الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
تحریر:
((ظفراقبال ظفر))
قادیانیت کا مختصر تعارف
آیت :
﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـٰكِن رَسولَ اللَّـهِ وَخاتَمَ النَّبِيّينَ ۗ وَكانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا﴾(الاحزاب : آیت 40: پارہ 22)
ترجمہ : (لوگو) محمدﷺتمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالی ہر چیز کو(بخوبی) جاننے والاہے ۔
مفہوم :نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بھیجا گیا ۔ اس کے بعد نبوت ، وحی ، جبرائیل کے آنے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
تمہیدی باتیں :اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ دین مکمل ہو گیا ہے ۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہےکہ ہم دین اسلام پر ہی عمل کریں اور اسی پر چل کر ہمیں راہ نجات مل سکتی ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو جمع فرما کر یہ وعدہ لیا تھا ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (81ال عمران) کہ اگر تمہاری زندگی میں نبی آخر الزمان آ جائیں تو کیا اس کی اطاعت ونبوت کو تسلیم کرو گےیااپنی نبوت پر ہی عمل کرو گے؟ تو تمام انبیاء نے اقرار کیا ہم آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہی پیروی کریں گے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کا خاتم النبین بن کر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔ اب کوئی نبوت کا مدعی ہے تو وہ دجال ، رئیس الشیاطین ،مجنون ،پاگل تو ہو سکتا ہے مگر نبی نہیں ہو سکتا ۔
سر زمین پاکستان میں آج فتنہ قادیانیت جو مرزا غلام احمد قادیانی کا پیداکردہ ہے ۔ اس کے عقائد و نظریات کو سمجھیں اور اس جھوٹے نبوت کے مدعی کو جوانگریز کا خود ساختہ ہے ۔ اور ایسی صفات ، اخلاق و کردار ، عقائد و نظریات ، انبیاء ورسل اور خدا تعالیٰ کی گستاخیاں کرنے والے جھوٹے نبی کودنیا کے سامنے بے نقاب کریں ۔ تاکہ مسلمان ان کی ساز شوں سے محفوظ رہ سکیں ۔
عقیدہ ختم نبوت خاص کر موجودہ دور میں اتنی اہمیت کا حامل ہوچکا ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ختم نبوت کی چوکھٹ کی حفاظت کے لیے میدان عمل میں اتر آئے ۔ ورنہ یہ جھوٹی نبوت کے مدعی اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت کو مسخ کر کے نہ صرف اس پر قبضہ جمالیں گے بلکہ تمام مسلمانوں کے ایمان کو خریدنے کی مذموم کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے۔
عصر حاضر میں ملک پاکستان میں خاص طورپرفتنہ قادیانیت اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ملک پاکستان جس کو ''لااله الا الله محمد رسول الله'' کے نام پر حاصل کیا گیاتھا ۔ آج اندر سے پوری طرح اس فتنے کی گرفت میں آچکا ہے اور تمام تر ا داروں اور محکموں میں یہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکا ہے جس کو آندھیاں تو کیا بڑے بڑے طوفان بھی اکھیڑنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ یہ صرف مسلمانوں کی بے حسی اور غفلت کا نتیجہ ہے کہ ملک پاکستان میں گروہ قادیانیت (فتنہ قادیانیت )اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔
قدرت کا یہ قانون ہے کہ جس نے بھی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا اس کی سرکوبی کے لیے مسلمان ماؤں نے اپنے لخت جگروں کو میدان میں اتارا ۔ اور کئی ایک نےشہادت بھی پائی ۔
جیسے مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے حضرت ابوبکر صدیق نے تین لشکر روانہ کیے جن میں سےدو کو مسیلمہ کذاب نے ( جوکہ 40000کا لشکر لیکر آیاتھا ) شکست دی ۔ او رتیسرے لشکر کو جب حضرت ابو بکر نے روانہ کیا جس میں 1200مسلمان حفاظ کو شہید کر دیا گیا ۔ آخر کار کامیابی اور فتح مسلمانوں کا مقدر بنی ۔ یہ تاریخ اسلام کا بڑاہی کٹھن واقع ہے ۔ اسی طرح ''اسود عنسی '' اور دیگر جھوٹے نبوت کے مدعیان آتے گئے جن میں ایک مرزا قادیانی تھا ۔ جس کو انگریز نے نبوت اور مسیح ہونے کا دعویٰ کرنے پر تیار کیا ۔ اور کئی حدتک وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا ۔
