• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جدید نظام تعلیم، جعلی ڈگریاں اور کارپوریٹ اخلاقیات

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جدید نظام تعلیم، جعلی ڈگریاں اور کارپوریٹ اخلاقیات​
کالم: اوریا مقبول جان
پیر 25 مئی 2015م

دنیا بھر میں رائج جدید نظام تعلیم جسے مغربی تہذیب کی سب سے بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے، اس کا کمال یہ ہے اس نے طالب علم کا رشتہ استاد سے صرف علم کی ترسیل تک محدود کر دیا ہے جب کہ اس ساری تعلیم کا دار و مدار کمرہ امتحان، سوالنامہ، قابلیت اور اہلیت ناپنے کے پیمانے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی ڈگری کو علم کی معراج تصور کیا جاتا ہے۔ اس ڈگری کی قدر و قیمت بھی کسی طالب علم کے علمی مرتبے کی اس وقت تک پہچان نہیں بنتی جب تک اس ڈگری کو مارکیٹ میں سرمائے میں تولا نہ جائے۔ ڈگری کی اہمیت اور قدر و منزلت سرمائے سے منسلک ہے۔ آپ انسانی معاشرت، ادبی تاریخ، مابعد الطبیعاتی فلسفہ جیسے اعلیٰ موضوعات پر بہترین یونیورسٹیوں سے ڈگری لے کر آ جائیں، دنیا بھر میں جوتیاں چٹخاتے پھریں گے، جب کہ اس کے مقابلے میں مارکیٹنگ جیسے سطحی مضمون میں معمولی سا ڈپلومہ بھی آپ کو لکھ پتی بنا سکتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں بیس سے زیادہ تہذیبوں نے اپنے نظام تعلیم بنا کر رائج کیے۔ ان سب میں علم کا مقصد بنیادی طور پر علم کا حصول تھا اور ایک استاد اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں نے اپنے اس شاگرد کو مکمل علم سکھا دیا ہے اور اب یہ اس سے انسانیت کو فیضیاب کر سکتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی تہذیب کے مدرسوں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کی جنگیں طلبا کے اعصاب پر سوار نہیں کی جاتی تھیں۔ استاد، شاگرد اور تعلیمی ادارے کا تعلق آخری عمر تک قائم رہتا۔ جدید مغربی نظام تعلیم سے قبل دنیا کی تمام بڑی بڑی ایجادات، تصنیفات اور علمی موضوعات پر کام تعلیمی اداروں میں ہوا۔ لیکن جدید مغربی نظام تعلیم نے کاغذ کے اس ٹکڑے جسے ڈگری، ڈپلوما یا سرٹیفکیٹ کہتے ہیں، اس کے حصول کے بعد طالب علم کو مارکیٹ کے کھلے سمندر میں پھینک دیا گیا جہاں وہ اپنے حاصل کیے گئے علم کو مارکیٹ کی اخلاقیات کے تابع کر کے استعمال کرتا ہے۔

مارکیٹ کا تعلق بھی کسی تعلیمی ادارے سے نہیں بلکہ ڈگری، ڈپلوما اور سرٹیفکیٹ تک محدود ہے اور ان ڈگریوں کی اصل کو جانچنے کے لیے بھی ایک ادارہ یا کئی ادارے موجود ہیں جو کسی استاد سے یہ سوال نہیں کرتے کہ تمہارا یہ شاگرد علمی استعداد میں کیسا تھا بلکہ ڈگری پر لگی مہر، دستخط اور ریکارڈ کے درست ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید نظام تعلیم کا شاندار خوبصورت کاغذ جسے ڈگری کہتے ہیں اور ان کے گرد گھومتا ہے جدید تصورِ علم، ڈگریوں کی مارکیٹ میں کھپت اور قیمت اور اس پر مبنی جدید معاشرہ۔

چونکہ پوری دنیا کا کارپوریٹ کلچر اپنی بددیانتی، بے ایمانی، دھوکے اور فراڈ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اس لیے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے تعلیمی نظام میں کام کرنے والے دیانت اور ایمانداری کے پرتو ہوں۔ اسی لیے جہاں دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے جو تعلیم کے بعد ڈگریاں دیتی ہیں وہیں ان سے کہیں زیادہ ایسے ادارے موجود ہیں جو جعلی ڈگریاں بناتے اور بیچتے ہیں۔ امریکا میں انھیں ’’ڈپلوما ملز Diploma Mills‘‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ بددیانت کارپوریٹ معاشرے کو ان جعلی ڈگریوں کی ضرورت ہے، اس لیے امریکا میں ایجوکیشن ایکٹ 1965ء کے تحت اعلیٰ تعلیم کو دیکھنے، جانچ پڑتال کرنے، اداروں کے معیار کو پرکھنے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں جعلی ڈگری بیچنے والی یونیورسٹیوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ جنوری 2010ء میں سی این این نے جارج گولن George Gollin کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ یہ شخص امریکا کی ہائر ایجوکیشنل کونسل کا رکن ہے۔

اس نے کہا کہ امریکا میں ہر سال ایک لاکھ جعلی ڈگریاں بیچی جاتی ہیں جن میں سے 35 ہزار کے قریب ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہوتی ہیں۔ جعلی ڈگری بنانا اور بیچنا اسقدر آسان ہے کہ آپ کو صرف ایک ویب سائٹ بنانا ہوتی ہے، جہاں ایسے ڈپلوما اور ڈگریاں بنا کر بیچے جا سکیں، جن پر اصل کا گمان ہو اور ایسی یونیورسٹیاں کاغذی طور پر تخلیق کی جائیں جو اصلی معلوم ہوں۔ ان ڈگریوں کے خریدار ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ نوکری لینے والے، نوکری میں پروموشن لینے والے، دوستوں پر رعب ڈالنے والے، سیاست میں الیکشن لڑنے کے لیے اپنا پروفائل بہتر بنانے والے۔ گولن نے "Saint Rigis" کی مثال دی جس نے نو ہزار چھ سو ڈگریاں بیچ کر سات ملین ڈالر کمائے۔ اس نے مثال دی کہ ایک امریکی نے نیوکلئر انجینئرنگ کی ڈگری ایسے ہی ایک ادارے سے حاصل کی اور وہ اب ایک نیوکلئر پلانٹ کے کنٹرول روم میں کام کر رہا ہے۔

