• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاہل قوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جاہل قوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر حوریہ ذیشان

چینی صدر کی تقریر سنی؟
چینی زبان میں تھی شاید.؟
لگتا ہے بے چارے کو انگریزی نہیں آتی
کتنے شرم کی بات ہے نا
اتنے بڑے ملک کا صدر اور اتنا جاہل
اور تو اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی زبان بولتے ہوئے احساس کمتری بھی نہ ہوا
لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی
یہ لوگ انگریزی کے بغیر ترقی کس طرح کر رہے ہیں؟
کیونکہ ہم پاکستانیوں کو تو یہی بتایا جاتا ہے کہ انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور جنہیں انگریزی زبان نہیں آتی وہ جاہل ہوتے ہیں

https://www.facebook.com/GEN.kn0w/p...5400740615263/450279701794031/?type=1&theater
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہم لوگ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہو گئے ہیں ہماری انگریزی تو دور کی بات اردو بھی کسی کام کی نہیں ہے عجیب ملغوبہ بنا دیا اپنی زبان کو بیک وقت احساس تفاخر اور احساس کمتری میں ڈوبے لوگ ہیں ہم.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وہ انگریزی کے بغیر ترقی اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ’’ چینی ‘‘ ہیں ، ہم اس لیے نہیں کرسکتے کیونکہ ہم ’’ چینی ‘‘ نہیں ہیں ۔ انگریزی نہیں سیکھیں گے تو کیا ’’ چینی ‘‘ سیکھ کر ترقی کریں ؟
ہاں ’’ اردو ‘‘ میں ترقی کی بات نہ کریں ، کیونکہ اردو جیسی نرم و نازک زبان ، غزل وزل کے ناز نخرے اٹھا لے تو اتنا ہی کافی ہے ۔
ہاں بعض اردو والے نئی نئی انگریزی ایجادات کے نام ’’ اردوانے ‘‘ میں ضرور لگے رہتے ہیں ۔ اللہ ان کی یہ ترقی قبول فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی میں اصل کردار ’’ زبان ‘‘ نہیں بلکہ ’’ اہل زبان ‘‘ کا ہوتا ہے ، ورنہ جس قدر بے ڈھنگ زبان چینیوں کی ہے ، اس حساب سے تو انہیں ترقی کی اعلی منازل کی بجائے تنزلی کی کھائیوں میں ہونا چاہیے تھا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۔۔۔
امریکہ میں ایک موقع پر پر چینی وزیر اعظم کی چینی زبان میں کی گئی تقریر کا حاضرین کے لیے انگلش میں ترجمہ ہورہا تھا ، اسی دوران مترجم نے کہا ، جنابِ صدر کا یہ مطلب ہے ۔۔ چینی وزیر اعظم نے انگریزی میں کہا ، جی نہیں میرا مطلب یہ نہیں ، یہ ہے ۔ امریکی صدر چونک پڑے ۔ کہا جب آپ انگلش بول سکتے ہیں تو پھر براہ راست انگلش میں کیوں تقریر نہیں کرلیتے ۔ جواب بڑا حمیت پرور تھا ۔ کہا ، میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چینیوں کی بھی ایک زبان ہے ۔ افسوس چینی حمیت کے مقابلے میں ہم اتنے کمتر نکلے کہ ہم ترجمہ بھی انگلش میں کرواتے رہے ۔ کس قدر ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اقبال کا حوالہ دے ک رچینی صدر ہماری زبان کی عظمت کا اعتراف کرتے رہے ۔ انھوں نے اپنی زبان میں بات کرکے زندہ قوموں کی حمیت اجاگر کی مگر افسوس ہم نے کچھ نہیں سیکھا ۔ بھلا انگلش ترجمہ کن کو سنانا مقصود تھا ؟ قوم تو رہی ایک طرف ، سارے اراکین پارلیمنٹ بھی انگلش نہیں سمجھ سکتے تھے ۔۔۔ جانے احساس کمتری کی اس اسفلیت سے کب ہماری جان چھوٹے گی ؟ اگر کسی کا باپ غریب ہو تو کیا وہ باپ بدل لے ؟ بھلا ماں بھی کبھی بدلی جاتی ہے ؟ اور ماں بولی اور قومی زبان پر بھی کسی کو شرمندگی ہوتی ہے ؟
۔۔۔ کاش ہم چائنہ سے 46 ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ ایک آدھ چھٹانک غیرت بھی در آمد کر لیتے !
( حافظ یوسف سراج )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کاش ہم چائنہ سے 46 ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ ایک آدھ چھٹانک غیرت بھی در آمد کر لیتے !
دو ، ڈھائی صدیوں کی غلامی نے ہمارا قومی ضمیر اس قدر بدل دیا کہ اپنی ہر چیز ہمیں شرمندہ کرتی ہے ۔زبان، لباس ،اور اپنی تہذیب و تمدن کے تمام رنگ
’‘ دیسی ’‘ کے عنوان سے ہمیں پسماندگی کی علامت لگتے ہیں ؛
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
برٹش ایمپائر کی غلامی سے آزاد ہوئے پون صدی ہونے کو آئی ،
لیکن ہمیں سابقہ آقا جاتے جاتے اتنا ’’ ہپناٹائز ‘‘ کرگیا کہ
ہمیں ابتک یقین نہیں آتا کہ ھم آزاد ہوچکے ۔۔

