• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تیس لاکھ کے قتل کا المیہ؟ (مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک)

ابو عمر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 06، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
101
پوائنٹ
0
انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حرمت کیا معنی رکھتی ہے ’ قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کردی ہے: مَن قَتَلَ نَفساً بِغَيرِ نَفسٍ اَو فَسَادٍ في الارضِ فَكَانَّما قَتَلَ النّاسَ جَمِيعًا (المائده 5:32)۔ "جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا’ اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کردیا"۔ مراد یہ ہے کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے’ یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں’ دس بیس بھی نہیں’ سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت 1971 ء میں مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے المیے اور بنگلا دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ 39 برسوں سے جاری ہے۔ آئیے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے عمل (16 دسمبر 1971) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔ مثال کے طور پر "مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی’ بھارت میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں’ ان کی گزر بسر بڑی اذیت ناک ہے’ انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے"۔ "پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی ماردیے ہیں"۔ دس( 10) لاکھ نہیں’ بیس(20)لاکھ نہیں’ تیس (30)لاکھ’ یہ بھی نہیں پینتیس(35) لاکھ ماردیے ہیں"۔ بلکہ "پچّاس(50) لاکھ سے زیادہ ماردیے ہیں" ـــــ"دو(2) لاکھ بنگالی عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا" ۔ " تین (3) لاکھ نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی" ـــــ 8 جنوري 1972 كو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعوی کیا: "بنگلہ دیش میں دس (10) لاکھ انسان مارے گئے ہیں"1۔

لیکن لندن سے براستہ دہلی’ ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ‘فہم’ اور ‘معلومات’ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا’ اور 10 جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعدموصوف نے کہا: " پینتیس (35) لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں"2 مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے پینتیس(35) لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: "تیس (30) لاکھ مارے گئے اور تین (3) لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (Rape) کی گئی" کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی’ عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفہ زندگی بنالیا۔

معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ((David Frast کو انٹرویو دیتے ہوئے جسے 18 جنوری 1972 ء کو نیو یارک ٹیلی ویژن نے ٹیلی کاسٹ کیا تھا ’ اس میں بھی شیخ مجیب نے تیس (30) لاکھ افراد کے قتل کا دعوی کیا تھا اس سے ایک روز قبل TIME میگزن کو انٹرویو میں مجیب نے بتایا تھا: "آج اگر ہٹلر زندہ ہوتا تو اپنی کارکردگی پر شرم سار ہوتا"۔(17 جنوری 1972) اور پھر تیس (30) لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے یا بنگالی لوک گیتوں کا حصّہ بن گیا’ جس کا دہرانا ہر کس و ناکس نے اپنے اوپر لازم کرلیا۔

اس تجزیے کے لیے ہمارا بیش تر انحصار خود بنگلا دیش کے تحقیق کاروں اور مغربی صحافیوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق کار اگر چہ پاکستان کے حامی نہیں ہیں’ مگر اس پروپیگنڈے پر بحث کے دوران میں وہ اپنے نتیجہ فکر کو ضرور قلم بند کرتے ہیں۔

پہلے اس منظر کو دیکھیے: مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی (Oriana Fallaci) لکھتی ہے: میں مجیب کے گھر( فروری 1972 میں) انٹرویو کرنے پہنچی ’ وہاں برآمدے میں پچّاس (50) افراد کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اندر اطلاع کیجیے۔ میری اس درخواست کے جواب میں وہاں کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے بلکہ خوف ناک انداز میں غرّاتے ہوے کہا: انتظار کرو۔ میں انتظار میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ’ دو گھنٹے’ تین گھنٹے’ چار گھنٹے گزرے’ حتی ٰ کہ رات کے آٹھ بج گئے۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے یہ کرشمہ رونما ہوا کہ مجھے مجیب کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی’ جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور دو کرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا اور باقی دونوں کرسیوں پر’ دو موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی تو کسی نے کوئی سلام کیا نہ میری آمد کا کوئی نوٹس لیا۔ میں حیران گم سم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھ جاؤ۔ میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹہ گئی اور تیزی سے اپنے ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی۔ لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ مجیب نے گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: ‘‘ جلدی کرو’ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں’ پاکستانیوں نے تیس (30) لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ 30 لاکھ’ 30 لاکھ’ 30لاکھ’’۔ میں حیران تھی کہ وہ کس طرح تیس (30) لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟ میں نے کہا: جناب وزیر اعظم ۔۔۔ ’’ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجاے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: ‘‘ انھوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے ماری ہیں۔ شوہر’ بیٹوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں ۔۔۔ دادا اور نانا اپنے پوتوں’ نواسوں کے سامنے ’ چچیاں’ چچوں کے سامنے ۔۔۔’’ میں نے فوراً کہا: جناب وزیر اعظم ۔۔۔ میں چاہوں گی ۔۔۔’’ مگر مجیب نے میری بات مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں وزیروں کی طرف رخ کرتے ہوے کہا: ‘‘ اس کو سنو’ یہ کیا چاہتی ہے؟ تمھیں کوئی حق نہیں چاہنے کا’ سمجھی’ جو میں کہ رہا ہوں وہی سچ ہے’’۔3