اس وقت امریکا میں چار سو ڈپلوما ملز کام کر رہی ہیں اور تین سو جعلی ڈگری بنانے والی ویب سائٹس آزادانہ اپنا کاروبار کر رہی ہیں۔ یہ کاروبار پانچ سو ملین ڈالر پر محیط ہے۔ اسی طرح یورپ کے جعلی تعلیمی ادارے اور ویب سائٹس 50 ملین ڈالر لے کر ہر سال 15 ہزار افراد کو تعلیمی اسناد دیتی ہیں۔ دنیا کے ہر شعبہ میں اور ہر بڑے ملک میں یہ جعلی ڈگری کے حامل کام کر رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر بھی ہیں اور انجینئر بھی، نفسیات دان بھی اور سائنس دان بھی۔ ایسے ڈپلوما اور ڈگری بیچنے والوں پر جب مقدمہ چلا تو ان کے دلائل اس پورے موجودہ نظام تعلیم کارپوریٹ معاشرے کی ہنسی اڑا رہے تھے۔ ان کے وکیلوں نے کہا ’’ہم نے کبھی کسی یونیورسٹی ڈگری کی نقل نہیں بنائی یہ الگ بات ہے کہ ہماری ڈگریاں اصل سے ملتی جلتی ہیں، ہم نے کسی کے جعلی دستخط نہیں بنائے، ہمارے اپنے دستخط کرنے والے ہیں۔ ہمارے پاس چار لاکھ ایسے ڈیزائن ہیں جو اصلی ڈگریوں سے بھی زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر ہیں‘‘۔

امریکا کا 1980ء کا “Dipscam” آج بھی جعلی ڈگریوں کا سب سے بڑا سکینڈل تصور کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں امریکا کی ریاست وائمنگ “Wyoming” ان ڈپلوما ملز کی آماجگاہ تھی۔
اسی دور میں ٹیکساس کے ایک سرکاری وکیل نے اپنی بلی کولبی نولن “Colby Nolan” کے لیے ایسی ہی ایک یونیورسٹی ٹرنٹی ساوتھرن یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس بلی نے بی اے کی ڈگری کے لیے درخواست جمع کروائی لیکن یونیورسٹی نے اس کی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر اسے ایم بی اے کی ڈگری دے دی۔
2004ء میں امریکا کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کی رکن لارا کولاہان Laura Collahan سے استعفے لے لیا گیا، کیونکہ اس کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایسی ہی ایک جعلی یونیورسٹی ’’ہملٹن یونیورسٹی،، سے تھی جب کہ اصل یونیورسٹی کا نام اس سے ملتا جلتا ’’ہملٹن کالج،، تھا۔
1980ء سے لے کر آج تک ان ڈپلوما ملز کا دھندا پورے یورپ اور امریکا میں چل رہا ہے۔

وہ امریکا اور یورپ جو شک کی بنیاد پر لوگوں کو سالوں قید میں ڈال دیتا ہے۔ جعلی کرنسی، جعلی ویزوں اور جعلی پاسپورٹ پر بدترین سزائیں دیتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایسے قانون بناتا ہے کہ عام آدمی کا بھی جینا مشکل ہو جائے وہاں ایسی ویب سائٹس اور ایسی یونیورسٹیوں کو کیوں چلنے دیا جاتا ہے، ان کے لیے سخت قانون کیوں نہیں بنائے جاتے۔ اس لیے کہ یہ جعلی ڈگریاں اور ڈپلومے نوے فیصد سے زیادہ امریکی اور یورپی حاصل کرتے ہیں اور پھر جب امریکی اور یورپی کمپنیاں افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں کام کرنے آتی ہیں تو اپنے ساتھ ایسے ہی جعلی ڈگری اور ڈپلوما والے افراد کو لے کر آتی ہیں۔ اصل ڈگری والے امریکا اور یورپ میں کام کریں گے اور جعلی ڈگری والے ایشیا اور افریقہ میں۔ یہ ہے معیار۔

جنوری 1997ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک ہیڈ کوارٹر منیلا میں مجھے بحیثیت ایم ڈی واسا بلوچستان کے لیے ایک اعلیٰ سطح کے “Contract Negociation” میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کوئٹہ میں پانی اور سیوریج کے لیے ایک کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے لیے میٹنگ تھی۔ یہ میٹنگ سات روز تک چلنا تھی لیکن وہ امریکی فرم جس کے ساتھ معاہدہ ہونا تھا اس کے نمایندے نے دو روز بعد کی ٹکٹ بک کروائی ہوئی تھی۔ میں نے حیران ہو کر بینک کے ڈائریکٹر سے سوال کیا، اس نے ایسا کیوں ہے۔ کہنے لگا آپ آج ہی دستخط کر دو اور باقی چھ دن عیاشی کرو، سب پاکستانی ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں نے انکار کیا اور فرم سے اس کے اسٹاف کے پروفائل مانگ لیے جنہوں نے پاکستان میں کام کرنا تھا۔ تین دن کمپیوٹر پر بیٹھنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ ان میں نوے فیصد اسی طرح کی جعلی ڈگریوں والے ہیں۔ پانچویں روز جب میں نے اس امریکی فرم کے نمایندے کے سامنے یہ سارا کچا چٹھا رکھا تو اس کا فقرہ تھا۔

“It is commercial suicide working with this man”
(اس شخص کے ساتھ کام کرنا تجارتی خود کشی ہے)

اور یہ کہتا ہوا میٹنگ چھوڑ کر چلا گیا۔ میں ناکام واپس آیا، لیکن ایک کامیابی تھی کہ میرا ملک ایک بدترین قرض سے بچ گیا۔ ان جعلی ڈگریوں اور ڈپلوموں کی کھپت ہمارے جیسے ملکوں میں ہے اور اس کو خریدنے والے امریکی اور یورپی شہری ہیں۔ کس قدر بودا اور ناکارہ ہے یہ نظام تعلیم جو علم کو پہلے کاغذ کے خوبصورت ٹکڑے سے ناپتا ہے اور پھر مارکیٹ میں اس کی قیمت کے مطابق اس کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ انسانی تہذیب و تاریخ میں اس سے بدترین نظام تعلیم بھی کبھی رائج رہا ہے؟

ح
 
Last edited by a moderator:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس کالم سے پڑھ کے ایسا لگتا ھے کہ اوریا مقبول کے ایگزیکٹ میں شیئر ہونگے جو ایک غلط کام کا دفاع کر رہا ھے۔

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ایگزیکٹ، بول، ایان علی اور ہم!​

