مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
جان و مال میں برکت کے لئے یہ کلمات کہے جاتے ہیں :
((تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً))
ترجمہ: بھروسہ اس ذات پر جو زندہ ہے، جسے موت نہیں آئے گی اور تعریف اس اللہ کی جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ حکومت میں اس کا کوئی شریک ہے اور ذلت کے موقع پر اس کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے اور اسی کی بڑائی بیان کرو۔
یہ کلمات ایک حدیث میں وارد ہیں وہ حدیث متن و ترجمہ کے ساتھ نیچے درج کیا جاتا ہے ۔
عن أبي هريرة قال : خرجت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم ويدي في يده ، فأتى على رجل رث الهيئة ، فقال : " أي فلان ، ما بلغ بك ما أرى ؟ " . قال : السقم والضر يا رسول الله . قال : " ألا أعلمك كلمات تذهب عنك السقم والضر ؟ " . قال : لا قال : ما يسرني بها أن شهدت معك بدرا أو أحدا . قال : فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : " وهل يدرك أهل بدر وأهل أحد ما يدرك الفقير القانع ؟ " . قال : فقال أبو هريرة : يا رسول الله ، إياي فعلمني قال : فقل يا أبا هريرة : " توكلت على الحي الذي لا يموت ، الحمد لله الذي لم يتخذ ولدا ، ولم يكن له شريك في الملك ، ولم يكن له ولي من الذل ، وكبره تكبيرا " . قال : فأتى علي رسول الله وقد حسنت حالي ، قال : فقال لي : " مهيم " . قال : قلت : يا رسول الله ، لم أزل أقول الكلمات التي علمتني .
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ، میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا کہ ایک برا حال شخص سے ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا بات ہے؟ ایسی حالت کیوں ہے؟ اس نے کہا تنگدستی اور امراض کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم کو ایسے کلمات نہ بتادوں کہ تم ان کو پڑھو تو تنگدستی اور بیماری دور ہو جائے۔ تواس نے کہا نہیں ، کہاکہ مجھے اس بات سے آسانی نہیں ہے کہ میں آپ کے ساتھ بدر اور احد میں شریک رہا۔ تو آپ ﷺ ہنسے اور فرمایا: وہ کیا پریشانی اہل بدر اور اور اہل احد کو لاحق ہوئی جو قناعت کرنے والے فقیر کو لاحق ہوتی ہے ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول!وہ کلمات ہمیں بھی سکھا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑھو:
"تَوَ کَّلتُ عَلَی الحَیِِّ الَّذِی لَایَمُوتُ وَالحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَم یَتَّحِذ وَلَدًا وَّلَم یَکُن لَّہ شَرِیک فِی المُلکِ وَلَم یَکُن لَّہ وَلِیّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبّرِہُ تَکبِیرًا"
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی اس حال میں کہ میری حالت اچھی ہوگئی تھی ۔ تو آپ نے مجھ سے پوچھا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں اس دن سےوہ کلمات پڑھ رہاہوں جو آپ نے مجھے سکھایا تھا۔
اس حدیث میں "والحمد للہ" سے لیکر آخر تک قرآن کی آیت ہے جو سورہ اسراء آیت نمبر 111 ہے ، بس اس حدیث میں واؤ کے بعد قل کا لفظ نہیں ہے۔ اس آیت کو آیت العز کہا جاتا ہے۔
تخریج وحکم :
٭اس حدیث کو ابویعلی (6671) اور ابن السني (546) نے بیان کیا ہے ۔
٭ اس روایت کو علامہ ابن کثیر نے ذکرکرکے کہا اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں نکارت ہے ۔(تفسير القرآن: 5/129 )
٭ اس کی سند میں موسی بن عبیدۃ ہیں جوکہ بہت ضعیف ہیں ، اسے حافظ ابن حجر نے بھی ضیعف کہا ہے۔ (المطالب العالية:2/ 335).
