قدماء کا کلام جاہلیت سے استدلال کا طریقہ
اسی اصول پر ہمارے قدیم ترین صاحب تفسیر امام محمد بن جریر طبریؒ (م۳۱۰ھ) نے اپنی ضخیم تفسیر لکھی جسے تفسیر بالروایۃ کا نام دیا گیا، اس کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی اور ہے اور پھر تقریباً چار سو سال بعد اس ضخیم تفسیر کی تلخیص و تنقیح (تنقیح صرف احادیث پر کلام کی حیثیت سے) حافظِ حدیث ابنِ کثیرؒ نے آٹھویں صدی ہجری میں کی جو اپنے اختصار (۴ جلدیں)کی وجہ سے زیادہ مقبول و متداول ہے، یہاں یہ ملحوظ رہے کہ یہ دونوں مفسرین اور خاص طور پر امام طبری زبان دانی میں کسی ماہر لغت سے کم نہ تھے، ان کی تفسیر میں جہاں ارشادات نبوی اور اقوالِ صحابہؓ و تابعینؒ سے استناد ہے وہیں شعری استناد بھی ہے،حافظ ابن کثیرنے اختصار کی خاطر اپنی تفسیر میں بہت سے اشعار حذف کردیے، یہی ایک تیسری مشہور و متداول ضخیم تفسیر امام قرطبی اندلسی (م ۶۷۱ھ) کی تفسیر کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر میں احکام القرآن پر خصوصی توجہ رکھنے (اس کا نام الجامع الاحکام القرآن ہے) کے باوجود بہت سے مقامات پر شعری ذخیرے سے استناد کیا ہے لیکن اولیت ان کے یہاں بھی اقوال صحابہؓ و تابعینؒ کو حاصل ہے اس کے ساتھ ہی ان مفسرین ماہرین لغت و نحو: فرّاء ابو عبیدۃ معمر بن المثنیٰ، ابن الاعرابی اور الزجاج وغیرہ کے اقوال کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔
یہ ایک اصولی بات ہے جس کا فراہی صاحب مرحوم کے یہاں فقدان ہے غالباً اسی سبب سے ان کی چند سورتوں کی تفاسیر کو طبقۂ علماء میں قبولیت کی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور نتیجۃً اس کو قبول عام حاصل نہیں ہوا۔
فراہیؒ مکتب فکر کامسئلہ: الفاظ کے شاذ معانی اختیار کرنا
ایک دوسری اصولی بات کافقدان ان کی ان تفاسیر میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ الفاظ قرآن کے متداول معانی کے بجائے ان کے غیر معروف و شاذ معانی اختیار کرتے ہیں، اور اس کے لیے ان کو اشعار عرب سے استناد پیش کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بعض اوقات بہت تکلّف نظر آتا ہے۔ سورۃ الذاریات کی مذکورۂ بالا دو آیات کے کے سلسلے میں بھی یہی دونوں باتیں نظر آتی ہیں۔آیت نمبر(۷) پر تو ہم ان کی تفسیر پر کلام کرچکے ہیں، اور اب آیت نمبر: ۴ یعنی ’’فالمقسمٰت امراً‘‘ کے بارے میں عر ض ہے کہ مرحوم نے اس آیت کا ترجمہ لکھا ہے (یا یوں کہا جائے کہ امین احسن اصلاحی مرحوم نے ان کی عربی عبارت کا اردو ترجمہ کیا ہے): ’’پھر الگ الگ کرتی ہیں معاملے کو‘‘ ۔غالباً ہر شخص اس سے اتفاق کرے گا کہ یہ جملہ خواہ عربی میں ہو یا اردو میں خود ہی محتاج تفسیر ہے۔ سب سے بہتر ترجمہ وہ ہے جو حتی الامکان خود ہی تفسیر بھی ہو۔
تقسیم الامر اور قسم الموتمر ہم معنی نہیں ہیں
اہلِ لغت اور قدماء مفسرین کے خلاف اس آیت کا مفہوم اختیار کرنے کے لیے فراہی مرحوم کو اموی عہد کے ایک شاعر کے ایک شعر کا سہارا لیناپڑا اور اس کے لیے انھیں دور از کار لغوی تاویلات کرنا پڑیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن میں تقسیم الامر کا لفظ ہے جبکہ پیش کردہ شعری شاہد میں قسم الموتمر ہے، مولانا نے دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے حالانکہ اس کی تایئید کتب لغت سے نہیں ہوتی۔ لسان العرب میں قسم الامر قسماً کے معنی تو وہی دیے ہیں جو شعر میں ہیں، لیکن التقسیم کے معنی التفریق کے دیے ہیں اور اِس کی تایئید میں ابن منظور نے قِدر (ھانڈی) کے بارے میں یہ شعر بطور شاہد کے پیش کیا ہے۔
تُقسِّم ما فیہا، فان ھی قسَّمت
فذاک وان أکرت فعن اھلھا تکری