آئیے دیکھتے ہیں کہ اعداد و شمار کا اُتار چڑھاؤ کس طرح وجود میں آیا ہے؟ 7 جنوری 1972 کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے بنگلا دیش کے نئے وزیر ا طلاعات و نشریات شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتے سے اعلان کیا: دس(10) لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں’’۔ اسد چودھری کی نظم ‘رپورٹ 1971 ان تمام واقعات و حوادث کی تفصیل پر مبنی قرار دی جانے لگی’ جس میں دعویٰ کیا گیا: ‘‘ہم کو آزادی کے لیے دس (10) لاکھ شہیدوں کا لہو دینا اور چالیس (40) ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی’’۔‘ 30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے’ کے مطابق: سابق بھارتی سپہ سالار جنرل مانک شا کے نزدیک: ‘‘ مجیب کے قول کے مطابق 30 لاکھ اور مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے مطابق: ‘‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستانی فوج نے دس (10) لاکھ افراد کو مارا’ لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوے کا تعلّق ہے کہ تیس (30) لاکھ مارے گئے’ ایک ناممکن سی بات ہے۔ مجیب منتظم کے بجاے ایک شورش پسند (ایجی ٹیٹر) انسان تھا’ جس نے ظلم کی داستان کو بڑھاوا دینے کے لیے تیس (30) لاکھ کا دعویٰ کیا’ حالانکہ مجیب کا یہ دعویٰ ناممکن سی بات ہے’ کیونکہ پاکستانی فوج کو بہ یک وقت ملک کے اندر اور ملک کی سرحدوں پر لڑنا پڑ رہا تھا’’۔4 اس سے قبل بنگلہ دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردار’ میجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے بھی دس (10) لاکھ کا عدد دہرایا’ حالانکہ اس کے لیے وہ کوئی تائیدی ثبوت تک نہ پیش کرسکا۔ اس جنگ کے حوالے سے ان تینوں جرنیلوں یعنی مانک’ اروڑا اور پیلٹ نے صرف دو لفظوں کا سہارا لیا ہے: ‘‘ یہ ایک معروف بات ہے’’ یا ‘‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ’’ ۔ یا ‘‘مجیب نے کہا’’ اتنے اہم معاملے پر ا یسی سہل انگاری پر مبنی اسلوب اختیار کرانا بذات خود غیر ذمے دارانہ رویہ ہے اور بددیانتی پر مبنی انداز ہے۔

بقول ڈاکٹر عبدالمومن چودھری: ‘‘ دراصل تیس(30) لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے روزنامہ پوربو دیش’ ڈھاکا ’کے مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ پراودا’ ماسکو’ کا نمائندہ متعینہ دہلی’ صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔پوربو دیش میں احتشام حیدر نے 22 دسمبر 1971 کو اداریہ "یحیی حکومت کو پھانسی دو" میں لکھا: "پاکستانی فوج نے تیس (30) لاکھ بنگالی اور دوسو (200) دانش ور مارے" ’ جب کہ اسی اخبار نے صرف ایک روز قبل یعنی 21 دسمبر 1971 کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر’ جسے سرخ رنگ کی سرخیوں سے مزین کیا گیا تھا’ یہ عنوان جمایا تھا: "بنگال کے کتنے لوگ مارے گئے؟" اور فیچر میں یہ بحث کی گئی: "بنگال میں ہر جگہ یہ سوال پوچھا جارہا ہے کتنے لوگ قتل ہوئے: 10’ 20’ 30’ 40 یا 50 لاکھ؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا"4۔ پھر ایک ہی رات گزرنے کے بعد وہ جواب کی ‘تلاش و تحقیق’ مکمل کرلیتا ہے اور اگلے روز یہی اخبار جواب دیتا ہے :"تیس (30) لاکھ سے کم نہیں" (پوربو دیش’ 22 دسمبر 1971) پھر اس خبر کو پراودا کا خصوصی نمایندہ دہلی’ اپنے مرکز ماسکو بھیجتا ہے’ جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے: "30 لاکھ سے زیادہ"۔ اور پھر پراودا کے حوالے سے 5 جنوری کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں میں خبر شائع کی جاتی ہے: "تیس (30) لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور آٹھ( سو بنگالی دانش وروں کو مارا گیا"۔یوں پندرہ روز میں ’ اور افراتفری کے عالم میں دو صحافی ایک افسانہ تراشنے میں پوری طرح کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر 10 جنوری 1972 کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ایر پورٹ پر اترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کردیا: "پاکستانیوں کے ہاتھوں پینتیس (35) لاکھ بنگالی مارے گئے اور تین (3) لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی"۔