اس فتنے کی سرکوبی کے لئے ہر مکتبہ فکر کے علماء نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور حتی الامکان کوشش کرکے تحریر و تقریر کے ذریعے ان کا بھیانک چہرہ لوگوں کے سامنے ظاہر کیا ۔ اور اسی تناظر میں میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جنہوں نے بغیرکسی دباؤ کے فتنہ قادیانیت کو روکنے کےلئے پارلیمنٹ میں قرار داد منظور کر وا کر قادیانیوں کو نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ ان پر شعائر اسلام کو استعمال کرنے پر پابندی لگادی ۔ کہ کوئی قادیانی خود کو نہ مسلمان کہلوا سکتا ہے اور نہ السلام علیکم کہہ سکتا ہے اور نہ اپنے شادی کارڈ پر ''بسم اللہ '' لکھواسکتا ہے وغیرہ ۔
مرزا کا تعارف
پیدائش :۔مرزا اپنی تاریخ پیدائش 1255ھ یا 1256ھ بمطابق 1839ءیا 1840ء بتلاتے ہیں ( کتاب البر یہ ص146) بروز جمعہ بوقت صبح : جبکہ تریاق القلوب صفحہ نمبر 63پر مرزانے 1261ھ بمطابق 1845ءپیدائش لکھی ہے۔
نسب نامہ :۔غلام احمد بن غلام مرتضیٰ بن عطا ء محمد بن گل محمد بن فیض محمد بن الہ دین بن جعفر بیگ بن محمد بیگ بن عبدالباقی بن محمد سلطان بن ہادی بیگ وغیرہ
وفات :۔
26مئی 1908ءکولاہور میں بروز پیر کووفات پائی ۔
جائے پیدائش :۔
آبائی وطن قصبہ قادیان جو کہ لاہورسے شمال مشرق میں ضلع گورداس پور تحصیل بٹالہ پنجاب (ہند) میں واقع ہے۔
خاندان :۔
والد کانام غلام مرتضیٰ والدہ کانام چراغ بی بی عرف کسیٹی ۔ دادا کانام عطاء محمد اور پردادا کانام گل محمد تھا جو کہ قراچارلاس نامی قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔
نوٹ:۔مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے مذکورہ نسب کا ذکر اپنی کتاب ''کتاب البریہ ص142اور ضمیمہ حقیقۃ الوحی ص77'' پر کیا ہے ۔
تنبیہ:۔یہ بات یاد رہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے مذکورہ نسب نامہ کا انکار کر کے خود مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ تو اس کے بعد خود کو کبھی فارسی النسل کہا اور کبھی اپنا تعلق مغل خاندان سے بتلایا اور کبھی خود کو چینی النسل کہا اور کبھی یہودی النسل ، کبھی اسرائیلی کہا اور کبھی حضرت فاطمہ کی نسل سے اپنی نسبت کو قائم کیا ۔
مرزا کے خونی رشتے :۔
مرزا کے بقول ! یہ اپنے والدین کی آخری اولاد تھے جو اپنے چار بہن بھائیوں سے چھوٹے تھے ۔ بڑی بہن مراد بی بی پھر چھوٹے بھائی غلام قادر پھر وہ بھائی جو بچپن میں فوت ہو گیا تھا ۔ پھر مرزا جو جنت بی بی سے چھوٹے تھے جوکہ مرزا سے جڑواں پیدا ہوئی ۔ اس طرح مرزا اپنے پانچ بہن بھائیوںمیں سے چھوٹے تھے ۔
بچپن :۔
مرزا غلام احمد بچپن سے ہی انتہائی ضدی اور چوریاں کرتا تھا ۔ جیسے ایک دفعہ ساتھیوں کے کہنے پر گھر سے چینی چوری کرنے گیا تو غلطی سے نمک اٹھا لایا تو راستے میں مٹھی بھر کر کھانے لگا تو معلوم ہوا کہ نمک ہے ۔ اسی طرح فلمیں دیکھتا تھا جیسے مفتی صادق بیان کرتا ہے کہ محمد خاں اور منشی ظفر (امرتسر )مرزا سے ملنے آئے تھے ۔ مفتی صادق کا کہنا ہے کہ میں رات سینما دیکھنے گیا تو منشی ظفر کو پتہ چل گیا تو اس نے مرزا غلام احمدکو شکایت کر دی تو مرزا غلام احمد صاحب نے کہا کوئی بات نہیں بچپن میں میں بھی جاتا تھا تاکہ پتہ چلے کہ وہاں کیا ہوتا ؟ اس کے علاوہ مرزا غلام احمد شرابی تھا جیسے قادیان سے خط لکھ کر مرزا یار محمد کو دے کر بھیجا حکیم محمد حسین کی طرف کہ ان کو ٹانک وانک وائن کی ایک بوتل پلومر کی دوکان سے خرید کر دینا اور افیون بھی استعمال کرتا تھا۔ (خطوط امام بنام غلام ص:5اور الفضل ج:1ص : 417-مورخہ 19جولائی 1929ء)
تعلیم :۔
مرزا نے تقریباً سات سال کی عمر میں مولوی فضل الہی صاحب حنفی سے قرآن مجید حفظ کیا جوکہ قادیان کے رہائشی تھے ۔ اور ان سے فارسی زبان بھی سیکھی ۔ دس سال کی عمر میں مولوی فضل احمد (جو کہ فیروز پور ضلع گوجرانوالہ کے رہائشی تھے ) سے نحو وصرف کی تعلیم حاصل کی ۔ ( کتاب البریۃ : حاشیہ 148، 149) پھر منطقاور حکمت کی تعلیم معروف شیعہ استاد مولوی گل شاہ سے حاصل کی ( کتاب البریۃ ص150)۔
شادی