اب اس شعر میں تقسِّیم اور قسمت کے معنی کسی معاملے میں فرق وامتیاز کرنے اور غوروفکر کے نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے معنی تقسیم کرنا اور بانٹنا ہی ہوسکتے ہیں، جو قدیم و مستند ماہر لغت ابو عمر و بن العلاء (م ۱۵۴ھ) سے اسی جگہ لسان العرب میں منقول ہیں۔ مصنف (فراہی مرحوم) اورشارح کا یہاں یہ کہنا کہ قسم مبالغے کے لیے ہے جیسے کسر کا مبالغہ کسّر (بہت زیادہ توڑنا) درست نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ باب تفعیل ہمیشہ مبالغہ کے لیے نہیں آتا بلغ اور بلّغ، صدَق اور صدّق وغیرہ کی مثال سب کے سامنے ہے، باب تفعیل تعدیہ کے لیے بھی آتا ہے، اب بلغ کے معنی پہنچنا ہے جبکہ بلّغ کے معنی پہنچانا ہے اسی طرح صدق سچ کہنا اور صدّق کسی کو سچ ماننا ہے۔ پھر اسی موقعہ پر لسان العرب میں فلان جیّد القسم کے معنی جیّد الرأی (اچھی رائے رکھنے والا) دیے ہیں جبکہ رجل مقسَّم کے معنی دیے ہیں: مشترک الخواطر بالھموم (پریشانیوں کے باعث پر ا گندہ فکر)۔
المؤتمر کے معنی قرآن اور کلام جاہلیہ میں
پھر یہ کہ ائتمر جس سے شعر کا آخری لفظ المؤتمِر (ائتمر کا اسم فاعل، میم پر زیر) مشتق ہے، اس کے صرف وہی معنی نہیں جو مصنف نے اور اُن کے تتبع میں شارح غامدی صاحب نے دیے ہیں یعنی ’’خود رائے‘‘ (غالباً فراہی مرحوم نے عربی میں المستبد بالرأی لکھا تھا، جس کا ترجمہ اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن لغت میں ائتمار کے معنی صرف استبداد بالرأی نہیں ہے بلکہ وہ صرف ایک معنی ہیں اور غیر معروف ائتمار جس سے فعل ائتمر اور اسم فاعل مؤتمر(میم پر زیر ) ہے اس کے معروف و متداول معنی باہم مشورہ کرنے کے ہیں۔قرآن میں اسی معنی میں دو جگہ آیاہے:
اِن الملأ یأ تمرون بک لیتقلوک (القصص: ۲۰) اور دوسری جگہ
وائتمر وابینکم بمعروف (الطلاق: ۶) اور یہی معنی قدیم مخضرم (جاہلی اسلامی) شاعر النمر بن تولب کے شعر میں ہے:
أری الناسَ قداحد ثواشیمۃ
وفی کل حادثۃ یوتَمر
اور یہی معنی امرؤالقیس کے شعر میں ہے:
احار بن عمر و کأ نّی خمیر
ویعدو علی المرء مایأ تمِر(۱)
گدھا یا گورخر: مضحکہ خیز استدلال
ایک بڑی دلچسپ بات یہا ںیہ ہے کہ کہ مرار بن منقذ کے پیش کردہ شعر میں مولانا فراہی کے مطابق ’’گدھا گھانس کے مواقع کا جائزہ لے رہاہے‘‘ اور اس شعر کا جو نثری ترجمہ انھوں دیا ہے وہ یہ ہے: ’’وہ (گدھا) ٹیلے کی بلندی پر سر اٹھائے ہوئے ایک خود رائے کی طرح معاملے میں فرق و امتیاز کرتا رہا‘‘ اور یہی بات غامدی صاحب نے لکھی ہے ’’ظل الحمار ینظر فی امرہ و یفرق وجوہہ‘‘ سوال یہ ہے کہ گدھے میں کب سے اتنی عقل آگئی کہ وہ غور و فکر کرے اور معاملے کا جائزہ لے وہ بیچارہ تو اپنی بیوقوفی کے لیے ضرب المثل ہے۔ یہ بات دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز اس لیے ہوگئی کہ مصنف اور شارح دونوں نے حمار الواحش (گورخر) کے معنی قصباتی گدھے کے لیے ہیں، جاہلی عربی قصائد میں اکثر حمار الوحش یا صرف الحمار کے شکار کا ذکر قصیدے کی ابتدا میں ہوتا ہے، اس سے مراد گورخر [Zebra]ہی ہوتا ہے۔
مکتب فراہی اقوال صحابہ کرام اور تابعین پر اعتماد نہیں کرتا
تفسیر میں سند اقوال صحابہ یا کلام جاہلی
’’المقِّسمٰت امراً‘‘کی تفسیر میں یہ تورہی بات لغت کی جس پر مولانا فراہی اور غامدی بہت اعتبارکرتے ہیں، لیکن ان مفسّرین کے یہاں جو اقوال صحابہؓ و تابعینؒ پر اعتماد کرتے ہیں، جیسے طبریؒ ، قرطبیؒ ، ابن کثیرؒ وغیرہ ان کے یہاں اِس دو لفظی آیت کی تفسیر وہی ہے جو سیّدنا علیؓ، سیّدنا عمرؓ اور سیّدنا عبداللہؓ ابن عباسؓ اور ان شاگردوں سے روایت ہے، ان صحابۂ کرام اور تابعین نے ’’فالمقسمٰت أمراً‘‘ کے معنی فرشتے دیے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف امورِ دنیا پر مامور ہیں۔اور یہی معنی اس آیت کے دوسری صدی ہجری کے دو قدیم ماہرین لغت قرآن الفرّاء (م۲۰۷ھ) اور ابو عبیدہ معمر بن المثنّی (م ۲۱۰ھ) نے علی الترتیب اپنی کتابوں معانی القرآن (ج۳ ص ۸۲ طبعہ الھئیۃ العامۃ المصریۃ ۲۰۰۱ء) اور مجاز القرآن (ج ۲ ص ۲۲۳، طبقہ بیروت، ۱۹۸۱ء) میں دیے ہیں۔ فرّاء نے یہ معنی لکھتے ہوئے وضاحت کی ہے: الملائکۃ تاتی بامر مختلف: جبریل صاحب الغلظۃ ، ومیکائیل صاحب الرحمۃ، وملک الموت یاتی بالموت فتلک قسمۃ الامور (فرشتے مختلف کام کرتے ہیں، جبریل سختی کرنے والے، میکائیکل رحمۃ کرنے والے اور فرشتۂ موت (عزرائیل) روح قبض کرنے والے ہیں) یہ ملحوظ رہے کہ ان دونوں ماہرین لغت نے یہاں یہ معنی کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیے ہیں۔ مصر کی مجمع اللغۃ العربیۃ [Arab Academy] کی طرف سے دو جلدوں میں جو ضخیم معجم الفاظ القران الکریم (قرآنی الفاظ کی لغت) شایع ہوئی (۱۹۷۰ء القاھرۃ) ہے اس میں بھی المقسِمٰت أمرا کے معنی یہی دیے ہیں:
