• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب تک ویسا قانون نہیں آتا

ابو عمر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 06، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
101
پوائنٹ
0
جب تک ویسا قانون نہیں آتا
(تحریر:اوریا مقبول جان)
کیا یہ وہی امت ہے جس کا کل اثاثہ سید الانبیاءﷺ سے عشق اور محبت اور کل متاع ان کی حرمت پر کٹ مرنے کی آرزو تھی۔ میرے جیسے دقیانوس اور فرسودہ خیال شخص کے سامنے آج کے روشن خیال دانشور کیسی کیسی دلیلیں لے کر آتے ہیں۔فیس بک یا یوٹیوب بند کر کے دنیا سے کٹ جاؤ گے۔دنیا تم پر ہنسے گی۔پہلے ہی پاکستان کا دنیا بھر میں شمار دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر ہوتا ہے۔تم جیسے لوگ توپتا نہیں کس صدی میں رہتے ہو۔کیا آج کے دور میں کسی کو طاقت کے زور پر کچھ کہنے،کرنے،لکھنے،یا کارٹون بنانے سے روکا جا سکتا ہے؟۔ان سب کا مقابلہ تو عقل سے اور ٹھنڈے دماغ سے کیا جاتا ہے۔لیکن تم جیسے لوگ تو بس لوگوں کو جذبات کی رو میں بہا کر ڈبو دیتے ہو۔
لیکن میں کیا کروں میں جب سید الانبیاء ﷺ کی شان میں گستاخی کے درداور کرب سے گذرتا اور دوسری جانب ان آزادئ اظہار اور ترقی کے دیوانوں کی باتیں سنتا ہوں تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔آزادی اظہار کے نعرے کے دلدادہ ان دانشوروں کو شاید یورپ اور امریکہ کے وہ قوانین نظر نہیں آتے جو ان ملکوں کے آئین اور قانون میں یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کو جرم قرار دیتے ہیں اور گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہزاروں لوگ ان جرائم کی پاداش میں جیل جا چکے ہیں،کئی اخبارات اور رسائل بند ہو چکے ہیں،کتابیں ضبط کی جا چکی ہیں اور ویب سائٹس پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
انسانی آزادی، اظہار رائے اور حرمتِ لفظ وتحریر کے ان پروانوں کو میں صرف اس سال یعنی 2010کے دوران سزا پانے والے اور پابندی لگنے والی ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں کی ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں اور پھر سوال کرونگا کہ کیا یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے جرم کو عقل اور ٹھنڈے مزاج سے نہیں روکا جا سکتا تھا؟۔ان کے خلاف بات کرنے والوں کو سزا کا مستحق کیوں قرار دیا گیا؟۔
کیا یہ وہی امت ہے جس کا کل اثاثہ سید الانبیاءﷺ سے عشق اور محبت اور کل متاع ان کی حرمت پر کٹ مرنے کی آرزو تھی۔ میرے جیسے دقیانوس اور فرسودہ خیال شخص کے سامنے آج کے روشن خیال دانشور کیسی کیسی دلیلیں لے کر آتے ہیں۔فیس بک یا یوٹیوب بند کر کے دنیا سے کٹ جاؤ گے۔دنیا تم پر ہنسے گی۔پہلے ہی پاکستان کا دنیا بھر میں شمار دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر ہوتا ہے۔تم جیسے لوگ توپتا نہیں کس صدی میں رہتے ہو۔کیا آج کے دور میں کسی کو طاقت کے زور پر کچھ کہنے،کرنے،لکھنے،یا کارٹون بنانے سے روکا جا سکتا ہے؟۔ان سب کا مقابلہ تو عقل سے اور ٹھنڈے دماغ سے کیا جاتا ہے۔لیکن تم جیسے لوگ تو بس لوگوں کو جذبات کی رو میں بہا کر ڈبو دیتے ہو۔
لیکن میں کیا کروں میں جب سید الانبیاء ﷺ کی شان میں گستاخی کے درداور کرب سے گذرتا اور دوسری جانب ان آزادئ اظہار اور ترقی کے دیوانوں کی باتیں سنتا ہوں تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔آزادی اظہار کے نعرے کے دلدادہ ان دانشوروں کو شاید یورپ اور امریکہ کے وہ قوانین نظر نہیں آتے جو ان ملکوں کے آئین اور قانون میں یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کو جرم قرار دیتے ہیں اور گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہزاروں لوگ ان جرائم کی پاداش میں جیل جا چکے ہیں،کئی اخبارات اور رسائل بند ہو چکے ہیں،کتابیں ضبط کی جا چکی ہیں اور ویب سائٹس پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
