• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تہجد اور تراویح کی نماز سے متعلق کچھ سوالات

ادب دوست

مبتدی
شمولیت
جولائی 23، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
22
السلام علیکم،
امکانی حد تک ڈھونڈنے کے بعد آپ حضرات کو زحمت دینے کا فیصلہ کیا، ایک صاحب یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ
الف) تہجد کی نماز میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی رکعتیں ہوتی ہیں؟
ب) کیا نمازِ تہجد کیلئے رات کے کچھ حصے میں سونا ضروری ہے (یعنی رات کے اول پہروں میں نیند کے بعد بیداری ضروری ہے؟) یا بغیر سوئے بھی تہجد ادا کی جاسکتی ہے؟
 
شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تہجد کی نماز کے لئے رات کو سونا لازمی ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تہجد سے قبل سونا ضروری نہیں ہے، سونے کے بغیر بھی تہجد کی نماز ہوجاۓ گی۔تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحاح میں روایت موجود ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) میں پڑھتے تھے۔ رات کا حصہ جتنا بھی مؤخر ہوتا جاتا ہے اتنی ہی رحمتیں اور برکتیں زیادہ ہوتی ہے اور سدس (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بعض دفعہ عشاء کے بعد بھی نمازِ تہجد پڑھی ہے لیکن ہمیشہ نہیں پڑھی اس لئے کبھی کبھی پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں.(فتاویٰ اہلِ حدیث : ٢/٧٦
ھذا ما عندی واللہ
ٲعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ


 

ادب دوست

مبتدی
شمولیت
جولائی 23، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
22
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تہجد کی نماز کے لئے رات کو سونا لازمی ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تہجد سے قبل سونا ضروری نہیں ہے، سونے کے بغیر بھی تہجد کی نماز ہوجاۓ گی۔تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحاح میں روایت موجود ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) میں پڑھتے تھے۔ رات کا حصہ جتنا بھی مؤخر ہوتا جاتا ہے اتنی ہی رحمتیں اور برکتیں زیادہ ہوتی ہے اور سدس (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بعض دفعہ عشاء کے بعد بھی نمازِ تہجد پڑھی ہے لیکن ہمیشہ نہیں پڑھی اس لئے کبھی کبھی پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں.(فتاویٰ اہلِ حدیث : ٢/٧٦
ھذا ما عندی واللہ
ٲعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
بہت بہت شکریہ ،
رکعتوں کے حوالے سے بھی رہنمائی فرما دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رکعتوں کے حوالے سے بھی رہنمائی فرما دیں
نماز تہجد کی زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعات سنت سے ثابت ہیں ،
اس ضمن میں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی واضح حدیث ہے :
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» (صحیح بخاری ۱۱۴۷ )
ترجمہ :
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے ،انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی خوبصورت اور لمبی ہونے کے بارے میں مت پوچھو، پھر (آخر میں ) تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔
‘‘
(صحیح بخاری ،ح2013 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے :
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ،
سیدہ فرماتی ہیں : کہ نبی کریم ﷺ نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر (کا وقت شروع ہونے تک ) گیارہ رکعت پڑھتے تھے ،
ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے ، اور ایک رکعت نماز وتر پڑھتے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح بخاری میں دوسری روایت میں ( تھجد کی رکعات سات اور نو بھی مروی ہے
عن مسروق ، قال:‏‏‏‏ سالت عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل فقالت:‏‏‏‏"سبع وتسع وإحدى عشرة سوى ركعتي الفجر".
ترجمہ :
جناب مسروق نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
فقد ذكر الحافظ ابن حجر رحمه الله : أن قول عائشة : ( إن صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل سبع وتسع ) مرادها أن ذلك وقع في أوقات مختلفة ‘‘
کہ یہاں سیدہ عائشہ نے جو نبی پاک کی رات کی نماز سات اور نو رکعات بتائی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کبھی کبھی سات اور کبھی نو رکعات پڑھتے تھے ،۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سات اور نو سے کم کے متعلق درج ذیل حدیث مبارکہ پڑھیں
عن نافع عن ابن عمر قال:‏‏‏‏ سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ما ترى في صلاة الليل؟ قال:‏‏‏‏"مثنى مثنى فإذا خشي الصبح صلى واحدة فاوترت له ما صلى وإنه كان يقول:‏‏‏‏ اجعلوا آخر صلاتكم وترا فإن النبي صلى الله عليه وسلم امر به".( صحیح بخاری )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (جبکہ) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے کہ رات کی نماز (یعنی تہجد) کس طرح پڑھنے کے لیے آپ فرماتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو دو رکعت کر کے پڑھ اور جب صبح قریب ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت اس ساری نماز کو طاق بنا دے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ رات کی آخری نماز کو طاق رکھا کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔‘‘
یعنی دو دو رکعت کرکے (گیارہ تک ) جتنی چاہ پڑھ لے ، مثلاً صحت کی خرابی ، یا وقت کی قلت کے سبب گیارہ رکعت تک نہیں پڑھ سکتا ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