جماعۃ الملائکۃ الذین تقسِمون الاشیاء او الامور بین الناس باذن اللّہ‘‘ ساتھ ہی صیغۂ تمریض (مشکوک وضعیف) میں یہ بھی لکھ دیا ہے، ’’
وقیل: ہی الریاح تقسم الامطار بتصریف السحاب‘‘۔
اب اگر مولانا فراہی کو یہی ضعیف معنی پسند تھے اور یہی ان کے معتقد و مقلد غامدی صاحب کو پسند ہیں تو ہوا کریں، جمہور عرب ماہرین لغت مفسرین کے بر خلاف اسی کمزور تفسیر کو صحیح کہہ کر پیش نہ کریں،اور عربی الفاظ کی صرف ایک شعر کی بنیاد پر دور از کا ر تاویلات نہ کریں۔ علم ایک میراث مشترک ہے، فضلائے سابقین اور خاص طور پر تفسیر قرآن میں صحابہ کے اقوال سے مستفید ہو نا نقص علم نہیں۔ مولانا فراہی کے مکتبۂ فکر کی یہی کمزوری ہے جس میں جاوید احمد غامدی صاحب بھی گرفتار ہیں۔ یہی استبداد بالرای ہے۔
ایک قدیم عربی شعر کی شرح کرتے ہوئے، اپنے حفظ کردہ دوسرے قدیم جاہلی وغیرجاہلی اشعار پیش کردینا علم نہیں تعالم یعنی اظہار علمیت ہے۔ مولانا عبدالعزیز میمن مرحوم اور مولانا محمد سورتی مرحوم کو مولانا فراہی مرحوم سے کہیں زیادہ جاہلی وغیر جاہلی قدیم عربی اشعار یاد تھے، لیکن انھوں نے صرف ان اشعار کی بنیادپر تفسیر قرآن نہیں کی۔ القصائد السبع المعلقات یاد کرلینے سے عربی زبان نہیں آجاتی، یہی کمزوری ہمارے عربی مدارس کی ہے کہ وہاں ان قصائد (جن کو وہ غلط نام سبعۂ معلقہ دیتے ہیں) کو حفظ کرنے والے تو کافی مل جائیں گے لیکن صحیح اور اچھی عربی نثر لکھنے والا شاذو نادر ہی ملے گا اور یہ ملکہ قرآن کو ادبی نقطۂ نظر سے پڑھنے اور کثرت سے عباسی عہد اور جدید دور کی عربی نثر کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔
میں لکھنے تو جاوید غامدی صاحب کی عربی کے بارے میں بیٹھا تھا، بات ان کے استاد کے استاد مولانا فراہی کی تفسیر پر پہنچ گئی اور اسی پر دو تین صفحے ہوگئے لیکن ان کے طریقۂ تفسیر اور اس کے کمزور پہلوؤں پر، ان شاء اللہ، پھر کبھی لکھوں گا جب ان کی اصلی عربی تحاریر مہیا ہو جائیں گی۔
جاوید غامدی صاحب کی جو عربی نگار شات مجھے مہیا کی گئی ہیں، وہ ان کے مجلّہ ’’الاعلام‘‘ کے قدیم اعداد سے ہیں افسوس کہ ان کو غلط ترتیب دیا گیا ہے، اب میرے سامنے سورۃ الذاریات کی پہلی آیت پر پیش کردہ شعری شاہد کی شرح موصوف کے قلم سے ہے۔
محتاج تشریح اشعار سے استدلال: محض اظہار تعالم
مولانا فراہی نے لفظ قرآنی’’ ذرواً‘‘ کے معنی بیان کرنے کے لیے اعشی بکربن وائل کا شعر پیش کرکے اس پر صرف دو سطریں بطور تشریح لکھی ہیں۔ مولانا فراہی نے تو تفسیر سورۂ الذاریات عربی زبان میں اہل علم کے لیے لکھی تھی۔ معلوم تھا کہ الفاظ: شبہ، حریق، الیبس الریح کے معانی سب جانتے ہیں اور یہ کہ فاء (ف) تعقیب کے لیے اور ’’باء‘‘ تعدیۃ الفعل کے لیے اور ’’لام‘‘ عہد کے لیے ہوتاہے۔ یہ تو عربی زبان کے متوسط طلبہ بھی جانتے ہیں اس لیے انھوں نے ان عام عربی الفاظ اور حروف کی تشریح نہیں کی تھی، لیکن غامدی صاحب نے مولانا فراہی کے قاری کو بہت ضعیف العلم سمجھا اور ان عام فہم الفاظ و حروف کی شرح فرمانے لگے اور ان الفاظ و حروف کی تشریح میں جاہلی شعراء کے نو اشعار پیش کردیے جو خود محتاجِ تشریح ہیں، اب بتایا جائے اس کو ’’تعالم‘‘ (اظہار ہمہ دانی) نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
غامدی صاحب کا کمال: آسان الفاظ کی شرح مشکل ترین الفاظ سے
قدیم کتابوں کے عربی جملوں سے نثر نگاری کا شوق