اسی دوران میں خود بھارتی حکومت بھی بہ عجلت تمام کہ دیتی ہے :تیس (30) لاکھ افراد کو قتل کیا گیا"5۔ رابرٹ پاینی نے ا پنی کتاب Tragedy of Bangladesh مطبوعه ميكملن’ 1973’ نيويارك’ ميں اسی بات کو تحقیقی رنگ دینے کے لیے یہ افسانہ تراشہ: "22 فروری 1971 کو جرنیلوں کے ایک اجلاس میں صدر پاکستان جنرل یحیی خان نے کہا تھا:"تیس(30) لاکھ بنگالیوں کو ماردو تو امن ہماری جھولی میں ہوگا"6 یعنی ایک سال پہلے ہی جنرل یحیی نے قتل کی گنتی مکمل کرلی۔ یہاں سے وہاں تک 30 لاکھ کا عدد کس کس روپ میں گھڑا’ دکھایا اور پھیلایا گیا۔

جوہری کا نام بنگلا دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔ انھوں نے اپنی بنگلہ (زبان میں لکھی گئی) کتاب ‘30 لاکھ کا معمّہ 7’ میں لکھا ہے: "یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ آٹھ ماہ اور بارہ روز کی ایک گوریلا جنگ میں تیس(30) لاکھ انسان مارے جائیں’ اور یہ بات بھی وہم وگمان سے کوسوں دور ہے کہ اس دوران میں دولاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے 500 افراد کا انٹرویو کیا’ اور ان سے پوچھا ہے ‘آپ کے خاندان کے دور و نزدیک میں ’ یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گاؤں محلے میں’ کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ آپ بتاسکتے ہیں؟’ ان میں سے ہر فرد نے کہا:‘نہیں’۔ ممکن ہے وہ اپنے خاندان کے بارے میں ایسی بات بتاتے وقت شرماتے ہوں’ مگر گاؤں ’ محلے کے بارے میں گواہی دینے میں کسی فرد کی لیے کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا تھا۔البتہ چند بدکرداروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے’ مگر ان چند کو پھیلا کر دو (2) لاکھ بنادینا کیسے ممکن ہوا؟ پھر ملک بھر سے ان اعداد وشمار کو صرف ایک ہفتے میں فیصلہ کن شکل دینا کیٍسے ممکن ہوا؟ کس نے سروے کیا؟"8۔

ولیم ڈرومنڈ (William Drummond)’ نمائندہ خصوصی روزنامہ گارڈین9 ’ لندن’ رقم طراز ہے : "تیس(30) لاکھ افراد کا قتل ایک غیر حقیقی داستان سرائی ہے’ جسے دنیا بھر کے اخبارات میں اُچھالا گیا۔ میں نے بنگلا دیش کے بہت سے دورے کیے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے’ سیکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور اُوپر سے لے کر نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تیس(30) لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجے کی مبالغہ آمیزی ہے"10۔ ایک اور صحافی پیٹرگل ’ نمائندہ خصوصی روزنامہ ٹیلی گراف’ لندن نے مورخہ 16 أپریل 1973 کی اشاعت میں لکھا ہے:"شیخ مجیب کا یہ دعویٰ کہ 30 لاکھ بنگالی افراد مارے گئے ایک ایسی مبالغہ آمیز کہانی ہے’ جس میں نقصان کو 20 فی صد زیادہ’ بلکہ 50’ 60 فی صد بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا ہے"۔