انسانی آزادی، اظہار رائے اور حرمتِ لفظ وتحریر کے ان پروانوں کو میں صرف اس سال یعنی2010کے دوران سزا پانے والے اور پابندی لگنے والی ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں کی ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں اور پھر سوال کرونگا کہ کیا یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے جرم کو عقل اور ٹھنڈے مزاج سے نہیں روکا جا سکتا تھا؟۔ان کے خلاف بات کرنے والوں کو سزا کا مستحق کیوں قرار دیا گیا؟۔
I. 15مئی2010 یونون کے شہر سیلون بکا میں ایک یہودی قبرستان کے باہر یہودیوں کے خلاف نعرے لکھنے پر تین افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک17سالہ بچہ بھی شامل تھا۔
II. اسی دن یعنی15مئی کو پرلینڈ کے جنوب میں ایک فٹ بال سٹیڈیم سے پانچ شائقین کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے یہودیوں کے بارے میں ایک بینر پر ایک بڑا سا کارٹون بنایا تھا جس میں ایک لمبی ناک والا شخص جو یہودیوں کی علامت ہے اس پر موت کی علامت بنائی گئی تھی۔
III. 11مئی2010 کو کینڈا کے ایک83سالہ بوڑھے شخص میکس مہر کو چھ ماہ قید سنائی گئی اور دو سال پروبیشن پر رکھنے کو کہا گیا جس نے دیوار پر یہودیوں کے خلاف نعرے لکھے تھے۔
IV. 6مئی2010 کو امریکہ کے شہر نورفوک کی عدالت نے ایک شخص کرسٹوفر بروکس کو پانچ سال قید کی سزا سنائی جس نے ساٹھ سٹیکروں پر یہودیوں کے خلاف نعرے لکھے اور انہیں گرجے کی دیوار پر لگایا۔
V. 3مئی،2010 کو ناروے کی وزارت ثقافت نے ایک مصری ٹیلی ویژن"الرحمة" کی نشریات پر پابندی لگا دی کیونکہ وہ یہودیوں کے خلاف نفرت اگلتا تھا۔اسی ٹیلی ویژن چینل پر فرانس میں31اکتوبر 2004کو اس وقت پابندی لگائی جب اس نے ایک مصری عالم دین کی یہودیوں کے خلاف تقریر نشر کی۔
VI. 30اکتوبر،2010 کو برطانیہ کی نیو کاسل عدالت نے19سالہ نکی ڈیوسن جو ایک دودھ بیچنے والا نوجوان ہے اس کو اس بات کا مجرم قرار دیا گیا کہ اس نے انٹرنیٹ پر یہودیوں کے خلاف آرین سٹرائک نامی ایک گروپ بنایا تھا۔ا س سارے فیصلہ کی سماعت صرف پچاس منٹ میں مکمل ہو گئی۔
VII. 16اپریل،2010 جرمنی کے شہر ریگن برگ کی ایک عدالت نے ایک عیسائی بِ شپ رچرڈ ولیم سن کو اس بات پر سزا سنائی کہ اس نے سویڈن کے ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ جنگ عظیم دوئم میں یہودیوں کا قتل عام ہو تھا۔
VIII. 14پریل،2010 کو فرانس کی حکومت نے وہاں کی ایک سیٹلائٹ آپریٹر کو حکم دیا کہ وہ ایک مصری چینل کی نشریات مکمل طور پر بند کر دے کیونکہ یہ یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے۔
IX. 12اپریل،2010 کو اٹلی کی ایک عدال نے ایک شخص پاؤ مزی کو اس بات پر مجرم قرار دیا کہ اس نے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ بنایا تھا جس میں162یونیورسٹی پروفیسروں کی لسٹ شائع کی تھی جو متعصب یہودی ہیں۔
X. کینڈا کی یارک یونیورسٹی نے یکم اپریل،2010 کو ایک طالب علم کو یونیورسٹی سے نکال دیا جس نے یہودیوں کے خلاف ایک ویب سائٹ بنائی تھی۔اس وقت وہ شخص انٹیریو پولیس کی تحویل میں ہے۔
جون،2010 کو امریکہ کے شہر یوجین کی پولیس نے ایک شخص مائکل رسٹر کو گرفتار کیا جو بازاروں میں یہودیوں کے خلاف نعرے لگاتا تھا۔
