• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تہذیب کے گہرےگھاؤ

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
وطن عزیز یوں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اس کے اعلیٰ تعلیمی ادارے مخلوط تعلیم اور روشن خیالی کے اڈے ہیں، جہاں مغربی تہذیب کی جلوہ آرائیاں پوری آب و تاب سے نمایاں ہیں اور تہذیب کا دھارا اس قدر تیز ہے کہ چہرے اور سر کی عریانی سے آگے شرمناک کم لباسی کی وبا زوروں پر ہے مگر یہ سب کچھ ترقی اور تہذیب کے نام پر روا رکھا اور برداشت کیا جا رہا ہے۔ محمد جاوید کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اور والدین میں طلاق ہو چکی تھی۔ مس عفت امیر گھرانے سے تھی اور اسے ہر طرح کی آزادی تھی۔ دونوں نے نکاح کر لیا۔ محمد جاوید کو یونیورسٹی کی ڈگری مل گئی تھی۔ وہ ادھر ادھر کوشش کر کے کینیڈا چلا گیا۔ وہاں ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لی اور ایک فائیو سٹار ہوٹل کا منیجر بن گیا، پھر قسمت نے پلٹا کھایا اور اس نے بیوی کو کینیڈا بلوالیا اور جو کچھ جمع پونجی تھی، بیگم پہ خرچ کر کے اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دلا دی، خود ملازمت سے استعفاءدے دیا اور فرمانبردار شوہر بن کر ساری ساری رات اسے تھیس ٹائپ کر کے دیتا رہا۔ اس طرح بیگم ڈاکٹر بن گئی۔
لیکن یہاں سے جاوید کا دُکھ شروع ہوا۔ اس نے اب ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازمت کر لی تھی جہاں وہ ہوٹل کی منیجری سے زیادہ کما لیتا تھا۔ پھر بیگم کی فرمائش پر بہترین علاقے میں بہت بڑا گھر خرید لیا مگر ڈاکٹر بیوی اب ہر وقت اسے کم سٹیٹس کے طعنے دینے لگی۔ اس نے گھر اپنے نام کرانے اور بصورت دیگر طلاق پر اصرار کیا۔ جاوید نے انکار کیا تو وہ عدالت جا پہنچی۔ جاوید کا سر چکرا گیا اور عدالت جا کر اس فرہاد جدید نے بیان دے دیا کہ میں یہ مکان، اپنے حق سے دستبردار ہو کر ڈاکٹر عفت کے نام کرتا ہوں اور طلاق کے پرزور اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے طلاق دیتا ہوں۔ یوں بیگم کی مراد پوری ہو گئی اور یونیورسٹی کی خلوت گاہوں میں جنم لینے والا ”تہذیب نو کا سفر“ تمام ہوا۔ اسلامی اخلاق و آداب سے عاری ماحول میں پروان چڑھنے والے رشتے کا یہ انجام ہماری موجودہ تہذیب کا المیہ ہے۔
امریکہ میں مقیم ایک اور نوجوان اپنی شاندار ملازمت کا جھانسہ دے کر پاکستان سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کو بیاہ کر لے گیا۔ وہاں جا کر انکشاف ہوا کہ میاں کوئی معقول دھندا نہیں کرتا اور قیام بھی غیرقانونی ہے۔ بیوی صبر شکر کر کے نباہ کرتی رہی۔ پھر ایک روز چھاپہ پڑا اور پولیس میاں کو پکڑ کر لے گئی ۔ بمشکل ضمانت ہوئی تو وہاں کی سکونت چھو ڑکر دوسرے شہر منتقل ہو گئے۔ اس شہر میں گرین کارڈ ہولڈر انور نامی پاکستانی نوجوان سے روابط بڑھے تو دونوں نے ایک سکیم بنائی۔ گھر آ کر بیوی سے کہا کہ مجھے مجبوراً پاکستان جانا پڑ رہا ہے۔ میں تمہیں جھوٹ موٹ طلاق دے دیتا ہوں، تم انور سے شادی کر لو اور نیشنلٹی کے لئے اپلائی کر دینا۔ جب گرین کارڈ مل جائے تو انور سے طلاق لے کر مجھے بلا لینا۔ بیوی کو یہ ”سکیم“ پسند آئی، تاہم شوہر کے اصرار پر مان گئی۔ یوں وہ اور انور ”میاں بیوی“ بن گئے جبکہ ”اصلی“ شوہر پاکستان کھسک آیا۔ وہ یہاں بیوی کو گرین کارڈ ملنے کے دن گنتا رہا حتیٰ کہ مقررہ دن آیا اور بیوی کو خوشی خوشی فون کیا کہ فوراً طلاق لے کر میرے گرین کارڈ کے لئے اپلائی کر دو مگر اس نے جواب دیا کہ مجھے تم بے غیرت بن کر الاﺅ میں جلتا چھوڑ گئے مگر انور نے مجھے جس قدر خوشیاں دی ہیں، اس کے بعد مجھے تمہاری ضرورت نہیں اور تم اب پاکستان ہی میں اپنا مستقبل ڈھونڈو۔ حلالے کی یہ مثال بہت سوں کے لئے عبرتناک ہے۔
لاہور کی ایک گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کو امریکہ میں مقیم ایک شخص کی طرف سے والدین کی معرفت رشتے کی پیشکش ہوئی۔ بتایا گیا کہ لڑکا امریکہ میں ایئر پورٹ پر ایروناٹیکل انجینئر ہے اور خاصی معقول تنخواہ ہے۔ امریکہ اور پھر گرین کارڈ کی کشش میں زیادہ چھان بین کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ والدین نے ہاں کر دی اور ڈاکٹر صاحبہ کو دلہن بنا کر ہنسی خوشی امریکہ جانے والے طیارے پر بٹھا دیا گیا لیکن ڈاکٹر صاحبہ کے وہاں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد یہ انکشاف ہوا کہ میاں ایروناٹیکل انجینئر نہیں بلکہ ان کا سرتاج ایئرپورٹ پر خاکروب ہے۔ یہ سن کر دلہن کا جو حال ہوا سو ہوا، ادھر والدین سن کر سکتے میں آ گئے۔ انہوں نے بیٹی کو مجبور کرنا شروع کیا کہ طلاق لے لے مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میری قسمت یہی تھی۔
گزشتہ روز امریکی شہر نیوجرسی میں ایک پاکستانی خاتون کی شوہر کے ہاتھ قتل کی لرزہ خیز واردات سامنے آئی ہے۔ امریکی پولیس نے 27 سالہ نازش نورانی کے قتل کی فرد جرم اس کے شوہر کاشف پرویز پر عائد کر دی ہے۔ 26 سالہ کاشف پرویز نے اپنی اہلیہ پر حملہ کرنے کا اعتراف کر لیا۔ اس نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ سے ناراض تھا۔ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک ذمہ دار باپ نہیں ہے اور اس نے بچوں کو بتا دیا ہے کہ میں نے ان کی ماں کو ان سے دور کر دیا ہے۔
اب جو شخص خود کہتا ہے کہ وہ ذمہ دار باپ نہیں ہے، اس نے شادی گو یا محض نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے کی تھی اور وہ شادی کی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار نہیں تھا۔ وہ اہلیہ سے کیوں ناراض تھا، اس کا سبب نہیں بتایا جو بھی صورتحال تھی، انسانی قتل بہرحال گھناﺅنا جرم ہے اور سب سے بڑا ظلم اس نے اپنے معصوم بچوں کو یتیم کر کے ڈھایا ہے۔ بچے وہاں رل جائیں گے بلکہ عین ممکن ہے کسی مسیحی مشنری ادارے میں پل کر بڑے ہوں اور بارک حسین اوبامہ کی طرح ملحد ہو کر گمراہ عیسائی بن جائیں۔ کاش! سب مسلمان دین اسلام کی خالص اور سچی تعلیمات کو اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اولاد کی سیرت سازی پر بھرپور توجہ دیں۔ ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ اور صحابہ کرامؓ اور اسلاف کے نتھرے ستھرے کردار کی تابندہ مثالیں موجود ہیں جنہیں اپنا کرہم اپنی زندگی اور اولاد کا مستقبل سنوار سکتے ہیں مگر نام نہاد تہذیب کی پیداوار ہمارے نوجوانوں میں تو گوروں کے دیس جا بسنے کی دوڑ لگی ہے!
