- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
Shabbir Ahmad to Pakistan Tehrik-e-Insaf (Imran Khan)
April 8, 2016 ·
April 8, 2016 ·
( اگر آپ لوگوں میں سے کسی کا جاوید چودھری سے کوئی رابطہ ہے تو میرا یہ خط ان تک پہنچا دیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی ۔۔۔
:)
:) ۔۔۔)
محترم جاوید چودھری صاحب
اسلام علکیم ۔۔۔
امید ہے آپ خیریت سے ہونگے ۔۔
جاوید صاحب میں آپ کو 2006 سے پڑھتا آیا ہوں جب میں 9th کلاس میں تھا ۔۔۔۔اس وقت آپ کا اک کالم میرے ہاتھ لگا تھا جو آپ نے کیپ ٹاون یونیورسٹی کے اک انپڑھ سرجن کے بارے میں لکھا تھا ۔۔اس کے بعد میں آپ کا فین ہوگیا اور 2006 سے 2014 تک شاید ہی کوئی کالم مس ہوا ہو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔
20014 میں آپ نے اپنے اک کالم میں کچھ ایسا لکھا کہ اس کے بعد میں نے سوچا کہ جاوید چودھری صاحب جو بھی ہوں مگر اک باشعور انسان نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔2014 میں آپ نے اپنے اس کالم میں جو لکھا اس کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے میں آپ کو آپ کی کچھ اور باتوں کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔
پہلے تو یہ کہ آپ ضرب مومن اخبار میں یاسر محمد خان کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ایک ہی موضوع پہ ایکسپریس اخبار میں آپ کا نظریہ کچھ اور ہوتا ہے اور ضرب مومن میں کچھ اور ۔۔۔۔۔ضرب مومن اخبار میں آپ افغان طالبان کو شہید لکھتے ہیں جبکہ ایکسپریس میں ہلاک ۔۔۔۔۔ضرب مومن میں افغانستان میں طالبان کے دور حکومت کو افغانستان کا سنہری دور لکھتے ہیں جبکہ ایکسپریس میں انہیں طالبان پے تنقید کرتے ہیں ۔۔۔۔آخر ایک ہی طالبان کے بارے میں آپ کے دو مختلف نظریات کیوں ہیں ۔۔۔؟؟
آپ کو آپ کے اور کالم کا حوالہ دیتا ہوں ۔۔۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب پنجاب میں پرویز الہٰی وزیر اعلی تھے تو اس کے دور کے آخری دنوں میں آپ نے اک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا " کیا عوام پل کھائیں " ۔۔۔۔اس کالم میں آپ نے پرویز الہی پر اسلئے تنقید کی تھی کہ اس نے پنجاب میں فلائی اورز ، انڈر پاسس بنائے تھے اور آپ نے لکھا تھا کہ عوام کی بنیادی ضرورت یہ چیزیں نہیں ہیں ان کو تعلیم ، انصاف ، صحت کی ضرورت ہے اور آپ نے لکھا تھا کہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضرورت نہیں مل رہی تو کیا اب عوام یہ پل کھائیں ۔۔۔۔اور کچھ عرصہ پہلے آپ نے شہباز شریف کی تعریف میں اک کالم لکھا تھا جس میں آپ نے لکھا تھا کہ اگر کسی نے ترقی کرنی ہے تو وہ شہباز شریف کا ماڈل اپنائے ۔۔۔اب بھلا شہباز شریف کا ماڈل بھی تو فلائی اور بنانا ، سڑکیں بنانا وغیرہ ہے اور شہباز شریف بھی تو بنیادی ضروریات کی طرف توجہ نہیں دے رہا ۔۔۔اب ہمیں آپ کی سمجھ نہیں آرہی کہ جب وہی کام پرویز الہی کریں تو اس پے آپ تنقید کرتے ہیں اور جب وہی کام شہباز شریف کریں تو اسے آپ رول ماڈل بنا رہے ہیں ۔۔خیر میں اسے دوغلہ پن نہیں کہ رہا اور اس کو آپ خود ہی اچھا سا نام تجویز کریں کہ اسے اب کیا کہنا چاہئے ۔۔۔
اب آجاتے ہیں 2014 میں لکھے گئے اس کالم کی جانب جس کا شروع میں میں نے زکر کیا ہے ۔۔۔۔جاوید صاحب آپ نے اک کالم لکھا تھا جس میں آپ نے شکوہ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن آپ کو گالیاں دیتے ہیں ۔۔۔۔اور اس کالم کے آخر میں آپ نے عمران خان کے موبائل نمبر لکھ دئے اور کہا کہ یہ میرے نمبر ہیں اور مجھے اس نمبر پے اب گالیاں دو ۔۔۔۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عمران خان نے کب کسی کو کہا ہے کہ جاوید چودھری یا کسی اور صحافی کو گالیاں دو ۔۔۔۔ ؟؟؟
