• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تیمم کے بارے میں ایک سوال

شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
اور اگر اس حالت میں وضو ء کرنا ممکن نہیں تھا ،تو تیمم ہوسکتا تھا۔خواہ کسی کی مدد سے ہی کیوں نہ ہوتا
شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ ۔۔۔

ایک سوال ہے کہ: ایک آدمی کی کمر میں سک پڑگئی ہے (کمر اکڑ گئی ہے) اور وہ جھک نہیں سکتا، لیکن کوئی اور شخص اسے وضو کرا سکتا ہے ۔۔۔
تو کیا اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے پانی ہونے کے باوجود؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک سوال ہے کہ: ایک آدمی کی کمر میں سک پڑگئی ہے (کمر اکڑ گئی ہے) اور وہ جھک نہیں سکتا، لیکن کوئی اور شخص اسے وضو کرا سکتا ہے ۔۔۔
تو کیا اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے پانی ہونے کے باوجود؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا(سورۃ التغابن 16)
پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ "
تشریح :
مؤاخذہ صرف اس حد تک ہوگا جہاں تک انسان کا اختیار ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ انسان
گناہوں سے اجتناب اور اوامر کی تکمیل میں اسی حد تک مکلف ہے جس قدر اس کی استطاعت ہے
اسی مضمون کو سورة بقرہ میں یوں بیان فرمایا۔ (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ٢٨٦؀ ) 2 ۔ البقرة :286) '' یعنی جس مقام پر انسان مجبور ہوجائے وہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہے کہ جہاں انسان استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ انسان اپنے متعلق کوئی غلط اندازہ قائم کرلے۔ مثلاً وہ یہ فرض کرلے کہ فلاں کلام میری استطاعت سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اسکی استطاعت میں ہو۔ تو ایسی بات پر اس کا ضرور مواخذہ ہوگا۔
کیونکہ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔
(تیسیر القرآن لعبدالرحمن کیلانیؒ)

اور نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
«ما نهيتكم عنه فاجتنبوه وما أمرتكم به فأتوا منه ما استطعتم (2) » متفق على صحته
میں جس کام ، چیز سے تمہیں منع کروں تو اس سے ممکن حد تک اجتناب کرو ، اور جس کام کے کرنے کا حکم دوں تو جہاں تک ہوسکے اس پر عمل کرو "
لہذا احکام کی پیروی حسب استطاعت کرنا ضروری ہے ،
لہذااگر کود وضوء نہ کرسکتا ہو تو کسی کی مدد سے وضوء کرنا چاہیئے ، تیمم سے کام نہیں چلانا چاہیئے ، ہاں اگر وضوء کسی صورت ممکن نہ ہو تو تیمم کرے ۔
امام ابن قدامہ حنبلیؒ " المغنی " میں فرماتے ہیں :
[فَصْلٌ الْمُعَاوَنَة عَلَى الْوُضُوءِ]
فَصْلٌ: وَلَا بَأْسَ بِالْمُعَاوَنَةِ عَلَى الْوُضُوءِ؛ لِمَا رَوَى الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، أَنَّهُ «أَفْرَغَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وُضُوئِهِ.» رَوَاهُ مُسْلِمٌ،

یعنی وضوء میں مدد ،تعاون لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،کیونکہ اس کے جواز میں سیدنا مغیرہ کی حدیث منقول ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ، کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو وضوء کروایا ۔ (المغنی جلد اول )
مکمل حدیث درج ذیل ہے :
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: " بَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، إِذْ نَزَلَ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ جَاءَ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنْ إِدَاوَةٍ كَانَتْ مَعِي، فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ " (صحیح مسلم )
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور حاجت سے فارغ ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا ڈول سے جو میرے پاس تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسح کیا موزوں پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیث نمبر: 629
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: يَا
مُغِيرَةُ، خُذْ الإِدَاوَةَ، فَأَخَذْتُهَا، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَذَهَبَ يُخْرِجُ يَدَهُ مِنْ كُمِّهَا، فَضَاقَتْ عَلَيْهِ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ أَسْفَلِهَا، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ مَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ صَلَّى ".