عبد المہیمن ضلع نواکھالی کے معروف سیاسی رہنما’ 1970 میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور شیخ مجیب الرحمن کی طویل عرصے تک قریبی دوست رہے ہیں۔ انھوں نے 1990 میں یحیی مرزا کو انٹرویو میں بتایا: "بنگلا دیش کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں نے ضلع نواکھالی کے طول وعرض میں’ پولیس اسٹیشنوں اور یونین کونسلوں میں گھوم پھر کر بڑی باریک بینی سے 1971 کے مقتولین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ جن کے مطابق ضلع نواکھالی میں سات ہزار سے کم افراد مارے گئے اور اگر [متحده پاکستان کے حامیٍ] مقتول رضاکاروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے سات ہزار سے ہرگز زائد نہیں بنتی۔ یاد رہے کہ 1971 میں بنگلا دیش کے اضلاع کی تعداد 19 (انیس) تھی اور تمام اضلاع اس جنگ سے برابر کی سطح پر متاثر نہیں ہوئے تھے’ جب کہ نواکھالی وہ ضلع تھا جو جنگ سے بہت زیادہ متاثر اضلاع میں شمار ہوتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ضلع نواکھالی سے جمع کردہ اعداد و شمار کو پیش نظر رکھیں اور تمام اضلاع میں مقتولین کی تعداد کا اوسط نکالیں تو اس کے باوجود یہ تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے ہر گز زیادہ نہیں ہو سکتی"11۔

بنگلا دیش کے محقق پروفیسر نعیم مہیمن نے اپنے مقالہ Accelerated Media and 1971 میں اس پر بحث کی ہے۔ (لکھتے ہیں): "تیس لاکھ کے اس عدد کو بنگلا دیش کی سرکاری تاریخ میں تقدیس اور ایمان کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔یوں برسوں سے اس تعداد کو کسی بھی دائرہ تحقیق میں اعتراض اور تجزیاتی چیلنج سے یک سر آزاد سمجھ لیا گیا ہے۔ البتہ حالیہ زمانے کے تجزیہ کاروں نے دلیل دی ہے کہ پاکستانی فوج کے لیے ان سات مہینوں کی عرصے میں تیس لاکھ انسانوں کو قتل کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ اگر یوں انسانوں کو مارنا مقصود ہوتا تو اُس کے لیے باقاعدہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ مثال کےطور پر جرمنی کے آمر فیوہر ر ہٹلر نےمبینہ طور پر اپنی پوری قوت سے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو چھے برسوں میں مارا’ اور اس کے لیے باقاعدہ قتل گاہیں بنائی گئیں۔گیس چیمبرز اور لانے لے جانے کے لیے سڑکوں کے جال سے استفادہ کیا گیا۔مگر پاکستان میں نسل کُشی (ethnic (cleansing کا کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا۔ اس لیے ان چند مہینوں میں’ مشینی قتل گاہوں ’ نسل کُشی کے کیمپوں کی عدم موجودگی میں تیس(30) لاکھ انسانوں کو مارنا ناممکن ہے"12۔

یاد رہے 1971 میں مشرقی پاکستان کی آبادی چھے کروڑ سنتانوے لاکھ چوہتّر ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔[شيخ مجيب كي زبان ميں ساڑھے سات کروڑ – اضافہ: یوسف ریاض] جہاں اڑسٹھ (6 ہزار تین سو پچاسی دیہات اور چار(4) ہزار چارسو بہتّر یونین کونسلیں تھیں۔ جیسے ہی تیس (30) لاکھ کا نمبر فضا میں اُچھالا گیا تو متعدد آزاد ذرائع نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ثابت کیا کہ یہ اعداد وشمار سخت مبالغہ آمیز ہیں۔۔۔۔۔۔ ضلع جیسور’ کلکتہ کی جانب مشرقی پاکستان کا ایک سرحدی ضلع ہے۔ اس کے معروف سماجی رہنما خوندکر ابوالخیر بتاتے ہیں: "ہمارے پورے ضلعے سے بیس (20) پچیس (25) سے زیادہ افراد فرار ہوکر بھارت نہیں گئے۔ خود میرے گاؤں اور مضافات کے دیہات میں پاکستانی فوج سے کہیں ایک جگہ بھی لڑائی کے واقعے اور کسی قسم کے قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی"13۔

اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ آزاد ذرائع ہی نہیں بلکہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی بھی لاکھوں کے اعداد وشمار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔دوسری طرف خود بنگلا دیش حکومت نے ساتویں(7 )جنوری 1972 سے مقتولین آزادی کے اعداد وشمار اکٹھا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی۔ سولہویں(16) جنوری 1972 کو شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسمبلی کے ارکان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ‘مقتولین آزادی’ کی تفصیلات اکٹھی کریں’ اور دو ہفتے کے اندر اندر عوامی لیگ کے مرکزی دفتر میں جمع کرائیں14۔ پھر شیخ مجیب نے 29 جنوری 1972 کو سرکاری سطح پر ایک بارہ (12)رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی’ جس کے سربراہ عبدالرحیم ’ ڈی آئی جی پولیس تھے’ جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمّے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور ا ملاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شر پسندوں کی نشان دہی کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی "اپنی رپورٹ 30 اپریل 1972 تک لازماً پیش کردے’ اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے"۔

"عبدالرحیم انکوائری کمیٹی" نے بڑی تن دہی سے کام کیا’ ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس أسٹیشن سے رابطہ کرکے کوائف جمع کیے’ اور انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین’ لندن کا نمایندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ جو مستقل طورپر ڈھاکا میں مقیم تھا’ بیان کرتا ہے: "مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے صرف دو(2) ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہوسکیں کہ: انھیں پاکستانی افواج نے مارا تھا"15۔ تاہم جب انکوائری کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے بنگلا دیش میں اس ساڑھے آٹھ ماہ کی بغاوت ’ خانہ جنگی’ بلوے’ لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں چھپّن (56) ہزار سات سو ترسٹھ (56763(افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جاسکے ہیں۔بقول ولیم ڈرومنڈ: "جوں ہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہوجانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہوگیا’ اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پہ دے ماری اور غصّے میں چلاّنے لگا: "میں نے تیس لاکھ کہے ہیں تیس (30) لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو’ جو میں نے کہ دیا ہے ’ بس وہی سچ ہے"16۔

بنگلا دیش قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمایندہ آگے چل کر رقم طراز ہے : "مجیب نے مقتولین کی مدد کے لیے دو(2) ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا’ اس کے حصول کے لیے بہتر(72) ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں’ جن میں پچّاس (50) ہزار مقتولین کے لیے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا’ اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں"17۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپگنڈا مشین کے مطابق: "بھارت میں پناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے"۔ اس طرح جن لوگوں نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں’ ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوں میں مارے گئے تھے"18۔

شیخ مجیب نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی’ وہ ذہنوں کو مسموم کرتی رہی۔ پھر 15 جون 1993 کو بنگلادیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیاءالرحمن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہ کر بحث کو دوبارہ زندہ کردیا کہ: "عوامی لیگ نے تیس(30) لاکھ مقتولین آزادی کا افسانہ گھڑا’ جب کہ حقیقت اس کے صرف دس فیصد کے قریب ہے"۔ اس پر عوامی لیگ کے رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا: "یہ بات ہم نے اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں"۔ پھر ہندو رکن اسمبلی شدھن گھشوشیکھر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اٹھایا: "اکبر حسین اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں"۔ تب اکبر حسین نے کہا:" بنگلا دیش بننے کے بعد حکومت نے ا علان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتا ہوا ہے ’ وہ گھرانہ متعلقعہ فرد کا نام پتا بتا کر دو(2) ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کی جواب میں بنگلا دیش بھر سے صرف تین (3) لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ أگر وہ تیس لاکھ ہوتے تو لازماً وہ بھی نام درج کراتے ’ مگر ایسا نہیں ہوا’ باقی ستائیس لاکھ کہاں گئے؟" جب یہ جواب ملا تو پورے ایوان پہ خاموشی چھاگئی"19۔

مجیب حکومت سقوط مشرقی پاکستان کے فوراً بعد نقصان’ اموات اورجرائم کے ذمہ داران کے تعیّن کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہوگئی۔ یوں 22 دسمبر 1971 کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کردیا تھا: "جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری 1972 میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروئنز کمپلیکس قائم کردیا گیا’ جس کا سربراہ مجیب کے رشتے دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلکس کے لیے ریڈیو’ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈہایم نے ہیروینز کمپلیکس کا دورہ بھی کیا’ لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لیے بھی آباد نہ ہوسکا۔ کتنی بنگالی ہیروینیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ عدد معلوم نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لیے کوئی قابل ذکر ثبوت فراہم نہ ہوسکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کردیا گیا"20۔

