یاسر اسعد
رکن
- شمولیت
- اپریل 24، 2014
- پیغامات
- 158
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 77
جب ہم حرمین کے متولی ہوں گے
(حرمین شریفین اور دیگر مقامات مقدسہ کے تئیں رافضی عقائد)
اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ اس گھر کی زیارت یعنی حج فرض کردیا ہے۔ اسی فریضہ کی ادائیگی کے لیے پوری دنیا کے مسلمان حج کے ایام میں کثیر تعداد میں اس مقدس شہر کارخ کرتے ہیں۔ حج میں خانۂ کعبہ کا طواف، صفا ومروہ نامی پہاڑیوں کی سعی، یعنی ان کے بیچ چلنا اور دوڑنا، حرم سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع منی، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا، جمرات کو کنکری مارنا، قربانی کرنا وغیرہ اعمال شامل ہیں۔ ان تمام اعمال کا وقت بھی متعین ومحدود ہے اور جگہ بھی۔ اس لیے پچیس تیس لاکھ نفوس پر مشتمل بھیڑ کے ان اعمال کو بیک وقت اور بیک مقام ادا کرتے وقت کبھی کبھار چھوٹے بڑے واقعات وحادثات ہوجانا غیر متوقع چیز نہیں ہے۔ الحمد للہ اب مناسک حج کی ادائیگی میں بڑی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ حجاج کرام کی خدمت اور ان کو ہر ممکن سہولت پہنچانے کے لیے حکومت سعودی عرب اربوں کھربوں خرچ کرتی ہے جس کی تفصیل کے لیے دفتر کے دفتر کم پڑجائیں گے۔
اس سال حج کے موقع پر حرم شریف میں آندھی اور بارش کے دوران کرین گرنے اور دسویں ذی الحجہ کو منی میں بھگدڑ کی وجہ سے کئی سو عازمین حج ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوگئے،جس سے ہر مسلمان کا تکلیف میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ لیکن ایران کو ان واقعات کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار ہاتھ لگ گیا جس کو پاکر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور اپنی قدیم عادت اور روایت کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر سعودی حکومت کو بدنام کرنے اور اس کے ہاتھ سے حج کا انتظام سلب کرکے ایک عالمی یا اسلامی کنٹرول میں دینے کا مطالبہ کرنے لگا۔ اس کی عیاری ومکاری اور اس کی خباثت ومنافقت سے ناواقف کچھ نادان لوگ اور ادھر ادھر پھیلے اس کے ایجنٹ اس کا پڑھایا ہوا سبق رٹنے لگے اور مہلوکین اور زخمیوں پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے حج کے انتظامات عالمی کمیٹی کے سپرد کرنے کا راگ الاپنے لگے۔
عالمی کمیٹی یا عالم اسلام کے ہاتھ میں حرمین کا انتظام دینے کی بات تو محض دوسروں کو بیوقوف بنانے کے لیے کہی جارہی ہے۔ ایران کی رافضی حکومت تو صدیوں سے حرمین پر تسلط کا جو خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر دیکھنا چاہتی ہے۔ فرقۂ رافضہ کی کتابوں اور مذہبی پیشواؤں نے حرمین شریفین کی تولیت کا جو سبز باغ اسے دکھا رکھا ہے اور جسے اس کے عقیدہ کا ایک جزو قرار دے رکھا ہے اسی کی تنفیذ وتکمیل کے لیے یہ حضرات وقتاً فوقتاً زور باندھتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ بہت سے نادان مسلمان اور نام نہاد دانش وران ان کے ناپاک عزائم اور خطرناک منصوبوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، صرف جوش وجذبات میں یا سعودی حکومت سے بعض فکری وعقائدی اختلاف کی وجہ سے ان کے ’’انقلاب‘‘ پر ’’زندہ باد‘‘ بول اٹھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اہل اسلام کی خیر خواہی کی۔