پھر طرفہ تماشا یہ کہ وہ ا ن عام الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے، عربی کے وہ نامانوس اور غیر مستعمل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جو تشریح کردہ الفاظ سے بہت زیادہ مشکل ہیں، مثلاً وہ ’’ریح الشمال‘‘ (شمالی ہوا) کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’قرت الایام وغامت السماء۔۔۔وألقت فی صوادھا ثلجا یبرک النیوب بالجعجاع‘‘۔ اب قرّت اور غامت کو چھوڑیے کہ شاید ذکی اور لایق طلبہ ان کے معانی جانتے ہوں، اگرچہ بہر حال یہ ’’شبہ‘‘، ’’حریق‘‘ اور ’’ریح‘‘ سے زیادہ مشکل الفاظ ہیں، لیکن خدارا یہ تو بتایا جائے کہ یہ صواد، نیوب اور جعجاع کون سے عام فہم اور مستعمل الفاظ ہیں جو جناب غامدی صاحب نے ریح الشمال کی تشریح میں استعمال کیے ہیں؟ یہ کیا؟ آسان الفاظ کی شرح مشکل الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی جو مقامات حریری پڑھی ہوگی اس کے کچھ الفاظ ان کے ذہن میں شرح شواہد الفراہی لکھتے ہوئے چپکے ہوئے تھے، شاید اب وہ خود ہی ان الفاظ کے معانی بغیر لغت دیکھے ہوئے نہیں بتاسکیں۔ پھر یہ کہ انہوں نے ایک عام فہم لفظ ’’ریح‘‘ جملے میں یہاں استعمال کیا ہے تو اس میں ٹھوکر کھائی ہے کہ ’’وکثرت الریح‘‘ لکھا ہے، کثرت یہاں مہمل ہے اشتدت ہونا چاہیے، محل بھی اسی کا ہے کہ ذکر شمال کی شدید ہواؤں کا ہورہا ہے۔ نتیجہ اس سے یہ بر آمد ہوتا ہے کہ موصوف کو بعض قدیم کتابوں سے عربی کے جو جملے یاد ہیں وہ تو صحیح لکھ دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج تشریح ہو تے ہیں اور جہاں وہ خود خامہ فرسائی فرماتے ہیں تو وہاں ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اس کی مثالیں گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہیں، مزید اور سامنے آئیں گے، پہلے میں ان کے حفظ کردہ مشکل جملوں اور غیر مانوس الفاظ کی شرح کردوں۔
۱۔ قرّت الایام: دنوں کا ٹھنڈا ہوجانا، ’بَردَت‘‘ عام اور مستعمل لفظ ہے، اس کا مصدر قُرّوقِرّۃ ہے، لیکن قرّت کے عام مستعمل معنی ٹہرنے کے ہیں، اور یہ استقرت کا ہم معنی ہے، مگر اس صورت میں اس کا مصدر قرار ہے۔ کہا جائے گا کہ ’’قرّت المراۃ فی بینھا‘‘ یہاں بھی استقرت زیادہ فصیح اور مانوس ہے۔
۲۔ غامت السماء: انتشرت السحب فی السماء تشریح کے لیے زیادہ عام فہم ہے۔
۳۔ صواد: صادیۃ کی جمع ہے، معنی: بہت زیادہ پیاسی، پُبرک (ی پر ضمہ) اونٹ کو بٹھانا، صوادی کھجور کے درختوں کو بھی کہتے ہیں۔ اس کا واحد بھی صادیۃ ہے۔
۴۔ النیوب: سن رسیدہ اونٹنیاں۔
۵۔ الجعجاع: تنگ و دشوار جگہ یا خراب موسم
غامدی صاحب سلیس و صحیح عربی میں ایک جملہ لکھنے پر قادر نہیں
اس جملے میں صرف دو لفظ القت اور الثلج عام فہم اور کثیر الاستعمال ہیں، باقی چار الفاظ غیر مانوس اور خاص طور پر صواد، نیوب اور جعجاع لغت کے الفاظ ہیں یا قدیم جاہلی۔ اور زبان نہ تو لغت کانام ہے اور نہ جاہلی اشعار کا۔ عام عربی داں قاری کے لیے اس ثقیل و غیر فصیح جملے کا مطلب ہوگا کہ: ’’سخت ٹھنڈی ہوا نے بلند و بالا کھجور کے درختوں پر سے اتنی برف گرائی کہ اونٹنیاں تنگ و غیر ہموار جگہوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوگئیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب سلیس و صحیح عربی میں ایک جملہ لکھنے پر قادر نہیں اور ثقیل و غیر مانوس الفاظ کا سہارا لے کر وہ قاری پر اپنی عربی زبان دانی کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ریح الشمال کی تشریح کے سیاق میں انتہائی مضحکہ خیز اور لایق افسوس بھی ہے۔
مہمل، غلط در غلط عربی جملے
اسی ریح الشمال کی تشریح میں وہ آگے چل کر فرماتے ہیں،
الریح العاصفۃ الشدیدۃ المرور‘‘ اس میں الشدیدۃ المردر تو قطعاً غلط ہے، اس لیے کہ ہوا کے چلنے کے لیے عربی زبان میں ھبوب کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے، مرور نہیں،مزید یہ کہ یہ جملہ ہی مہمل ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ عاصفہ تو کہتے ہی ہیں الریح الشدیدۃ الھبوب (سخت تیز ہوا: آندھی) کو، پھر یہ باقی الفاظ اسی کے ساتھ کیوں پروئے گئے ہیں؟
