• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین دن سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرنا !

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے شادی کی اور وہ ایک صالح نوجوان تھے۔ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ ان کے والد عمرو ان کے گھر گئے تاکہ ان کی بیوی سے ان کا حال معلوم کریں کہ وہ کس طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ بیوی نے کہا: وہ اچھے آدمی ہیں، ہم نے ایک ساتھ ابھی تک بستر میں رات نہیں گزاری ہے۔ یہ سن کر عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ عبداللہ بن عمرو خود روایت کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ نے کہا: ''مجھے معلوم ہوا کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور ساری رات تلاوت کرتے ہو۔ میں نے کہا، ہاں یہ بات سچ ہے یا رسول اللہ، لیکن اس سے بھلائی کے علاوہ اور میرا کوئی مقصود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا، تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ داؤد نبی اللہ کی طرح روزے رکھو کہ وہ بڑے عبادت گزار تھے۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ، داؤد کا روزہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھتے تھے۔ مزید فرمایا کہ ایک مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے کہا، میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، بیس دن میں ختم کر لو۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، تو دس دن میں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، اچھا تو سات دن میں ختم کیا کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو۔ تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔'' (بخاری، کتاب الصوم، باب: حق الجسم فی الصوم)-

اسلاف میں اگر کسی نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کیا -تو یا تو اس نے اجتہادی خطاء کی یا پھر بدعت کا ارتکاب کیا -(ویسے بھی جن سلف و صالحین و اصحاب کرام سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی روایات بیان کی جاتی ہیں- وہ بظاھر جھوٹی لگتی ہیں- سلف و صحابہ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ لوگوں کو بتاتے پھریں کہ ہم نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرکے ایک مارکہ سر کیا- ان سے ریا کاری کی امید نہیں کی جا سکتی)-

مذکورہ بالا حدیث نبوی میں بھی آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ، "تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے"- اول تو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا انسانی بساط سے باہر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطری جسمانی حدود بھی ہیں- مثلا سونا ، ضروریات حوائج، جنسی خواہشات وغیرہ- لیکن بلفرض ان حدود میں رہ کر کوئی شخص اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس پر جو الله کی طرف سے لوگوں کے یا خود الله رب العزت کے دیگر حقوق ہیں ان کو وہ پورا کرنے سے قاصر ہو گا- جیسے بیوی کے حقوق ، ہمسایے کے حقوق، لیں دین اور حلال کاروبار کرنا، فرض نماز وقت پر ادا کرنا، تہجد کی نماز پڑھنا، دیگر مسنون اذکار وغیرہ کرنا- ان سب کو وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کر
پاے گا اور الله کی بارگاہ میں گناہ گار ٹہرے گا- (واللہ اعلم)-

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے: (عربی میں اس حدیث کا متن تلاش کر رہا ہوں)-

"دین میں سختی مت برتو - اگر تم دین میں سختی برتو گے تو یہ دین تو پر غالب آ جائے گا- اور تم اس کا مقابلہ نہ کرسکو گے"-