حرمین شریفین پر قبضہ کرنا اور وہاں سے دشمنان اسلام (اہل سنت) کا صفایا کرنا ان کے ایمان وعقیدہ کا ایک اہم باب ہے۔ لیکن جب حرمین شریفین ان کی تولیت میں جائیں گے تو بلد امین اور مدینۃ الرسول کا کیا نقشہ ہوگا اور وہاں امن وامان کی کیا صورت حال ہوگی، حجاج کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اور مسجد حرام ومسجد نبوی کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، ان ساری چیزوں کو ان کی مذہبی کتابوں کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔سطور ذیل میں شیعہ فرقہ ہی کی مذہبی کتابوں کے حوالے سے کچھ باتیں ذکر کی جارہی ہیں تاکہ قارئین کو کسی طرح کا شک وشبہہ نہ ہو:
کوفہ وکربلا کی فضیلت خانۂ کعبہ پر:۔
اس تعلق سے سب سے پہلی بات یہ کہ کچھ تاریخی ومذہبی وجوہات کی بنا پر رافضہ حرم مکی کومسلمانوں کے قبلہ ومرکز کی حیثیت سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ بلکہ اس کی جگہ پر ان کا کعبہ وقبلہ کوفہ اور مقام کربلا ہے جہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مقبرہ ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک کوفہ کومکہ مکرمہ پر بدرجہا فضیلت حاصل ہے اور اس کی زیارت کا ثواب بیت اللہ کی زیارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔
شیعہ مذہب کی مشہور کتاب ’’حق الیقین‘‘ مولفہ ملا باقر مجلسی میں ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے مرید مفصل بن عمر کو دینی حقائق ومعارف بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’واقعہ یہ ہے کہ زمین کے مختلف قطعات نے ایک دوسرے پر فخر اور برتری کا دعویٰ کیا تو کعبۂ معظمہ نے کربلائے معلی کے مقابلے میں فخر اور برتری کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو وحی فرمائی کہ خاموش ہوجاؤ اور کربلا کے مقابلہ میں فخر اور برتری کا دعویٰ مت کرو‘‘
آگے روایت میں ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کربلا کی وہ خصوصیات اور فضیلتیں بیان فرمائیں جن کی وجہ سے اس کا مرتبہ کعبہ معظمہ سے برتر اور بالاتر ہے۔ (ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت،از مولانا محمد منظور نعمانی، ص:۲۸۰۔۲۸۱ بحوالہ ’’حق الیقین‘‘ ص:۱۴۵)
شیعی عالم آل کاشف الغطاء کربلا کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’أشرف بقاع الأرض بالضرورۃ‘‘ [ یعنی کربلا بلا شبہہ روئے زمین کا سب سے مقدس حصہ ہے] (من القلب إلی القلب، لعثمان محمد الخمیس، ص:۱۴۵، بحوالہ ’’الأرض والتربۃ الحسینیۃ‘‘ لآل کاشف، ص:۵۵۔۵۶)
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
’’عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں وقوف سے زیادہ افضل اور زیادہ باعث اجر وثواب اس دن کربلا میں قیام کرنا ہے۔‘‘ (ایضا، بحوالہ مصباح الطوسی، ص:۴۹۸)
ان کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو:
’’إن زیارۃ قبر الحسین تعدل عشرین حجۃ، وأفضل من عشرین عمرۃ وحجۃ‘‘
[یعنی قبر حسین کی زیارت کا ثواب بیس حج وعمرہ کے برابر بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ اور دوسری روایتوں میں سو حج وعمرہ سے زیادہ بھی بتلایا گیا ہے۔]
(خطہ الیھود والشیعۃ حول الحرم المکي، مولانا ابو القاسم عبد العظیم، ص:۴۳، بحوالہ: وسائل الشیعۃ للحر العاملي، کامل الزیارات لابن قولویہ، تہذیب الأحکام للطوسي، ثواب الأعمال لابن بابویہ العلقمي، فروع الکافي)