جو بات یہاں قاری کو بتانے کی تھی وہ یہ تھی کہ اگرچہ شاعر نے شعر میں ’’ریح الشمال‘‘ استعمال کیا ہے، لیکن صرف ’’شمال‘‘ بھی شمالی ٹھنڈی ہوا کہ کہا جاتا ہے۔
اگلی سطر میں موصوف اپنی شرح میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو خود محتاج شرح ہیں، یہ دو لفظ ہیں:
’’سہوک الریح‘‘: اگر جاوید غامدی صاحب یا کوئی اور القاموس دیکھے گا تو اس کو معلوم ہوگا کہ اس کے بنیادی معنی پسینے کی بدبو اور سڑے ہوئے گوشت کی بدبو ہے۔ اس لفظ کے اور بھی بہت سے معانی ہیں، ان میں سے ایک سہوک کے معنی سخت آندھی کے بھی ہیں،اور ریح ساہکۃ بھی آتا ہے، لیکن عام فہم اور فصیح لفظ ہوا کہ چلنے کے لیے ’’ھبوب‘‘ ہی ہے۔
’’المحل‘‘ بھی مشکل الفاظ کی شرح میں کسی طرح مناسب نہیں، فصیح اور عام عربی لفظ قحط ہے۔
غامدی صاحب کی عربی تحریروں میں ہمزہ لکھنے کی غلطیاں
’’از جاء ھا‘‘ یہ قرآنی لفظ ہے،خود محتاج شرح ہے، اس کی جگہ عام فہم لفظ سوق (س پر فتحہ) ہے، قرآن میں بضاعۃ مز جاۃ بھی ہے یعنی متاع قلیل۔ افسوس ناک بات یہ کہ غامدی صاحب نے اس لفظ کا املاء بھی اس جگہ غلط لکھا ہے چونکہ ا ز جاء یہاں مجرور ہے۔اس لئے ہمزہ منفصلہ لکھنا درست نہیں بلکہ ا س کو ایک شوشہ پر اس طرح (ازجاءھا) لکھنا چاہیے۔ ھمزہ لکھنے کی یہ غلطی میں نے غامدی صاحب کی تحریر میں دوسری جگہوں پر دیکھی ہے۔ تنہا ھمزہ حالت نصب (مفعولی) میں لکھا جاتا ہے۔اور حالت رفع میں (فاعلی) یہ واو پر ہوتاہے۔ غامدی صاحب کو وسط کلمہ میں ہمزہ لکھنے کا قاعدہ دیکھنا چاہیے۔
ایک طرف تو موصوف نیوب، جعجاع ، سہوک، محل، از جاء جیسے ثقیل الفاظ استعمال کررہے اور دوسری طرف مصیبۃ جیسے عام لفظ کی شرح فرمارہے اور اس کی غیر فصیح جمع ’’مصیبات‘‘ لکھ رہے ہیں۔ فصحاء کی زبان پرمصائب کا لفظ ہے، دوسری سطر میں اذکربعضاً کے بجائے بعضھا ہونا چاہیے۔
’’شدۃ القر‘‘: القّر (تشدید کے ساتھ)تو خود ہی محتاج شرح ہے،شدۃ البرد ہونا چاہیے، اسی کو تعالم کہتے ہیں، غامدی صاحب حریری کی طرح کوئی مقامہ تو نہیں لکھ رہے ہیں۔
پیش کردہ نو اشعار کاموضوع سے کوئی تعلق نہیں
’’تعالم‘‘ کی ایک اور واضح مثال جاہلی شعراء کے دس شعر ہیں جو موصوف نے اسی صفحہ (۴۲)پیش کیے ہیں جن میں سے ’’ریح الشمال‘‘ (شمالی سخت ٹھنڈ ہی ہوا) سے کوئی تعلق نہیں، جس کی شرح میں جناب نے ۹ سطریں تحریر کی ہیں، یہ تمام اشعار جاہلی عربوں کی جو دو سخا اور مہمانداری سے متعلق ہیں، اور سب میں اتنے مشکل الفاظ ہیں کہ ایک عام قاری جس کے لیے یہ شرح الشواہد لکھی گئی ہے، لغت کی کتابیں کھنگا لنے کا محتاج ہے۔ اور پھر یہ کہ جاہلی عربوں کی یہ مہمان داری صرف ٹھنڈی ہواؤ ں سے مصائب کے موقع پر نہیں وہ تو ہر حال میں مہمان داری اور کھانا کھلانے کے لیے مشہور تھے۔
جاہلی اشعار و قصائد کا حفظ کرلینا زبان دانی کی علامت نہیں
غامدی صاحب عربی کا ایک صفحہ بھی درست نہیں لکھ سکتے
’’کلاء‘‘: اس لفظ کا یہ املاء غلط ہے، صحیح کلأ (ھمزہ الف کے اوپر) ہے، جیسے لفظ خطأ ہے اور خطّاء (بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا) کے آخر میں ھمزہ ہے۔آخر میں عرض ہے کہ سورۃ الذاریات کے قرآنی لفظ ’’ذرواً‘‘ کی شرح میں مفسر فراہی مرحوم نے ایک شعر لکھا تھا اور دوسطروں میں لفظ کی مناسب اور اطمینان بخش شرح کردی تھی، غامدی صاحب نے اس شعر کی شرح میں اپنی علمیت کے اظہار کے لئے ۱۳ اس سے زیادہ مشکل شعر لکھ ڈالے جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔میں ان سے پھر عرض کرو ں گا کہ جاہلی اشعار وقصائد حفظ کر لینا عربی زبان دانی کی علامت نہیں ، عباسی دور میں عربی نثر کو جاہلی اشعار نے نہیں بلکہ قرآن نے اپنی معراج پر پہنچادیا تھا جو جاحظ، ابن قتیبہ، المبرد، ابوالفرج الاصفہانی (صاحب الاغانی) اور ابن عبدرّبہ اور ابو حیان توحیدی وغیرہ کے منثور ادب میں اوج کمال پر ہے۔