الله سب کو ہدایت دے (امین )-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسلاف میں اگر کسی نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کیا -تو یا تو اس نے اجتہادی خطاء کی یا پھر بدعت کا ارتکاب کیا -(ویسے بھی جن سلف و صالحین و اصحاب کرام سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی روایات بیان کی جاتی ہیں- وہ بظاھر جھوٹی لگتی ہیں- سلف و صحابہ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ لوگوں کو بتاتے پھریں کہ ہم نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرکے ایک مارکہ سر کیا- ان سے ریا کاری کی امید نہیں کی جا سکتی)-
آپ جیسے شتر بے مہار کا یہی حال ہونا چاہیے۔
اجتہادی خطا پھر بدعت اور پھر روایات ہی جھوٹی بنادیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے۔
مذکورہ بالا حدیث نبوی میں بھی آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ، "تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے"- اول تو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا انسانی بساط سے باہر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطری جسمانی حدود بھی ہیں- مثلا سونا ، ضروریات حوائج، جنسی خواہشات وغیرہ- لیکن بلفرض ان حدود میں رہ کر کوئی شخص اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس پر جو الله کی طرف سے لوگوں کے یا خود الله رب العزت کے دیگر حقوق ہیں ان کو وہ پورا کرنے سے قاصر ہو گا- جیسے بیوی کے حقوق ، ہمسایے کے حقوق، لیں دین اور حلال کاروبار کرنا، فرض نماز وقت پر ادا کرنا، تہجد کی نماز پڑھنا، دیگر مسنون اذکار وغیرہ کرنا- ان سب کو وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کر
پاے گا اور الله کی بارگاہ میں گناہ گار ٹہرے گا- (واللہ اعلم)-
اس زمانے میں بھی اسے لوگ موجود ہیں جو ایک ایک رات میں قرآن مکمل ختم کرلیتے ہیں، انسانی جاہل ہو تو خود کو لاعلم سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے، ہر وہ چیز جو کھوپڑی میں نہ آسکے، اس کا انکار کرنے والی بیماری سے ہی انکار حدیث پروان چڑھا ہے۔
آپ نے جو سب قباحتیں گنوا دی ہیں، کیا اعتکاف کے دس دنوں میں ایسا نہیں ہوتا؟ انسان ان سب کاموں سے کٹ نہیں جاتا؟ توپھر اعتکاف بیٹھنا بھی بدعت ہوا، اور اس کی روایتیں جھوٹی ہوئیں !
نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے: (عربی میں اس حدیث کا متن تلاش کر رہا ہوں)-
"دین میں سختی مت برتو - اگر تم دین میں سختی برتو گے تو یہ دین تو پر غالب آ جائے گا- اور تم اس کا مقابلہ نہ کرسکو گے"-
کہاں کی بات کہاں جا کر لگائی ہے، آپ کو کسی نے کہا ہے کہ ایک دن میں قرآن ختم کیا کریں؟ تشدد کی بدترین صورت میں تو خود آپ مبتلا ہورہے ہیں، کہ سلف صالحین کے واقعات کو اپنی عقل سے چھلنی کر رہے ہیں، اور اسے بدعت اور روایات کو جھوٹا تک کہہ رہے ہیں۔
اس تحکم و تہکم کے باوجود حال آپ کا یہ ہے کہ السلام علیکم صحیح لکھنا آپ کو نصیب نہیں ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ جیسے شتر بے مہار کا یہی حال ہونا چاہیے۔
اجتہادی خطا پھر بدعت اور پھر روایات ہی جھوٹی بنادیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے۔

اس زمانے میں بھی اسے لوگ موجود ہیں جو ایک ایک رات میں قرآن مکمل ختم کرلیتے ہیں، انسانی جاہل ہو تو خود کو لاعلم سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے، ہر وہ چیز جو کھوپڑی میں نہ آسکے، اس کا انکار کرنے والی بیماری سے ہی انکار حدیث پروان چڑھا ہے۔
آپ نے جو سب قباحتیں گنوا دی ہیں، کیا اعتکاف کے دس دنوں میں ایسا نہیں ہوتا؟ انسان ان سب کاموں سے کٹ نہیں جاتا؟ توپھر اعتکاف بیٹھنا بھی بدعت ہوا، اور اس کی روایتیں جھوٹی ہوئیں !

کہاں کی بات کہاں جا کر لگائی ہے، آپ کو کسی نے کہا ہے کہ ایک دن میں قرآن ختم کیا کریں؟ تشدد کی بدترین صورت میں تو خود آپ مبتلا ہورہے ہیں، کہ سلف صالحین کے واقعات کو اپنی عقل سے چھلنی کر رہے ہیں، اور اسے بدعت اور روایات کو جھوٹا تک کہہ رہے ہیں۔
اس تحکم و تہکم کے باوجود حال آپ کا یہ ہے کہ السلام علیکم صحیح لکھنا آپ کو نصیب نہیں ہے۔
محترم -

میں نے اوپر صحیح بخاری کی مستند حدیث پیش کی ہے جس میں نبی کریم کے فرمان کے مطابق سات دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی ممانعت ہے -(اور ایک روایت میں تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت ہے - صحیح ابن ماجہ )- اس کے باوجود اگر آپ مجھے شتر بے مہار، منکر حدیث، جاہل کے القابات سے نوازتے ہیں- تو دعا ہے کہ الله آپ کو ہدایت دے-

کفایت الله سنابلی صاحب مذکورہ تھریڈ کے "خلاصہ کلام" میں لکھتے ہیں "

http://forum.mohaddis.com/threads/ایک-رات-میں-ختم-قران-سےمتعلق-کچھ-روایات-کی-تحقیق.23742/

کم سے کم مقدار جس میں قران ختم کرنا صحابہ سے ثابت ہے وہ تین دن ہے ۔

اس سے کم دنوں میں یا ایک ہی دن یا ایک ہی رات میں قران مجید ختم کرنا کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے ۔
بلکہ صحابہ میں عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تین دن سے کم قران مجید ختم کرنے کی ممانعت منقول ہے چنانچہ:
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَير ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، قال: قال عبد الله: اقرؤا القرآن في سبع، ولا تقرؤه فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ، وَلْيُحَافِظِ الرَّجُلُ فِي يَوْمِهِ وَلَيْلَتِهِ عَلَى جزئه.[التفسير من سنن سعيد بن منصور - محققا 2/ 442 قال المحقق :سنده صحيح، والأعمش قد صرح بالسماع في رواية الفريابي]