’’الوافي‘‘ للفیض الکاشانی میں کوفہ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’.....ولا تذھب الأیام واللیالي حتی ینصب الحجر الأسود فیہ‘‘ (خطۃ الیھود...، ص:۳۴)
[یعنی ایک وقت ایسا آئے گاکہ وہاں (کوفہ میں) حجر اسود نصب ہوگا۔]
خانہ کعبہ، مسجد حرام اور مسجد نبوی کا انہدام:۔
حرمین شریفین کی تولیت کا خواب دیکھنے والوں کے ناپاک عزائم میں سے یہ بھی ہے کہ خانہ کعبہ اور ان دونوں مسجدوں کو ڈھا دیا جائے گا اس دعوے کے ساتھ کہ انھیں از سر نو اصل بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ عمل اس وقت انجام پائے گا جب ان کے مہدی موعود، امام غائب کا ظہور ہوگا۔
’’الغیبۃ‘‘ للطوسي میں ہے: عن أبی عبد اللہ علیہ السلام قال: ’’القائم یھدم المسجد الحرام حتی یردہ إلی أساسہ..... ویرد البیت إلی موضعہ وأقامہ علی أساسہ‘‘ [قائم (یعنی مہدی مزعوم )مسجد حرام کو ڈھادیں گے تا کہ اس کو اس کی بنیادوں پر دوبارہ بنائیں....اور بیت اللہ کو بھی اس کی جگہ پر واپس لے جائیں گے اور اس کی اصل بنیادوں پر اسے قائم کریں گے]
الإرشاد للمفید میں بھی اس مفہوم کی روایت ہے۔
الإرشاد للمفید میں مقام ابراہیم کو بھی اس کی موجودہ جگہ سے ہٹا کر سابقہ جگہ پر رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔
حرمین شریفین کے انہدام کا حقیقی مقصد
حرمین شریفین کے انہدام کا مقصد واقعی ان کی ازسرنو تعمیر ہوگی یا محض یہ ایک بہانہ ہے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر لوگوں کو رافضی قبلہ ’’کوفہ‘‘ کی طرف موڑنے کا۔ نعمت اللہ الجزائری مؤلف ’’الأنوار النعمانیۃ‘‘ کتمان وتقیہ کا سہارا لیے بغیر پوری صراحت سے اس کو اس طرح بیان کرر ہے ہیں:
’’جب امام غائب کا ظہور ہوگا تو تمام رافضی بڑی صحت مند حالت میں اٹھیں گے ، بڑھاپا ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے گا۔ ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقت کا یہ عالم ہوگا کہ وہ طویل سے طویل مسافت سے امام کے ساتھ رابطہ قائم کر لیں گے، اور تمام رافضی مل کر حرم مکی اور حرم مدنی کو منہدم کرکے کوفے میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کریں گے ........۔‘‘ (حقیقت رافضیت، ص:۱۷۷)
فیض کاشانی کی ’’الوافي‘‘ اور الحر العاملی کی ’’وسائل الشیعۃ ‘‘میں کوفہ کے بارے میں بصراحت مرقوم ہے کہ :
’’.......ولاتذھب الأیام واللیالي حتی ینصب الحجر الأسود فیہ‘‘
ایک وقت آئے گا جب کہ وہاں (کوفہ میں) حجر اسود نصب کیا جائے گا۔ (خطۃ الیھود والشیعۃ...، ص:۳۴)
کلید برداران کعبہ کے ساتھ سلوک:
الإرشاد للمفید اور الغیبۃ للطوسي میں ہے کہ:
’’جب مہدی آئیں گے تو مسجد حرام کو ڈھادیں گے....... اور بنی شیبہ کے ہاتھوں کو کاٹ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیں گے اور اس پر لکھ دیں گے کہ ’’یہی لوگ خانہ کعبہ کے رہزن ہیں‘‘ (ایضا ، ص:۴۴)
الغیبۃ للنعمانی میں ہے کہ:
’’اے بنی شیبہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیے جائیں گے، پھر تم سے کہا جائے گا کہ اعلان کرو کہ ہم ہی سارقین کعبہ ہیں‘‘ (ایضا)