جاہلی ادب (شعر) کے تو سینکڑوں الفاظ متروک ہوچکے ہیں، لیکن قرآن کی شگفتہ و دلآویز و اثر آفر ین زبان آج بھی زندہ ہے، سوائے معدودے چند: سیارۃ (بمعنی قافلہ) جاریہ (بمعنی کشتی، بحری جہاز) غلام (بمعنی ولد) وغیرہ الفاظ کے۔ عربی زبان کا شستہ اور شگفتہ ذوق اور سلیقہ رکھنے والا قرآن کی الہامی زبان سے متاثر ہو کر ایسی نثر لکھ سکتا ہے جسے پڑھ کر روح وجد میں آجائے عصر حاضر میں یہ سعادت ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مصنف سید قطب شہید کو حاصل ہوئی ہے۔ میر ا جاوید غامدی صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ عربی زبان سے ان کو اگر اب بھی لگاؤ ہے تو یہ تفسیر پڑھیں جو داعیانہ مزاج اور ادب کے قلم سے لکھی گئی ہے، وہ دیکھیں گے کہ قرآن کی فیض رسانی سے کیسی معجزانہ نثر وجود میں آئی ہے۔ یہ بیسویں صدی کی بلا شبہ معجزاتی نثر ہے۔ سید قطب اس میں مصطفی صادق الرافعی، احمد حسن الزیات اور طہ حسین جیسے اساطینِ ادب سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ سب کچھ امرؤالقیس، نابغۃ ذبیانی، زھیربن ابی سلمی اور عنترہ بن شداد وغیرہ جاہلی شعرا کے اثر سے نہیں ہو۔ ان قصیدوں کو پڑھتے رہنے اور حفظ کرنے والا ان میں اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ شگفتہ و دلآویز عصری نثر لکھ ہی نہیں سکتا، یہی غامدی صاحب کا معاملہ ہے شگفتگی اور دلآویزی تو دوسری بات ہے، قاری پر واضح ہوگیا ہوگا کہ وہ تو ایک صفحہ بھی صحیح عربی کا نہیں لکھ سکتے۔
غامدی صاحب کا ایک اور سرقہ:
آخر میں (الشاہدفیہ) کے تحت غامدی صاحب لکھتے ہیں: ان الفاء الداخلۃ علی الصفات تدل علی الترتیب کما ذکرنا، وعلی انہا متعلقۃ بموصوف واحد لا بموصوفات متعددۃ یہ عربی قواعد کا ایک عام قاعدہ ہے نہ تو یہ کوئی انکشاف ہے اور نہ کسی غیر معمولی نحوی قاعدے کی نشان دہی۔ افسوس ہے کہ یہ بھی ان کا مولانا فراہی سے سرقہ ہے، بعینہ یہی الفاظ فراہی مرحوم کے ہیں۔ بس جناب غامدی نے اتنا کرم کیا ہے کہ یہاں وہ دعوی نہیں دہرایا جو مولانا فراہی نے کیا ہے، جو یہ ہے:
’’پس یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ یہ (یعنی والذاریات۔۔۔ فالحٰملٰت۔۔۔ فالجاریات ۔۔۔ فالمقسِّمٰت)مختلف چیزوں کی صفتیں ہیں، یہ بات نظائر قرآن اور کلامِ عرب کے خلاف ہے‘‘۔
فراہی مکتب فکر: حضرت عمرؓ و علیؓ اور ماہرین لغت کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا
فراہی صاحب، اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب کا مشترکہ غرورِ علم
مولانا فراہی نے ایک جگہ اپنے اس مجموعہ تفاسیر میں لکھا ہے کہ تفسیر طبری اور رازی ان کے سامنے رہتی ہے۔ مگر اس ناچیز کا خیال ہے کہ شاید اس موقع پر طبری ان کے سامنے نہ تھی ورنہ وہ اتنے بڑے دعوے کی جسارت نہ کرتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان کے اس دعوے کی ضرب کس پر پڑتی ہے؟ سیّدنا عمرؓ، سیّدنا علیؓ اور سیّدنا عبداللہؓ ابن عباسؓ جیسے فقہاء صحابہ پر ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
طبری میں متعدد اسناد سے بتایا گیا ہے کہ حضرت علیؓ نے سورۃ الذاریات کی ابتدائی چار آیات والذاریت ذرواً۔ فالحٰملٰتِ وِقراً ۔فالجاریات یسرا۔ فالمقسّمٰتِ امراً۔ میں فرمایاکہ الذاریات سے ہوائیں اور الحاملات سے بادل اور الجاریات سے کشتیاں اور فالمقسّمٰت سے فرشتے مراد ہیں۔اور حضرت علی نے ان آیات کے یہ معانی یا تفسیر جیسا کہ اوپر مذکور ہوا منبر پر کھڑے ہو کر اس دعوے کے بعدبتائی تھی کہ : ’’لایسأ لنی احد عن آیۃ من کتاب اللہ الا اخبر تہ‘‘۔ (کہ جو کوئی بھی مجھ سے قرآن کی کسی آیت کے معنی پوچھے گا میں اس کو بتاسکوں گا)۔جس پر تاریخ میں مشہور ہونے والے ایک شخص عبدالدین الکواء نے ان چاروں آیات کے معانی پوچھے اور آپ نے بتائے، یہ شخص بعد میں خوارج کا ایک رہنما ہوا۔اس سے پہلے انھیں آیات کی تفسیر ایک ایسے ہی اور معترض و عنید شخص صبیغِ ابن عِسْل (ع پر زیر س پر جزم) نے حضرت عمرؓ سے پوچھی تھی،جس پر انھوں نے اس کے کوڑے مارے اور اس کو بصرہ میں جلا وطن کردیا تھا۔