مرزا غلام احمد قادیانی کی شادی تقریباً پندرا برس کی عمر میں نصرت جہاں بیگم سے ہوئی جو کہ مرزا شیر علی ہوشیار پوری کی بہن تھی اس میں سے پہلا لڑکا سلطان احمد اور دو سال بعد فضل احمد پیدا ہوئے (سیرت المہدی جلد نمبر 1 صفہ نمبر 196،197)
جوانی :۔
مرزا غلام جوان تھا تو ان کے باپ نے ان کو پینشن (جوکہ سات سو روپے انگریز کی طرف سے مقرر تھی ) لینے بھیجا ۔ اور وہ پنشن لیکر اپنے چچازاد بھائی امام الدین کے ساتھ تمام رقم ضائع کر آیا تو امام الدین گھر چلے گئے اور مرزا غلام احمد نے سیالکوٹ آ کر نوکری شروع کر دی جس کا دورانیہ چار سال ہے اس وقت عمر 25سال کی تھی ۔پھر اس کے بعد کچہری میں پندرہ روپے میں ملازمت اختیار کی ۔ اور پھر تقریباً 1868ء میں ملازمت چھوڑ کر قادیان واپس چلا گیا ۔
قادیان میں قیام کے بعد:۔
مرزا غلام احمدنے قادیان واپس آ کر گھروالوں سے بالکل علیحدگی اختیار کر لی تو چلہ کشی اور وظائف میں مشغول رہا جس کا دورانیہ تقریباً 9ماہ تک ہے ۔ خوراک کم کردی ،بیداری کی حالت میں روحیں دیکھیں اور دیگر عجائبات کی زیارت نصیب ہوئی ۔ جس کو مرزا غلام عبادت اور زھدو ورع شمار کرتے تھے مگر افسوس کہ اسکواسکے والد بدچلن اور آوارہ قسم کا انسان تصور کرتے تھے ۔
مرزا کااخلاق :۔
مرزا کی بداخلاقی کا یہ عالم تھا کہ گالی گلوچ بکواسات اور گند بکتا تھا۔ مندرجہ ذیل باتوں سے مرزا کا اخلاق واضح ہوتا ہے :
1۔ مرزا کا کہنا ہے کہ جو ہماری فتح کو نہیں مانتا اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے ۔ (روحانی خزائن جلد9صفحہ نمبر 31)
2۔مرزا صاحب کاکہنا ہے کہ جو ہماری دعوت کی تصدیق نہیں کرتا وہ کنجریوں کی اولاد ہے ۔ (روحانی خزائن جلد5صفحہ نمبر 547-548)
3۔مزرا کا کہنا ہے کہ میرے دشمن (یعنی جو مسلمان ہیں اور محمدﷺ کو آخری نبی تصور کرتے ہیں اور مرزا کو کافر قرار دیتے ہیں ) جنگلوں کے خنزیراور ان کی عورتیں کتیوں سے بھی بتر ہیں ) مولویوں کو پالید
خنزیر مردار کھور گندی روحیں اور اندھیرے کے کیڑے بکتا ہے ( روحانی خزائن جلد11صفحہ نمبر 305)
نوٹ :۔مذکورہ بالا چند ایک مثالیں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کی ہیں جبکہ مزید آپ مرزا کی کتابوں سے پڑھ سکتے ہیں جیسے : خدا کو زانی قرار دینا (نعوذباللہ) اور مولانا ثناء اللہ امرتسری پر لعنت کرنا عیسائیوں پر لعنت کرنا اور جھوٹ بولنا وغیرہ۔
معلوم ہوا کہ مذکورہ صفات کاحامل شخص نبی ہونا تو درکنار ایک شریف النفس انسان بھی ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ بداخلاق و دجال رئیس الشیاطین پرلے درجے کا دیوانہ بیوقوف اور پاگل شخص تصورہوتاہے
مرزا کا کردار :۔
مرزا کے کردار کو سامنے رکھا جائے تویہ بات بعید نہیں کہ کوئی قادیانی لاہوری ہو یااصلی قادیانی ہو حتی کہ اس کا پشت پناہ انگریز بھی اس کو جوتے مارنے پر فخر محسوس کرے کیونکہ غیرت انسانی اور فطرت انسانی برے کام کو ناپسند کرتی ہے ۔
انسانی فطرت ہے کہ انسان کو اس کا کردار خودہی آئینہ میں دکھلا دیتا ہے کہ تیری حقیقت کیا ہے ۔ بلکہ اس کی بداخلاقی اوربدکردار ی سے پتہ چلتا ہےکہ یہ توانسان کہلوانے کا بھی حق دار نہیں ہے ۔
جیسے شرابی،زانی ،چور ، مکار ، دھوکاباز بے حیاء غیر محرم عورتون سے میل جول رکھنے والا اور ٹانگیں دبوانے والا۔
نبی تو در کنار انسان کہلاوانے کا حق دار بھی نہیں رکھتا ۔ یہ مذکورہ صفات ایسی ہیں کہ جوانسان کو انسانیت سےنکال کرحیوانیت کی صف میں کھڑا کر دیتی ہیں ۔
مندرجہ ذیل واقعات سے مرزا کاکردار واضح ہوتا ہے ۔
1۔ علامہ اقبال کے عربی ا ور فارسی استاد مولوی میر حسن سیالکوٹی کا کہنا ہے کہ مرزا نے قرآن کےاختتام پر یعنی سورۃ الناس کے بعد قوت باہ کا نسخہ لکھ رکھا تھا ۔(رئیس قادیان صفحہ نمبر 17 'مرزائیت اپنے آئینہ میں صفحہ نمبر 17۔
2۔ غیر محرم عورتوں سے خلوت اختیار کرنا چھونا بدنظری سے دیکھنا اس کی عادت تھی ۔
مرزا صاحب کی خدمت کرنےوالی عورتیں:۔
1۔ رات کو خدمت کرنے والی رسول بی بی اھلیہ محمد دین اور اھلیہ بابوشاہ دین ہوتی تھی ۔ ( سیرت المہدی جلدنمبر 3صفحہ 213)
2۔رات کو ٹانگیں دبانے والی مائی بانو جوکہ ایک دفعہ ٹانگوں کی جگہ پر پلنگ کی پھٹی دبانے لگی۔ ( سیرت المہدی جلد3صفحہ210)