واضح رہے بنی شیبہ ہی وہ قبیلہ ہے جسے فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی سپرد کی تھی کیوں کہ پہلے ہی سے خانہ کعبہ کی تولیت اسی گھرانے میں تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب نے بہت چاہا کہ خانہ کعبہ کی کنجی انہیں مل جائے مگر اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے کنجی لے کر قبیلہ مذکورہ کے فرد کے حوالے کیا اور فرمایا کہ قیامت تک یہ تمہارے پاس رہے گی۔
سنیوں کا قتل عام:۔
علامہ مجلسی کی کتاب ’’حق الیقین‘‘ (فارسی) میں ہے کہ:
’’جس وقت مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے پہلے سنیوں اور خاص کر ان کے علماء سے کارروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کرکے نیست ونابود کردیں گے‘‘ (ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت، ص:۱۸۰)
قریش کا قتل عام:۔
قریش کا قبیلہ جس سے اللہ کے رسول ﷺ کا بھی تعلق تھا ، اس کے افراد کے ساتھ مہدی مزعوم کا حرم پر قبضہ کے بعد کیا سلوک ہوگا، الإرشاد للمفید، بحار الأنوار للمجلسي، الأنوار البھیۃ لعباس العلقمي وغیرہ میں ہے کہ:
’’جب مہدی آئیں گے تو قریش کے پانچ سو لوگوں کو زندہ کریں گے اور ان کی گردنیں اڑائیں گے، پھر پانچ سو کو اٹھائیں گے اور ان کی گردنیں اڑائیں گے، پھر پانچ سو کو، یہاں تک کہ چھ بار ایسا کریں گے۔‘‘
بحار الأنوار للمجلسي اور الغیبۃ للنعمانی میں دیگر عرب کے بارے میں ابو عبد اللہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
’’ہمارے اور عربوں کے درمیان صرف ذبح باقی ہے اور اپنے ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ (من القلب إلی القلب، ص:۷۱۔۷۲)
صحابہ کرام کا قتل عام:۔
صحابہ کرام کے تعلق سے اہل تشیع کا موقف اور عقیدہ بالکل واضح ہے۔ وہ گنتی کے چند صحابہ کو چھوڑ کر تمام کو (نعوذ باللہ) کافر، منافق اور مرتد مانتے ہیں۔ رافضیوں کی مستند کتابوں کے مطابق صحابہ کرام کو دوبارہ زندہ کرکے ان کو پھر اذیت دے کر قتل کرنا امام غائب کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
(حقیقت رافضیت، از ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی، ص:۱۷۵)
شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) کو بار بار پھانسی:۔
الأنوار النعمانیۃ کے مؤلف نعمت اللہ الجزائری لکھتے ہیں:
’’امام غائب ابو بکر وعمر کو زندہ کرکے سزائے موت دیں گے اور وہ متعدد بار ان دونوں کو زندہ کریں گے اور پھانسی دیں گے تاکہ اس طرح اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرسکیں۔‘‘ (حقیقت رافضیت، ص:۱۷۶)
اس اجمال کی تفصیل باقر مجلسی کی کتاب حق الیقین میں کئی صفحات میں مذکور ہے جس کے مطالعہ کے لیے قلب وجگر کو تھامنے کی ضرورت ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے لیے جو عنوان قائم کیا ہے وہ اس طرح ہے:
’’شیخین سے متعلق خون کھولا دینے والی ایک روایت‘‘
’’امام غائب جب ظاہر ہوں گے تو شیخین کو قبروں سے نکال کر ہزار بار سولی پہ چڑھائیں گے۔‘‘ (ایرانی انقلاب ........ص:۲۱۳)
اس کی دل خراش اور خون کھولا دینے والی تفصیل کو نقل کرنے سے ہم قاصر ہیں، قارئین اسے مولانا کی کتاب کے ص: ۲۱۴۔۲۱۹ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے انتقام:
حق الیقین میں علامہ باقر مجلسی نے ابن بابویہ کی علل الشرائع کے حوالے سے امام باقر سے روایت نقل کی ہے کہ:
’’جب ہمارے قائم (یعنی مہدی)ظاہر ہوں گے تو وہ (معاذ اللہ)عائشہ کو زندہ کرکے ان کو سزا دیں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے۔‘‘ (ایرانی انقلاب......ص:۱۷۹۔حقیقت رافضیت، ص:۱۷۵)