کالم: بشریٰ اعجاز
بدھ 27 مئی 2015م

پتہ نہیں اس ملک کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ جس ملک میں سکینڈل بکتے ہوں، گرما گرم کیکوں کی طرح، اور ماڈل ایان کی اسیری، جادوئی داستانوں کی طرح میڈیا پر پیش کی جاتی ہو اور مذکورہ ماڈل، جسے اس سے قبل صرف ’’شوقین‘‘ جانتے تھے (عوام کی زیادہ اس چہرے سے واقفیت نہ تھی) میڈیا کے اسے چمکدار ریپر میں لپیٹ کر پیش کر دینے کے بعد، وہ راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچا دی گئی ہو اور اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کو لوگ ٹوٹ پڑتے ہوں۔ اس کی خبر کو زیادہ بھاؤ لگتے ہوں تو ایسے میں حقیقی مسائل کی نشاندہی کون کرے؟

ریکوڈک، او بی آئی، مضاربہ سکینڈل، ایفیڈرین وغیرہ سے لے کر ایگزیٹ تک، اب طویل فہرست ہے، ان مالیاتی سکینڈلز کی، جو اپنے اپنے وقت پر ابھرے اور غبار کی طرح وہم ہو گئے۔ وہ تمام افراد، ادارے اور ان میں ملوث خفیہ اور ظاہر کرداروں، میں سے اگر ایک بھی، قانون کی گرفت میں آیا ہو، نیب نے اسے آنکھیں دکھائی ہوں، طرح طرح کے نادر ونایاب بیانات ’’عطا‘‘ کرتے، جج صاحبان کے ماتھے پر انہیں دیکھ کر شکن بھی ابھری ہو تو بتائیں؟ اور تو اور ہم عوام بھی انہیں ایسے بھول گئے، جیسے پرانے گناہوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں، ان سکینڈلز کی وجہ سے وہ کچھ اور مغرور ہو گئے، کچھ اور معزز ہو گئے، کچھ اور ہردلعزیز ہو گئے۔ ان معززین اور مغرورین کی ایک بھیڑ ہے، جو پاکستان کے نقشے پر یوں محیط ہے، جیسے کالے سیاہ بادل، جو نہ دھوپ نکلنے دیتے ہیں نہ سورج کا منہ دیکھنے دیتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ یہ اصل مسائل کی جانب رخ ہی نہیں کرنے دیتے۔ میڈیا اس ضمن میں جب سے آزاد ہوا ہے، ان کی دامے، درمے، سخنے اور قدمے نہ سہی، سخنے ضرور مدد کر رہا ہے، بھرپور مدد کہ اسے بھی لوگوں کا سکون تباہ کرنے والی، تھرتھرل مچانے والی، گھٹیا، بے بنیاد، ہوائی اور خام خبریں چاہیے بیچنے کے لئے۔ مثلاً سکندر جس نے اسلام آباد میں اپنے خاندان کو ہتھیار کے زور پرسارا دن ہراساں کئے رکھا، وہ اس دن کی بڑی خبر بن گیا۔

اسے خبر بننے سے روکنے کے بجائے، پولیس اور اداروں نے درپردہ اسے موقع فراہم کیا کہ وہ دن کی بڑی خبر بن سکے تاکہ ایک دن کے لئے ہی سہی، عوام کی توجہ حقیقی خبروں اور مسائل کی جانب سے ہٹائی جا سکے۔ اسی رویہ نے ایان علی کو شہرت اور گلیمر کی حد پر پہنچا دیا، اس طرح اس کا جرم، اور اس جرم سے بڑا مالیاتی سکینڈل تو رہا ایک طرف، بلکہ دیگر حقیقی مسائل سے بھی لوگوں کی توجہ ہٹ گئی۔

حالانکہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دیہاتوں میں، اور چودہ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شہروں میں شروع ہو چکی ہے، اس ملک کے کارخانے بند ہیں، ملیں بند ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری دیوالیہ ہو رہی ہے۔ کسان پانی کو رو رہا ہے۔ بجلی کی سبسڈی واپس لی جا چکی ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھانے کی سمری جاری ہو گئی۔ ایل این جی کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ اس سال گندم کی فصل نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے۔ بارشوں اور خراب موسمی صورت حال کے باعث، چنانچہ کسان سر پر ہاتھ رکھے رو رہا ہے۔

سندھ میں اول (فریال تالپور) اور زرداری نے وہ حشر مچایا کہ سندھ کے کسانوں نے گنے کی تیار فصلوں کو آگ لگا دی۔ اب وہ سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ اگلی فصل کیسے بیچیں، پنجاب میں یہ حال کہ پالیسی نہ ہونے کے باعث ، کنو کی انڈسری پوری کی پوری بیٹھ گئی، بیوپاری تباہ ہو گئے اور فیکٹری مالکان نے کسانوں سے اونے پونے فصل خرید کر، اپنے بینک بھر لئے۔ پانی کی قلت، مہنگے بیج، کھادوں اور قدرتی آفات کے ہاتھوں مارا جانے والا کسان، اس شعبے کی جانب سے حکومت کی مکمل نظراندازی کے سبب اس وقت ایسی مشکلات کا شکار ہے، جس کا ایان علی اور ایگزیکٹ سکینڈل کی پروموشن پر پورا زور باندھے ہوئے میڈیا اور اسے ہلاشیری دینے والی حکومت اندازہ بھی نہیں کر سکتی۔

میں پچھلے ایک ہفتے سے ایگزیکٹ اور بول کے علاوہ کچھ نہیں پڑھ رہی ۔ کچھ نہیں سن رہی، کچھ نہیں دیکھ رہی۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ میری توجہ کا مرکز یہ سکینڈل ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ نہ کچھ دکھایا جا رہا ہے، نہ کچھ سنایا جا رہا ہے اور نہ کچھ پڑھایا (اخباروں کے ذریعے) جا رہا ہے۔

ایگزیکٹ اور بول سکینڈل کی سنجیدگی سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر کہنا یہ ہے کہ جس گھر میں گھر والے بھوک کے مارے بلبلا رہے ہوں، پیاس نے ان کے ہونٹوں پر پپڑیاں جما رکھی ہوں۔ جہاں انہیں بیماریوں نے گھیر رکھا ہو، اور ان کے پاس علاج کے پیسے نہ ہوں۔ جس گھر کی دیواروں پر دہشت گردی کا قبضہ ہو، جس گھر کے دروازے پر چور ڈاکو پہریدار ہوں، جس گھر میں نہ تیل ہو نہ بتی، اس گھر میں ماڈل ایان کی ادائیں کس بھاؤ بکتی ہیں، یہ جاننے کی کسے فرصت؟

