• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین روزہ ختم نبوت سیمینار

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تین روزہ ختم نبوت سیمینار

(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
لاہور میں ممتاز اہل حدیث مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات، وسن پورہ کے تحت تین روزہ ’’ختم نبوت سیمینار‘‘ اس وقت آخری مراحل میں ہے۔ اس تفصیلی پروگرام میں نامور اہل حدیث علما اور اکابرین نے تحفظ ختم نبوت پر اپنے قمیتی خیالات اور تحقیقات سے خواتین وحضرات کو مستفید فرمایا۔ اہم خطابات میں مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، مولانا ڈاکٹر سہیل حسن، مولانا عبد المالک مجاہد، علامہ حافظ ابتسام الہی ظہیر، قاری صہیب احمد میر محمدی، ڈاکٹر عبید الرحمن محسن، راقم الحروف، مولانا خاور رشید بٹ، مولانا عبد القدوس سلفی، مولانا عطاء الرحمن علوی، مولانا عبد الخالق دارالسلام حفظہم اللہ اور خواتین مقررات میں بانی مدرسہ ہذا مفسر قرآن مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی چاروں داعی دختران محترمہ حافظہ فوزیہ کیلانی، محترمہ حافظہ عطیہ انعام، محترمہ پروفیسر ثریا علوی، محترمہ رضیہ مدنی، شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کی دختر ڈاکٹر زاہدہ المسلمہ، اور بہت سے مقررین ومقررات نے خطاب کیا۔ جبکہ مولانا حفظ محمد شریف اور مولانا حافظ مسعود عالم حفظہما اللہ موسم کی خرابی کی بنا پر طے شدہ پروگرام کے باوجود شرکت نہ کرسکے۔ راقم کو پروگرام میں شرکت کرکے خطاب کرنے اور انتظامات دیکھنے کا موقع ملا۔ مرد وخواتین کی کثیر تعداد، نامور اہل حدیث علما وخطباء کی بھرپور شرکت، اور مرد وخواتین حاضرین کے استفادہ کے لئے وسیع تر انتظامات، موضوعات اور خطبات کی وسعت وتنوع اور ان میں پیش کئے جانے والے قیمتی افکار کی بنا پر یہ سیمینار ایک ممتاز حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ماضی قریب میں ختم نبوت کے موضوع پر اس قدر وسیع پروگرام نظر نہیں آتا۔ اس پروگرام کے مبارک انعقاد پر بطور خاص محترم مولانا عبد القدوس سلفی، مدرسہ ہذا کے ناظم مولانا محمد شعیب(فاضل مدینہ یونیورسٹی)، ڈاکٹر زاہدہ المسلمہ، اور مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کے چاروں بیٹے (جو مدرسہ ہذا کے انتظامات مشترکہ طور پر انجام دیتے ہیں) پروفیسر مولانا نجیب الرحمن کیلانی، ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی، ڈاکٹر شفیق الرحمن کیلانی، انجیئر عتیق الرحمن کیلانی اور مولانا کیلانی کی چاروں بیٹیاں حفظہم اللہ الجمیع وبارک فی جہودہم المبارکہ انتہائی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ انہوں نے یہ پروگام منعقد کرکے اہل حدیث جماعت کی طرف سے اپنا قیمتی فریضہ بلکہ قرض ادا کر دیا ہے۔ پروگرام ہذا کی تفصیلات اوور اس میں کئے جانے والے خطابات آئندہ دنوں میں مجموعہ جات، اور جماعتی رسائل کی صورت میں عوام کے سامنے پیش ہوتے رہیں گے۔ ہم اس مبارک اور اہم پروگرام جو وقت کی اہم ترین ضرورت تھا، کے کامیاب انعقاد پر جملہ منتظمین کو تہہ دل سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مبارک عمل پر ان کو اجر جزیل عطا فرمائے۔
مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات کے انتظام وانصرام اور اس میں ہونے والے حالیہ سیمینار میں مذکورہ افراد کے ساتھ شیخ وسیم الدین، شیخ منیب احمد، شیخ نبیل احمد اور ان کی ہمشیرگان محترمات باجی مصباح نعیم اور مدرسہ ہذا کی اساتذات وطالبات کا کردار بھی قابل تعریف ہے، انہی حضرت وخواتین کی مساعی سے خیر وبرکت اور رشد وہدایت کے یہ مراکز جاری وساری ہیں جس کی لاہور میں فی الوقت متعدد برانچیں کام کررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر جزیل عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام نیک کاموں کو قبول ومنظور فرمائیں اور اس کا صدقہ جاریہ اس مدرسہ کے بانیان اور خادمین کو دنیا وآخرت میں عطا فرمائیں۔
لاہور میں ہونے والے تاریخی ’’ختم نبوت سیمنار‘‘ میں ممتاز اہل حدیث علماے کرام کے خطابات کی اصل افادیت تو ان کے سامعین اور مستفیدین ہی سمجھتے ہیں، تاہم دو روز میں ہونے والے خطابات کے بارے میں غالب تاثر یہی ہے کہ وہ انتہائی قیمتی معلومات پر مشتمل تھے اور ممتاز اہل حدیث علما کی اس میں شرکت اس کی بین دلیل ہے۔ راقم الحروف نے ’’فتنہ قادیانیت کی تردید میں اہل حدیث علما کے کردار‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی، جبکہ دوسری مرتبہ مجھے ’’قادیانیوں کے لئے اسلامی شعائر کی ممانعت کی فقہی وقانونی حیثیت‘‘ پر اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع ملا۔ اہل حدیث علما کے رد قادیانیت میں شاندار کردار کو بیان کرنے کے بعد اپنے بعض تاثرات میں اس تحریر میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
(1) تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنہ قادیانیت کی تردید میں اہل حدیث کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے، سرخیل اہل حدیث شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا کفر قادیانی پر سب سے پہلا فتوی، اس پر 200 علما کے دستخط، ان کے تین شاگردانِ رشید مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا محمد بشیر سہسوانی اور قاضی سلیمان منصور پوری کا آغاز میں ہی شاندار تحریری اور مناظرانہ کردار اس میدان میں اہل حدیث کی قیادت کی بین دلیل ہے۔ پھر شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کا لقب فاتح قادیان، اور ان سے مرزا کا مباہلہ بھی اس کی کافی دلیل ہیں کہ مرزائیوں سے اصل مقابلہ اہل حدیث اعیان واکابر نے ہی کیا۔ اس کے بعد مولانا امرتسری کا جاری کردہ مجلہ مرقع قادیانی1907ء ، اخبار اہل حدیث 1903ء اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کا اخبار تنظیم اہل حدیث 1932ء تردید قادیانیت کے لئے وقف ہوکر رہ گئے اور اہل حدیث علما کی درحنوں کتب منظر عام پر آئیں۔
(2) قیام پاکستان کے بعد پہلے عوامی مرحلہ پر 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا جسٹس منیر کمیشن میں قائدانہ کردار جبکہ باقی علما اور وکلا لاجواب ہوگئے تھے، اور سید غزنوی نے کمیشن میں یہ ثابت کردیا تھا کہ قادیانی مسلم فرقہ نہیں بلکہ گمراہ اور کافر ہیں۔ (دیکھئے: منیرکمیشن انکوائری رپورٹ) اور اس موقع پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے شانہ بشانہ حافظ عبد القادر روپڑی کے بڑے بھائی مولانا محمد اسمعیل روپڑی رحمہم اللہ کا عدیم المثال داعیانہ کردار اہل حدیث کی تاریخ کی زینت ہیں۔ مولانا محمد اسمعیل روپڑی کی اس دور کی ایمان افروز تقریروں کے سامنے سید عطاء اللہ شاہ بحاری کی خطابت بھی ماند پڑگئی تھی۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں مولانا محمد یوسف انور حفظہ اللہ کی تازہ کتاب)