ادب دوست

مبتدی
شمولیت
جولائی 23، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
22
بہت بہت شکریہ جناب من، اس قدر تفصیلی جواب پر آپ کا شکرگزار ہوں۔
بہت نوازش۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ ""كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ"".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعتیں ( سنت فجر ) پڑھ لیتے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
فورم کے محترم بھائی @ابو عبدالله نے پوچھا ہے کہ:
اور اس حدیث کی کیا تشریح ہوگی جب ہم کہتے ہیں کہ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
فورم کے محترم بھائی @ابو عبدالله نے پوچھا ہے کہ:
اور اس حدیث کی کیا تشریح ہوگی جب ہم کہتے ہیں کہ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب رسول اللہ ﷺ کے قیام اللیل ( رات کی نماز ) کے متعلق مختلف روایات منقول ہیں ، جن میں کچھ ذیل میں بیان کی جارہی ہیں :

عن أبي سلمة، قال: سألت عائشة، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: «كان يصلي ثلاث عشرة ركعة، يصلي ثمان ركعات، ثم يوتر، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فإذا أراد أن يركع قام فركع، ثم يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح».صحيح مسلم ، باب صلاة الليل، وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم في الليل
سید ابوسلمہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (رات کی) نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ تیرہ رکعت پڑھتے آٹھ رکعت کے بعد وتر پڑھتے پھر دو رکعت پڑھتے بیٹھ کر اور جب ارادہ کرتے رکوع کا کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے دو رکعت پڑھتے صبح کی اذان اور تکبیر کے بیچ میں۔

سمع أبا سلمة، قال: أتيت عائشة، فقلت: أي أمه ‍ أخبريني عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: «كانت صلاته في شهر رمضان وغيره ثلاث عشرة ركعة بالليل، منها ركعتا الفجر»
صحيح مسلم ، باب صلاة الليل، وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم في الليل

ابوسلمہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں گئے اور عرض کیا کہ اے میری ماں! مجھے خبر دیجئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے۔ پس انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان وغیرہ میں رات کے وقت تیرہ رکعت تھی، ان ہی میں دو رکعتیں صبح کی سنتیں بھی تھیں۔

عن القاسم بن محمد، قال: سمعت عائشة، تقول: «كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل عشر ركعات، ويوتر بسجدة، ويركع ركعتي الفجر، فتلك ثلاث عشرة ركعة» صحيح مسلم ، باب صلاة الليل، وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم في الليل
قاسم بن محمد نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دس رکعت تھی اور ایک رکعت وتر اور دو رکعتیں فجر کی سنتیں۔ یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں۔

عن ابن عباس، قال: بت ليلة عند خالتي ميمونة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل، فأتى حاجته، ثم غسل وجهه ويديه، ثم نام، ثم قام فأتى القربة، فأطلق شناقها، ثم توضأ وضوءا بين الوضوءين، ولم يكثر، وقد أبلغ، ثم قام فصلى، فقمت فتمطيت كراهية أن يرى أني كنت أنتبه له، فتوضأت، فقام فصلى، فقمت عن يساره، فأخذ بيدي فأدارني عن يمينه، فتتامت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل ثلاث عشرة ركعة،------( بخاری و مسلم )صحیح مسلم ، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا (اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز دیکھیں) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی قضائے حاجت کو گئے پھر اپنا منہ اور ہاتھ دھویا۔ پھر سو رہے۔ پھر اٹھے اور مشک کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا۔ پھر دو وضوؤں کے بیچ کا وضو کیا (یعنی نہ بہت مبالغہ کا نہ بہت ہلکا) اور زیادہ پانی نہیں گرایا اور پورا وضو کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی کہ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حال دیکھنے کے لئے ہوشیار تھا (اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ نہ تھا جیسے اب جاہلوں کو انبیا علیہم السلام اور اولیا رحمہ اللہ علیہم کے ساتھ ہے) اور میں نے وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھما کر اپنی دہنی طرف کھڑا کر لیا (اس سے معلوم ہوا کہ مقتدی ہو تو امام کی داہنی طرف کھڑا ہو) غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رات کو تیرہ رکعت پوری ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا الوِتْرُ، وَرَكْعَتَا الفَجْرِ»
صحیح بخاری 1140
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ يُصَلِّي إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ» صحیح بخاری 1170
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھ لیتے۔

عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَقَالَتْ: «سَبْعٌ، وَتِسْعٌ، وَإِحْدَى عَشْرَةَ، سِوَى رَكْعَتِي الفَجْرِ» صحیح بخاری 1139
جناب مسروق بن اجدع نے، آپ نے کہا کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

حديث عائشة من رواية مسروق قال سألت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت سبع وتسع وإحدى عشرة سوى ركعتي الفجر رابعها حديثها من طريق القاسم عنها كان يصلي من الليل ثلاث عشرة منها الوتر وركعتا الفجر وفي رواية مسلم من هذا الوجه كانت صلاته عشر ركعات ويوتر بسجدة ويركع ركعتي الفجر فتلك ثلاث عشرة فأما ما أجابت به مسروقا فمرادها أن ذلك وقع منه في أوقات مختلفة فتارة كان يصلي سبعا وتارة تسعا وتارة إحدى عشرة الخ
کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بواسطہ مسروق جس میں سیدہ کا کہنا کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز سات اور نو رکعات ہوتی تھی"
اور سیدہ سے قاسم کی روایت جس میں صبح کی دو سنتوں سمیت تیرہ رکعات کا ذکر ہے ،
اور اسی سند سے صحیح مسلم کی روایت جس میں بتایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو دس رکعات قیام کے ساتھ ایک رکعت وتر اور دو رکعت صبح کی سنتیں پڑھا کرتے جو کل ملا کر تیرہ رکعت ہوتیں ،
اور جناب مسروقؒ کو سیدہ رضی اللہ عنہا نے جو بتایا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی۔) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات میں کبھی سات پڑھتے تو کبھی نو پڑھتے اورکبھی گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں :

وأما ما رواه الزهري عن عروة عنها كما سيأتي في باب ما يقرأ في ركعتي الفجر بلفظ كان يصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين فظاهره يخالف ما تقدم فيحتمل أن تكون أضافت إلى صلاة الليل سنة العشاء لكونه كان يصليها في بيته أو ما كان يفتتح به صلاة الليل فقد ثبت عند مسلم من طريق سعد بن هشام عنها أنه كان يفتتحها بركعتين خفيفتين وهذا أرجح في نظري (فتح الباری جلد 3 ص21 )
اور امام زہری ؒ کی بواسطہ سید عروہ ؒ روایت کہ نبی اکرم ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھا کرتے ، اور پھر جب اذان سنتے تو دو رکعت سنت کی پڑھتے ،
تو بظاہر یہ روایت سابقہ روایات کے خلاف ہے ،
اس کے معنی کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دو احتمال ذکر کئے ہیں کہ: ہو سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے 13 کا عدد ذکر کرتے ہوئے عشا کی سنتیں بھی شامل کر لی ہوں کیونکہ انہیں بھی گھر ہی ادا کیا کرتے تھے ،
اور یہ بھی احتمال ہے کہ سیدہ عائشہ نے 13 کے عدد میں قیام اللیل سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ہلکی پھلکی رکعات بھی شامل کر لی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل سے قبل ادا کیا کرتے تھے۔
((ان دو رکعتوں کا بیان صحیح مسلم (767 )کی ایک حدیث میں ہے :