اس گھر میں بول ٹی وی کامران خان کو مرسڈیز گاڑی اور نصف کروڑ پر خرید کر بیٹھا ہو، کسے دلچسپی؟
کہ خبریں تو کامران خان نے، چاہے جیو پر ہوں، چاہے بول پر، انہی ایان علی اور شعیب شیخوں کی ہی پڑھ پڑھ کر ہمیں سنانی ہیں۔
ایگزیکٹ اور بول کے ڈھانچے بنانے ہیں اور پھر توڑ دینے ہیں۔
نئے بول نئے ایگزیکٹ کے لئے، کہ اس وقت یہی کاروبار اس ملک کا اصلی اور حقیقی کاروبار ٹھہر چکا ہے۔
میڈیا پر کتنی خبریں روزانہ آتی ہیں لوڈشیڈنگ کے متعلق؟
کتنی خبریں روزانہ آتی ہیں زراعت کی بدحالی کے متعلق؟
کتنی خبریں روزانہ آتی ہیں، گندے پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متعلق؟
عورتوں پر ظلم، چائلڈ لیبر، تیزاب کے کیس، کون کس سڑک پر بھوک اور فاقے کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ کس بیٹی نے بجلی کا بل بھرنے کے لئے جسم کو بیچ ڈالا؟
کس ماں نے اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لئے گردہ بیچ ڈالا۔
کون ان سرکاری، سول ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا،
کہاں کوئی نشے کی وجہ سے ایڈز کا شکار ہوگیا،
کہاں کسی یتیم اور بیوہ کے گھر پر قبضہ ہوگیا؟

کیا کوئی حصہ ہے روزانہ کی بریکنگ نیوز میں ان چھوٹے اور معمولی مسائل کا؟
کہیں شرمیلافاروقی کہیں مریم نواز، کہیں ریحام خان اور کہیں ایان علی، ہمیں تو خبریں بھی رنگین اور چمکیلی دمکیلی چاہئیں۔
ہمیں تو سنسنی بھرے سکینڈل درکار ہیں روزانہ۔ تاکہ ہم اپنے روزمرہ کے خوفناک مسائل سے توجہ ہٹا سکیں۔ اپنے حقیقی مسائل کو بھول سکیں۔ یہی سائیکی بنا دی گئی ہے ہماری۔ جسے نہایت ہوشیاری اور چالاکی سے، ہم پر حکومت کرنے والے استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں میڈیا ان کی شعوری لاشعوری مدد کر رہا ہے۔

پرانی بات ہے 1857ء میں جب جنگ آزادی شروع ہو چکی اور برٹش ایمپائر کے سپاہی یونین جیک کے سائے میں، دلی پر قبضے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے، تو مغل شہزادے اور فرماں روا، چوسر اور بٹیر بازی فرما رہے تھے۔

شطرنج کھیل رہے تھے اور برٹش ایمپائر انہیں مہروں کی طرح اٹھا کر، ادھر ادھر رکھ رہی تھی۔ افسوس، اس تاریخ کو دہرا رہے ہیں ہم۔ یہی وجہ نہ ہمارے خواب بدلے نہ تقدیر۔ کارپوریٹ میڈیا، اور مغربی آقاؤں نے، جس غلامی کو ہماری روح کا حصہ بنایا تھا، وہی غلامی ہے۔ جس کا طریقہ قدرے مختلف ہے، مگر اجزائے ترکیبی وہی ہیں۔ غلاموں کے ذہنوں سے بھی فراموش کردو کہ وہ غلام ہیں۔ اپنے ملکوں اور معاشروں میں انہیں اجنبی کردو، تاکہ ان کے ضمیروں کو آسانی اور سہولت سے خریدا جا سکے۔ تاکہ وہ اپنے ملک اور معاشروں کو بیچنے میں ہمارے اچھے مددگار ثابت ہو سکیں۔

آخری بات، جن معاشروں اور ملکوں میں سکینڈلز سے بجائے عبرت اور سبق حاصل کرنے، اور ان سکینڈلز کی پیداوار مغرورین اور معززین کے سامنے جھک کر سلام کرنے اور ان سے مرعوب ہونے والے بکثرت پائے جائیں۔ وہاں بول، ایگزیکٹ اور ایان علی کو الزام دینے کے بجائے، ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، کہیں وہاں چور تو نہیں بیٹھا؟؟؟

ح
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے ، لیکن میری نظر میں اوریا مقبول جان کا کالم حالیہ نظام تعلیم اور اسانید سسٹم پر ایک بہترین تجزیہ و تبصرہ ہے ، جبکہ آخری دو سطریں تو کمال کی ہیں :
’’ کس قدر بودا اور ناکارہ ہے یہ نظام تعلیم جو علم کو پہلے کاغذ کے خوبصورت ٹکڑے سے ناپتا ہے اور پھر مارکیٹ میں اس کی قیمت کے مطابق اس کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ انسانی تہذیب و تاریخ میں اس سے بدترین نظام تعلیم بھی کبھی رائج رہا ہے؟ ‘‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اور ’’ ایگزیکٹ سکینڈل ‘‘ کے بارے مجھے ابھی تک یہی خدشہ ہے کہ یہ سب شعیب شیخ کی ہی سازش ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ڈاکٹر عامر لیاقت نے مبینہ طور پر ایف آئی اے کے سامنے ڈگری جعلی ہونے کا اعتراف کر لیا

08 جون 2015

کراچی (ویب ڈیسک) معروف اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت نے مبینہ طور پر ایف آئی اے کو دیے گئے بیان میں اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے ایگزیکٹ سے جعلی ڈگری حاصل کی تھی ۔

نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز نے ایف آئی اے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 1136 ڈالر کے عوض اشہود یونیورسٹی کی ڈگری خریدی تھی اور اس ضمن میں انہوں نے اپنے دوست کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہوئے اپنے موبائل فون کے ذریعے پیسے ادا کیے تھے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت نے اشہود یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ایگزیکٹ کے مین سرور سے برآمد ہونے والے ڈیٹا کے مطابق عامر لیاقت کی جیو کی 2012 کی پروفائل میں بھی یہی ڈگری منسوب کی گئی ہے۔

اے آر وائے کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے ذرائع نے اس بات تصدیق بھی کی ہے کہ جو ڈگری حاصل کی گئی اس سے متعلق ڈیٹا بھی ایگزیکٹ کے سرور سے ملا ہے اور عامر لیاقت کے ای میل ایڈریس بھی ایگزیکٹ کے مین سرور سے برآمد ہو ئے ہیں۔

نجی ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے دستاویزی ثبوت پیش کرنے پر عامر لیاقت نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر شاہد حیات کے سامنے تسلیم کیا کہ ڈگری جعلی ہے۔