آجکل کے بعض اہل حدیث علماء اس نظریے پر کار بند ہیں کہ اپنے مسلک کے آئمہ و مجتہدین اگر غلطی پر ہوں تو ان کو کوئی کچھ نہ کہے- لیکن مخالف مسلک کے آئمہ و مجتہدین اگر وہی غلطی کریں تو اس کی تشہیر و تنقیص سب پر لازم ہے- آجکل احناف و اہل تشعیوں کے طرح روایات پرستی کی بنیاد پر آئمہ و مجتہدین کے بارے میں "معصوم عن الخطاء" کا عقیدہ رکھنا اب آپ جیسے اہل حدیثوں کا شیوہ بنتا جا رہا ہے-الله ہدایت دے (آمین) -

بہر حال میں نے پھر بھی آئمہ سلف سے حسن ظن رکھتے ہوے یہ بات کہی کہ سلف و صالحین کی اجتہادی غلطیاں ایک طرف- لیکن ان سے یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں اس بات کی تشہیر کریں کہ انہوں نے اتنے اتنے دنوں میں قرآن ختم کیا- ورنہ دوسرے صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ راوی کو کس طرح پتا چلا کہ فلاں قاری یا امام نے تین دن سے کم یا زیادہ میں قرآن کریم ختم کیا (جب تک کہ قاری خود اس بات کا ذکر لوگوں سے نہ کرے) ؟؟

