محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم و رحمت الله
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے شادی کی اور وہ ایک صالح نوجوان تھے۔ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ ان کے والد عمرو ان کے گھر گئے تاکہ ان کی بیوی سے ان کا حال معلوم کریں کہ وہ کس طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ بیوی نے کہا: وہ اچھے آدمی ہیں، ہم نے ایک ساتھ ابھی تک بستر میں رات نہیں گزاری ہے۔ یہ سن کر عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ عبداللہ بن عمرو خود روایت کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ نے کہا: ''مجھے معلوم ہوا کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور ساری رات تلاوت کرتے ہو۔ میں نے کہا، ہاں یہ بات سچ ہے یا رسول اللہ، لیکن اس سے بھلائی کے علاوہ اور میرا کوئی مقصود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا، تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ داؤد نبی اللہ کی طرح روزے رکھو کہ وہ بڑے عبادت گزار تھے۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ، داؤد کا روزہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھتے تھے۔ مزید فرمایا کہ ایک مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے کہا، میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، بیس دن میں ختم کر لو۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، تو دس دن میں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، اچھا تو سات دن میں ختم کیا کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو۔ تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔'' (بخاری، کتاب الصوم، باب: حق الجسم فی الصوم)-
اسلاف میں اگر کسی نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کیا -تو یا تو اس نے اجتہادی خطاء کی یا پھر بدعت کا ارتکاب کیا -(ویسے بھی جن سلف و صالحین و اصحاب کرام سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی روایات بیان کی جاتی ہیں- وہ بظاھر جھوٹی لگتی ہیں- سلف و صحابہ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ لوگوں کو بتاتے پھریں کہ ہم نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرکے ایک مارکہ سر کیا- ان سے ریا کاری کی امید نہیں کی جا سکتی)-
مذکورہ بالا حدیث نبوی میں بھی آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ، "تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے"- اول تو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا انسانی بساط سے باہر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطری جسمانی حدود بھی ہیں- مثلا سونا ، ضروریات حوائج، جنسی خواہشات وغیرہ- لیکن بلفرض ان حدود میں رہ کر کوئی شخص اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس پر جو الله کی طرف سے لوگوں کے یا خود الله رب العزت کے دیگر حقوق ہیں ان کو وہ پورا کرنے سے قاصر ہو گا- جیسے بیوی کے حقوق ، ہمسایے کے حقوق، لیں دین اور حلال کاروبار کرنا، فرض نماز وقت پر ادا کرنا، تہجد کی نماز پڑھنا، دیگر مسنون اذکار وغیرہ کرنا- ان سب کو وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کر
پاے گا اور الله کی بارگاہ میں گناہ گار ٹہرے گا- (واللہ اعلم)-
نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے: (عربی میں اس حدیث کا متن تلاش کر رہا ہوں)-
"دین میں سختی مت برتو - اگر تم دین میں سختی برتو گے تو یہ دین تو پر غالب آ جائے گا- اور تم اس کا مقابلہ نہ کرسکو گے"-
الله سب کو ہدایت دے (امین )-
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے شادی کی اور وہ ایک صالح نوجوان تھے۔ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ ان کے والد عمرو ان کے گھر گئے تاکہ ان کی بیوی سے ان کا حال معلوم کریں کہ وہ کس طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ بیوی نے کہا: وہ اچھے آدمی ہیں، ہم نے ایک ساتھ ابھی تک بستر میں رات نہیں گزاری ہے۔ یہ سن کر عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ عبداللہ بن عمرو خود روایت کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ نے کہا: ''مجھے معلوم ہوا کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور ساری رات تلاوت کرتے ہو۔ میں نے کہا، ہاں یہ بات سچ ہے یا رسول اللہ، لیکن اس سے بھلائی کے علاوہ اور میرا کوئی مقصود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا، تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ داؤد نبی اللہ کی طرح روزے رکھو کہ وہ بڑے عبادت گزار تھے۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ، داؤد کا روزہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھتے تھے۔ مزید فرمایا کہ ایک مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے کہا، میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، بیس دن میں ختم کر لو۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، تو دس دن میں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، اچھا تو سات دن میں ختم کیا کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو۔ تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے۔'' (بخاری، کتاب الصوم، باب: حق الجسم فی الصوم)-
اسلاف میں اگر کسی نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کیا -تو یا تو اس نے اجتہادی خطاء کی یا پھر بدعت کا ارتکاب کیا -(ویسے بھی جن سلف و صالحین و اصحاب کرام سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی روایات بیان کی جاتی ہیں- وہ بظاھر جھوٹی لگتی ہیں- سلف و صحابہ سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ لوگوں کو بتاتے پھریں کہ ہم نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرکے ایک مارکہ سر کیا- ان سے ریا کاری کی امید نہیں کی جا سکتی)-
مذکورہ بالا حدیث نبوی میں بھی آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ، "تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اور تمھارے جسم کا بھی حق ہے"- اول تو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا انسانی بساط سے باہر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطری جسمانی حدود بھی ہیں- مثلا سونا ، ضروریات حوائج، جنسی خواہشات وغیرہ- لیکن بلفرض ان حدود میں رہ کر کوئی شخص اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس پر جو الله کی طرف سے لوگوں کے یا خود الله رب العزت کے دیگر حقوق ہیں ان کو وہ پورا کرنے سے قاصر ہو گا- جیسے بیوی کے حقوق ، ہمسایے کے حقوق، لیں دین اور حلال کاروبار کرنا، فرض نماز وقت پر ادا کرنا، تہجد کی نماز پڑھنا، دیگر مسنون اذکار وغیرہ کرنا- ان سب کو وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کر
پاے گا اور الله کی بارگاہ میں گناہ گار ٹہرے گا- (واللہ اعلم)-
نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے: (عربی میں اس حدیث کا متن تلاش کر رہا ہوں)-
"دین میں سختی مت برتو - اگر تم دین میں سختی برتو گے تو یہ دین تو پر غالب آ جائے گا- اور تم اس کا مقابلہ نہ کرسکو گے"-
الله سب کو ہدایت دے (امین )-