ح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جدید تعلیم کیا ہے؟

محمد دین جوہر
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہمارے ہاں ایک عظیم الشان خلط مبحث بن گئی ہے۔ اس خلط مبحث کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی نظام کا معروضی تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جدید ”تعلیمی نظام“ دراصل تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک جدید تعلیم کا تصور ہے، دوسرا اس کا عملی پہلو ہے، تیسرا اس کے مقاصد ہیں۔ جب تک یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ کوئی چیز کیا ہے، اس پر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر یہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ جدید نظام تعلیم کیا چیز ہے تو اس کے بارے میں موقف بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اکثر انفرادی اعمال و واقعات کے بارے میں صحیح غلط کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن نظام اور اجتماعی سطح پر چیزیں آج کل بہت پیچیدہ ہو گئی ہیں، اس لیے ان کے بارے میں عجلت سے فیصلہ کرنا مفید نہیں ہوتا۔
معروضی تجزیے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ پہلے پورے نظام، اس کے تشکیلی اجزا اور اس کے مقاصد کو سمجھ لیا جائے۔ جدید نظام تعلیم بھی اپنا ایک بیان، عمل اور مقصد رکھتا ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ نہیں کہ اس بیان اور اس کے مقاصد کو من و عن قبول کر لیا جائے یا رد کر دیا جائے۔ ہماری گزارش صرف اس قدر ہے کہ اس بیان کو، اس کے تحت واقع ہونے والے عمل کو اور اس عمل سے مطلوب مقاصد کو پہلے دیکھ لیا جائے اور اس کے بعد اس پر فیصلہ دیا جائے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چیزوں کے فکری تجزیے اور تفہیم کا عمل انسانوں میں مشترک ہوتا ہے جبکہ اس پر فیصلہ ہر آدمی اپنے تصور حیات کے مطابق کرتا ہے۔
جدید نظام تعلیم کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اپنی کل حیثیت اور حقیقت میں ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ جدید تعلیم کی ہر بحث بالکل لایعنی ہے اگر اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ہر گفتگو، ہر فیصلہ بے کار ہے اگر اس بات کو سامنے نہ رکھا جائے اور اس کی تفصلات طے نہ کی جائیں۔ ”سیاسی فیصلے“ سے ہماری مراد یہ ہے کہ جدید تعلیم کا پورا بیان، پورا عمل اور مکمل مقاصد جدید ریاست طے کرتی ہے۔ اس کے اہداف ریاست متعین کرتی ہے۔ اس کے اخراجات ریاست کے ذمے ہیں۔ اس پورے نظام میں سے گزر کر تعلیم پانے والے بچے کی آموزش اور ہنر کا استناد ریاست کے پاس ہے۔ وہ آموزش اور ہنر قوم کے پورے معاشی اور سیاسی نظام میں جہاں جہاں درکار ہے اس کا اختیار، انتخاب اور جزا ریاست کے پاس ہے۔ جدید عہد میں ریاست کے اختیار سے باہر تعلیم کے کوئی معنی موجود نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ ہم صرف واقعاتی صورت حال عرض کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔
یہاں ضمناً گزارش ہے کہ تعلیم کا نظام اور علم کا نظام الگ الگ چیزیں ہیں۔ تعلیمی ادارے یعنی مکتب، اسکول وغیرہ تعلیم کا نظام ہیں اور جامعات علم کے نظام کے طور پر قائم ہیں۔ جدید دور میں تعلیم اور علم کی تقریباً کل معنویت ریاست کے اختیارات اور مطالبات سے باہر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ ہی فرض کی گئی ہے۔ بطور مسلمان ہمارے لیے یہ سوال بہت اہم ہے۔
یہ کہ ”جدید نظام تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے“ تعلیم پر ہر گفتگو کی بنیاد ہے۔ ”سیاسی فیصلہ“ ہر معاشرے میں قائم ریاست کا اختیار اور اعزاز ہے۔ سیاسی فیصلے سے مراد ہی یہ ہے کہ اس کے حتمی مقاصد کا تعلق طاقت اور معاش سے ہوتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی مراد ہے کہ مذہبی، اخلاقی اور روحانی مقاصد اس سے ازخود خارج ہو جاتے ہیں۔ اگر ان مقاصد کو ایک جز کے طور پر اس میں شامل کر بھی لیا جائے تو اطلاق کے وقت وہ خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ کسی چیز کو ”سیاسی فیصلہ“ قرار دینا بے معنی ہے اگر اسے مقداری نہ بنایا جا سکے، اس میں میکانکیت داخل نہ ہو اور وہ نفاذ کے عمل سے نہ گزر سکے۔ ان پہلوؤں کی وجہ سے جدید نظام تعلیم میں اخلاقی اور روحانی مقاصد باقی نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ کوئی ”نفاذی“ جہت نہیں رکھتے۔
جدید تعلیم کا نظام جس طریقے سے بنایا گیا ہے اور جو اس کے اہداف مقرر کیے گیے ہیں، وہ تمام تر مقداری ہیں اور نفاذ اور مقاصد میں میکانکی ہیں۔ جدید تعلیم کے میکانکی مقاصد ہیں: ذہن کا میکانکی بن جانا، عمل کا میکانکی ہو جانا اور رویوں کا میکانکی ہو جانا۔ ”ذہن“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ ذہانت اور جذبے کے تعلق کا مکمل خاتمہ، اور انسانی شخصیت کے نفسی اور جذباتی (affective) پہلوؤں کی مکمل تطہیر۔ ذہن کے میکانکی بن جانے سے مادے کے مجرد ”قوانین“ اور کنکریٹ چیزوں سے اس کی نسبتیں مکمل ہو جاتی ہیں۔ ”عمل“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد مشین کی شرائط پر ہنر اور کرافٹ کا حصول ہے۔ ”رویوں“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد ڈسپلن ہے۔ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کے لیے جو فرد درکار ہے اس کے شخصی اجزائے ترکیبی اور بنیادی تعارف یہی ہے۔ یہ فرد فی نفسہٖ مطلوب نہیں ہے، بلکہ خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور نظام کے لیے مطلوب ہے۔ اگر جدید تعلیم یہ مقاصد حاصل کر لے تو اسے منزل مراد مل گئی، ورنہ یہ ناکام ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان مقاصد میں اخلاقی اور روحانی مقاصد کہیں فٹ نہیں ہوتے، اور ایک وقت آتا ہے کہ ان کا ذکر بھی معیوب ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر جدید نظام تعلیم اخلاقی اور روحانی مقاصد کے حصول کو اپنا مقصد بنائے تو یہ اپنے طے کردہ معیارات ہی پر ناکام ہے۔
یہاں ہم چیزوں کے صحیح غلط یا اچھے برے ہونے کی بات ابھی نہیں کر رہے۔ ہم صرف یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم اپنی تشکیل میں کیا ہے؟ اس کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟ یہ اپنے طریقۂ کار میں کیا ہے؟ ہم صرف یہ گزارش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم انسانی ذہن، انسانی ارادے اور انسانی نفس کی مکمل نئی تشکیل کرتا ہے۔ ہمیں فوری طور اس نئی تشکیل کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ تجزیہ اور فہم ہے جو ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے، جو ہمارے تصور حیات کے بنیادی مقاصد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو یا کم از کم ان کے لیے کوئی گنجائش رکھتا ہو۔ آئندہ چند مضامین میں انشاء اللہ جدید نظام تعلیم کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہمارا فوری مقصد صرف تجزیے کی حد تک محدود ہے، اچھے برے یا صحیح غلط کا فیصلہ اس تجزیاتی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جدید تعلیم اور امتحانات

