عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
تیونس میں غلبہ اسلام کی نئی لہر
زمانہ انقلاب کا نام ہے۔ شب و روز گردش میں ہیں، زمانے کی کوکھ سے بہت کچھ ابھرتا ، سامنے آتا، نکھرتا اور غائب ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو اہل زمانہ کے لئے مفید اور موثر ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے جبکہ زمین و زماں کے لئے غیرمفید چیز ناپید ہو جاتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال تیونس کے معاملات کی ہے۔ تیونس ایک اسلامی ملک ہے، جہاں 99.7 فیصد آبادی مسلمانوں کی رجسٹرڈ ہے۔ 1956ء میں تیونس نے فرانس سے آزادی حاصل کی مگر یہ ویسی ہی آزادی تھی جیسی عموماً مغربی ممالک سے حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بظاہر آزادی مگر حکمرانوں کے ذریعے سے انہی غلامانہ پالیسیوں کا تسلسل! 25 جولائی 1957ء میں حبیب بورقیبہ نے عنان حکومت سنبھالی۔ کمال اتاترک کو اپنا رہنما قرار دیا اور اسی کی اصلاحات کو فرانس کے زیرنگرانی اس نے نافذ العمل کر دیا۔ چنانچہ شعائر اسلام پر پابندی اور محبان اسلام کی جکڑ بندی ہونے لگی۔ 30 سال تک حبیب بورقیبہ کے ذریعے سے فرانس یہاں اپنی من مانی کرتا رہا تاآنکہ 7 نومبر 1987ء کو حبیب بورقیبہ کے ساتھیوں نے اسے پاگل قرار دے کر قید میں ڈال دیا۔ عنان حکومت صدر زین العابدین بن علی نے سنبھال لی اس نے اپنے پیش رو سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر اہل اسلام پر شکنجہ کچھ اور کس دیا۔ مساجد محدود کی گئیں اور انہیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا۔ مساجد کے ساتھ پولیس چوکیاں قائم کی گئیں اور مساجد کی طرف زیادہ رخ کرنے والوں پر مسلسل نگرانی مسلط کر دی گئی۔ نصاب تعلیم میں عیسائیت و یہودیت کو برابر جگہ دی گئی۔ حال یہ ہوا کہ مسلمانوں کے بچے تب تک ڈگری نہ لے سکتے تھے جب تک کہ وہ یہودیت و عیسائیت کا حکومتی فراہم کیا گیا مواد نہ پڑھ لیتے۔ داڑھی پہ اتنی پابندی کہ مکمل توکجا کوئی آدھی داڑھی والا بھی پورے ملک میں ڈھونڈے سے نہ ملتا۔ سب سے زیادہ ظلم یہاں مسلمان خواتین پر ڈھایا گیا۔ پردہ فرانس میں تو معتوب تھا ہی مگر یہاں تیونس میں تو اس پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے گئے کہ نوک قلم پر لاتے ہاتھ لرزتا اور دل کانپتا ہے۔ تیونس کے ایک مقامی امام مسجد کے یوآن ریڈلی کو لکھے گئے خفیہ مراسلے کے مطابق یہاں کیسے کیسے دلدوز واقعات پیش آئے؟ ذرا دیکھ لیجئے۔ بس سے ایک پردہ نشین خاتون کو اتارا گیا۔ پولیس نے استفسار کیا کہ آیا وہ خاتون پردہ ترک کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے ایک مسلمان عورت پردہ کبھی ترک نہیں کر سکتی، سو جواب نفی میں تھا۔ اب پردے کی پاداش میں اس خاتون پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہی گئے، ساتھ شرم و حیا کی حدیں بھی توڑ دی گئیں۔ یہ چند جھلکیاں ہیں۔ اسلام پسندوں کے اصل حالات کہیں بدتر تھے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر صدر زین الدین بن علی کے نزدیک حجاب، داڑھی جیسے شعائر اسلام محض نسلی روایات و رواج اور پردہ ’’غیرملکی پٹہ‘‘ قرار پاتے تھے تو پھر وہاں اسلام اور اہل اسلام کس ناگفتہ بہ حالات کی زد پہ ہوں گے۔ اخبارات اور لٹریچر پہ شدید سنسر کے پہرے تھے۔ راشد غنوشی ایک اسلام پسند نے 1989ء میں ’’النہضہ اسلامی‘‘ کے ذریعے سے بلدیاتی انتخابات میں 14 فیصد ووٹ حاصل کئے تو اس پر بعدازاں اس ملک کے دروازے بند ہو گئے۔