ہم اب بھی تصور محبوب میں ڈوبے ’’ اسے ‘‘ خوش رکھنے میں میں مگن ہیں ،
ع

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے


 
Last edited:

بیبرس

رکن
شمولیت
جون 24، 2014
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
43
چائنہ کی غیرت تو یقینا چائنہ مال جیسی ہی ناپائیدار نکلےگی۔
جو قوم دنیا کے غیرتمند ترین اسلاف کی روایات کی امین ہو کر بھی اپنے اسلاف سے غیرت نہ سیکھے اس کیلئے چائنہ سے غیرت کی درآمدی بھی عبث ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اسلامی جمہوریہ چین

جاوید چوہدری جمعـء 24 اپريل 2015


آپ کو چین سے ڈیل کرنے کے لیے چینی کریکٹر کو سمجھنا ہو گا، چین کا کریکٹر چار اصولوں پر استوار ہے، برداشت، تسلسل، خود انحصاری اور عاجزی، یہ چاروں خوبیاں چین کے بانی ماؤزے تنگ میں بھی موجود تھیں۔

آپ ماؤزے تنگ کی برداشت ملاحظہ کیجیے،دنیا کا بہادر سے بہادر ترین انسان بھی اکلوتی اولادکی موت پر آنسو، خارش کے وقت ہاتھ اور لطیفے کے وقت قہقہہ کنٹرول نہیں کر سکتالیکن چین کے بانی ماؤزے تنگ کو ان تینوں پر کنٹرول تھا، کوریا کے ساتھ جنگ ہوئی، ماؤ نے اپنا اکلوتا بیٹا جنگ میں بھجوا دیا، بیٹے کی نعش واپس آئی، یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیا ’’میں اس غم میں اکیلا نہیں ہوں، میرے جیسے ہزاروں والدین کے بچے اس جنگ میں مارے گئے ، میں پہلے ان کے آنسو پونچھوں گا‘‘ ماؤ نے اسّی سال کی عمرمیں سردیوں کی یخ رات میں اعلان کر دیا میں دریائے شنگھائی تیر کر عبور کروں گا۔

سارا شہر جنوری کی اس رات دریا کے کنارے اکٹھا ہو گیا، بابا جی پل پر پہنچے، کپڑے اتارے اور منجمد دریا میں چھلانگ لگا دی، تیر کر دوسرے کنارے پہنچے اور وہاں سے تیرتے ہوئے واپس لوٹے۔ لوگ حیران رہ گئے، ماؤ کو انگریزی زبان پر عبور تھا، مغرب میں چھپنے والی ہر اچھی کتاب منگوا کر پڑھتے تھے، رچرڈ نکسن1972ء میں ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو ماؤ نے انھیں ان کی کتابیں دکھائیں، نکسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ ماؤزے تنگ نے نا صرف ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اوراق پر ’’فٹ نوٹس‘‘ بھی تھے اور بعض جگہوں پر سوالیہ نشان بھی لیکن اس تمام تر انگریزی دانی کے باوجود ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے شخص کے سامنے انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔

اس کی وجہ چین اور چینی زبان سے محبت تھی، وہ کہتے تھے’’ میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں ، اس کی ایک زبان ہے اوراگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے، یہ ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہوگی‘‘۔ ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا، انھوں نے کبھی کسی دوسری زمین پر پاؤں نہیں رکھا، وہ کہتے تھے میں چین کا لیڈر ہوں، چین میں رہوں گا چنانچہ ان کی جگہ چو این لائی دوسرے ممالک کے دورے کرتے تھے اور آپ برداشت کی انتہا دیکھئے، وہ انگریزی زبان سمجھتے تھے لیکن جب انھیں انگریزی زبان میں کوئی لطیفہ سنایا جاتا تھا وہ خاموش بیٹھے رہتے تھے۔