٭ ہیثمی نے بھی اس کے راوی موسی بن عبیدۃ الربذی کو ضعیف کہا ہے ۔(مجمع الزوائد: 7/55)
٭ بوصیری نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے ۔ (إتحاف الخيرة المهرة:7/441)
٭ اس ذکر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے بلکہ معضل کہا جو مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف ہوتی ہے ۔ (ضعيف الترغيب للالبانی : 1153)
خلاصہ یہ ہے کہ ذکر کے یہ کلمات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ۔
((تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً))
ترجمہ: بھروسہ اس ذات پر جو زندہ ہے، جسے موت نہیں آئے گی اور تعریف اس اللہ کی جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ حکومت میں اس کا کوئی شریک ہے اور ذلت کے موقع پر اس کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے اور اسی کی بڑائی بیان کرو۔
یہ کلمات ایک حدیث میں وارد ہیں وہ حدیث متن و ترجمہ کے ساتھ نیچے درج کیا جاتا ہے ۔
عن أبي هريرة قال : خرجت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم ويدي في يده ، فأتى على رجل رث الهيئة ، فقال : " أي فلان ، ما بلغ بك ما أرى ؟ " . قال : السقم والضر يا رسول الله . قال : " ألا أعلمك كلمات تذهب عنك السقم والضر ؟ " . قال : لا قال : ما يسرني بها أن شهدت معك بدرا أو أحدا . قال : فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : " وهل يدرك أهل بدر وأهل أحد ما يدرك الفقير القانع ؟ " . قال : فقال أبو هريرة : يا رسول الله ، إياي فعلمني قال : فقل يا أبا هريرة : " توكلت على الحي الذي لا يموت ، الحمد لله الذي لم يتخذ ولدا ، ولم يكن له شريك في الملك ، ولم يكن له ولي من الذل ، وكبره تكبيرا " . قال : فأتى علي رسول الله وقد حسنت حالي ، قال : فقال لي : " مهيم " . قال : قلت : يا رسول الله ، لم أزل أقول الكلمات التي علمتني .
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ، میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا کہ ایک برا حال شخص سے ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا بات ہے؟ ایسی حالت کیوں ہے؟ اس نے کہا تنگدستی اور امراض کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم کو ایسے کلمات نہ بتادوں کہ تم ان کو پڑھو تو تنگدستی اور بیماری دور ہو جائے۔ تواس نے کہا نہیں ، کہاکہ مجھے اس بات سے آسانی نہیں ہے کہ میں آپ کے ساتھ بدر اور احد میں شریک رہا۔ تو آپ ﷺ ہنسے اور فرمایا: وہ کیا پریشانی اہل بدر اور اور اہل احد کو لاحق ہوئی جو قناعت کرنے والے فقیر کو لاحق ہوتی ہے ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول!وہ کلمات ہمیں بھی سکھا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑھو:
"تَوَ کَّلتُ عَلَی الحَیِِّ الَّذِی لَایَمُوتُ وَالحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَم یَتَّحِذ وَلَدًا وَّلَم یَکُن لَّہ شَرِیک فِی المُلکِ وَلَم یَکُن لَّہ وَلِیّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبّرِہُ تَکبِیرًا"
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی اس حال میں کہ میری حالت اچھی ہوگئی تھی ۔ تو آپ نے مجھ سے پوچھا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں اس دن سےوہ کلمات پڑھ رہاہوں جو آپ نے مجھے سکھایا تھا۔
اس حدیث میں "والحمد للہ" سے لیکر آخر تک قرآن کی آیت ہے جو سورہ اسراء آیت نمبر 111 ہے ، بس اس حدیث میں واؤ کے بعد قل کا لفظ نہیں ہے۔ اس آیت کو آیت العز کہا جاتا ہے۔
تخریج وحکم :
٭اس حدیث کو ابویعلی (6671) اور ابن السني (546) نے بیان کیا ہے ۔
٭ اس روایت کو علامہ ابن کثیر نے ذکرکرکے کہا اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں نکارت ہے ۔(تفسير القرآن: 5/129 )
٭ اس کی سند میں موسی بن عبیدۃ ہیں جوکہ بہت ضعیف ہیں ، اسے حافظ ابن حجر نے بھی ضیعف کہا ہے۔ (المطالب العالية:2/ 335).
٭ ہیثمی نے بھی اس کے راوی موسی بن عبیدۃ الربذی کو ضعیف کہا ہے ۔(مجمع الزوائد: 7/55)
٭ بوصیری نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے ۔ (إتحاف الخيرة المهرة:7/441)
٭ اس ذکر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے بلکہ معضل کہا جو مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف ہوتی ہے ۔ (ضعيف الترغيب للالبانی : 1153)
خلاصہ یہ ہے کہ ذکر کے یہ کلمات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ۔