- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛السلام علیکم رحمت الله -
حضرت عمر رضی الله کا اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کے فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں : اہل علم سے درخواست کا جواب دیں :
١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟
کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
٣-اگر ایسا کوئی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آیا تھا اورکسی نے بیک وقت اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دی تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شرعی نہیں تعزیری طور پر ہی اس شخص پر اس کا نافذ کیا تھا تو اس انسان کا کیا نام تھا اور یہ واقعی واقعہ کب پیش آیا ؟؟ جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ صحابہ کرام کے طلاق سے متعلق کچھ واقعات بمع ان کے نام کے احادیث کی کتب میں موجود ہیں - جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے-- لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں اس طرح کے واقعہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی -کے کسی معین شخص پر خلیفہ وقت نے حد لگائی ہو-؟؟
٤-کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر یہ نفاذ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ تعزیری تھا (شرعی نہیں تھا) تواس پر عمر رضی الله عنہ کو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ خلیفہ وقت صاحب اقتدار ہوتا ہے جب چاہے جو چاہے تعزیری سزا کا نفاذ کرلے ؟؟
جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله ھوا خیر -
ایک طالب علم کی حیثیت سے جواب عرض ہے ،(مفتی کی حیثیت سے نہیں )
آپ نے سوال کیا کہ :
١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
اس کا جواب یہ کہ :
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔اسے امام احمد نے مسند میں (۴۵۳۴ )اور ابو عوانہ نےمسند میں (۲۸۷۵ ) میں روایت کیا ہے ۔
اور اس کی سند انتہائی اعلیٰ ، اور حد درجہ صحیح ہے ،تمام راوی امام اور حافظ ہیں ، جس کی مختصراً تفصیل درج ذیل ہے ؛
- حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، (صحیح البخاری اور صحیح مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ،یمن ،صنعاء کے مشہور ثقہ حافظ اور امام ،،اور ۔۔المصنف ۔۔کے مصنف )
- حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، --ان کے تعارف امام الذہبی لکھتے ہیں :
مَعْمَرُ بنُ رَاشِدٍ أَبُو عُرْوَةَ الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم * (ع)
الإِمَامُ، الحَافِظُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو عُرْوَةَ بنُ أَبِي عَمْرٍو الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم، البَصْرِيُّ، نَزِيْلُ اليَمَنِ - عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
عَبْدُ اللهِ بنُ طَاوُوْسٍ أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ ** (ع) یعنی صحاح ستہ کے راوی ہیں ،
الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الثِّقَةُ، أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ.
سَمِعَ مِنْ: أَبِيْهِ - وَأَكْثَرَ عَنْهُ -.
وَمِنْ: عِكْرِمَةَ، وَعَمْرِو بنِ شُعَيْبٍ، وَعِكْرِمَةَ بنِ خَالِدٍ المَخْزُوْمِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.
وَلَمْ يَأْخُذْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ، وَيَسوغُ أَنْ يُعدَّ فِي صِغَارِ التَّابِعِيْنَ، لِتقدُّمِ وَفَاتِهِ.
حَدَّثَ عَنْهُ: ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَرَوْحُ بنُ القَاسِمِ، وَوُهَيْبُ بنُ خَالِدٍ، وَسُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ، وَآخَرُوْنَ.
وثَّقُوْهُ.
- عَنْ أَبِيهِ، (طَاوُسٍ )ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
طَاوُوْسُ بنُ كَيْسَانَ الفَارِسِيُّ ** (ع)
الفَقِيْهُ، القُدْوَةُ، عَالِمُ اليَمَنِ، أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الفَارِسِيُّ، ثُمَّ اليَمَنِيُّ، الجَنَدِيُّ (1) ، الحَافِظُ. - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔جلیل القدر صحابی ،نبی کریم ﷺ کے چچا زاد ،علم حدیث اور تفسیر میں صحابہ کرام میں ممتاز مقام پر فائز