محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقدیر کے بارے میں دو گروہ گمراہی کا شکا ہوئےجبریہ
جو اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ اپنے ہر عمل پر محض مجبور ہیں،اس میں اس کے اپنے ارادہ اور قدرت کا کوئی دخل نہیں۔
قدریہ
جو اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ اپنے ارادے اور قدرت کے ساتھ عمل کرنے میں خودمختار ہے اور اس کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی اور قدرت بے اثر ہے۔
نظریہ جبریہ،شریعت اور امر واقع دونوں لحاظ سے باطل ہے
اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے ارادے اور مشیت کا اثبات کیا ہے اور عمل کی نسبت بھی اسی کی طرف کی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ
اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ: "تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض آخرت چاہتے ہیں"(سورۃ آل عمران،آیت 152)
وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلظَّٰلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی (سورۃ الکہف،آیت 29)
مَّنْ عَمِلَ صَٰلِحًۭا فَلِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّٰمٍۢ لِّلْعَبِيدِ ﴿46﴾
"جبریہ" کی تردید امر واقع کی روشنی میںترجمہ: جو کوئی نیک کام کرتاہے تو اپنے لیے اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا (سورۃ حم السجدۃ،آیت 46)
ہر انسان اختیاری اور غیر اختیاری اعمال کا فرق جانتا ہے۔اختیاری افعال وہ ہیں ج کو وہ اپنے ارادے سے کرتا ہے،مثلا: کھانا پینا اور خرید و فروخت وغیرہ ،اور غیر اختیاری افعال وہ ہیں جو اس پر بغیر ارادہ لاگو ہو جاتے ہیں،مثلا : بخار کی شت سے بدن کانپنا،اور بلندی سے پستی کی طرف گرنا وغیرہ۔اختیاری اور غیر اختیاری اعمال کے درمیان فرق سے ہر فرد اچھی طرح واقف ہے۔
پہلی قسم،یعنی اختیاری کی بجا آوری میں کام کرنے والا،اپنے ارادے میں خودمختار ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہوتا لیکن دوسری قسم،یعنی غیر اختیاری افعال میں کسی کام کے وقوع پذیر ہوتے وقت انسان مختار نہیں ہوتا اور نہ اس میں اس ارادے کا کوئی دخل ہوتا ہے۔
قدریہ کا نظریہ ،شریعت اور عقل دونوں اعتبار سے مردود ہے
بے شک اللہ تعالیٰ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے ار ہر شے اسی کی مشیت سے وقوع پذیر اور قائم ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ بندوں کے افعال صرف اسی کی مشیت سے صادر ہوتے ہیں،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ وَلَٰكِنِ ٱخْتَلَفُوا۟ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُوا۟ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ﴿253﴾
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: اور اگر الله چاہتا تو وہ لوگ جو ان پیغمبروں کے بعد آئے وہ آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچ چکے تھے لیکن ان میں اختلاف پیدا ہو گیا پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے لیکن الله جو چاہتا ہے کرتا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 253)
وَلَوْ شِئْنَا لَءَاتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَىٰهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿13﴾
بے شک ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ،چونکہ انسان بھی اسی کائنات کا ایک حصہ ہے ،لہذا وہ بھی اللہ تعالیٰ کا غلام اور اُسی کی ملکیت ٹھہرا۔پس اس حقیقت کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ کسی "مملوک" کے لیے مالک کے دائرہ ملکیت میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف نا ممکن ہے۔ترجمہ: اور اگر ہم چاہتے ہیں تو ہر شخص کو ہدایت پر لے آتے لیکن ہماری بات پوری ہو کر رہی کہ ہم جنوں اور آدمیوں سے جہنم بھر کر رہیں گے (سورۃ السجدۃ،آیت 13)
اسلام کے بنیادی عقائد از محمد بن صالح العثیمین