﺎ ﻭَﻣِﻦ ﺁﻧﺎﺀِ ﺍﻟﻠَّﻴﻞِ ﻓَﺴَﺒِّﺢ ﻭَﺃَﻃﺮﺍﻑَ ﺍﻟﻨَّﻬﺎﺭِ ﻟَﻌَﻠَّﻚَ ﺗَﺮﺿﻰ
دوسری جگہ سورہ حجر کے آخر میں اللہ فرماتا ہے:
ﻭَﻟَﻘَﺪ ﻧَﻌﻠَﻢُ ﺃَﻧَّﻚَ ﻳَﻀﻴﻖُ ﺻَﺪﺭُﻙَ ﺑِﻤﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻓَﺴَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻭَﻛُﻦ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺴّﺎﺟِﺪﻳﻦَ
اسی طرح تیسرے مقام سورہ ق کے آخر میں اللہ کا ارشاد ہے:
ﻓَﺎﺻﺒِﺮ ﻋَﻠﻰ ﻣﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻭَﺳَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻗَﺒﻞَ ﻃُﻠﻮﻉِ ﺍﻟﺸَّﻤﺲِ ﻭَﻗَﺒﻞَ ﺍﻟﻐُﺮﻭﺏِ
ان تینوں آیتوں میں غور کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے "یقولون" کے فورا بعد تسبیح کا حکم دیا ہے
جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تکلیف دہ باتوں کا پردہ سماع سے ٹکراتے وقت تسبیح بیان کرنے لگ جانا دل کی سلامتی کے لیے بہت اہم شئ اور ذریعہ ہے
گویا "تسبیح" ہر طرح کی ایسی تکلیف دہ چیز سے دل کی حفاظت کرتا ہے جو اسے مجروح کرنے کا سبب بنے
اور یہ نہ صرف باعث تحفظ ہے بلکہ وہ ایسا اطمینان بخشتا ہے جسے انسان محسوس کرکے اپنے دل میں ایک الگ سکون پاتا ہے۔
واقعی تسبیح میں بہت طاقت ہے جسے وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جس کا تعلق اپنے رب سے گہرا ہو۔
(ہدایت اللہ فارس)
جب کبھی کوئی تکلیف دہ یا ضرر رساں بات پردۂ سماع سے ٹکرائے خواہ وہ زوجین میں سے کسی کی طرف سے ہو یا بھائی بہن یا پھر والدین کی طرف سے ہو یا کسی قریبی رشتے دار یا غیر رشتے دار ہی کی طرف سے ہو اور اس سے دل میں کوفت وتکلیف محسوس ہو اور نفس کو مجروح کرنے کا باعث بنے لیکن اس کے باوجود آپ خاموشی اختیار کیے رہیں اور درگزر وچشم پوشی سے کام لیں تو اسی چیز کو عربی میں "عفو وحلم" سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اندر یہ صفت کیسے پیدا کریں؟
اور سب سے اہم چیز یہ کہ ہم ان جیسے جارحانہ وضرر رساں کلمات سے اپنے دل کی حفاظت کیسے کریں تاکہ اس کے اندر "حسد، کینہ کپٹ، بغض وعداوت جیسی مہلک بیماریاں جنم نہ لے سکے؟
تین مقامات پہ قرآن کریم ایسی حالات میں دل کی حفاظت کے اسی "ذریعے" کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
پہلی آیت سورہ طہ کی اللہ فرماتا ہے:
ﻓَﺎﺻﺒِﺮ ﻋَﻠﻰ ﻣﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻭَﺳَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻗَﺒﻞَ ﻃُﻠﻮﻉِ ﺍﻟﺸَّﻤﺲِ ﻭَﻗَﺒﻞَ ﻏُﺮﻭﺑِﻬﺎ ﻭَﻣِﻦ ﺁﻧﺎﺀِ ﺍﻟﻠَّﻴﻞِ ﻓَﺴَﺒِّﺢ ﻭَﺃَﻃﺮﺍﻑَ ﺍﻟﻨَّﻬﺎﺭِ ﻟَﻌَﻠَّﻚَ ﺗَﺮﺿﻰ
دوسری جگہ سورہ حجر کے آخر میں اللہ فرماتا ہے:
ﻭَﻟَﻘَﺪ ﻧَﻌﻠَﻢُ ﺃَﻧَّﻚَ ﻳَﻀﻴﻖُ ﺻَﺪﺭُﻙَ ﺑِﻤﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻓَﺴَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻭَﻛُﻦ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺴّﺎﺟِﺪﻳﻦَ
اسی طرح تیسرے مقام سورہ ق کے آخر میں اللہ کا ارشاد ہے:
ﻓَﺎﺻﺒِﺮ ﻋَﻠﻰ ﻣﺎ ﻳَﻘﻮﻟﻮﻥَ ﻭَﺳَﺒِّﺢ ﺑِﺤَﻤﺪِ ﺭَﺑِّﻚَ ﻗَﺒﻞَ ﻃُﻠﻮﻉِ ﺍﻟﺸَّﻤﺲِ ﻭَﻗَﺒﻞَ ﺍﻟﻐُﺮﻭﺏِ
ان تینوں آیتوں میں غور کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے "یقولون" کے فورا بعد تسبیح کا حکم دیا ہے
جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تکلیف دہ باتوں کا پردہ سماع سے ٹکراتے وقت تسبیح بیان کرنے لگ جانا دل کی سلامتی کے لیے بہت اہم شئ اور ذریعہ ہے
گویا "تسبیح" ہر طرح کی ایسی تکلیف دہ چیز سے دل کی حفاظت کرتا ہے جو اسے مجروح کرنے کا سبب بنے
اور یہ نہ صرف باعث تحفظ ہے بلکہ وہ ایسا اطمینان بخشتا ہے جسے انسان محسوس کرکے اپنے دل میں ایک الگ سکون پاتا ہے۔
واقعی تسبیح میں بہت طاقت ہے جسے وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جس کا تعلق اپنے رب سے گہرا ہو۔
(ہدایت اللہ فارس)