محمد دین جوہر
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جدید تعلیمی عمل کا قیام اور استناد ایک قانونی عمل ہے، اور جدید ریاست کی عملداری میں ہے، اور جسے امتحانات کے نفاذ اور ان کے نتائج سے عملی صورت دی جاتی ہے۔ امتحانی استناد جدید تعلیم کے پورے عمل کا مرکز ہے اور اس کے اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریکیولم، نصاب، تدریس اور آموزش کی سرگرمیاں متعین ہوتی ہیں۔ استنادی امتحانات مکمل طور پر مقداری اور شماریاتی ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے علاوہ یہ کچھ اور ہو نہیں سکتے۔ جدید تعلیمی عمل میں امتحانات اور استناد کی مرکزی حیثیت کی وجہ سے ان پر گفتگو ایک اعادے کے ساتھ ضروری ہے۔ جیسا کہ گزشتہ مضمون میں بھی عرض کیا تھا کہ فی الوقت ہم اچھے برے یا صحیح غلط کی بات نہیں کر رہے۔ ہم چیزیں جیسی ہیں ان کو ویسے ہی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امتحانات دراصل مطالبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مطالبات کیا ہیں؟ ان مطالبات کو کون متعین کرتا ہے؟ ان مطالبات کو متعین کرتے ہوئے کیا ترجیحات پیش نظر ہوتی ہیں؟ اور یہ مطالبات کون سے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں؟ کریکیولم ان مطالبات کا فکری اور عملی بیان ہے جو دنیا میں ہر جگہ ریاست ہی مقرر اور متعین کرتی ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ کریکیولم قانونِ استناد کے فلسفے اور مقاصد کا بیان ہے۔ لیکن نفاذ کے وقت فلسفہ پیچھے رہ جاتا ہے اور کریکیولم استنادی قانون بن کر نافذ ہو جاتا ہے۔ کریکیولم تعلیم کے سفر پر روانہ ہونے والے بچے کے گلے میں بندھا ہوا امام ضامن ہے جو کامیاب تحصیل کے بعد تمغۂ سند بن کر اس کی جیب میں منتقل ہو جاتا ہے، اور دماغ بھی کھوپڑی سے نکل کر سند کے ساتھ اسی جیب میں مستقل رہائش اختیار کر لیتا ہے۔
پھر امتحانات تحدیدات ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحدیدات کیا ہیں؟ ریاست انہیں کیوں اور کیسے قائم کرتی ہے؟ اور انہیں قائم کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ امتحانی اور استنادی عمل میں تحدیدات کا اثر کن چیزوں پر ہوتا ہے؟ بچے کے عقلی، نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا ان تحدیدات سے براہ راست کیا تعلق ہے؟ کیا ان تحدیدات کے ہوتے ہوئے بچے میں کوئی عقلی پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی شعور پیدا کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ گزارش ہے کہ ان سوالات کو جدید تعلیم ہی کے مبحث میں رہتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مطالبات کچھ مطلوب چیزوں کو تعلیم میں شامل رکھنے، انہیں فروغ دینے اور ان میں مہارتیں پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں، اسی طرح تحدیدات نامطلوب چیزوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ تحدیدات بنیادی طور پر انسانی ذہن اور شخصیت کے کچھ عوامل اور کچھ رویوں کو نامطلوب قرار دے کر انہیں پہلے غیر اہم بنانے اور پھر انسانی زندگی سے یکسر خارج کرنے کا تعلیمی عمل ہے۔ ریاست کے تشکیل کردہ تعلیمی نظام کی ساخت ہی میں یہ تحدیدات گندھی ہوئی ہیں، اور لازمی عملی نتائج پیدا کرتی ہیں۔
اپنی حتمی معنویت میں امتحانات استناد کی بنیاد ہیں۔ پورا تعلیمی عمل جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا جاتا ہے، اس کی منزل مراد یہی استناد ہے۔ اس میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ریاست کا تعلیمی استناد مقداری اور شماریاتی پہلوؤں کے علاوہ بھی کوئی معنویت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا عقلی اور فکری پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی پہلو قابل استناد بھی ہیں یا نہیں؟ اگر وہ قابل استناد ہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اور اگر وہ قابل استناد نہیں ہیں تو طویل تعلیمی عمل ان کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ کیا مقداری اور شماریاتی استناد کے ہوتے ہوئے بچے کی شخصیت میں اخلاقی اور روحانی پہلو باقی رکھے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی عمل کو جانے بوجھے بغیر اس پر کچھ اخلاقی فیصلے صادر کرتے ہیں، جو یقیناً بہت اچھے ہیں، لیکن ان کا کسی بھی سطح پر جدید تعلیمی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو بوئے جائیں اور ان پر دم کر کے گندم اگنے کا یقین کر لیا جائے۔
گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل کے مطالبات اور اس کی تحدیدات کریکیولم میں طے کی جاتی ہیں جو پورے فلسفۂ تعلیم اور اس کے مقاصد کا بیان ہوتا ہے۔ استناد، کریکیولم کی عملی شکل ہے، اور امتحانات اس کا نفاذی طریقۂ کار ہے۔ امتحانات، تعلیم کے مطالبات اور تحدیدات کو بچے کے ذہن، رویے اور عمل میں داخل کر کے اسے زندگی بھر کے لیے ”مستند“ کر دیتے ہیں۔
