- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
جدید تعلیم اور نصاب
محمد دین جوہر
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم پر گفتگو میں یہ پہلو سرے سے موجود نہیں ہے۔ قومی تعلیم پر داد سخن ایک مستقل سرگرمی ہے لیکن عموماً یہ نصاب سے شروع ہوتی ہے اور نصاب پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ہماری قومی بدنصیبی تو ہے ہی، لیکن تعلیم کے لیے بھی کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اس مختل تناظر کی وجہ سے ہماری تعلیم کبھی سیدھی نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ گزارش ہے کہ جس صورت حال کو بہتر کرنا، یا اسے یکسر تبدیل کرنا مطلوب ہو، اس کا درست تجزیہ ہی نئے عمل کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر جدید تعلیم کو نصاب کے مساوی سمجھا جاتا ہے اور اس موقف پر کھڑے ہو کر جدید یا روایتی تعلیم کے بارے میں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس صورت حال کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ایک بڑا سا موٹروے ہے، اس موٹروے پر ایک بس دوڑتی چلی جاتی ہے، اس بس میں بہت سی سیٹیں ہیں، ان سیٹوں پر بچے بیٹھے ہیں، ان بچوں کے پاس بستے ہیں، ہر بستے میں پانچ سات کتابیں ہیں۔ ہمارے اہل نظر کا خیال ہے کہ ہر بستے کی دو تین کتابیں بدل دینے سے یہ سارا نظام بدل جائے گا۔
جدید تعلیمی نصاب چند موضوعات اور مضامین پر متون کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین معاشرے کی عملی اور معاشی زندگی میں اہم خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن جدید عہد میں متن کی بدحالی پر گفتگو کیے بغیر نصاب کا مسئلہ طے نہیں ہو سکتا۔ جدید عہد میں متن واقعے کی پیداوار ہے، یعنی جدید عہد میں متن واقعہ کے تابع ہے۔ یہ ”واقعہ“ فطری، ارضی، سائنسی، نفسی یا ذہنی ہو سکتا ہے۔ اور یہ واقعات بہت ہی تیزی سے بدلتے اور بدلے جاتے ہیں۔ جدید پیداواری وسائل متن کو ان کے تابع اور ہم قدم رکھتے ہیں۔ زمانے کے مطابق، جدید تعلیم میں شامل متون اور نصابات از اول تا آخر، بلا اطلاع مکمل طور پر بدل جاتے ہیں، اور سابقہ متون بیک آن و بیک قلم متروک ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جدید تعلیم کے مجموعی عمل میں متن مقدس ہے نہ مستقل، اور نہ ہی اس کا معنی مقدس اور مستقل ہے۔ جدید تعلیم میں متن اور نصاب کی حیثیت ایک کنویئر بیلٹ (conveyer belt) کی ہے جو نئے معانی کے بسکٹ بچے تک پہنچاتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اس بیلٹ کا ڈیزائین اور رفتار تبدیل ہو جاتی ہے اور بسکٹ بھی نیا آ جاتا ہے۔ جدید تعلیم کا مقصد اور طریقۂ کار یہی ہے۔ جدید تعلیم میں متن و معنی مطلوب و مقصود نہیں ہیں، محض آلاتی ہیں۔ جدید نصابات بچے کے ذہن کی نئی تنظیم کاری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مذہبی متون کے ساتھ یہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟ جدید عہد میں ہمارے ہاں مذہبی متون کا آلاتی استعمال بھی جدید تعلیم کی نحوست کا اثر ہے۔
جدید تعلیم متن اور نصاب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کا مقصد دو چیزوں کو مسلسل مٹاتے چلے جانا ہے۔ خارج میں روایت اور تاریخ، اور داخل میں حافظہ۔ جدید تعلیمی نظام متن اور نصاب کو بہت مہارت سے استعمال کرتا ہے تاکہ بچے کا روایت اور تاریخ سے کوئی تعلق باقی نہ رہے، اور وہ لیبارٹری تک محدود ہو جائے، اور روایت جس چیز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ اس بچے کی رسائی میں نہ رہے۔ دوسری طرف یادداشت اور حافظے کو جدید تعلیم میں کوئی اہمیت دینا ناپسندیدہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ جدید تعلیم میں نصاب یا کسی تدریسی طریقے کا پرانا اور مندرس (out of date) ہونا بہت ہی بڑا عیب ہے۔ جدید تعلیم، نصاب کے ذریعے تاریخ اور روایت کے ذکر ہی کو شرم ناک بنا دیتی ہے، اور حافظے پر انحصار کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ جدید تعلیم کے ذریعے روایت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے اور حافظے کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ذہن میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو فرد مکمل طور پر سیاسی، معاشی اور میڈیائی قوتوں کے جھکڑ میں ریگ رواں بن جاتا ہے۔