ازاں بعد تحریک آزادی ہند کے معروف رہنما اور بنگالی نژاد سبھاش چندر ابوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس (بھارتی بنگالی اور ہارورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے جون 2005 میں اپنے تحقیقی مقالے Problem of using Women as Weapons in Recounting the Bangladesh War (بنگلا دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار استعمال) میں لکھا ہے: "ہمیں سچ بتانا چاہئے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو’ مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یک سر نظر انداز کرکے’ صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ بنایا"۔ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز ’ لاہور نے دوسری جولائی 2005 کو اپنے اداریے New Impartial Evidence (نیا غیر جانب دارانہ ثبوت) میں لکھا: "پروفیسر شرمیلا بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر زیادتی کا نشانہ بنایا"۔

یہاں ایک مرتبہ پھر اطالوی صحافی خاتون آریا نا فلاسی کے مکالمے سے رہنمائی لیتے ہیں’ جس نے اپریل 1972 میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو لیا’ جو اس کی کتاب Interview With History میں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: "مجیب الرحمن ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کردے’ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتلِ عام میں تیس (30) لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے۔ وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بہ شمول اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ 30لاکھ لوگ مارے گئے ’ 30لاکھ قتل ہوگئے۔بھارتیوں نے کہا تھا کہ دس (10)لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب نے پہلے دس لاکھ کو بیس(20) کیا اور پھر تیس(30) بنادیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کرکے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ساٹھ (60) سے ستّر (70) ہزار تھی’ جب کہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق تیس (30) ہزار لوگ مارے گئےتھے’ اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریباً پچّاس (50) ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ چاہے اس ملٹری ایکشن کا کوئی بھی جواز پیش کیا جائے’ میں حالات کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کررہا۔ میں محض چیزوں کو حقیقت کی طرف واپس لارہا ہوں’ کیونکہ پچّاس ہزار اور تیس لاکھ لوگوں کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔۔۔۔ مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں [بھارتی وزیر اعظم] اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔ انھوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا’ تاکہ اسے جواز بنا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کرسکے’ لیکن جب ہم نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ [بنگالی] پناہ گزینوں کی تعداد چیک کرکے بتائے تو بھارت نے ہمارے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اگر ایک کروڑ کا عدد ٹھیک تھا تو انھیں اقوام متحدہ سے چیک کرانے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اصل بات ایک کروڑ یا دو کروڑ کی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آرمی آپریشن میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی تعداد غلط ہو’ لیکن پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں میرے پاس موجود اعداد وشمار غلط نہیں تھے۔ ہمیں اچھی طرح پتا تھا کہ کتنے لوگ مشرقی پاکستان سے بھارت گئے تھے۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں زیادتیاں ہوئی تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف چار کیس رپورٹ ہوئے’ اگر ان کو دس سے ضرب دیں ان کیسوں کی تعداد چالیس (40) ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے"21۔ڈھاکا ہی سے نعیم مہیمن کے مطابق: "1971 میں بھارت جانے والے بنگالیوں کی تعداد بارہ (12) لاکھ سے ایک کروڑۃ بلکہ دو کروڑ تک بیان کی جاتی رہی۔ پھر ایک فلم ساز لیرلیون نے اس خود ساختہ کہانی پر فلم بناکر انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا"22۔

واشنگٹن میں بنگلا دیش کے سفیر شمشیر ایم چودھری نے کہا: "1971 کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیز اعداد وشمار گردش کررہے ہیں’ ان میں غلطی اور شرارت دونوں چیزوں کا عنصر شامل ہے۔ سچ کی تلاش اور الزام تراشی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلادیش اور پاکستان کی حکومتیں مل کر ایک کمیشن مقرر کریں’ جو اس المیے کے دوران پیداشدہ حقائق کو ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کرے"23۔

یہاں پر دوبارہ اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک فرد کی جان اور ایک فرد کی آبرو اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ پوری قوم کی جان اور آبرو۔ مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں لیکن اعداد وشمار کے بل پر جو طوفان اُٹھا کر اس خطہ ارضی کے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کرکے باہمی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہورہی ہے ’ اسے زیر بحث لانا اور ریکارڈ درست کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس مختصر مضمون میں اسی بڑے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اوّلاً یہ کہ جھوٹ گھڑ کر’ کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی آگ سلگائی جارہی ہے’ جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلا یا جاتا ہے’ نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔

ثانیاً یہ کہ اس مبالغہ آمیز طرزِ بیان نے بالخصوص ان لوگوں کو جو’ 1971 میں پاکستان کے لیے سربکف تھے’ وہ ‘پاکستانی ولاّلی’ کی ‘الزام’ اور اس پروپیگنڈے کی تپش میں خود اور ان کی آئندہ نسلیں جل رہی ہیں۔ اس طرح ان کے لیے اپنے مادروطن میں زندگی بسر کرنا ایک اذیّت ناک تجربہ بنادیا گیا ہے۔