(3) رد قادیانیت کے اہم ترین قانونی مرحلے پر 1973ء میں فیصل آباد کے علماے اہل حدیث کا شاندار کردار بھی یہ بتاتا ہے کہ ان کے احتجاج اور مطالبے پر ہی ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ وجود میں آئی۔ جس کے پہلے ناظم مالیات مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر میاں فضل حق رحمہ اللہ اور مولانا محمد یوسف انور اس کے ذیلی سیکرٹری جنرل بنے۔ قومی اسمبلی میں جب رد قادیانیت کا مقدمہ لڑا گیا تو اہل حدیث علما مولانا محمد ابراہیم کمیرپوری اور مولانا محمد اسمعیل ذبیح رحمہم اللہ راولپنڈی کے مدرسہ راجہ بازار میں تمام مکاتب فکر کے علما کو تیاری کرایا کرتے تھے۔ اس وقت تک دیوبندی علماء کی کیفیت یہ تھی کہ مفتی محمود قومی اسمبلی میں اپنے پیش کردہ دلائل کے حوالے پیش نہ کرسکے اور قومی اسمبلی میں مرزا ناصر احمد کا رنگ جم رہا تھا کہ مولانا محمد ابراہیم کمیرپوری نے دستاویزی ثبوت پیش کرکے، قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور اس کے بعد قادیانی قومی اسمبلی سے کافر قرار پا گئے۔ اس موقع پر اہل حدیث علما وخطبا علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، مناظر اسلام حافظ عبد القادر روپڑی، مولانا عبد اللہ گورداسپوری، مولانا محمد حسین شیخوپوری وغیرہ کی قیادت میں ملک بھر میں ختم نبوت پر سب عوام کو یکجان کردیا گیا۔
(4) رد قادیانیت کا چوتھا مرحلہ 1984ء سے 1993ء کا ہے۔ جس میں تکفیر قادیانیت کے بعد اس کے عملی تقاضوں کو پورا کیا گیا، امتناع قادیانیت آرڈیننس میں قادیانیت کی تبلیغ کی ممانعت کے ساتھ قادیانیوں کے لئے اسلامی شعائر استعمال کرنا قابل سزا جرم قرار پایا۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ء کے بعد اسی سال وفاقی شرعی عدالت اور پھر بعد کے سالوں میں سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران مسلسل جدوجہد ہوئی۔ یہ مرحلہ اہل حدیث علما کی توجہ کا متقاضی ہے کہ اہل حدیث کے مطالبے اور جدوجہد پر بننے والی عالمی مجلس تحفظ نبوت کی قیادت جب دیوبندی علما کے ہاتھ میں گئی تو پہلے یہ علما قومی اسمبلی میں اہل حدیث علما سے حوالے مانگا کر کامیاب ہوتے تھے، لیکن 1984ء میں جامعہ اشرفیہ کے تحت ہونے والی اس قومی جدوجہد میں اہل حدیث علما کو نظر انداز کیا گیا۔
قادیانیوں کے صد سالہ جشن 1989ء کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے موقع پر بھی اہل حدیث علما کو نظرانداز کیا گیا۔ راقم کو گذشتہ دنوں اس سلسلے کے سارے مباحثے اور تاریخ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، انہی سالوں میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ جو فاتح قادیان تھے، کا تذکرہ عدالتوں میں ایک عام مولوی کے طور پر سرسری انداز میں کیا جاتا رہا۔ لاہور ہائیکورٹ میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کیس کے موقع پر ادارہ محدث سے وابستہ جسٹس خلیل الرحمن خاں صاحب نے والد گرامی مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کو ان کے ذاتی تعلقات کے تحت عدالتی معاون مقرر کیا اور ان کی رہنمائی میں یہ عدالتی فیصلہ لکھا گیا، حتی کہ ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کو والد گرامی کے توسط سے عربی زبان کا قالب بھی معروف اہل حدیث عالم مولانا محمد بشیر، اسلام آباد رحمہ اللہ نے عطا کیا۔ پھر سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں ادارہ محدث سے وابستہ محمد اسمعیل قریشی ایڈوکیٹ اور سپریم کورٹ کے جسٹس عبد القدیر چودھری نے قائدانہ کردار ادا کیا، حتی کہ سپریم کورٹ میں 1993ء کا آخری فیصلہ انہی مؤخر الذکر جسٹس صاحب نے ہی تحریر کیا۔ یہ شاندار فیصلہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
(5) بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ردّ قادیانیت میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پہلے تین مراحل میں قیادت کے بعد، آخری مرحلے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بعد سے اہل حدیث علما کو مرکزی جماعت کے طور پر نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جو ہنوز جاری ہے۔ والد گرامی اور ادارہ محدث کی یہ کاوشوں ان کے ذاتی تعلقات اور روابط کا نتیجہ تھیں جس میں سب اہل حدیث علما کو شریک کیا جانا چاہیے تھا۔
(6) یہاں علماے اہل حدیث کی تصنیفی خدمات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مولانا نواب صدیق حسن خاں کے رفیق علامہ حسین بن محسن یمانی انصاری کی 1890ء میں تحریر کردہ عربی کتاب ’’الفتح الربانی فی الرد علی القادیانی‘‘ سے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی 1967ء میں لکھی جانے والی عربی کتاب ’’القادیانیہ‘‘ تک اردو زبان میں رد قادیانیت پر اہل حدیث علما کی تصنیفات کی تعداد 200 سے متجاوز ہے۔ ہر دور میں اہل حدیث علما فتنہ قادیانیت پر بیش قیمت تحقیقات پیش کرتے رہے۔ حتی کہ عالمی مجلس تحفظ نبوت کی احتساب قادیانیت کے عنوان سے 58 جلدوں میں کتب ومقالات، جن میں بڑا حصہ اہل حدیث علما کی تحریرات کا ہے، کے مقابل اکیلے ڈاکٹر بہاؤ الدین حفظہ اللہ کی 30 سے زائد جلدوں میں رد قادیانیت پر اہل حدیث علما کی تحریرات کو جمع کرنا انتہائی قابل قدر کاوش ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو بے انتہا اجر سے نوازیں کہ انہوں نے تن تنہا اتنا عظیم الشان کام مکمل کیا۔ ماہنامہ محدث کے شمارہ فروری 1999ء میں بھی رد قادیانیت پر جناب عبد الرشید عراقی صاحب نے تمام اہل حدیث تصنیفات کو مختصر تعارف کے بعد پیش کردیا ہے۔ اور اس سلسلے میں علماے اہل حدیث کی کاوشیں تاحال جاری ہیں۔
(7) تین سال قبل 2014ء کے رمضان المبارک میں راقم کو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں سات روزہ ’’رد قادیانیت کورس‘‘ منعقد کروانے کی سعادت ملی، اس موقع پر دیگر مکاتب فکر کے علما کو بھی خطابات کی دعوت دی گئی۔ جس کی کامل رپورٹ محدث کے شمارہ اگست 2013ء میں شائع ہوئی۔ ان خطابات میں شرکت کرتے ہوئے میرا یہ تاثر نمایاں ہوا کہ باقی مسالک کے برعکس اہل حدیث علما کی معلومات اور تیاری انتہائی عالمانہ اور مبنی بر دلائل تھی جبکہ دیگر اہل علم جذباتی رنگ میں خطابت کرتے رہے۔ یہاں ان اہل حدیث علما کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے جنہوں نے حال میں رد قادیانیت میں اہل حدیث کی قیادت کا باسعادت فریضہ سنبھال رکھا ہے۔ ان میں سرفہرست مولانا خاور رشید بٹ ہیں، اور ان کے ساتھیوں میں مولانا ابو عبد اللہ طارق، مولانا یحیی عارفی اور مولانا عطاء الرحمن علوی حفظہم اللہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کی جہود کو مبارک ومسعود فرمائے۔ حالیہ ختم نبوت سیمینار میں بھی منتظمین کا تاثر یہ تھا کہ مولانا خاور بٹ اور مولانا عطاء الرحمن علوی جیسے نوجوان اہل علم ہماری جماعت کے انمول موتی ہیں۔ مولانا عبد القدوس سلفی اور ان کی اہلیہ محترمہ ام عبد الرب بھی قادیانیت کی تردید میں ان حضرات کے علم وفضل سے بہت متاثر نظر آئیں۔