جدید تعلیم اور نصاب میں تخلیقی عمل اور رویوں پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ تخلیقی عمل کا مرکز جمالیاتی تجربہ ہے، اور تخلیقی عمل نفس انسانی کی آزادی اور حریت کا اظہار ہے۔ جدید تعلیم جسے تخلیقی عمل قرار دیتی ہے، وہ دراصل ابداع (innovation) ہے، یعنی ایک ہی معلوم چیز کے کئی نمونے اور ڈیزائین بنانا۔ ابداعی عمل دراصل مارکیٹ کی ضرورت کے تابع اور کاروباری نوعیت کی سرگرمی ہے۔ جدید تعلیم میں سکھایا جانے والا تخلیقی یا ابداعی عمل حافظے اور فہم میں بھی ایک جدلیات پیدا کر دیتا ہے۔ اس طریقۂ کار کا مقصد پرانی چیز کی تنقیص کرنا اور نئی چیز کی تعظیم سکھانا ہے۔ اس رویے اور ذہنیت میں ”پرانا ہونا“ ازخود اور بغیر دلیل کے مذموم ہو جاتا ہے۔ آگے چل کر یہی چیز فیشن، نئے ماڈل، اور نئی نئی مصنوعات کو قبولیت دے کر کاروبار میں معاون ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں استعمار کی عطا کردہ جدید تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ”مذہبی حافظہ“ کباڑ خانہ بن گیا، اور جدید ذہن بالکل ہی بنجریلا اور میکانکی ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حافظے اور ذہن میں زندہ نسبتیں تلاش کی جاتیں، کیونکہ اپنی کوئی چیز بنانے میں محنت کرنا پڑتی ہے اور یہ محنت ہم پر بہت گراں گزرتی ہے۔
جدید تعلیم کا تدریجی عمل متن کے ساتھ بچے کے نفسی رویے اور ذہنی تعلق کو تبدیل کر دیتا ہے۔ تعلیم میں جدید نصاب کی حیثیت کو دیکھے بغیر ان کی جگہ یا ان کے ہم پہلو مذہبی متون رکھنے سے ہمارے اعتقادی اور اخلاقی مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ بطور مسلمان ہم جس متن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کسی تاریخی واقعے کا پیدا کردہ نہیں ہے، نہ کسی واقعے کے تابع ہے، نہ انسانی شعور کا پیدا کردہ ہے، نہ انسانی شعور کے تابع ہے، نہ وہ جدید ہے، نہ وہ مندرس ہے۔ وہ حق ہے، حق کا اظہار ہے، اور ہدایت ہے۔ جدید تعلیم کا متن صرف ذہن کے لیے ہے جبکہ مذہبی متن کا مخاطب صرف ذہن نہیں، پورا انسان ہے۔ جدید تعلیم کا نصاب بچے کو زمانے کی ہمقدمی سکھاتا ہے اور بہت جلد یہی زمانہ اس کے ذہن اور عمل کا مقتدا بن جاتا ہے۔ مذہبی متن کو زمانے کی ہمقدمی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ زمانے کی مقتدائیت کو رد کرتا ہے۔ جدید تعلیم انسان کو مرکبِ ایام (زمانے کی سواری) بنا دیتی ہے، جو عبد کے دینی تصور کی ضد ہے۔
لارڈ میکالے نے جب تعلیم کو ریاستی اختیارات کے ذریعے باقاعدہ حیثیت دی، اور اسے ”تعلیمات عامہ“ بنا دیا تو اس میں ایک نہایت بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ ہماری زبانوں کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ کچھ زمانے تک ہمیں اس کا خفیف سا احساس رہا، لیکن بہت جلد ہم خود عین اسی ایجنڈے پر کاربند ہو گئے۔ یعنی جدید تعلیم کے ذریعے اپنی زبانوں کی مکمل تباہی اب ہمارا مقصد بھی ہے۔ آج ہماری زبانوں کی تباہی مکمل ہو گئی ہے اور اس پر فخر ہمارے کلچر کی بڑی روایت بن گئی ہے۔ گولی سے جسم ہلاک ہوتا ہے اور زبان کو متن سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ زبان کی ہلاکت دراصل انسانی شعور کی ہلاکت ہے۔ جدید تعلیم کے طریقۂ کار اور نصابوں سے آج لارڈ میکالے کا منصوبہ پورا ہو گیا ہے اور ہماری زبانیں اور ہمارا شعور ہلاکت میں ہیں۔ ہم اپنی تہذیب اور شعور کے ملبے سے بس ایک بستہ بچا لائے ہیں، اور اسی کی مجاوری پر خوش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ذہنی اور ثقافتی وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیں، جن سے یہ بچا کھچا بستہ ہمارے شعور کی رگِ زندگی اور ہماری تہذیب کی اصلِ حیات بن سکے؟ نصاب کا سوال ضمنی ہے، اور شعور اور تہذیب کی زندگی کا سوال بنیادی ہے۔ نصاب درست ترتیب اور تناظر ہی میں بامعنی ہوتا ہے۔ آج ہماری یہ ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