3۔ڈاکٹر عبدالستار کی بیٹی زینت بی بی تین ماہ تک خدمت کرتی رہی ۔ (سیرت المہدی جلد3صفحہ 272-273)
4۔ ڈاکٹر نور محمد لاہوری کی بیوی معروف ڈاکٹرنی قادیان جا کر مرزا کے مکان میں رہی اس کی خدمت کرتی رہی اور اس کی وفات کے بعد مرزا نے ان کےڈوپٹے
کو کھڑکی کی سلاخوں سے بندھوا دیا ۔ ( سیرت المہدی جلد3صفحہ 126)
مرزا صاحب کی بیماریاں :۔
مرزا صاحب کو اتنی بیماریاں تھی کہ شمار کرنا مشکل ہے جن سے مرزا غلام احمد کا پاک رہنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ جیسے 100دفعہ دن میں پیشاب کا آنا قوت باہ کی بیماریاں ، سر کا درد، برا ھاضمہ ، مراق ، خونی قے، گردہ درد، دست ہی دست وغیرہ ۔
اس کے علاوہ اور بھی بیماریاں ثابت کرتی ہیں کہ مرزا صاحب کا پاک رہنا ناممکن تھا : نماز ،روزہ ، حج اور دیگر عبادات کیسے سرانجام دیتا ہوگا ؟ کیا ناپاکی کی حالت میں ؟اور یہ ایسی حالت ہے جو دیوانہ شخص کی نشائی اور مرگی کے مریض کو لاحق رہتی ہے ۔
ذرا غورکریں ان بیماریوں سے مرکب شخص سے ایک سچے نبی کی صفات کا حامل کیسے ہو سکتا ہے ،؟جبکہ نبی توبے داغ اور پاکبین ہوتا ہے ۔ ( ملفوظات صفحہ445 جلدنمبر 8(قادیانیت اسلام اورسائنس
کے کہڑے میں صفحہ 77تا 93
مرزا کے دعوے:۔
مرزا کے دعوؤں کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے
1۔ 1882ء سے1890تک پہلا دور:
جب مرزا نے نہ آخری نبی ہونے کا دعوی کیا تھا ۔نہ مسیح معبود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔بلکہ کہتا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پیار سے مجھےمحدث ، مجدد ، مبلغ ، یوسف ، یونس ، نوح ،مزمل ، مدثر کہا ۔ اور مرزا صاحب خودکومثیل مسیح
کہتا تھا( براھین احمدیہ جلد2صفحہ 217تا267)
2۔1891ءتا1901ء تک دوسرا دور
بائیس جنوری 1981ء کو مرزا نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کو سولی دی گئی ہے اور بے ہوش ہو گئے اور یہودیوں نے دفن کر دیا اور وہ زندہ ہو گئے 40دن تک اپنے شاگردوں کو نظر آتے رہے پھر ہجرت کرکے کشمیر آ گئے وہاں 84تا87سال زندہ رہے پھر فوت ہوگئے اور وہاں ہی دفن ہوئے ۔ اور مرزا نےبعض جگہ فلسطین میں دفن ہونے کا بھی ذکر ہے ۔اور بعض جگہ مدینہ منورہ میں دفن ہونے کا ذکر ہے ۔اس کے بعد مرزا صاحب نے مسیح معود ہونے کا دعویٰ کیا۔( روحانی خزائن جلد3صفحہ 468، صفحہ 192پر خود ہی مسیح ہونے کاانکار کر دیا )
3۔1901سے آخر تک تیسرا دور
1901ءسے مرزا نےخود آخری نبی محمدؐ،خدا کا بیٹا ،اور خدا ،مریم علیہ السلام وغیرہ ہونے کا دعویٰ کیا ۔ ( ملفوظات جلد10صفحہ 127)
نوٹ :۔مولانا متین خالد کی شہرہ آفاق کتاب ثبوت حاضر ہے میں صفحہ 369تا 387تک مرزا کے مزید دعویٰ مذکور ہیں
مرزا کے الہامات :۔
1۔عربی میں الہام :
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا کہ انت الشیخ المسیح الذی لایضاع الوقتہ
2۔ انگریزی میں الہام :
I shall yoU , I love you ایلی نوش نامی فرشتہ الہام( وحی )لیکر آیا ،مجھے معلوم ہوا کہ انگریزسر پر کھڑا وحی کر رہا ہے ۔ ( براھین احمدیہ روحانی خزائن ج4ص 572)
نوٹ:اس کے علاوہ مرزا کو عبرانی ،پنجابی ، فارسی ، ہندی اور دیگر ربانوں میں الہامات ہوتے رہتے جوکہ مرزا کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
مرزا کے فرشتے :۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بندوں تک پہچانے کا کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اورآپﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں جن پر وحی کا آغاز غارِحرا سے ہوا اور فرشتہ وحی لیکر آنے والا بڑا ہی معزز اور مکرم فرشتہ ہے جسے جبرائیل علیہ السلام کے نام سے جانا جاتا ہے ،
لہٰذا نبوت کے جھوٹے مدعی پر وحی لانے والے فرشتوں کا ذکر پیش خدمت ہے پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیں ۔
مرزا پر وحی لانے والے چند ایک فرشتے مندرجہ ذیل ہیں
1۔ ٹیچی ٹیچی فرشتہ :مرزا صاحب نے ذکر کیاکہ 5مارچ 1905ءمیں مجھے خواب آیا کہ ایک فرشتہ کھڑا ہے جس کو ٹیچی ٹیچی نام سے پکاراجاتا ہے ۔(حقيقة الوحی صفحہ 232)