یہ واقعہ قرطبی اور ابن کثیر دونوں میں ہے، حافظ ابن کثیر نے اس کو ایک مشہور قصہ بتاتے ہوئے اس سزا کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس نے حضرت عمرؓ سے یہ سوال اس نے ہٹ دھرمی اور آپ کو زک پہنچانے کے لئے کیا تھا جس میں آیات قرآنی پر اعتراض کی صورت تھی۔حضرت عمرؓ نے بھی اس صبیغ التمیمی کو ان آیات کے وہی معنی بتائے تھے جو بعد میں حضرت علیؓ نے عبداللہ بن الکواء کو بتائے۔ یہی نہیں بلکہ یہ تفسیر مجاہدؒ ، سعید بن جبیرؒ ، الحسن البصریؒ ، قتادہؒ ، السدیؒ وغیرہ کتنے ہی تابعین سے مروی ہے۔
فراہی مکتب فکر عقلیت میں ’’معتزلی‘‘ مفسر ’’زمخشری‘‘ سے بھی آگے
قرطبی اور ابن کثیر سے قبل مشہور عقلیت پسند (معتزلی) مفسر زمخشری نے بھی ان آیات کے وہی معنی بتائے ہیں، جو اوپر منقول ہوئے، اور اس نے بھی بعد میں حضرت علیؓ کی تفسیر کو نقل کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ذاریات، حاملات، جاریات اور مقسّمات سے مختلف ہوائیں بھی مراد ہوسکتی ہیں اور یہی مسلک بعد کے مفسرین کا ہے۔ لیکن دوسری صدی ہجری کے مذکورہ بالا دواہل لغت الفراء اور ابو عبیدۃ نے تو اپنی مذکورہ بالا کتابوں میں ان چاروں آیات کے معنی: ہوائیں، بادل ، کشتیاں اور فرشتے ہی مراد لیے ہیں۔ مولانا فراہی قدیم مفسرین کو تو درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے لیکن یقین ہے کہ وہ ان دونوں ماہرین لغت کے مرتبے سے واقف ہوں گے۔ مرحوم کے زمانے میں ان کی دونوں کتابیں مطبوع نہ تھیں، مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں ان کے سامنے ہوتیں تو شایدوہ اپنی رائے بدل دیتے، لیکن جاوید غامدی صاحب کے زمانے میں تو یہ کتابیں مطبوع ہیں، ان کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ مولانا فراہی کی تفسیر ہی کو صحیح سمجھیں۔ بہر حال مولانا فراہی کی یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں کہ:
’’پس یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ یہ مختلف چیزوں کی صفتیں ہیں، یہ بات نظائر قرآن اور کلام عرب کے خلاف ہے‘‘۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ سید نا عمرؓ اور سید نا علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، اور دسیوں تابعین اور اُن کے فوراً بعد دو قدیم ترین مشہور ماہرین لغت نے ان چار آیات کے معانی چار مختلف چیزیں بتائی ہیں تو ان کی اس رائے کی کوئی وقعت نہیں رہتی کہ یہ بات نظائر قرآن اور کلام عرب کے خلاف ہے‘‘۔ کیا تیرہ سو سال بعد کا ایک عجمی مصنف ان سے زیادہ کلامِ عرب کا راز داں ہوسکتا ہے !! اسی کو میں نے سابق صفحے میں غرورِ علم کہا تھا جو غامدی صاحب کو بھی ورثہ میں ملاہے۔
اوّلیت تفسیر ماثور کو حاصل ہے، عقلیت اور کلام جاہلیت کو نہیں
ایک اہم بات یہ کہ مولانا فراہی نے ’’والذاریات‘‘ کے بعد کی تین آیتوں میں حرف عطف (ف) کے ورود کو اس بات کو دلیل بنایا ہے کہ ’’ان صفات میں ترتیب ہے نیز ان سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب ایک ہی چیز کی صفتیں ہیں‘‘۔ (مجموعہ تفاسیر فراہی ص ۱۴۷) نابغۂ روز گار مفّسر اور ماہر لغت و نحو (مصنف اساس البلاغہ والمفصل فی النحو) زمخشری نے اس موقع پر حرف (ف)پر کلام کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’پہلے معنی (چار مختلف چیزیں) کی صورت میں تو یہ ف ’’تعقیب‘‘ کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کی قسم کھائی، پھر بادلوں کی، پھر کشتیوں کی، پھر فرشتوں کی، جو اللہ کے حکم سے رزق تقسیم کرتے ہیں بارشوں اور سمندری تجارت کے ذریعہ‘‘ ساتھ ہی اس نے دوسرے معنی ترتیب کے بھی لکھ دیے ہیں کہ پہلے ہوائیں چل کر مٹی اڑاتی ہیں، بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔ پھر فضا میں ان بادلوں کو پھیلاتی ہیں، پھر بارش تقسیم کرتی ہیں۔ یہی عملی طریقہ ہے کہ زمخشری نے دونوں نقطۂ ہائے نظر پیش کردیے ہیں اگرچہ اولیت اس کے یہاں تفسیر ماثور (صحابہؓ و تابعینؒ سے منقول) کو ہے۔