XII. 18مارچ،2010 کو امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی عدالت نے ایک فرم برادر سکاٹ کو ایک لاکھ پندرہ ہزار ڈالر جرمانہ کیا تھا کیونکہ اس کے اعلی افسران اکثر گندے یہودی”Dirty Jew”جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے۔
XIII. 18مارچ،2010 کو کینڈا کے شہر کالگری میں ایک 17سالہ لڑکے کو گرفتار کیا گیا جو دیواروں پر یہودیوں کے خلاف نعرے لکھتا تھا۔
XIV. 9مارچ،2010 کو سپین کے شہر بارسلونا کی عدالت نے ایک شخص پیڈرو ویریلا کو دو سال نو ماہ قید کی سا سنائی۔یہ شخص ایک کتابوں کی دکان یورپا بک سٹور کا مالک تھا اور یہودیوں کے خلاف کتابین بیچتا تھا۔
XV. 20فروری، 2010 کو امریکہ کے شہر بوکارائن کی پولیس نے 15سے16سال کی عمر کے تین لڑکوں کو گرفتار کیا جنہوں نے ایک یہودی عبادت گاہ کی پاس کھڑے ہو کر انہیں برا بھلا کہا تھا۔
XVI. 18فروری،2010 کو چیک ریپبلک کی سپریم کورٹ نے ایک سیاسی پارٹی"ورکرزپارٹی"پر پابندی لگائی کیونکہ وہ یہودیوں کے خلاف نظریات رکھتی تھی۔
XVII. 13فروری،2010 کو برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹ کی رکن اور ترجمان بیرنس جینی نونکے کو پارٹی سے بر طرف کر دیا کیونکہ اس نے صرف یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیلی افواج نے ہیٹی کے زخمیوں کے اعضاء فروخت کر ڈالے تھے۔
XVIII. 11فروری،2010 کو برطانیہ کے کل سیمنگ علاقے کے جج نے 18سالہ جورڈن بوکٹن کو مجرم قرار دیا کیونکہ اس نے ایک نوکری دینے والے ادارے میں یہ نعرہ لگایا تھا"یہودی کے لیے موت" اسے بارہ ماہ کی سزا سنائی گئی۔
XIX. 5جنوری، 2010 کو نیو یارک کے علاقے بروک لین کے ایوللوایو نوکواس جرم پر18سال قید کی سزا سنائی گئی کہ ان سے23جگہوں پو یہودیوں کے خلاف بینر لگائے تھے۔
XX. 5فروری،2010 کو روس کے شہر پیٹرز برگ کے اخبار آرتھوڈوکس رشیا کے چیف ایڈیٹر کان نیٹ ٹن ڈر شبود کو تین سال سزا سنائی کیونکہ اس نے اپنے اخبار میں یہودیوں کے خلاف لکھا تھا۔
یہ صرف گزشتہ تین ماہ کے چند اہم مقدمے ہیں۔ اور میں اس صرف ان لوگوں کے لیے لکھ رہا ہوں جنہیں آزادی اظہار کے جنون میں اندازہ نہیں کہ اس امت کی سند الانبیاء ﷺ کے ساتھ کتنی محبتین وابستہ ہیں۔لیکن میری دکھ گہرا ہے۔ ہم شافع محشر سے شفاعت کے طلب گار ہیں لیکن ہمارے جذبات اور محبت کسی اور سے وابستہ ہے۔ ہم میں سے کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کی شان میں گستاخی کرو اور نتیجہ دیکھ لو۔کیسے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کیا اس کی قبر پر مقدمہ چلاؤ گے ہم دیکھ لیں گے۔
کاش اس اقتدار کے ایوانوں سے لوگ اٹھ کڑے ہوتے اور کہتے ہمیں سید الانبیاء ﷺ اپنے ماں باپ سے، اپنے لیڈر سے زیادہ پیارے ہیں۔ ہم تم سے نفرت کرتے ہیں۔جو دکاندار کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہو کیا اس کی دوکان سے سودا خریدا جا سکتا ہے۔لیکن ہم وہ بے حس ہیں جو انہیں کال مال روز استعمال کرتے ہیں اور انہیں سے تعلق بھی جوڑے ہوئے ہیں۔ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہونا چاہیے کہ جب تک یورپ کے مملک توہین سید النبیاء ﷺ کے بارے میں ویسا ہی قانون نہیں بناتے جیسا انہون نے یہودیوں کے خلاف لکھنے کے بارے میں بنا رکھا ہے تو ہمارا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔ہمارا جینا مرنا الگ ہے۔اگر مسلم امہ نے ایسا کر لیا تو یہ پیسے پر مرنے والے،ملٹی نیشنل کے غلام اس امت سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگیں گے اور اپنے ملکوں میں ویسا قانون بھی لائیں گے۔سید الانبیاء ﷺ سے عشق کا تقاضا یہی ہے جب تک ویسا قانون نہ آئے ہمارا جینا مرنا ان سے الگ ،جدا۔
 
Top