2۔درشنی نامی فرشتہ :مرزا صاحب نے فرشتہ دیکھا جو کہ بیس برس کی عمر کا نوجوان اور انگریز کی مثل کرسی لگائے بیٹھا ہے : جس سے مرزا صاحب نے دریافت کیاکہ تو کون ہے ؟ اس نے بتایا میں درشنی نامی فرشتہ ہوں : (تذکرہ صفحہ 31)
3۔ مٹھن لال نامی فرشتہ :مرزا غلام نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس کو مٹھن لال کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ ( تذکرہ ص515)
نوٹ:ٹیچی ٹیچی ، درشنی ، مٹھن لال اور اس کے علاوہ شیر علی ، حفیظ ، خیراقی وغیرہ مرزا پر وحی لانے والے فرشتے ہیں ۔
مرز ا کے جھوٹ :۔
نبی تمام لوگوں کےلئے نمونہ ہوتا ہے اور اسکے ساتھی بھی نمونہ ہوتے ہیں ۔ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھا جائے صداقت و شرافت ، زھد وتقوی جیسی صفات حمیدہ کے حامل ہوتےہیں ۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام کی صداقت تمام لوگوں میں مشہور تھی ۔ اپنے تو اپنے غیر بھی گواہی دیتے تھے ۔
نوٹ :۔جھوٹ ناصرف اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں معاشرتی اور اخلاقی برائی سمجھا جاتا ہے ۔ اور انبیاء کرام ' صحابہ و تابعین جھوٹ جیسی صفت رزیلہ سے پاک تھے ۔
تنبیہ :۔اسی تناظر میں مرزا غلام احمدکا جائزہ لیاجائےگویا مرزا ان صفات حمیدہ کا حامل تھا؟ تو بڑے غور وفکر ، تدبر اور چھان بین کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ مرزا غلام احمدان صفات حمیدہ سے عاری تھا ۔اور صفات رزیلہ سے مرکب تھا ۔ جیسا کہ مرزا غلام کے چند جھوٹ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ مرزا غلام احمدنبی نہیں بلکہ کائنات کا بدترین شخص تھا ۔
جھوٹ نمبر 1:۔مرزا غلام احمدقادیانی کاکہنا ہے کہ تفسیر ثنائی میں لکھا ہے ۔کہ حضرت ابوبکر صدیق فہم قرآن سے ناقص تھے ۔ ( روحانی خزائن جلد21ص 410) اصل بات یہ ہے کہ مرزا غلام نے حضرت ابوبکر صدیق کو ناقص الفہم لکھ کر گستاخی کی ہے اور لعنت سے بچنے کےلئے تفسیر ثنائی کا حوالہ دیا ہے ۔ یہ ہے نبی جو لوگوں پر جھوٹ باندھتا ہے ۔
جھوٹ نمبر 2:۔مزرا غلاماحمد نےاسلام کےدفاع میں(حق بر مبنی )پچاس جلدوں 'تین سو دلائل پرمشتمل کتاب لکھنےکادعوی کیامگرپانچ جلدیں لکھ کر کہنے لگا کہ 5اور 50میں کوئی فرق نہیں صرف صفر کافرق ہے ۔
جھوٹ نمبر 3:۔مرزا غلام کاکہنا ہے کہ مسیح موعود کی تکفیر ہو گی ۔ تو علماء وقت اس کو کافر قرار دیں گے اور کہیں گے کہ اس نے ہمارے دین وملت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ ( روحانی خزائین ج17ص213)
نوٹ :۔تویہ بات ''اظہر من الشمس '' ہے کہ مسیح موعود کےمتعلق ایسی کوئی بات احادیث میں نہیں لکھی ۔ بلکہ وہ تو اللہ کے برگذیدہ بندے اور نبی تھے تو ان کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟ بلکہ مرزا غلام احمدقادیانی کا افتراء اس پر ہی صادق آتا ہے ۔ جس سے جھوٹا ، دجال ، کافر ، لعنتی ، منہ سے مسیح موعود کہلوا کر ان کا جھوٹ ثابت کر دیا ۔ جس کو علماءوقت نے کافر قرار دیا تویہ مرزا غلام ہے نہ کہ مسیح ابن مریم ۔
مرزا کی چند ایک پشین گوئیاں :۔
پشین گوئی کا تعلق مستقبل میں صادر ہونے والے واقعات سے ہوتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ کی پشین گوئیاں چودہ سوسال گزر جانے کے بعد بھی من وعن پوری ہو رہی ہیں ۔ جبکہ مرزا کی پشین گوئیاں ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ سچا نبی ہونے کا حق رکھتا ہے ؟
پیش گوئی نمبر 1:۔مرزا غلام نے کہا کہ محمدی بیگم جو کہ امام دین کی بھانجی اور احمد بیگ کی مسلمان بیٹی تھی ۔ اس سےمیری شادی ہو گی ، جبکہ یہ شادی سلطان محمد فوجی سےہوئی اور مرزا غلام نے پیش گوئیاں شروع کر دیں کہ اڑھائی سال کے اندر سلطان محمد فوجی کے مرنے کےبعد محمدی بیگم سے میرا نکاح ہو گا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا ۔( انجام اتھم صفہ نمبر 31 ،حیات ناصرصفہ نمبر 14) مرزا غلام 1908ء کو فوت ہوا دجبکہ سلطان محمد فوجی 1964ءکو فوت ہوا ۔