زمخشری کے قول سے معلوم ہوا کہ (ف)صرف تعقیب (یعنی بمعنی واو) کے لیے بھی ہوتی ہے اور ترتیب کے لیے بھی۔ اِسی طرح (ثم) بھی حرف عطف ہے اور ترتیب کے لیے ہوتا ہے، لیکن یہی (ثم) قرآن میں متعدد جگہ صرف عطف کے لیے یعنی (واو) کی جگہ استعمال ہواہے۔ اس طرح (ف) کے عطف سے ہمیشہ ایک ہی موصوف مراد نہیں ہوتا۔
قرآن نحوی قواعد کا تابع نہیں قرآن سے قواعد نحو مرتب ہوں گے
قرآن میں سورۃ’’ المرسلات‘‘ کی ابتدائی آیات ہیں: والمرسلٰتِ عُرفا۔ فالعٰصفٰتِ عصفا۔ والناشرات نشرا۔ فالفارقات فرقا۔ فاَلملقیٰت ذکراً۔ یہاں پہلی تین آیات ہواؤں کے لیے ہیں، اور آخری دو آیات بداہۃً فرشتوں کے لیے ہیں۔ کہ حق و باطل کی تمیز ہوائیں نہیں کرتیں اور نہ ذکر، یعنی اللہ کا کلام اور وحی ہوائیں لے کر آتی ہیں بلکہ یہ فرشتے لاتے ہیں۔ اور یہی وہ معنی ہیں جو تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہؓ بن مسعودؓ اور حضرت عبدا للہؓ ابن عباسؓ اور متعدد تابعی مفسرین سے مروی ہیں۔ اور عبداللہ بن مسعودؓ وہ صحابی ہیں جنھوں نے بخاری کی روایت کے مطابق بیان کیا ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں ایک غار میں تھے جہاں سورت کا نزول ہوا۔ اور فالملقیٰت ذکراً۔ کے متعلق تو قرطبی و ابن کثیر دونوں نے یہ کہا ہے کہ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اس سے مراد فرشتے ہیں کوئی شک نہیں کہ نحویوں نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ (ف) ترتیب و تعقیب کے لیے ہوتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر انھوں نے سورۃ الذاریات کی ابتدائی مذکورہ بالا چار آیات کی تفسیر صحابہؓ و تابعینؒ کے بر خلاف مختلف ہواؤں سے کی ہے۔ لیکن اس قاعدہ کا استثناء بھی ہے۔ قرآن نحوی قواعد کا تابع نہیں،بلکہ قرآن ہی سے نحوی قواعد مرتب کیے گئے ہیں۔
مولانا فراہی نے سورۃ الذاریات کی زیر بحث چار آیات کی اپنی من مانی تفسیر کے لیے صرف ایک مثال سورۃ العادیات سے پیش کی ہے، ہم نے اس کے مقابل مثال سورۃ المرسلات سے پیش کردی ہے۔ اور پھر چوتھی آیت فالمقسمٰت امراً کی ان کی تفسیرتو قرآن کی ہم معنی دیگر آیات کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ جو بات سورۃ الصافّات کی تیسری آیت فالتالیات ذکرا اور سورۃ المرسلات کی آیت نمبر ۵ فالملقیت ذکراً میں کہی گئی ہے وہی سورۃ الذاریات کی اس آیت میں کہی گئی ہے کہ : فرشتے اللہ کا ذکر تلاوت کرکے انبیاء کو سناتے ہیں جیسے حضرت جبریل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی وحی لاتے اور تلاوت کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصائح اور احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاتے تھے اس طرف یہ فرشتے مختلف امور پر مامور ہیں۔
فراہی صاحب کا تضاد فکری
یہاں قاری کے لیے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مولانا فراہی ’’والسماء ذات الحبک‘‘ کے ترجمہ میں تضاد کا شکار ہیں، انھوں نے صفحہ ۱۴۳ پر اس آیت کا معنی لکھا ہے: ’’قسم ہے دھاریوں والے بادلوں کی‘‘ اور صفحہ ۱۵۹ پر اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’دھاریوں والے آسمان کی‘‘۔ اب غامدی صاحب ہی اس تضاد کو حل کریں۔
آخر میں عرض ہے کہ ان سب لغوی اور تفسیری بحثوں سے قطع نظر قارئین خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اللہ کے وعدے کی سچائی اور روز قیامت کے اثبات: انّ ما توعدون لصادق ۔ وان الدین لواقع۔ کے لیے یہ بات زیادہ وزنی اور اثر انگیز ہے کہ اللہ تعالیٰ چار چیزوں: ہواؤں، بادلوں، کشتیوں اور فرشتوں کو گواہ بنائے جیسا کہ صحابہؓ اور جمہور مفسرینؒ کی تفسیر ہے، یا صرف ہواؤں کو گواہ بنانا جو مولانا فراہی اور ان کے شاگرد کے شاگرد و معتقد غامدی صاحب کی تفسیر ہے۔ خود رائی اور تعصب سے بری ہر منصف مزاج انسان جمہور کی بات کو صحیح سمجھے گا۔ ارادے کے بغیر مولانا فراہی کی تفسیر پر گفتگو ہوگئی، شاید اس میں کوئی کام کی بات ہو۔