ثالثاً یہ کہ جھوٹ کے بل بوتے پر جس تاریخ کو گھڑا اور پھر ‘حقیقت’ کے طور پر ذہنوں ’ نصابوں اور کتابوں میں نقش کیا گیا ہے’ ان کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ آج بنگلا دیش کی مقتدر حکومت اور پالیسی ساز ادارے اسی خانہ ساز نفرت میں اپنے ‘اقدام’ کا جواز پاتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ الفاظ فضا میں تحلیل ہوکر تو نہیں رہ گئے۔ ان الفاظ نے اپنا ایک اثر دکھایا ہے’ اور بنگلا دیش کی نئی نسل کے ذہن میں پاکستان اور مسلمان کی ایک تصویر بھی بنائی ۔ ایسی تصویر جسے خود پاکستان کی لسانی قوم پرست تحریکیں پسند کرتی ہیں اور ان کے سایے میں اپنی منزل دیکھتی ہیں۔ اسی تصویر کے خدوخال کو گہرا اور نمایاں کرنے کے لیے بھارتی لابی’ ہندو کمیونیٹی کی مؤثر قیادت اور وہ اشتراکی لابی سرگرم عمل رہی ہے’ جسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بلکہ اس کے نزدیک سب خرابیوں کا مرکز پاکستان ہی ہے۔

تاریخ کا یہ ایسا بوجھ ہے جسے بحیثیت قوم’ اہلِ پاکستان کو اُٹھانا ہے’ مگر بوجھ اتنا ہونا چاہئے جتنا ہے۔ ایسا بے حد وحساب بوجھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا’ اسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ گناہ پہ ندامت اور چیز ہے ’ لیکن ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے کچلا جانا دوسری بات ہے۔ آئے’ دیکھتے ہیں ’ اعداد وشمار اور پروپگنڈے کی یہ آگ کس طرح لمحہ بہ لمحہ بھڑکتی ہوئی یہاں تک پہنچی کہ آج عالمی پروپگنڈے اور تاریخی و ادبی لٹریچر کا حرفِ معتبر بن گئی ہے’ مگر جواب اور وضاحت کے لیے کوئی سامنے نہیں آتا۔ اس طرح یک طرفہ پروپگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی زیر بحث نہیں ہے کہ اس قتل و غارت کا کیا جواز تھا اور کیا نہیں تھا۔ اور یہ بھی جائزہ نہیں پیش کیا جارہا کہ 25 اور 26 مارچ 1971 کی درمیانی شب شروع ہونے والے ‘آپریشن سرچ لائٹ’ کی کیا قانونی حیثیت تھی ۔ اسی طرح یہ جائزہ بھی پیش نہیں کیا جارہا کہ یکم مارچ سے 25 مارچ 1971 تک کتنے ہزار غیر بنگالی ’ پنجابی’ پٹھان پاکستانیوں’ خصوصاً بہار سے ہجرت کرکے آنے والے عام غریب مسلمان مردوں’ عورتوں اور بچوں پر کیا بیتی؟ (صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے:"3 اور 4 مارچ کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروز شاہ کالونی کو جہاں اُردو بولنے والے رہتے تھے اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر سات سو (700) گھروں کو آگ لگادی’ جو عورتیں اور بچے آگ سے بچنے کے لیے باہر نکلے ان کو گولی مار دی جاتی۔ اس صرف ایک جگہ پر لگ بھگ دو (2) ہزار افراد کو زندہ جلا مارا گیا"24) اور آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد وہ مسلسل مقامی مسلح افراد اور بھارتی شر پسندوں کے کس کس ظلم کا نشانہ بنائے گئے؟ ملاحظہ کیجیے:" مشرق پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہ بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ ہیں"25۔"مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ غیر بنگالیوں کے گھروں کو جلایا’ ان کے مردوں اور عورتوں کو مارا اور ان کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ میمن سنگھ کی صرف ایک مسجد میں پندرہ سو (1500) ایسی غیر بنگالی بیوہ عورتوں نے پناہ لی’ جن کے شوہروں کو ذبح کرکے ماردیا گیا"26۔