پیش گوئی نمبر 2:۔مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سےمرزا نے مباحثہ کیاتو مرزا نے کہا جو جھوٹا ہو گا وہ دوسرے کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے گا ۔ اس کو طاعون اور دیگر مہلک بیماریاں گھیر لیں گی ۔
ایسا ہی ہوا کہ مرزا غلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی زندگی میں مرا اور دیگر مہلک بیماریوں سے مرکب تھا۔
مرزا کی چندگستاخیاں :۔
اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ، جو تمام جہانوں کا پالنے والا حفاظت کرنے والا اور نظام کائنات چلانے والا ہے ۔ اور زندگی موت ، غریبی، امیری ، عزت و ذلت ، اور دیگر تمام اختیارات کا خالق و مالک ہے وہ تمام صفات کاملہ سے متصف ہے ، ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور تمام نقائص سے بھی پاک ہے ۔ مثلاً نیند، اولاد ، بیوی ، کھانےوغیرہ کی حاجت نہیں ہے ، تومرزا جھوٹے نبوت کے مدعی نے اللہ تعالیٰ کی گستاخی کرتے وقت حدفاصل کو بھی کراس کر دیا ہے ۔ ذیل میں مرزا کی چند گستاخیاں پیش خدمت ہیں خداکےمتعلق مرزا کی گستاخیاں۔
گستاخی نمبر 1:۔مرزاکاکہناہےکہکیا کوئی عقل مند سوچ سکتا ہےکہ خدا بولتاکیوں نہیں ؟بعد میں سوال ہو امرزا سے کہ بولتا کیوں نہیں ؟ مرزا نے خود ہی کہہ دیا( معاذ اللہ )زبان میں کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے ۔ حوالہ( ضمیہ براھین احمدیہ حصہ پنجم ص144،روحانی خزائن جلد21ص312)
گستاخی نمبر 2:۔وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے وہ کہتا ہے کہ انسان کہاں بھاگ سکتا ہے میں چوروں کی طرح معاذ اللہ پوشیدہ آؤنگا
حوالہ ( تجلیات الہی ص نمبر 4، روحانی خزائن جلدنمبر 20ص396)
گستاخی نمبر3:۔مرزا قادیانی کاکہنا ہے کہ میں عورت تھی ۔'' مریم'' خدا نے مجھ سے رجولیت کی مجھے حمل ہو گیا ۔ اور عیسی ٰ کی روح مجھ میں پھونکی گئی ، آخرکار 10ماہ بعد وضع حمل ہوا تو میں عیسیٰ ہی پیدا ہوا جو کہ مسیح موعود ہوں ۔ ( اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر 34، براھین احمدیہ حصہ 3،4، کشتی نوح ص نمبر 47)
نوٹ :۔مرزا نے دیگر خدا تعالیٰ کی گستاخیاں بھی کی ہیں ۔جیسے کبھی کہامیں سورج ہو، کبھی کہامیں خدا ہو،کبھی کہامیں چاند ہو ، کبھی کہااللہ نے میری (مرزا) کی تعزیت کی وغیرہ ۔
مرزا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخیاں
گستاخی نمبر 1:۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات میرے اندر ہیں ۔ حوالہ ( کلمۃ الفصل ص نمبر 113،مرزا بشیر احمد کی کتاب ہے )
گستاخی نمبر 2:۔آپ ﷺ کے 3000معجزات ہیں ۔ حوالہ( تحفہ گولڑویہ ص نمبر 67)میرے (مرزا ) کے 1000000لاکھ معجزات ہیں ۔حوالہ ( روحانی خزائن جلدنمبر 21ص نمبر 63)
نوٹ:۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر گستاخیاں مرزا کی زبانی جیسے میں خاتم النبین ہوں قادیان میں محمد ﷺ کا نازل ہونا ، من فرّق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفتنی و عریٰ ۔ حوالہ ( محمد متین خالد کی کتاب ( نبوت حاضرت) ص نمبر 211سے 239تک )
مرزا کی تما م انبیاء کرام ﷺکےمتعلق گستاخیاں :۔
مرزا کا کہنا ہے میں حضرت آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اسحقٰ علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، موسی ٰ علیہ السلام ، عیسی بن مریم علیہ السلام ، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں :
نوٹ :۔قارئین کرام ذرا لمحہ بھر کےلیے سوچئیے مرزا کا مذکورہ فلسفہ کس قدر گستاخانہ ہے ۔ کہ مرزا برئے اخلاق و کردار اور دیگر لغویات کا مرکب تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ (معاذ اللہ ثمّ معاذ اللہ) انبیاء کرام بھی انہی صفات رذیلہ کےحاملین تھے
مرزاکی قرآن کےمتعلق گستاخیاں:۔
گستاخی نمبر 1:۔مرزا بیان کرتا ہے قرآن کے متعلق کہ ( انّا انزلنا علیکم قربیا من القادیان ) '' حوالہ ( تذکرہ (مجموعہ وحی والہمات ،مرزا ئیوں کا قرآن )ص نمبر 59طبع چہارم )
نمبر 2:۔(ما انا الاکا لقرآن وسیظہرعلی یدی ماظہر من الفرقان) یعنی مرزا نے خود کو قرآن کہہ دیا ۔ حوالہ( تذکرہ ص570طبع چہارم نمبر 3)
نمبر 3:۔قرآن کریم خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں ۔ حوالہ ( تذکرہ ص77طبع چہارم )