المیہ ہے کہ امت نے من حیث المجموع مغربی تہذیب سے ”ترقی“ کا وہ سبق پڑھ لیا ہے جو سراسر تنزلی اور تباہی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اب ہر کسی کا مشن یہ ٹھہرا ہے کہ ان کے بچے اس جدید تعلیم کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کریں جسے علامہ اقبال نے ”تعلیم کا تیزاب“ قرار دیا ہے۔ مادیت کی دوڑ میں اخلاق و آداب اور دینی اقدار بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے تربیت گاہوں کے بجائے قتل گاہیں بن گئے ہیں۔ اے کاش! کوئی عمر بن خطاب، کوئی ملک شاہ سلجوقی، کوئی اورنگزیب عالمگیر نظام حکومت ہاتھ میں لے اور ہماری نوجوان نسلوں کو مغربی تعلیم و تہذیب کے تیزاب سے بچا کر خالص اسلامی تعلیم و تہذیب کے پاکیزہ سانچے میں ڈھالنے کی بنیاد رکھ دے۔ کیا یہ باعث شرم نہیں کہ وہ لڑکیاں جنہیں امہات المومنینؓ، سیدہ فاطمہؓ، خولہؓ اسماؓ اُم سلیمؓ، ام عاصم، فاطمہ بنت عبدالملک جیسی عالی کردار خواتین کی پیروی کرنی تھی، وہ شوبز کی طرف لپکتی ہیں اور ان فاحشہ عورتوں کو اپنے لئے رول ماڈل قرار دیتی ہیں جو ان سے پہلے عریانی و اداکاری کے جوہر دکھا کر ”نام“ کما چکی ہوتی ہیں اور اپنے کالے کرتوتوں کو وہ اللہ کے فضل و کرم سے منسوب کر ڈالتی ہیں۔ العیاذباللہ! مغربی تہذیب کا سب سے بڑا ہتھیار میڈیا ہے جو معروف فاحشہ عورتوں کو دیویاں بنا کر پیش کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے جس ہالی وڈ ایکٹریس کو خواتین کے لئے سفیر مقرر کر رکھا ہے وہ برسوں سے ایک اداکار کے ساتھ بغیر نکاح کے رہ رہی ہے اور اس سے دو تین بچے بھی پیدا کر چکی ہے مگر عالمی سفیرہ کی حیثیت سے وہ افغانستان اور پاکستان آ کر مظلوم اور سیلاب زدہ خواتین کو اپنا درشن کرا چکی ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم ملتان سے اپنی خواتین کو جہاز بھر کر اس فاحشہ سے ملانے لے گئے تھے پہلے گرل فرینڈ ہونا ایک گالی کے مترادف تھا مگر اب یہ وبا پاکستان کے اونچے طبقے میں بھی پہنچ گئی ہے اور بعض نوجوان فخر سے اپنی گرل فرینڈ کا تعارف کرانے لگے ہیں۔ یوں معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے مگر حکمرانوں کو اپنے اقتدار اور لوٹ کھسوٹ سے فرصت نہیں۔ ہمارے ٹی وی چینل رات دن مغرب کے ہلاکت آفریں ایجنڈے کے تحت عریانی اور فحاشی اور تہذیبی شر پھیلانے میں لگے ہیں اور دین کے نام پر سیاست کرنے والے زعماءاس تہذیبی تباہی سے یکسر بے پروا ہیں۔ اے اللہ! ان کے دلوں کو پھیر دے۔



بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
___
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہت ہی متاثر کن تحریر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عریانی و فحاشی کے سیلاب سے محفوظ رکھے اور اس کے خلاف ہاتھ، زبان، قلم سے جہاد کرنے اور اس برائی کو دل سے برا سمجھ کر اجتناب کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین ۔
 
Top