پھر مشرقی پاکستان کے بعد ان غیر بنگالی اور ان کے ساتھ ‘متحدہ پاکستان’ پر یقین رکھنے والے بنگالی شہریوں پر کیا گزری؟ دنیا بھر کے اخبارات ان مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون کے آنسوؤں سے لکھی مظلومیت کی گواہی پیش کرتے رہے’ مگر ان کی تائید و ہمدردی میں کہیں سے نحیف سی آواز بھی نہیں اُبھری’ کہیں کوئی پتّا تک نہیں ہلا۔ یاد رہے آرمی آپریشن کے بعد غیر بنگالی پاکستانیوں کو عوامی لیگ اور بھارتی پشت پناہی سے تیار کردہ مکتی باہنی (جس کا مؤثر آپریشنل حصّہ بھارتی فوج پر مشتمل تھا) کو پاکستانی فوج اور غیر بنگالیوں کے قتل عام کے لیے اذن ِ عام مل گیا’ جس نے 16 دسمبر سے پہلے اور پھر بعد میں خون کی ہولی کھیلی۔ اور ساتھ ہی 1972 کے دستور بنگلا دیش میں یہ تحفظ بھی لے لیا کہ اس آزادی کی تحریک میں حصّہ لیتے وقت آزادی کے سپاہیوں نے جو کچھ بھی کیا ہے’ اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ گویا اُن کے ہر قسم کے قتل و غارت گری کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقی معنوں میں قتلِ عام عوامی لیگ ہی نے کیا تو اسے مبالغہ آمیزی قرار نہیں دینا چاہیے۔ نعیم مہیمن اپنے مقالے Accelerated Media and 1971 میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں: "ایک طرف بھارتی فوج نے اپنی سرزمین پر مکتی باہنی کے لیے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگی جوانوں اور چین نواز سوشلسٹوں کو گوریلا تربیت دی’ تو دوسری جانب 1971 کے اسی بحران سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے عوامی لیگ کی تائید اور اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل کے لیے انھی سوشلسٹ گوریلوں کو منظم طریقے سے ذلیل کرنا اور انجام تک پہنچانا شروع کردیا۔[اضافه از مضمون نگار: پھر أپنی پروپیگنڈا مشینری سے قتل کے ان واقعات کا سارا الزام پاکستان اور متحدہ پاکستان چاہنے والے بنگالیوں کے کھاتے میں ڈال دیا] اس شاطرانہ چال کو سمجھنے کے لیے عوامی لیگ کے اس رویے کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ 16 دسمبر 1971 کے بعد جوں ہی عوامی لیگ کو اقتدار پر قبضہ مضبوط کرنے کا موقع ملا تو اس نے ڈیڑھ دو سال کے اندر اندر سوشلسٹ بنگالیوں کو نہ ختم ہونے والی گندی جنگ کی بھینٹ چڑھایا" (ص۔ وہ عوامی لیگ جس کے چہرے پر 1971 اور 1972 میں بے گناہ غیر بنگالیوں کے خون کے دھبے صاف نظر آتے ہیں: "اسی عوامی لیگ نے اپنے پہلے دور ا قتدار میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے (Hill tract ) میں آباد بدھ مت کے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا"27۔ مگر امن کے کسی دیوتا نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ان بے چاروں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ عوامی لیگ کی طرح برہمن نواز نہیں تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یکم مارچ 1971 کے بعد ہزاروں کی تعداد مین غیر بنگالیوں کا قتل ِ عام بھلادینے والی بات تھی؟ اور کیا اس خون کا جواب لینے والا اس دنیا میں کوئی نہیں؟

کیا پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پاکستان توڑنے ’ پاکستانیوں کو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لیں؟

اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پہ لگ رہا ہے تو وہی بھگتے’ ایسا بے رخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم ازکم تحقیقی اداروں کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپگنڈا پورے بنگلا دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کررہا ہے۔ جماعت اسلامی’ مسلم لیگ’ پاکستا ن جمہہوری پارٹی اور نظام اسلام پارٹی کے وہ لوگ جو متحدہ پاکستان چاہتے تھے اور جائز طور پر ‘ایک پاکستان’ چاہتے تھے ’ آج وہی لوگ اس نفرت کی آگ میں جلائے جارہے ہیں۔ اگر ریاست اور ریاست کے اداروں کا یہی رویہ رہا تو مستقبل میں خود اس پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے نکلتے وقت لوگ کیا سوچیں گے؟

یہ مقالہ ماہنامہ ترجمان القرآن’ لاہور’ جنوری 2011 میں شائع ہوا اٍسے جزوی اڈیٹنگ کے ساتھ یہاں پیش کیا گیا

سلیم منصور خالد
 
Top