صحابہ اکرام کے متعلق مرزا کی گستاخیاں :۔
جس شخص نے نہ قرآن کو معاف کیا نہ خداتعالیٰ کو نہ انبیاء کو اس پر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ صحابہ کرام پر طعن و تشنیع نہ کرے گا ۔
گستاخی نمبر 1:۔صحابہ اکرام کی گستاخی کرتے ہوئےمرزا کہتا ہے کہ ابن سیرین سے میرے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر صدیق سے بہتر ہے اس نے کہا کہ وہ تمام انبیاء سے بہتر ہے ۔ حوالہ: ( مجموعہ اشتہارات جلدنمبر 2 صفحہ نمبر 396)
گستاخی نمبر2:۔مرزا غلام احمد قادیانی کاکہنا ہے کہ ابوبکر ، عمر کیا تھے وہ تو میرے جوتے کے تسموں کے برابر بھی نہیں تھے ۔حوالہ ( ماہنامہ المہدی جنوری،فروری 1915ء5/ 3صفحہ نمبر 57)
نوٹ :۔نیز مرزا نے اپنے خلیفہ اول کو حضرت ابوبکر خلیفہ ثانی کوحضرت عمر اور خلیفہ ثالث کوحضرت عثمان خلیفہ چہارم کوحضرت علی قرار دے دیا : نیز حضرت حسین کی 100قربانی کو اپنےایک لمحہ کے برابر قراردیا ۔
نیز۔مرزا رقم طرازہے ۔
شعر :
کربلائیت سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی جماعت آئین پاکستان کی نظرمیں:۔
نبی ا کرم ﷺ کی محبت و عظمت اور ناموس کے تحفظ کے لیے جو مسلمانوں نے تاریخ رقم کی ہے۔چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی کسی قوم اورمذہب کے لوگ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ کہ مسلمانوں نے نبی اکرم ﷺ کی ناموس اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا ۔
بلکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺکی ناموس پر جب بھی کسی نے کیچڑ اچھالا تو مسلمانوں مائوں نے آپ ﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لئے اپنے لخت جگر پیش کیے جب بھی نبی اکرم ﷺ کی گستاخی اور ختم نبوت کےتحفظ کی بات ہوئی تو مسلمانوں نے اپنے لہو پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور میں خراج عقیدۃ پیش کرتا ہوں نشترمیڈیکل کالج کے ان طلبا کو جو قادیانی وحشیوں کے تشدد کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا ۔جس کی 29مئی 1974ءکو سانحہ ربوہ عملی تصویر پیش کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے احتجاج کیئے ۔
احمدشاہ نورانی نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جب ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار تھے ۔ اور دیگر علماء نے اور وزراء نے بھی اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے بل سرکاری طور پر سردار عبدالحفیظ نے پیش کیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی زیر صدارت ایوان اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پربحث ہوئی جس میں مرزا ناصر محمود قادیانی جو کہ خلیفہ ثالث تھے سے بحث و تمہیدکے بعد آخر پانچ یا چھ ستمبر 1974ء کو اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحییٰ بختیار نے بحث کوسمیٹا اور دو روزہ اسمبلی میں مفصل بحث کے بعد آخر کار سات ستمبر 1974ءکو مرزائیوں کو کفریہ عقائد کی وجہ سے ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 6یا 10اپریل 1974ءکو 140مسلمانوں کی قیادت میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ۔اور آئین پاکستان کی شق نمبر (2)160اور شق نمبر (3)260میں اندراج کر دیا گیا 298، 295/C کےتحت قادیانیوں کی سزا موت اور ان کو شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
قادیانی اور لاہوری گروپ میں فرق:۔
حکیم نوردین جوکہ مرزا قادیانی کا پہلا خلیفہ تھا ۔اس کی وفات کے بعد قادیانی جماعت میں اختلاف پیدا ہوا کہ دوسرا خلیفہ کون بنے گا؟ لہٰذا ایک طرف مرزا بشیر الدین محمود نے کہا میں مرزا غلام احمد قادیانی کاوارث ہوں مجھے خلیفہ ثانی بنایا جائے اور دوسری طرف محمد علی لاہوری نے کہا مجھے خلیفہ ثانی بنایا جائے چنانچہ ہوا یہ کہ مرزا بشیر الدین محمود کو خلیفہ ثانی نامزد کر دیا گیا اور محمد علی لاہوری نے قادیانی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے لاہور کا رخ کیا اور (صلح اخبار) کا اجراء کیا اور دار السلام کے نام سے پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 3 کی مشرقی جانب بالکل سامنے ایک ادارہ قائم کیا جس کو دار السلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ برکت مارکیٹ گارڈن ٹاؤن لاہور کے پہلو میں واقع ہے ۔نیز محمد علی لاہوری کو ماننے والے مرزا کے پیروکار بھی ہیں ۔مگر وہ مرزا کو پہلےنبی آخرالز ما مانتےتھے اب نہیں مانتے۔ بلکہ وہ صرف مبلغ، محدث ، مجدد ، تسلیم کرتےہیں اور ان کو لاہوری گروپ سے جانا جاتا ہے اور دوسرا گروہ قادیانی ہے جو کہ مرزا کو آخر ی نبی اور مسیح موعود تسلیم کرتا ہے وغیرہم ۔