اگر عمران خان نے کسی کو نہیں کہا اور اور اس نے نہ خود آپ کو گالی دی ہے تو آپ نے اس پے الزام لگا کہ اس کے نمبر کیوں دئے ۔۔ ؟؟؟
آپ اپنے پروگرامز اور کالموں میں ہمیں اخلاق کا درس دیتے ہو اور خود جھوٹ بولا کہ یہ نمبر میرے ہیں اور اس پے گالیاں دو ۔۔۔۔۔
کیا اک باشعور انسان کبھی ایسی حرکت کر سکتا ہے جو آپ نے کی ۔۔۔ ؟؟؟
اب میں اپنے آپ کو تحریف انصاف کا کہ کر آپ کو گالیاں دوں اور آپ اس کا الزام عمران خان پہ لگا دیں حالانکہ عمران خان مجھے جانتا تک نہیں تو کیا یہ انصاف ہے ۔۔۔۔کیا یہ ہے آپ کی صحافت ۔۔۔ ؟؟؟
اور رہی بات آپ کے آج بمورخہ 7-4-2016 کے کالم کی تو آپ اپنے آپ کو کریڈت دے رہے ہیں کہ آپ نے حسین نواز سے اعتراف کرا لیا کہ ان کی آفشور کمپنیاں ہیں باہر ۔۔۔۔۔محترم جاوید صاحب آپاور آپ کے محبوب قائد میاں شریفین کب تک عوام کو بیوقف بناو گے ۔۔۔ ؟؟
آپ کو اور شریف فیملی کو پتہ چل گیا تھا کہ کچھ دن بعد پانامہ لیکس نے ہلچل مچانی ہے ۔۔۔۔اور شریف فیملی ہمیشہ سے باہر کاروبار کا انکار چکی ہے ۔۔۔۔۔۔اب ان کو پتہ چل گیا تھا کہ سب کچھ میڈیا پے آنے والا ہے اور ان کا پاجامہ لیک ہونے والا ہے تو آپ نے اک پلینڈ انٹرویو کر لیا کاروبار کے محمد بن قاسم حسین نواز کے ساتھ کہ پانامہ لیکس سے پہلے یہ خود اعتراف کر لیں تاکہ کل شریف فیملی یہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ ہمارا کاروبار ہے باہر ۔۔۔
آپ کے بارے میں آخر میں یہی کہونگا کہ صحافت کے شعبے سے وابستہ کچھ لوگوں کے قلم بھی اب لوگوں کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں ۔۔
آپ کا اک سابقہ قاری
محترم جاوید چودھری صاحب
اسلام علکیم ۔۔۔
امید ہے آپ خیریت سے ہونگے ۔۔
جاوید صاحب میں آپ کو 2006 سے پڑھتا آیا ہوں جب میں 9th کلاس میں تھا ۔۔۔۔اس وقت آپ کا اک کالم میرے ہاتھ لگا تھا جو آپ نے کیپ ٹاون یونیورسٹی کے اک انپڑھ سرجن کے بارے میں لکھا تھا ۔۔اس کے بعد میں آپ کا فین ہوگیا اور 2006 سے 2014 تک شاید ہی کوئی کالم مس ہوا ہو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔
20014 میں آپ نے اپنے اک کالم میں کچھ ایسا لکھا کہ اس کے بعد میں نے سوچا کہ جاوید چودھری صاحب جو بھی ہوں مگر اک باشعور انسان نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔2014 میں آپ نے اپنے اس کالم میں جو لکھا اس کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے میں آپ کو آپ کی کچھ اور باتوں کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔
پہلے تو یہ کہ آپ ضرب مومن اخبار میں یاسر محمد خان کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ایک ہی موضوع پہ ایکسپریس اخبار میں آپ کا نظریہ کچھ اور ہوتا ہے اور ضرب مومن میں کچھ اور ۔۔۔۔۔ضرب مومن اخبار میں آپ افغان طالبان کو شہید لکھتے ہیں جبکہ ایکسپریس میں ہلاک ۔۔۔۔۔ضرب مومن میں افغانستان میں طالبان کے دور حکومت کو افغانستان کا سنہری دور لکھتے ہیں جبکہ ایکسپریس میں انہیں طالبان پے تنقید کرتے ہیں ۔۔۔۔آخر ایک ہی طالبان کے بارے میں آپ کے دو مختلف نظریات کیوں ہیں ۔۔۔؟؟