حجاج کا قتل عام:
عن سھل بن حوشب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ:
’’وعلامتہ نھب الحج وتکون ملحمۃ بمنی ویکثر فیھا القتل وتسیل فیھا الدماء، حتی تسیل دماؤھم علی الجمرۃ۔‘‘ (منتخب الأثر فی الامام الثانی عشر، ص:۴۵۱، بشارۃ الاسلام،ص: ۳۴، یوم الخلاص، ص:۵۳۲، بیان الائمۃ:۱؍۴۳۳، ۲؍۳۵۵)
یہ من گھڑت روایت اپنے امام غائب اور مہدی منتظر کے تعلق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ان کی علامت یہ ہے کہ حج میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا اور منیٰ میں خوں ریزی ہوگی اور خوب قتل وغارت گری ہوگی، خون بہیں گے، یہاں تک کہ جمرات پر ان(حجاج)کے خون بہتے نظر آئیں گے۔
ایک اور روایت ملاحظہ ہو:
عن عبد اللہ بن بکیر عن ابی عبداللہ (ع)قال:کأنی بحمران بن اعین ومیسر بن عبدالعزیز یخبطان الناس باسیا فھما بین الصفا والمروۃ۔
(مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سلیمان الحلی ، ص:۲۵، بحار الانوار للمجلسی ۵۳؍۴۰ خطۃ الیہود والشیعۃ....ص:۴۳)
ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں : گویا میں حمران بن اعین اور میسر بن عبد العزیز کو دیکھ رہا ہوں جس وقت وہ صفا مروہ کے بیچ اپنی تلواروں سے لوگوں کی گردنیں اڑا رہے ہوں گے۔
صفا مروہ کے بیچ اور اسی طرح جمرات(منی میں کنکری مارنے کی جگہ) پر سوائے حجاج ومعتمرین کے یعنی مسلمان اور اہل توحید کے اور کون لوگ ہوں گے جن کی گردن مارنے کاخواب دیکھا اور دکھایا جارہا ہے۔
حجاج اور معتمرین کی تعداد میں تخفیف:
جب حرم مکی امام غائب کی تولیت میں ہوگاتو ایک کام یہ بھی انجام دیں گے کہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے والوں کی تعداد کم کردیں گے۔ علامہ محمدباقر صدر فرماتے ہیں کہ:
’’مہدی منتظر طواف مستحب پر پابندی لگا دیں گے اور فرض طواف والے کو اولیت دیں گے۔ اس طرح بیت اللہ کا طواف کرنے والوں کی تعداد بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔‘‘ (خطۃ الیھود والشیعۃ....ص:۴۲)
واضح رہے کہ مسجد حرام جس کی توسیع کا سلسلہ ابتدائے اسلام سے آج تک جاری ہے جب ان حضرات کے زیر انتظام آئے گی تو وہ اسے چھوٹا کرکے ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم حصہ پر تعمیر کریں گے، جس کا لازمی نتیجہ وہی ہوگا جس کا اوپر تذکرہ ہوا کہ زائرین حرم طواف سے روک دیے جائیں گے اور بہت محدود تعداد میں ہی لوگ اس شرف سے مشرف ہوں گے ۔ (خطۃ الیہود والشیعۃ....ص:۴۲)
ناپاک عزائم کی تکمیل کی کوششیں :
سطور بالا سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ قوم حرمین شریفین کے تعلق سے کیا عزائم رکھتی ہے اور کیا منصوبے بنا رہی ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں کی روایتوں کے مطابق تو حرمین میں ان کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری ان کے امام غائب کے ظہور سے شروع ہوگی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ قرون فاضلہ کے بعد ہی سے یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور مختلف اوقات میں بلد امین اور حرم وکعبہ کی حرمت کو پامال کرنے کی ناپاک کوششیں کی جاتی رہیں۔ چند مثالیں کتب تاریخ کے حوالے سے ملاحظہ ہوں:
۱۔ قرامطہ جن کا اعتقادی اور عملی رشتہ روافض ہی سے جڑتا ہے انہوں نے بحرین کے قرمطی فرماں روا ابو طاہر جنابی (متوفی ۳۳۹ ھ ) کی قیادت میں ۳۱۷ ھ میں ایام حج میںیوم الترویہ یعنی آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پر زبردست حملہ کیا۔ اس وقت حجاج مکہ مکرمہ میں اور حرم شریف میں بھرے ہوئے تھے اور منی روانگی کی تیاری میں تھے۔ اس کی تفصیل معروف مؤرخ ڈاکٹر احمد امین مصری کی زبانی سنیے :
’’ابوطاہر سلیمان کی قیادت میں قرامطہ نے حرم مکی میں داخل ہوتے ہی قتل وغارت گری شروع کردی اور ان کے پہلے ہی حملہ میں تقریباً تین ہزار حاجی مارے گئے اور ان کی تو کوئی گنتی ہی نہیں جوبھوک وپیاس کی شدت کی وجہ سے دم توڑ گئے ۔ قرامطہ نے جن بزرگان دین کو قیدی بنایا تھا ان میں عربی زبان و ادب کے مشہور عالم الازہری بھی تھے۔ ابو طاہر نے اس حملے میں حاجیوں اور مکے والوں کے لاکھوں دینار لوٹے جس میں اس نے بڑی رقم تو اپنے اما م کے پاس روانہ کردی اور باقی اپنے سپاہیوں میں تقسیم کردی۔ اس جارحیت کے بعد قرامطہ نے ایک بار پھر اسی ابو طاہر ہی کی قیادت میں بیت اللہ پر دوبارہ حملہ کیا اور اس بار تو اس نے ایسی درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا کہ اس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ابو طاہر اور اس کے سپاہ نے مکہ مکرمہ کو مقتل میں تبدیل کردیا۔ اس کے فوجیوں نے ستار کعبہ سے چمٹے ہوئے حجاج کی گردنیں اڑادیں۔ چاہ زمزم کو تباہ و برباد کرکے ’’مسجد الحرام‘‘ کو مردہ گھر میں تبدیل کردیا، ابو طاہر ایک ہفتہ تک حرم میں مکہ والوں اور حجاج کے خون سے ہولی کھیلتا رہا ، وہ اپنے فوجیوں کو پکار پکار کر کہتا تھا کہ کفاروں اور پتھر’’حجر اسود‘‘ کے پجاریوں کو نرغے میں لے کر انہیں صفحہء ہستی سے مٹادو۔‘‘ (ظہر الاسلام:۴؍۱۳۳)
حجاج بیت اللہ کے خلاف رافضیوں کی بربریت پرثابت بن سنان کی یہ تحریر بھی پڑھتے چلیے:
وہ لکھتے ہیں کہ ’’ قرامطہ نے حجاج کی لاشوں سے مکہ مکرمہ کے تمام کنویں پاٹ دیے تھے، بہت سے حجاج جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، انہوں نے پیاس کی شدت سے دم توڑ دیا، قتل عام کے بعد قرامطہ نے اپنی عورتوں کو پانی لے کر لاشوں کے کھیت میں بھیجا تاکہ وہ پانی پلانے کے بہانے ان حجاج کا پتہ چلاسکیں جن کی سانسیں ابھی تک چل رہی تھیں تاکہ انہیں قتل کیا جاسکے ۔ ‘‘
(حقیقت رافضیت، ص: ۲۶۲ ۔۲۶۳ بحوالہ تاریخ اخبار القرامطہ)
حجر اسود کو خانہ کعبہ سے کھود کر کوفہ منتقل کرنے کے شیعی ارادوں کا تذکرہ کیا جاچکا ہے، ان قرامطہ نے اس ناپاک ارادہ کو عملی جامہ بھی پہنایا اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ پہلے بحرین لے گئے پھراسے کوفہ منتقل کیا او ر تقریباً ۲۲؍ سال تک ان کی تحویل میں رہا۔ ۳۳۹ ھ میں جب یہ ملعون ابو طاہرجہنم رسید ہوا تو حجر اسود کو دوبارہ کوفہ سے واپس لاکر خانہ کعبہ میں اس کی جگہ پر نصب کیا گیا۔
اس کے بعد ۴۱۳ ھ ، ۹۹۰ ھ، ۱۰۸۷ ھ، ۱۳۵۱ ھ میں بھی خانہ کعبہ اور حجر اسود کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جاچکی ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: خطۃ الیہود والشیعۃ .....ص: ۳۴۔۴۱.
شیعی کتابوں کے حوالے سے یہ چند باتیں اختصار کے ساتھ درج کی گئی ہیں ،یہ کوئی الزام یا تہمت ہر گزنہیں بلکہ صرف حقائق کو سامنے لاکر رکھ دیا گیا ہے۔اس روشنی میں مسلمانان عالم فیصلہ کریں کہ حرم کی تولیت کا خواب دیکھنے والے ان حضرات کے مطالبات پر ان کا کیا موقف ہونا چاہیے۔
(ابو طارق مدنی) ۲۰؍۱۰؍۲۰۱۵