(8) آخری اور اہم گذارش: مذکورہ بالا تفصیل سے علم ہوتا ہے کہ دفاع نبوت کا باسعادت قافلہ جس کا آغاز شیخ الکل رحمہ اللہ کے فتوی اور ان کے شاگردان رشید کی مشترکہ کوششوں سے ہوا تھا، ابھی رکا نہیں، بلکہ اس کی مساعی ہنوز جاری ہیں۔ اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ اہل حدیث ہی حدیث وسنت کے ساتھ ساتھ منصب نبوت کے بھی حقیقی رکھوالے ہیں۔ یادش بخیر، حالیہ سمیینار میں مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا خطاب اسی موضوع پر تھا کہ ’’منصب نبوت کی حفاظت کے تقاضے کیا ہیں؟۔‘‘ لیکن میرا تاثر یہ ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بعد رد قادیانیت کے سلسلے میں اہل حدیث کو قائدانہ کردار سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ مسابقت فی الخیر کا معاملہ ہے اور ہمیں اس مسابقت میں پس اندازی بالکل قبول نہیں کرنی چاہیے۔ اس کا حل یہ ہے کہ
a. سب سے پہلے اپنے شاندار کردار کو تازہ رکھا جائے۔
b. اس قیادت کو زندہ رکھنے کا احساس پیدا کیا جائے۔
c. اس پر اہل حدیث مدارس وجامعات میں خصوصی کورس منعقد کروائے جاتے رہیں۔
d. اس میدان میں کام کرنے والے اہل حدیث علما کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو اپنا محسن سمجھا جائے۔
e. اس سلسلے میں پیش آنے والے ہر واقعہ پر اہل حدیث کی طرف سے مؤثر قائدانہ شرکت کی جائے۔
f. عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پر اکتفا کرنے کی بجائے، اہل حدیث اپنی مستقل تنظیم کو باہمی تعاون کی بنیادوں پر جاری کریں۔ ماضی قریب میں اس حوالے سے علامہ شہید کا جو قائدانہ کردار رہا ہے، ان کے فرزاندان رشید اگر اپنے والد گرامی کی اس میدان میں عظیم تصنیفی وداعیانہ خدمات کے صدقہ جاریہ کے طور پر ختم نبوت کو اپنا مرکزی پروگرام بنائیں، ان کی قائم کردہ ’’تحریک قرآن وسنت‘‘ میں ختم نبوت کو ایک مرکزی فرض کے طور پر لیا جائے، اور ماضی کے شاندار کردار کی امانت کو سنبھالتے ہوئے، ختم نبوت کے دفاع کی ذمہ داری اٹھائی تو اہل حدیث حضرات میں اس باسعادت کام کو باحسن طور آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
g. یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ جماعۃ الدعوۃ ’’تحریک حرمت رسول‘‘ کے سلسلے میں قائدانہ کردار انجام دے رہی ہے۔ تحریک حرمت رسول کو ناموس رسالت کے ساتھ ختم نبوت پر بھی متحرک کیا جائے۔ اور اس مسلکی فریضہ کی ذمہ داری کو بھی قبول کیا جائے۔
h. مرکزی جمعیت اہل حدیث کے پیغام ٹی وی اور دیگر جماعتی ذرائع ابلاغ ورسائل میں ختم نبوت کے لئے پروگرام ومضامین مختص کرنے کی پالیسی نافذ کی جائے اور ہر سال اس کا جائزہ لیا جائے۔