قہقہہ تو دور، ان کی آنکھوں کا رنگ تک تبدیل نہیںہوتا تھا لیکن جونہی اس لطیفے کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا ،وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے اور ان کا قہقہہ وہاں موجود تمام لوگوں سے بلند ہوتا تھا ، یہ وہ لیڈر شپ تھی جس نے جنگ، اسلحہ اور فوج کے بغیر چین کو دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور بنا دیا، جس نے اپنے ازلی دشمنوں کو ’’میڈ اِن چائنا‘‘ پر مجبور کر دیا لہٰذا آج امریکا کے قومی دن پربھی آتش بازی کا سامان چین سے منگوایا جاتا ہے اور امریکی جھنڈوں اور امریکی سوینیئرز تک کے نیچے ’’میڈ اِن چائنا‘‘ لکھا ہوتا ہے اور آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں۔

آپ مصنوعات کی کسی دکان میں قدم رکھ کر دیکھیں، آپ ’’میڈ اِن چائنا‘‘ سے نہیں بچ سکیں گے، آپ چین کا کمال دیکھئے، چین کی 70 فیصد آبادی لادین ہے لیکن یہ پوری اسلامی دنیا کو تسبیح اور جائے نماز سپلائی کرتی ہے، چین دنیا میں سب سے زیادہ جائے نماز، تسبیحات اور احرام بناتا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ سب چین کی اس قیادت کا کمال ہے جس کے پاس پوری زندگی تین جوڑے کپڑے، جوتوں کے دو جوڑے اور ایک سائیکل تھی اور جس نے زندگی کی آخری ساعتیں تین مرلے کے گھر میں گزاری تھیں۔

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا، چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا ، پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا، اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا ، پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کیے ۔

ان میں سے ایک جہاز ماؤزے تنگ استعمال کرتے تھے، اس جہاز پر آج بھی ’’کرٹسی بائی پاکستان‘‘ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے، پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی ۔

چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انھیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے، یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں، چین آگے نکل گیا جب کہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے،ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا، ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین چین ہو گیا۔

جن کے باعث چین نے چاند تک ’’میڈ اِن چائنا‘‘ کی مہر پہنچا دی، جن کے ذریعے چین نے نا صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو پورے یورپ میں ایسے 39شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160ایسے نئے شہر آباد کیے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں، آج مرسیڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے ۔

آج یورپ، امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا سٹیکر لگا ہوتا ہے اور آج دنیا کی 36ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کیے، ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔

مخلص لیڈر شپ، ان تھک محنت، اپنی ذات پر انحصار اور خودداری۔ چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ، اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا، یہ لوگ پندرہ، پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن، من اور دھن قوم پر وار دیا ، ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں، ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے، ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔

ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں، ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں چنانچہ ہم آج افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں، ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں ، ہمیں روٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔

کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے عرض کرتے جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں، آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دے دیں، آپ ہمیں مچھلی نہ دیں آپ ہمیں مچھلی پکڑے کا طریقہ سکھا دیں۔ کاش ہم چین کے لیڈر سے پاکستان کو چین بنانے کا گر سیکھ لیتے کیونکہ قوموں کو امداد اور سمجھوتے نہیں چاہیے ہوتے، انھیں عزت اور غیرت کی گھٹی درکار ہوتی ہے اور ہم نے آج تک کسی سے یہ دولت نہیں لی۔

ہم نے آج تک کسی قوم، کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی، آپ یقین کیجیے ہم 68 سال سے مردار خور اور بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں، ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں اور کبھی سعودی عرب یمن جنگ سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بناتے ہیں، دنیا جب ان تمام بحرانوں سے نکل جاتی ہے، یہ اپنے معاملات، اپنے مسائل حل کر لیتی ہے تو ہم کشکول بن کر دوستوں سے دوستی کی خیرات کی اپیل کرنے لگتے ہیں۔

ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی، ہم 18 کروڑ بھکاری ہیں اور ہم ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ بھکاری بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں، کاش ہم آج ہی جاگ جائیں، ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد، آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں، ہم یہ اعلان کر دیں، ہم دنیا کے لیے اگلا چین ثابت ہوں گے، ہم بیس تیس سال بعد وہاں ہوں گے جہاں دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا، کاش ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا لیں، کاش ہم چین بن جائیں، اسلامی جمہوریہ چین۔


http://www.express.pk/story/350313/
 
Top