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مغیرہ! چھاگل لے لے پانی کی“، میں نے لے لی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے یہاں تک کہ میری نظر سے غائب ہو گئے اور حاجت سے فارغ ہوئے پھر لوٹ کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جبہ پہنے ہوئے تھے شام کا، تنگ آستینوں کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا اپنے ہاتھ آستینوں سے باہر نکالنا وہ نکل نہ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے سے ہاتھوں کو نکال لیا، پھر میں نے وضو کا پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا جیسے نماز کے لئے وضو کرتے ہیں، پھر مسح کیا موزوں پر، پھر نماز پڑھی۔

عُرْوَةُ ابْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي مَسِيرٍ، فَقَالَ لِي: أَمَعَكَ مَاء؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَنَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَمَشَى حَتَّى تَوَارَى فِي سَوَادِ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَ، فَأَفْرَغْتُ عَلَيْهِ مِنَ الإِدَاوَةِ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُخْرِجَ ذِرَاعَيْهِ مِنْهَا، حَتَّى أَخْرَجَهُمَا مِنْ أَسْفَلِ الْجُبَّةِ، فَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ أَهْوَيْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّيْهِ، فَقَالَ: دَعْهُمَا، فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ، وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میں نے کہا: جی
ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سے اترے اور چلے یہاں تک کہ اندھیری رات میں نظروں سے چھپ گئے، پھر لوٹ کر آئے تو میں نے پانی ڈالا ڈول سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ دھویا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبہ اون کا پہنے ہوئے تھے تو ہاتھ آستینوں سے باہر نہ نکال سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے سے ہاتھوں کو باہر نکالا اور دھویا اور سر پر مسح کیا۔ پھر میں جھکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دے۔ میں نے ان کو طہارت پر پہنا ہے۔“ اور مسح کیا ان دونوں پر۔
اور سنن ابن ماجہ (392 ) میں ہے کہ :
عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، قَالَتْ: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِيضَأَةٍ، فَقَالَ: " اسْكُبِي، فَسَكَبْتُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَذِرَاعَيْهِ، وَأَخَذَ مَاءً جَدِيدًا فَمَسَحَ بِهِ رَأْسَهُ مُقَدَّمَهُ، وَمُؤَخَّرَهُ، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ".
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا برتن لے کر آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی ڈالو“ ۱؎، میں نے پانی ڈالا، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے اور نیا پانی لے کر سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا مسح کیا، اور اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة ۵۰ (۱۲۷)، سنن الترمذی/الطہارة ۲۵ (۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۶۱)، سنن الدارمی/الطہارة ۲۴ (۷۱۷) (حسن)
(سند میں شریک القاضی سئ الحفظ ضعیف راوی ہیں، اس لئے «مَائً جَدِيداً» کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۱۱۷- ۱۲۲)