i. زندہ افراد اپنی سعادتوں سے محروم ہونا کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اور اس سلسلے میں ہر قدم پر ہرطرح اہل حدیث حضرت کو اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بعض احباب نے پوچھا کہ مدنی برادران کے زیر انتظام ادارے اس سلسلے میں کیا کریں گے؟ تو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تین سال قبل رد قادیانیت کورس منعقد ہوا، اور آئندہ بھی منعقد کئے جاتے رہیں گے۔ نیز جامعہ ہذا میں قادیانیت، شیعیت، بریلویت کی تردید پر مستقل کورس شامل نصاب ہیں، جنہیں مذکورہ بالا شخصیات میں مولانا ابو عبد اللہ طارق صاحب پڑھاتے ہیں۔ نیز ان گروہوں سے مناظرے اور مباحثے میں جب جب اور جہاں جہاں جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کو بھیجا جائے گا، تاکہ وہ سیکھ سکیں، جیسا کہ حالیہ ردّ قادیانیت سیمینار میں بھی جامعہ کے نمایاں طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔ اسی طرح محدث میڈیا اور ویب سائٹس پر تردید قادیانیت کو بھی مرکزی حیثیت دی جائے گی۔ ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یوں تو ہر اہل حدیث ہی اپنے پیش روؤں کے نقش قدم میں دامے درمے سخنے رد قادیانیت کے سلسلے میں اپنی سی کوشش کر رہا ہے تاہم ایک ’’اہل حدیث ختم نبوت مرکز‘‘ کو درج ذیل کاموں کو انجام دینا چاہیے:
(1) اس کے پاس ختم نبوت پر اہل حدیث اور غیر اہل حدیث کا سارا لٹریچر ہونا چاہئے یعنی ختم نبوت لائبریری (2) اس موضوع پر اہل حدیث علمائے کرام کے تمام خطابات اور مناظروں کو بھی جمع کرنا چاہیے ۔
(3) اہل حدیث علما کی اس موضوع پر سابقہ تحریروں اور مضامین کو بھی جمع یا کم از کم سکین کرنا چاہیے۔
(4) قادیانیوں کا تمام لٹریچر بھی ہر ہر صورت میں میسر کرنا چاہیے۔
(5) اس سلسلے میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی اور اخبارات کی خبروں اور ان کی کاروائیوں پر گرفت کرنی چاہیے۔
(6) انہیں ایسے اہل حدیث اساتذہ اور علماے کرام سے رابطے میں رہنا چاہیے جو بوقت ضرورت قادیانی حضرات کو دلائل کے ساتھ خاموش کرا سکتے ہوں اور ان سے مناظرہ کرسکتے ہوں۔
(7) قادیانیوں کی قومی اور قانونی ریشہ دوانیوں کا علم ہونا چاہیے۔ تاکہ ان کا سد باب کیا جاسکے۔
(8) انہیں اہل حدیث مراکز وجامعات میں ردّ قادیانیت پر کورسز کرانے اور ایک جامع نصاب مرتب کرنا چاہیے۔
(9) اس حوالے سے باقاعدہ کانفرنسیں منقعد کرنی چاہیں اور خطبا ودعاۃ کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔
(10) اس ختم نبوت کے مرکز کو ہر قسم کی داخلی مسلکی تعصب سے بالاتر ہونا چاہیے اور دیگر مکاتب فکر کے ساتھ جملہ اہل حدیث کو اس مرکز کے ذریعے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
نوٹ: دیوبندی حضرات کے ہاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرح گلبرگ میں مرکز سراجیہ بھی کام کر رہا ہے، جس کی وقیع خدمات ہیں، جبکہ اہل حدیث علما کسی ادارہ جاتی سرپرستی سے محروم ذاتی سطح پر اس عظیم فتنہ سے برسرپیکار ہیں اور پھر بھی زیادہ اعلیٰ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بارک اللہ فی جہودہم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آخر میں میری دعا ہے کہ سید المرسلمین ﷺ کے منصب و رسالت پر عمل اور آپ ﷺ کے تحفظ ودفاع میں اٹھنے والی ہر کوشش میں اہل حدیث سب سے نمایاں ہوں اور قیامت کے روز اس سعادت کے ساتھ شافع محشر ﷺ سے ملیں کہ دنیا میں ان کی اتباع کرنے اور ان کا دفاع کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ وفی ذلک فلینافس المتنافسون .... وما ذلک علے اللہ بعزیز
 
Top