السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مقلدیں کی یہ دلیل کہ کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض یاطہر کے وقت دے دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا، تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے۔ چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بناکر رکھ لینا، اس پر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتلائیں ، اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔
سنن الدارقطني
نَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ الْحَافِظُ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْهَرِيُّ , نَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ , نَا شُعَيْبُ بْنُ رُزَيْقٍ , أَنَّ عَطَاءً الْخُرَاسَانِيَّ حَدَّثَهُمْ , عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ : نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , أَنَّهُ " طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقُرْئَيْنِ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ ، مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ ، وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرُ فَيُطَلَّقَ لِكُلِّ قُرُوءٍ , قَالَ : فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا , ثُمَّ قَالَ : إِذَا هِيَ طَهُرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ ، أَوْ أَمْسِكْ , فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، رَأَيْتَ لَوْ أَنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلاثًا أَكَانَ يَحِلُّ لِي أَنْ أُرَاجِعَهَا ؟ ، قَالَ : لا كَانَتْ تَبِينُ مِنْكَ ، وَتَكُونُ مَعْصِيَةً "
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=542&hid=3488&pid=0
السنن الكبرى للبيهقي
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالا : نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , نا أَبُو أُمَيَّةَ الطَّرَسُوسِيُّ , نا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ الرَّازِيُّ , نا شُعَيْبُ بْنُ رُزَيْقٍ ، أَنَّ عَطَاءً الْخُرَاسَانِيَّ حَدَّثَهُمْ ، عَنِ الْحَسَنِ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، " أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقُرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ ، مَا هَكَذَا أَمَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قُرْءٍ ، قَالَ : فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ، ثُمَّ قَالَ لِي : إِذَا هِيَ طَهُرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَفَرَأَيْتَ لَوْ أَنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلاثًا كَانَ يَحِلُّ لِي أَنْ أُرَاجِعَهَا ؟ قَالَ : لا كَانَتْ تَبِينُ مِنْكَ وَتَكُونُ مَعْصِيَةً "
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=673&hid=13824&pid=332625
اگر فقہی جمود کو چھوڑ کر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ پر تحقیق کی جاتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہرگز استدلال نہ کیا جاتا، کیونکہ اکٹھی تین طلاقوں کے موقف کی تردید اسی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی تھی اور دیگر دو طلاقوں کو بھی وہ متفرق طور پر دو حیض یا دو طہر میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے، حدیث ِمذکور کے آغاز میں اس طریقہ طلاق کی صراحت موجودہے، جیسا کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
''نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , أَنَّهُ " طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقُرْئَيْنِ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔ الخ''
'' عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو مختلف حیضوں یا طہروں میں دے دیں ۔۔۔ الخ۔''
جب عبداللہ بن عمرؓ خود باقی دو طلاقیں دو مختلف حیضوں یا دو مختلف طہروں میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے تواسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کیسے کیاجاسکتاہے؟ لہٰذا عبداللہ بن عمرؓ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ اس سے متفرق طور پر دو مختلف حیضوں میں طلاق دینا ہی مراد تھا جس کا ارادہ حضرت ابن عمرؓ اس سے پہلے کرچکے تھے، اور اس سے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں مراد لے کر ایک ہی حدیث کے اوّل اور آخر حصے کو آپس میں ٹکرا دینا حدیث نافہمی کی دلیل ہے۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کام کو معصیت کہنا تو اس کا تعلق دراصل حالت ِحیض میں تین طلاقیں دینے سے ہے یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کو معصیت کہا گیا ہے۔
ماخوذ از
http://magazine.mohaddis.com/dec2006/1893-talaq-e-salasa-ko-teen-sabit-karne-walon-k-dalaeil-ka-jaeza.html
اگلی روایت کی وضاحت اگلی بار!!