آپ کو آپ کے اور کالم کا حوالہ دیتا ہوں ۔۔۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب پنجاب میں پرویز الہٰی وزیر اعلی تھے تو اس کے دور کے آخری دنوں میں آپ نے اک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا " کیا عوام پل کھائیں " ۔۔۔۔اس کالم میں آپ نے پرویز الہی پر اسلئے تنقید کی تھی کہ اس نے پنجاب میں فلائی اورز ، انڈر پاسس بنائے تھے اور آپ نے لکھا تھا کہ عوام کی بنیادی ضرورت یہ چیزیں نہیں ہیں ان کو تعلیم ، انصاف ، صحت کی ضرورت ہے اور آپ نے لکھا تھا کہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضرورت نہیں مل رہی تو کیا اب عوام یہ پل کھائیں ۔۔۔۔اور کچھ عرصہ پہلے آپ نے شہباز شریف کی تعریف میں اک کالم لکھا تھا جس میں آپ نے لکھا تھا کہ اگر کسی نے ترقی کرنی ہے تو وہ شہباز شریف کا ماڈل اپنائے ۔۔۔اب بھلا شہباز شریف کا ماڈل بھی تو فلائی اور بنانا ، سڑکیں بنانا وغیرہ ہے اور شہباز شریف بھی تو بنیادی ضروریات کی طرف توجہ نہیں دے رہا ۔۔۔اب ہمیں آپ کی سمجھ نہیں آرہی کہ جب وہی کام پرویز الہی کریں تو اس پے آپ تنقید کرتے ہیں اور جب وہی کام شہباز شریف کریں تو اسے آپ رول ماڈل بنا رہے ہیں ۔۔خیر میں اسے دوغلہ پن نہیں کہ رہا اور اس کو آپ خود ہی اچھا سا نام تجویز کریں کہ اسے اب کیا کہنا چاہئے ۔۔۔
اب آجاتے ہیں 2014 میں لکھے گئے اس کالم کی جانب جس کا شروع میں میں نے زکر کیا ہے ۔۔۔۔جاوید صاحب آپ نے اک کالم لکھا تھا جس میں آپ نے شکوہ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن آپ کو گالیاں دیتے ہیں ۔۔۔۔اور اس کالم کے آخر میں آپ نے عمران خان کے موبائل نمبر لکھ دئے اور کہا کہ یہ میرے نمبر ہیں اور مجھے اس نمبر پے اب گالیاں دو ۔۔۔۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عمران خان نے کب کسی کو کہا ہے کہ جاوید چودھری یا کسی اور صحافی کو گالیاں دو ۔۔۔۔ ؟؟؟
اگر عمران خان نے کسی کو نہیں کہا اور اور اس نے نہ خود آپ کو گالی دی ہے تو آپ نے اس پے الزام لگا کہ اس کے نمبر کیوں دئے ۔۔ ؟؟؟
آپ اپنے پروگرامز اور کالموں میں ہمیں اخلاق کا درس دیتے ہو اور خود جھوٹ بولا کہ یہ نمبر میرے ہیں اور اس پے گالیاں دو ۔۔۔۔۔
کیا اک باشعور انسان کبھی ایسی حرکت کر سکتا ہے جو آپ نے کی ۔۔۔ ؟؟؟
اب میں اپنے آپ کو تحریف انصاف کا کہ کر آپ کو گالیاں دوں اور آپ اس کا الزام عمران خان پہ لگا دیں حالانکہ عمران خان مجھے جانتا تک نہیں تو کیا یہ انصاف ہے ۔۔۔۔کیا یہ ہے آپ کی صحافت ۔۔۔ ؟؟؟
اور رہی بات آپ کے آج بمورخہ 7-4-2016 کے کالم کی تو آپ اپنے آپ کو کریڈت دے رہے ہیں کہ آپ نے حسین نواز سے اعتراف کرا لیا کہ ان کی آفشور کمپنیاں ہیں باہر ۔۔۔۔۔محترم جاوید صاحب آپاور آپ کے محبوب قائد میاں شریفین کب تک عوام کو بیوقف بناو گے ۔۔۔ ؟؟
آپ کو اور شریف فیملی کو پتہ چل گیا تھا کہ کچھ دن بعد پانامہ لیکس نے ہلچل مچانی ہے ۔۔۔۔اور شریف فیملی ہمیشہ سے باہر کاروبار کا انکار چکی ہے ۔۔۔۔۔۔اب ان کو پتہ چل گیا تھا کہ سب کچھ میڈیا پے آنے والا ہے اور ان کا پاجامہ لیک ہونے والا ہے تو آپ نے اک پلینڈ انٹرویو کر لیا کاروبار کے محمد بن قاسم حسین نواز کے ساتھ کہ پانامہ لیکس سے پہلے یہ خود اعتراف کر لیں تاکہ کل شریف فیملی یہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ ہمارا کاروبار ہے باہر ۔۔۔
آپ کے بارے میں آخر میں یہی کہونگا کہ صحافت کے شعبے سے وابستہ کچھ لوگوں کے قلم بھی اب لوگوں کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں ۔۔
آپ کا اک سابقہ قاری