عصر حاضر میں قادیانی اور لاہوری گروپ کی سرگرمیاں اور ان کا پھیلاؤ:۔
محترم قارئین کرام !عصر حاضر میں قادیانی جماعت خطر ناک حدتک پھیل رہی ہے اس کو دراصل حکومتی سرپرستی شروع سے حاصل ہے ۔ جیسے ماضی بعید میں نصر اللہ خان (وزیر اعظم آف پاکستان )نے مرزائیوں کو 1033ایکڑ اراض دیکر ربوہ کا مرکز تعمیر کرنے میں تعاون کیا اس وقت سے قادیانی گروہ خود کو مسلمان SHOW کرکےحکومتی عہدوں پہ قابض ہوتے جا رہے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ پاکستانی مسلمانوں کی بےحسی غفلت شعاری اور حکومتی سرپرستی کا نتیجہ ہے
نوٹ :۔قادیانی جماعت کے پھیلاؤ کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں قادیانی لڑکیوں کی تحریک لجنع کے نام سے معارض وجود میں آئی ہے۔ اور اپنے خرچے سے 82کے قریب کتب شائع کیں جو کہ قادیانی نصاب میں شامل ہیں۔نیز ذیل میں چند ایک بطور مثال پیش کرتے ہیں جیسے ۔
1۔کونپل نامی کتاب ، پانچ سال تک کے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے ۔ جس کے صفحہ نمبر 12پر احمدیت یعنی مرزا کا مکمل تعارف مذکور ہے ۔
2۔ غنچہ نامی کتاب تعلیمی و تربیتی نصاب، پانچ سے سات سال کے طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے جس کے صفحہ نمبر 75پر احمدیت کی تاریخ رقم ہے۔
3۔گل نامی کتاب کےصفہ نمبر80 پرمرزا غلام احمدقادیانی کے پہلے آدھے پارے کا ترجمہ ہے (جو کہ قادیانیوں کے قرآن )التذکرہ کا حصہ ہے ۔
4۔گلدستہ نامی لٹریچر 10سے 13سال کے طلباءکو پڑھایا جاتا ہے جس کے صفحہ 104پروفات عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے ۔
نوٹ :۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قادیانی جماعت سرزمین پاکستان میں خود کو مسلمان ظاہرSHOW) (کر کے مسلمانوں کے ایمان پرڈاکہ مار رہی ہے۔ جیسا کہ شفیق کالج گارڈن ٹاؤن لاہور کی دومسلمان ACCAکی طالبات تھی اور محمدآفتاب کی بیٹیاں تھیں وہ مرزائی کالج میں زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے مرزائیت اختیار کر چکی ہیں۔ اور یہاں سے بھاگ کر لندن روانہ ہو گئیں جس کا کسی کو علم نہ ہو سکا مگر کچھ دنوں بعد گھر فون کر کے انہوں نے بتایا کہ ہم مرزائیت اختیار کر چکی ہیں اب ہماری فکرمت کرنا۔
اسی طرح ایک آدمی محمد اعظم یونا WITHفیملی مرزائیت اختیار کر چکا ہے ۔
اسی طرح چناب نگر کے علاقہ (لالیہ) کا رہائشی امجد نامی شخص بھی مرزائیت اختیار کر چکا ہے ۔
اور ہم مسلمان ابھی تک خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں جاگو مسلمانوں کہیں یہ نہ ہو کہ تمہارا ایمان لٹ جائے تمہاری عزت چھن جائے اور تمہاری ٖآخرت برباد ہوجائے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو ۔
شعر : ؏
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر:ظفراقبال ظفر(متعلم جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور(رابعہ کلیہ))
وضاحت یہ مضمون بارہ گھنٹوں کے لیکچرز پر مشتمل تھا جو ظفراقبال ظفر نےترتیب دیاتھا۔
تحریر ظفر صاحب کی اور تقریر کن کی ؟ اضافہ
استاد محترم رمضان السلفی صاحب﷾
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب﷾
ابوعبداللہ طارق صاحب﷾
متین خالد صاحب﷾
عتیق الرحمن علوی صاحب﷾
عطاء الرحمٰن علوی صاحب﷾
خاور رشید بٹ صاحب ﷾
طاہر عبدالرزاق صاحب﷾
عرفان محمود برق صاحب (سابقہ قادیانی)﷾
پروفیسر اکرم نسیم ججہ صاحب ﷾
قیصر مصطفیٰ صاحب ﷾
قاری ریاض احمد فاروقی صاحب﷾
مولانا منیر احمد صاحب﷾
پروفیسر سمیر ملک صاحب﷾