- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ ثَلَاثَۃٌ۔ مُلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ وَمُبْتَغٍ فِی الْاسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُہَرِیْقَ دَمَہُ۔ ))1
'' اللہ سب سے زیادہ تین آدمیوں سے بغض رکھتا ہے۔ (ایک) جو حرم میں الحاد (بے اعتدالی) کرے، (دوسرا) وہ جو مسلمان ہوکر جاہلیت کی رسموں کو تلاش کرے اور (تیسرا) وہ شخص ہے جو کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگے۔ ''
(۱) حرم میں الحاد کرنے والا...: اس سے مراد وہ انسان ہے جو حرم کی حدود میں صغیرہ گناہوں سے لے کر کفریہ غلطیاں تک کر گزرتا ہے۔ یا ایسا عمل کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرم میں حرام قرار دیا ہے۔ مسجد حرام کے متعلق فرمایا:
{وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ o} [الحج:۲۵]
'' اور جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔ ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے متعلق فرمایا:
(( إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِن نَّہَارٍ لَا یُخْتَلَی خَلَاہَا وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُہَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ۔ ))2
'' یقینا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے چنانچہ یہ مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور نہ ہی میرے بعد ہوگا، صرف میرے لیے دن کی ایک گھڑی حلال کی گئی تھی۔ اس کی گھاس اور درخت کو نہ کاٹا جائے اور نہ ہی اس کے شکار کو بھگایا جائے اور یہاں پر گری چیز بھی سوائے اعلان کرنے والے کے اور کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ ''
عوفی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (بظلم) کی وضاحت بیان کرتے ہیں کہ حرم میں برائی یا قتل کو حلال سمجھنا اور جس نے ظلم نہیں کیا اس پر ظلم کرنا اور جس نے قتل نہیں کیا، اسے قتل کرنا، چنانچہ جب بھی کوئی شخص حرم کی حدود میں ایسی حرکت کرے گا تو اس کے لیے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔
بعض لوگ حرم میں کھانا ذخیرہ کرنے کو الحاد قرار دیتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ حرم میں بات بات پر قسم اٹھانا الحاد ہے، اسی لیے ان کے دو خیمے ہوتے تھے ایک حرم میں اور دوسرا حرم کی حدود سے باہر۔ چنانچہ نماز پڑھنے کے لیے حرم کے خیمہ اور دیگر امور کے لیے دوسرے خیمے میں چلے جاتے تاکہ حرم میں بات بات پر قسمیں اٹھانے سے بچ سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ شمار کیا ہے۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بھی دو خیمے تھے، ایک حرم میں اور دوسرا باہر ہوتا تھا چنانچہ جب اپنے گھر والوں کو ڈانٹنا ہوتا تو باہر والے خیمے میں جاکر ڈانٹتے اور جب عبادت کا ارادہ کرتے تو حرم والے خیمہ میں چلے جاتے، چنانچہ جب ان سے یہ بات پوچھی گئی تو جواب دیا: ہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ حرم میں بات بات پر قسمیں اٹھانا الحاد میں شمار ہوتا ہے۔
مکہ میں جیسے نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی معصیت کا گناہ بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہاں پر کی گئی نافرمانی دوگنے گناہ کی حامل ہوتی ہے ایک تو غلطی کا گناہ اور دوسرا بلد حرام کی حرمت پامال کرنے کا گناہ۔
گو یہ اشیاء بھی الحاد میں شامل ہیں مگر مذکورہ حدیث میں الحاد کی بابت عمومیت ہے بلکہ جو ان سے بھی کبیرہ گناہ ہیں ان پر بھی تنبیہ کی گئی ہے، اسی لیے تو جب ہاتھی والوں نے بیت اللہ گرانا چاہا تو ان کی تدبیر کو اللہ تعالیٰ نے بے کار کرکے رکھ دیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الدیات، باب من طلب دم امریٔ بغیر حق۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب جزاء الصید، باب: لا یُنفَّر صید الحَرَم، رقم: ۱۸۳۳۔