عن عائشة، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل ليصلي، افتتح صلاته بركعتين خفيفتين» ))
پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرے نزدیک یہ توجیہ زیادہ بہتر ہے۔۔۔" فتح الباری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی مکمل نماز کی تعداد ذکر ہوئی ہے اور یہی مفہوم علمائے کرام نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے سمجھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس کے معنی کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دو احتمال ذکر کئے ہیں کہ: ہو سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے 13 کا عدد ذکر کرتے ہوئے عشا کی سنتیں بھی شامل کر لی ہوں کیونکہ انہیں بھی گھر ہی ادا کیا کرتے تھے ،
اور یہ بھی احتمال ہے کہ سیدہ عائشہ نے 13 کے عدد میں قیام اللیل سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ہلکی پھلکی رکعات بھی شامل کر لی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل سے قبل ادا کیا کرتے تھے۔
((ان دو رکعتوں کا بیان صحیح مسلم (767 )کی ایک حدیث میں ہے :

عن عائشة، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل ليصلي، افتتح صلاته بركعتين خفيفتين» ))
پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرے نزدیک یہ توجیہ زیادہ بہتر ہے۔۔۔" فتح الباری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی مکمل نماز کی تعداد ذکر ہوئی ہے اور یہی مفہوم علمائے کرام نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے سمجھا ہے۔
پہلا احتمال زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس سے 11 رکعات حصر والی روایت سے تعارض ختم ہوجاتا ہے ، دوسرے احتمال کے مطابق بہر صورت تعارض باقی رہتا ہے ، کیونکہ رکعات چاہے خفیف ہوں یا طویل ، بہر صورت رکعات ہی ہوتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
نماز تہجد کی زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعات سنت سے ثابت ہیں ،
اس ضمن میں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی واضح حدیث ہے :
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» (صحیح بخاری ۱۱۴۷ )
ترجمہ :
جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔
آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے :
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ،
سیدہ فرماتی ہیں : کہ نبی کریم ﷺ نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر (کا وقت شروع ہونے تک ) گیارہ رکعت پڑھتے تھے ،
ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے ، اور ایک رکعت نماز وتر پڑھتے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح بخاری میں دوسری روایت میں ( تھجد کی رکعات سات اور نو بھی مروی ہے
عن مسروق ، قال:‏‏‏‏ سالت عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل فقالت:‏‏‏‏"سبع وتسع وإحدى عشرة سوى ركعتي الفجر".
ترجمہ :
جناب مسروق نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
فقد ذكر الحافظ ابن حجر رحمه الله : أن قول عائشة : ( إن صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل سبع وتسع ) مرادها أن ذلك وقع في أوقات مختلفة ‘‘
کہ یہاں سیدہ عائشہ نے جو نبی پاک کی رات کی نماز سات اور نو رکعات بتائی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کبھی کبھی سات اور کبھی نو رکعات پڑھتے تھے ،۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سات اور نو سے کم کے متعلق درج ذیل حدیث مبارکہ پڑھیں
عن نافع عن ابن عمر قال:‏‏‏‏ سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ما ترى في صلاة الليل؟ قال:‏‏‏‏"مثنى مثنى فإذا خشي الصبح صلى واحدة فاوترت له ما صلى وإنه كان يقول:‏‏‏‏ اجعلوا آخر صلاتكم وترا فإن النبي صلى الله عليه وسلم امر به".( صحیح بخاری )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (جبکہ) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے کہ رات کی نماز (یعنی تہجد) کس طرح پڑھنے کے لیے آپ فرماتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو دو رکعت کر کے پڑھ اور جب صبح قریب ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت اس ساری نماز کو طاق بنا دے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ رات کی آخری نماز کو طاق رکھا کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔‘‘
یعنی دو دو رکعت کرکے (گیارہ تک ) جتنی چاہ پڑھ لے ، مثلاً صحت کی خرابی ، یا وقت کی قلت کے سبب گیارہ رکعت تک نہیں پڑھ سکتا ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اسحاق سلفی صاحب : جناب نے اس عبارت کا ترجمہ یہ کیا ہے
أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔
یہاں سائل نے اماں جی سے کیفیت صلاۃ پوچھی تھی یا رکعات کی تعداد؟
جناب نے کس طرح ترجمہ کر دیا کہ (
كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم اسحاق سلفی صاحب : جناب نے اس عبارت کا ترجمہ یہ کیا ہے
أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔
یہاں سائل نے اماں جی سے کیفیت صلاۃ پوچھی تھی یا رکعات کی تعداد؟
جناب نے کس طرح ترجمہ کر دیا کہ (
كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔)
یہ کوئی اشکال والی بات نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جوابا رکعات کی تعداد بتائی ہے۔
 
Top