ہم نے گزشتہ دو سو سال میں ”اسلامی تعلیم“ کے ادارے بنانے کی بے شمار کوششیں کی ہیں، اور اس وقت بھی زور شور سے ہو رہی ہیں۔ ان کی حیثیت نقل لگانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اور ان کے نتائج بھی وہی رہے ہیں جو متداول جدید تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید سے جدید تعلیم کی نقل لگانے میں ہم غیرمعمولی ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھنے کا معاملہ ہو تو بگڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں میں اگر کوئی دینی سوچ اور رویے نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ گھر کا ماحول اور مذہبی کلچر کے اثرات ہیں، وہ کسی ادارے کا ”فیض“ نہیں ہیں۔ معاشرتی تبدیلی کے ساتھ یہ چیزیں بھی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے ہاں جب امتحانات کے نظام کو سولو ٹیکسانومی پر منتقل کیا گیا تو ناچیز نے ایک دو بار ”ماہرین تعلیم“ کے سامنے اس کا تجزیہ پیش کرنے اور دینی اقدار سے اس کی منفی نسبتوں کی نشاندہی کرنا چاہی تو جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔ مغرب میں ادارہ سازی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہے، اور ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کا کوئی جدید ادارہ بنا کے اور کچھ اپنی کتابیں لگا کے ہم دینی تعلیم کا احیا کر سکتے ہیں۔
جدید تعلیمی عمل میں امتحانات کے طریقۂ کار کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ تعلیمی نفسیات کا پورا علم امتحانات کو ثمرآور بنانے کے لیے موجود ہے۔ تعلیمی نفسیات کی ”دریافتوں“ نے جدید تعلیمی امتحانات کو بہت زیادہ ٹیکنیکل چیز بنا دیا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ امتحانی نظام بلوم ٹیکسانومی کی بنیاد پر ترتیب دیے جاتے تھے۔ اور گزشتہ پندرہ بیس سال سے یہ نظام سولو ٹیکسانومی پر منتقل ہوا ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ کریکیولم کے ”اعلیٰ اخلاقی مقاصد“ کو ٹیکسانومی میں برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم فی الوقت ٹیکسانومی کی بحث میں نہیں جاتے۔ لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پہلے سے طے شدہ کسی تصورِ انسان کے بغیر کوئی ٹیکسانومی نہیں بنائی جا سکتی۔ تعلیمی عمل میں ”ٹیکسانومی“ دراصل اس انسان کا پہلے سے بنایا ہوا نقشہ ہے جس کا امتحان لیا جانا مقصود ہے۔
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ بطور مسلمان ہمارا کوئی تصور انسان نہیں ہے، اور اگر ہے تو اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، تو اور بات ہے۔ لیکن اگر ہم بھی کوئی تصور انسان رکھتے ہیں تو بلوم ٹیکسانومی اور سولو ٹیکسانومی کو دیکھنا ہماری دینی ضروریات میں سے ہے۔ ان دونوں کے موازنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امتحان کے لیے بلوم ٹیکسانومی جس مخلوق کا نقشہ بناتی تھی اسے تو کھینچ تان کے انسان کہا جا سکتا ہے۔ لیکن سولو ٹیکسانومی امتحان کے لیے جس مخلوق کو فرض کرتی ہے اسے تو انسان کہنا بھی مشکل ہے۔ واضح رہے کہ امتحانات کے لیے جو انسان فرض کیا گیا ہے، وہی اس کے نتیجے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانات سولو ٹیکسانومی کو بنیاد بنا کر لیے جاتے ہیں، اور اس سے کشاں کشاں ہم اسی انسان کو سامنے لا رہے ہیں جو ان امتحانات کا مقصود ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کی پوری گفتگو نصاب سے آگے نہیں جاتی، اور جو جدید تعلیمی نظام کا ایک انتہائی کم اہم حصہ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں تعلیمی نظام تو کبھی نظر نہیں آیا بس یہی بستہ دکھائی دیتا رہتا ہے جس سے ہم نے آس لگائی ہوئی ہے کہ بدلے گا تو دنیا بدل دے گا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ عصری دنیا کے مختلف پہلوؤں کو ”فکری“ طور پر زیربحث لاتے ہوئے ہم انسانی دیانت کی پامالی ایک فریضہ سمجھتے ہیں۔ تائید مزید کے طور پر ہم نے یہ بھی فرض کیا ہوا ہے، اور جو اب ہمارے عقیدے کا جزو بنتا جا رہا ہے، کہ جدید مغرب کی بنائی ہوئی ہر چیز عین اسلام کے مطابق ہے، لہٰذا اسے تنقیدی نظر سے دیکھنا ناشکری اور گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مفروضہ اتنا طاقتور ہے کہ ہماری پوری تہذیب کی بربادی بھی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے، تو اس میں بیچاری تعلیم کی کیا اوقات ہے کہ نظر میں آئے۔ ہمیں تو بس اتنا ہی سجھائی دیتا ہے کہ جدید تعلیمی نظام ایک بستے کا نام ہے، اور اسی پر معتکف رہ کے ہم نے صدیاں گزار دی ہیں، اور اب بھی دھیان وہیں ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ علم کا شجر ثمرآور ہو تو تعلیمی بستے بنا کرتے ہیں، اور بستوں کی کانٹ چھانٹ بھی علم کے شجرِ سایہ دار کے نیچے بیٹھ کر ممکن ہوتی ہے۔ تاریخی اور سماجی صورت حال کا فکری تجزیہ کرنا اور حل کی طرف پیش رفت کرنا ہمارے ہاں اب نہایت مذموم سرگرمی شمار ہوتی ہے۔ ہمارے علوم کی موجودہ صورت حال سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی تاریخی اور سماجی صورت حال کا تجزیہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس حل ہی حل ہیں، اور وہ اب اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کون سا حل کس صورت حال یا مسئلے کا ہے۔ یہی صورت حال جدید تعلیم کی ہے، کہ ہر آدمی کی جیب میں بیسیوں حل ہوتے ہیں، اور ذہن تجزیے سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں چیزوں کو ویسے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے جیسے کہ وہ ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