باقی رہا آپ کہ یہ اشکال کہ "کیا اعتکاف کے دس دنوں میں ایسا نہیں ہوتا؟ انسان ان سب کاموں سے کٹ نہیں جاتا؟؟" تو اس تھریڈ کا عنوان "تین دن سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرنا" ہے- اس میں رمضان کا ذکر نہیں ہے- یہ الگ بات ہے کہ اعتکاف میں بھی سب پر یہی نبوی اصول لاگو ہوتا ہے کہ "جس نے تین دن سے کم میں قرآن کو ختم کیا اس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں یعنی اس نے اسے سمجھ کر نہیں پڑھا (صحیح سنن ابن ماجہ)" -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے اوپر صحیح بخاری کی مستند حدیث پیش کی ہے جس میں نبی کریم کے فرمان کے مطابق سات دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی ممانعت ہے -(اور ایک روایت میں تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت ہے - صحیح ابن ماجہ )-
یہ حدیث تو بالکل واضح ہے، لیکن اس میں یہ حکم استحباب کے لیے ہے، اور یہ استحباب کے لیے کیوں ہے؟ کیونکہ سلف صالحین کی کثیر تعداد اس سے کم میں قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ اگر یہ حرمت کے لیے ہوتا تو ایک آدھے شخص کو تو غلطی لگ سکتی ہے، ایک جماعت کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے باوجود اگر آپ مجھے شتر بے مہار، منکر حدیث، جاہل کے القابات سے نوازتے ہیں- تو دعا ہے کہ الله آپ کو ہدایت دے-
آپ کو منکر حدیث اس بنیاد پر کہا ہے کہ آپ نے اپنی عقل میں نہ آنے والی بات کو جھوٹا کہا ہے، انکار حدیث یہی ہوتا ہے، اور کیا ہوتا ہے۔
شتر بے مہار اس لیے کہا کہ آپ نے ایک حدیث کو سامنے رکھ کر بڑے سے بڑا نتیجہ اخذ کرلیا، اور علما کی بات کو پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
کم سے کم مقدار جس میں قران ختم کرنا صحابہ سے ثابت ہے وہ تین دن ہے ۔
اس سے کم دنوں میں یا ایک ہی دن یا ایک ہی رات میں قران مجید ختم کرنا کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے ۔
یہ سنابلی صاحب کی تحقیق ہوگی۔ حضرت عثمان وغیرہ صحابہ کرام سے تین دن سے کم میں قرآن کریم پڑھنا ثابت ہے، اور تابعین میں تو کثیر تعداد ہے۔
آجکل کے بعض اہل حدیث علماء اس نظریے پر کار بند ہیں کہ اپنے مسلک کے آئمہ و مجتہدین اگر غلطی پر ہوں تو ان کو کوئی کچھ نہ کہے- لیکن مخالف مسلک کے آئمہ و مجتہدین اگر وہی غلطی کریں تو اس کی تشہیر و تنقیص سب پر لازم ہے- آجکل احناف و اہل تشعیوں کے طرح روایات پرستی کی بنیاد پر آئمہ و مجتہدین کے بارے میں "معصوم عن الخطاء" کا عقیدہ رکھنا اب آپ جیسے اہل حدیثوں کا شیوہ بنتا جا رہا ہے-الله ہدایت دے (آمین) -
پراپیگنڈے سے باز رہیں۔ یہاں کوئی مسلکی مسئلہ ہے ہی نہیں کہ آپ اس کی آڑ میں اپنی جہالت کو چھپانے کی کوشش کریں۔
بہر حال میں نے پھر بھی آئمہ سلف سے حسن ظن رکھتے ہوے یہ بات کہی کہ سلف و صالحین کی اجتہادی غلطیاں ایک طرف- لیکن ان سے یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں اس بات کی تشہیر کریں کہ انہوں نے اتنے اتنے دنوں میں قرآن ختم کیا- ورنہ دوسرے صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ راوی کو کس طرح پتا چلا کہ فلاں قاری یا امام نے تین دن سے کم یا زیادہ میں قرآن کریم ختم کیا (جب تک کہ قاری خود اس بات کا ذکر لوگوں سے نہ کرے) ؟؟
یہی تو آپ کی من مرضی اور شتر بے مہاری ہے۔ جس اصول سے آپ ان روایات کی تکذیب کر رہے ہیں، اس طرح تو بے شمار چیزوں کی تکذیب کرنا پڑے گی، صحابہ کرام و تابعین کی وہ تمام باتیں جو عامۃ الناس کی بجائے ان کے ذاتی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں، مثلا تہجد کا قیام، اللہ کے سامنے رونا گڑ گڑانا، گریہ زاری کرنا، لوگوں سے چھپا کر دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا۔
باقی رہا آپ کہ یہ اشکال کہ "کیا اعتکاف کے دس دنوں میں ایسا نہیں ہوتا؟ انسان ان سب کاموں سے کٹ نہیں جاتا؟؟" تو اس تھریڈ کا عنوان "تین دن سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرنا" ہے- اس میں رمضان کا ذکر نہیں ہے- یہ الگ بات ہے کہ اعتکاف میں بھی سب پر یہی نبوی اصول لاگو ہوتا ہے کہ "جس نے تین دن سے کم میں قرآن کو ختم کیا اس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں یعنی اس نے اسے سمجھ کر نہیں پڑھا (صحیح سنن ابن ماجہ)" -
آپ نے اپنی طرف سے ایک فضول بات کی تھی کہ اتنا قرآن پڑھنے کا مطلب ہے کہ وہ لوگ دنیا سے کٹ جاتے تھے، اپنے حقوق و فرائض کا خیال نہیں رکھتے تھے، لہذا یہ بات صحیح نہیں ہوسکتی۔
تو میں نے عرض کیا تھا کہ اعتکاف میں تو انسان واضح طور پر یہ کام کرتا ہے، تو کیا اعتکاف کے بھی آپ منکر ہوں گے؟ کہ سلف صالحین ایسا کام نہیں کرسکتے ، جس سے ان کی ذمہ داریوں متاثر ہوتی ہوں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ حدیث تو بالکل واضح ہے، لیکن اس میں یہ حکم استحباب کے لیے ہے، اور یہ استحباب کے لیے کیوں ہے؟ کیونکہ سلف صالحین کی کثیر تعداد اس سے کم میں قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ اگر یہ حرمت کے لیے ہوتا تو ایک آدھے شخص کو تو غلطی لگ سکتی ہے، ایک جماعت کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں ہے۔

آپ کو منکر حدیث اس بنیاد پر کہا ہے کہ آپ نے اپنی عقل میں نہ آنے والی بات کو جھوٹا کہا ہے، انکار حدیث یہی ہوتا ہے، اور کیا ہوتا ہے۔
شتر بے مہار اس لیے کہا کہ آپ نے ایک حدیث کو سامنے رکھ کر بڑے سے بڑا نتیجہ اخذ کرلیا، اور علما کی بات کو پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔

یہ سنابلی صاحب کی تحقیق ہوگی۔ حضرت عثمان وغیرہ صحابہ کرام سے تین دن سے کم میں قرآن کریم پڑھنا ثابت ہے، اور تابعین میں تو کثیر تعداد ہے۔

۔
یہ لنک پڑھ لیجئے -

http://www.urdumajlis.net/threads/4644/

میری طرف سے مزید اس موضوع پر آپ سے بحث و مباحثے کی گنجائش نہیں- الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 
Top