اور سنن ابن ماجہ میں دوسری روایت ہے کہ :
عن صفوان بن عسال، قال: «صببت على النبي صلى الله عليه وسلم الماء في السفر والحضر في الوضوء»
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر و حضر میں کئی بار وضو کرایا »
حدیث نمبر (391 )
سنن ابن ماجہ کی اس روایت کی اسناد ضعیف ہے تاہم اوپر مسلم شریف والی روایات اس کی تائید کرتی ہے "
ان روایات سے وضوء میں دوسری کی مدد لینے کا جواز واضح ہے ، یعنی اگر کسی وجہ سے وضوء میں کسی سے مدد و تعاون لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں : چُک میں اتنی بے بسی نہیں ہوتی کہ بندہ وضوء بھی نہ کرسکے ، بالخصوص آج کل وضوء کیلئے مخصوص جگہ اور ٹوٹیاں وغیرہ ذرائع نے آسانی پیدا کردی ہے ،
اگر کوئی اور جسمانی عارضہ نہ ہو تو ( کمر درد اور چُک میں ) ڈیکلوران انجکشن یا ٹیبلٹ اصل دوا کا نام( diclofenac sodium)
یا میتھی کوبال انجکشن وغیرہ ( لیکن معالج کے مشورہ کے بعد )سے کافی افاقہ ہوسکتا ہے ۔ ان شاء اللہ تعالی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
پانی اور مٹی پاک کرنے والے ہیں یہ نص سے ثابت ہے۔
جب ان دونوں پر دسترس نہ ہو تو نماز کیوں کر پڑھ سکتا ہے؟
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بلاطہارت نماز پڑھنے پر سخت وعید ہے۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
تمام تر کوشش کے باوجود کسی صورت وضوء کیلئے پانی ،یا تیمم کیلئے مٹی نہ مل سکے تو جس حال میں ہو اسی حال میں نماز پڑھ لے ،
ان شاء اللہ نماز ہوجائے گی ،اور دہرانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔
پانی اور مٹی پاک کرنے والے ہیں یہ نص سے ثابت ہے۔
جب ان دونوں پر دسترس نہ ہو تو نماز کیوں کر پڑھ سکتا ہے؟
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بلاطہارت نماز پڑھنے پر سخت وعید ہے۔
شرع میں طہارت حاصل کرنے کے صرف دو ذرائع (پانی اور مٹی) بیان ہوئے۔ ان کی عدم موجودگی میں طہارت حاصل نہیں ہو سکتی اور طہارت کے بغیرنماز نہیں پڑھی جاسکتی۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شرع میں طہارت حاصل کرنے کے صرف دو ذرائع (پانی اور مٹی) بیان ہوئے۔ ان کی عدم موجودگی میں طہارت حاصل نہیں ہو سکتی اور طہارت کے بغیرنماز نہیں پڑھی جاسکتی۔
جی واقعی شرع میں طہارت کے دو ہی طریقے منقول ہیں ، وضوء یا تیمم ۔
لیکن ان کیلئے قادر ہونا بدیہی اور شرعی حقیقت ہے جو ناقابل انکار ہے ،
اسی لئے اہل علم نے عدم قدرت پر اجتہادی طور پر مختلف حکم لگائے ہیں ،
اوپر میری جس پوسٹ سے آپ نے اقتباس لیا ، وہاں مفتی صاحب نے کئی فقہاء کرام کے مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں ،
آپ کو ان میں جو اقرب ، و صحیح لگے وہ لے لیں ،
وقال ابن القيم رحمه الله: وحالة عدم التراب كحالة عدم مشروعيته ولا فرق، فإنهم صلوا بغير تيمم لعدم مشروعية التيمم حينئذ فهكذا من صلى بغير تيمم لعدم ما يتيمم به فأي فرق بين عدمه في نفسه وعدم مشروعيته، فمقتضى القياس والسنة أن العادم يصلي على حسب حاله، فإن الله لا يكلف نفسا إلا وسعها، ولا يعيد، لأنه فعل ما أمر به، فلم يجب عليه الإعادة، كمن ترك القيام والاستقبال والسترة والقراءة لعجزه عن ذلك فهذا موجب النص والقياس. اهـ من حاشية ابن القيم على تهذيب سنن أبي داود.

وفي المسألة أقوالٌ أخرى سوى هذا القول الذي رجحناه، وقد بين ابن قدامة مذاهب العلماء في هذه المسألة، ورجح أن من عدم الطهورين صلى حسب حاله ، ولا تلزمه الإعادة ولو وجد الماء في الوقت فقال ما عبارته: وإن عدم بكل حال صلى على حسب حاله . وهذا قول الشافعي ، وقال أبو حنيفة والثوري والأوزاعي لا يصلي حتى يقدر، ثم يقضي،لأنها عبادة لا تسقط القضاء، فلم تكن واجبة، كصيام الحائض . وقال مالك: لا يصلي ولا يقضي، لأنه عجز عن الطهارة ، فلم تجب عليه الصلاة ، كالحائض . وقال ابن عبد البر: هذه رواية منكرة عن مالك. وذكر عن أصحابه قولين : أحدهما كقول أبي حنيفة والثاني يصلي على حسب حاله ،
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
جی واقعی شرع میں طہارت کے دو ہی طریقے منقول ہیں ، وضوء یا تیمم ۔
لیکن ان کیلئے قادر ہونا بدیہی اور شرعی حقیقت ہے جو ناقابل انکار ہے ،
اسی لئے اہل علم نے عدم قدرت پر اجتہادی طور پر مختلف حکم لگائے ہیں ،
ان دو طہارت کے طریقوں پر قادر ہوگا تبھی وہ طہارت حاصل کر پائے گا وگرنہ نہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے طہارت کے بغیر نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ شائد اس پر وعید ہے۔ آثار سے پتہ چلتا ہے کہ طہارت پر قدرت تو درکنار طہارت کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہ ہونے کے سبب نماز نہ پڑھی گئی۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
اوپر میری جس پوسٹ سے آپ نے اقتباس لیا ، وہاں مفتی صاحب نے کئی فقہاء کرام کے مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں ،
آپ کو ان میں جو اقرب ، و صحیح لگے وہ لے لیں ،
کسی اہلحدیث کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوال کا مشورہ دے۔
 
Top