محمد دین جوہر
جدید تعلیمی عمل تنظیمی ہے جبکہ روایتی تعلیمی عمل اخلاقی تھا۔ ”تنظیم“ (آرگنائزیشن) تو پرانے معاشرے میں بھی موجود تھی، اور نئے معاشرے میں بھی موجود ہے، لیکن ان میں نوعی فرق ہے۔ روایتی معاشرے میں ”تنظیم“ اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور حفظ مراتب کے نظام میں تشکیل پاتی تھی، جبکہ جدید تنظیم کا اصول طاقت اور پیداوار ہے۔ روایتی تنظیم میں شمولیت کا منبع فرد کے داخل میں تھا، جبکہ جدید تنظیم میں یہ فرد کے خارج میں ہے۔ جدید تنظیم کی بنیادی ترین تعریف ہی یہ ہے کہ:
Modern organization is an artificial construct set up by the power of law.
جدید تنطیم اور تنطیمی عمل اپنی پوری وجودیات اور فعلیات میں سیاسی طاقت کے تابع اور اصول پیداوار پر اساس رکھتا ہے۔ جدید تنظیم مکمل طور پر تجریدی، آلاتی اور میکانکی ہے۔ مذہبی معنوں میں ”حضور“ کا تصور انفسی ہے، لیکن ”جدید تنظیم“ سیاسی طاقت کے ”حضور“ کو آفاق میں ممکن بنا دیتی ہے۔ جدید تنظیم قواعد و ضوابط اور اختیار کی جادوئی رسیوں سے بنا ہوا جال ہے جو سانپ تو نہیں بنتیں، غیرمرئی ہو کر سارے کو لپیٹ لیتی ہیں۔ تنظیم میں ملفوف انسان اندر باہر سے بدل جاتا ہے۔ تنظیم کی شرط وجود اور شرط فعلیت چونکہ قانون ہے اس لیے یہ سیاسی فیصلے کا حاصل ہے، اور قانون طاقت کا نفاذ ضمناً ہے اور سیاسی طاقت کی توسیع اصلاً ہے۔ اگر تنظیم کی شرطِ وجود اور شرطِ فعلیت قانون ہو، تو وہ صرف دو کام کر سکتی ہے: ایک پیداوار کو کئی گنا بڑھانے کا کام اور دوسرا اختیار اور طاقت کے ارتکاز کا کام۔
اس ”دراز نفسی“ کی ضرورت صرف یہ عرض کرنے کے لیے پیش آئی کہ تنظیم میں اخلاقیات اور انسانی رشتوں کی چونکہ کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے ان کا خاتمہ بالخیر ازخود ہو جاتا ہے۔ تنظیم میں ”اخلاقی“ کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اخلاقیات کا مطلب ”ڈیوٹی“ اور ڈسپلن ہے جو تنظیم کی نئی اخلاقیات ہے۔ جدید تعلیم از اول تا آخر ایک بہت وسیع اور طویل تنظیمی عمل ہے، اور اس کے نتائج تنظیمی وجودیات کے تابع ہیں، اور اخلاقی معنوں میں ارادی نہیں ہیں، جبری ہیں۔ ہمارا روایتی تصورِ تعلیم از اول تا آخر اخلاقی ہے۔ ہمارا یہی دبدھا ہے، اور یہی اشکال ہے۔ کیا تعلیم کا کوئی بھی دینی تصور ”تنظیمی“ ہیئت میں قابل حصول ہے یا نہیں، یہ ہمارا سوال ہے۔ جدید عہد میں ہر اجتماعی سرگرمی تنظیمی ہے، اور کوئی دوسرا طریقہ دستیاب بھی نہیں۔ تنظیم کی ساری بحث میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تنظیم اب شرائط ہستی میں داخل ہے۔
”تنظیمی ڈھانچہ“ بہت بامعنی ترکیب ہے اور جدید تنطیم کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ اپنا کام میکانکی طریقے سے کرتا ہے اور ساتھ کھڑکھڑاتا بھی رہتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ طاقت اور بالائی اختیار سے حرکت کرتا ہے، یہ موجود ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے، سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں ہڈیاں وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ ہڈی کی طرح پتھرایا ہوا آدمی ہڈیوں کی جگہ نصب ہوتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں انسان دوستی، دلداری، خیرخواہی، اخلاقیات بھی اسی طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جیسے اصلی ڈھانچے میں ہوتی ہے!
سوال یہ ہے کہ تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ گزارش ہے کہ پانی میں ایک بڑے پتھر کو پھینکا جائے تو پانی کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی پتھر گرنے کے بعد پانی اپنی ترتیب بدلے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں مشین کے داخل ہوتے ہی انسانی رشتوں کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی انسانی معاشرے کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ ایسے روایتی رشتوں پر باقی رہ سکے، جن کی اساس اخلاقی ہو۔ انسانوں کے باہمی تعامل میں اخلاقی رویے اور رشتے اہم ہوتے ہیں اور تنظیمی رشتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ مشین سے تعامل تنظیمی رشتوں کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ مشین ایک ایسی ”تنظیم“ ہے جو نظر آتی ہے، اور ”تنظیم“ ایک ایسی مشین ہے جو نظر نہیں آتی۔ تنظیمی رشتے اور مشین لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کے تنظیمی رشتوں کی بنیاد طاقت اور پیداوار کے اصول ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔
اگر ہم تھوڑا سا غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں تعلیم کا پیڑڈائم استاد اور شاگرد کا اخلاقی رشتہ تھا، جو پوری تہذیب کا گہوراہ بھی تھا۔ اس کی کچھ جھلکیاں آج بھی نظر آتی ہیں لیکن نادر کالمعدوم ہیں۔ روایتی معاشرے میں بچوں کی تعلیم معاشی ارتکاز کا طریقۂ کار اور اسناد کا پیداواری عمل نہیں تھا۔ جدید اور روایتی تعلیم کے تناظر میں ہمارے ہاں سب سے عام بحث نصاب کی ہے جو ہماری ساری بد نصیبیوں اور فکری نارسائیوں کا خلاصہ بھی ہے۔ جب تک ہم جدید تعلیم کو اس کے اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم کسی طرح کی تبدیلی لانے کے قابل بھی نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ جدید تعلیمی ادارہ بھی ایک تنظیم ہی ہے جسے اصول پیداوار پر بنایا گیا ہے، اور اس کے تمام اہداف مقداری ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔
یہاں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہم صرف صورت حال کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ وغیرہ نہیں دے رہے۔ اپنی مجموعی صورت حال کے بارے میں ہم عمومی طور پر غیر مطمئن ہیں، اور اس کا تجزیہ کسی اطمینان بخش حل کے لیے ضروری ہے۔
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ایگزیکٹ منی لانڈرنگ کیس کالعدم ، شعیب شیخ بری
روزنامہ پاکستان، 24 اگست 2016
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) شہر قائد کی مقامی عدالت نے ایگزیکٹ منی لانڈرنگ کیس کالعدم قرار دے کر شعیب شیخ کو بری قرار دے دیا ہے۔
نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے مطابق ایگزیکٹ اور بول کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ نے ایگزیکٹ منی لانڈرنگ کیس کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی ۔ بدھ کے روز جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ نے شعیب شیخ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایگزیکٹ منی لانڈرنگ کیس کالعدم قرار دے دیا جبکہ شعیب شیخ کو بھی مقدمے سے بری کر دیا ہے۔​
 
Last edited by a moderator:
Top